*ہے تنگ بہت بندہ مزدور کے حالات*
.. *حافظ عزیز الرحمان*
9370465545
_________________________
اکثر بزرگوں سے سنا ہے کہ اللہ بیماری دے تو پیسہ بھی دے. بظاہر یہ بات سن کر درگزر کردی جاتی ہے لیکن اس کا احساس اس وقت شدید ہوتا ہے جب کسی غریب کو کوئی موذی بیماری آگھیر لے. اگرچہ کہ بیماریاں اللہ کی دین ہیں. وہ جسے چاہے مرض عطا کرے جسے چاہے شفاء دے. امراء اور سرمایہ کاروں کے یہاں کوئی بیمار ہوتا ہے تو وہ بھی پریشان ہوجاتے ہیں. گھر کا سارا شیڈول بگڑ جاتا ہے. لیکن جب کسی غریب کو کوئی موذی بیماری گھیر لے تو اسے بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے. سب سے پہلے تو مہنگے ترین علاج کا خرچ وہ کیسے برداشت کرے. اور اگر گھر کا کمانے والا ہو تو مزید پریشانی یہ کہ ان کی آمدنی بند ہوجاتی ہے. اب گھر کیسے چلے اور علاج کیسے ہو، اس گھٹن میں بیچارہ دو دنوں میں اچھا ہونے والا مریض چار دنوں میں اچھا ہوتا ہے. ساتھ ہی وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے. اکثر و بیشتر ہمارا دواخانوں میں جانا ہوتا رہتا ہے. کبھی خود کے لیے، کبھی کسی اور کے لیے، یہ بات ہم نے نوٹ کی کہ کسی کی بے بسی دیکھنی ہوتو دواخانوں میں چلے جائیے. ایسے ایسے مریض، ایسی ایسی بیماریاں اور ان کی ایسی ایسی مجبوریاں کہ سن کر دل تڑپ اٹھے. بے ساختہ دلوں سے یہی دعا نکلے کہ اے اللہ، بیماریوں سے تمام مومنین و مومنات کی حفاظت فرما اور اگر بیماری دے تو پیسہ بھی دے. اے اللہ بندوں کی محتاجگی سے ہم تمام کی حفاظت فرما. آمین. پھر وہی بات کہ ترس تو ہم انسانوں کو آتا ہے. ڈاکٹر حضرات کہاں کسی پر مروّت کرتے ہیں. کہتے ہیں نا کہ دھندے میں نو کمپرومائز. اب کوئی ہمیں یہ پاٹ نہ پڑھائے کہ سرکار کی اسکیمیں موجود ہیں یا پھر غریب سرکاری دواخانوں کا رخ کیوں نہیں کرتے.
اس ملک میں تفریق ایسی ہے کہ ایک جانب غریب دس، بیس، اور سو، دو سو روپیوں کے لیے دربدر بھٹک رہا ہے تو دوسری جانب سرمایہ کاروں کا حال یہ ہے کہ دن بدن ان کی دولتوں میں کروڑوں اور سیکڑوں کروڑوں کا اضافہ ہورہا ہے. ہمارے معاشرے میں رہنے والے یہ غرباء کون ہیں. یہ ہمارے وہ مزدور ہیں جن کی وجہ سے سماج کا چکّا چلتا ہے. ابھی کل کی بات ہے.
*مدھیہ پردیش کے علاقے مورینا کا واقعہ ہے، ایک 8 سال کا بچہ اپنے معصوم بھائی کی لاش لیے گھنٹوں بیٹھا رہا وہ اسلئے کہ اس کے والد کے پاس پندرہ سو روپے نہیں تھے کہ وہ ایمبولینس کا انتظام کرتے. تصویر دل دہلانے والی ہے لیکن ان لوگوں کے لیے جو درد مند دل رکھتے ہیں. ورنہ معاشرے میں وہ بھی ہیں جو اس لاش پر سیاست کریں گے اور اپنی دکان چمکائیں گے.*
*اور سنئے، اسی مدھیہ پردیش کے علاقے ساگر کا واقعہ ہے، وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان ایک عوامی جلسے سے خطاب کررہے تھے. یا حرفِ عام میں راگ پاٹ دے رہے تھے. وہ ریاست کی صنعت و حرفت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور صحت و میڈیکل سائنس پر بات کررہے تھے. اسی اثنا میں ایک مزدور نے اپنے ایک سالہ بیٹے کو اسٹیج کی طرف پھینک دیا. بھگڈر سی مچ گئی، سب چونک پڑے. سیکورٹی اہلکار فوراً حرکت میں آئے، مزدور کو اپنی گرفت میں لیا. جب پوچھ تاچھ ہوئی تو یہ انکشاف ہوا کہ بچے کے دل میں سوراخ ہے. اور وہ اس کے علاج کے لیے در در کی ٹھوکریںکھا رہا ہے. کہیں سے کوئی مدد نہیں مل رہی. وہ اب تھک چکا ہے. اور اس نے وزیراعلیٰ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لیے یہ حرکت کی ہے. مجھے بتائیے، کیا یہ واقعہ دردناک نہیں ہے، کیا یہ واقعہ معمولی سا ہے؟؟ کیا کوئی باپ اپنے لخت جگر کو اس طرح پھینک سکتا ہے. اس کے اندر آخر یہ تاب کیسے پیدا ہوئی ہوگی.*
*اگست 2016 میں اڑیسہ کے دانا مانجھی کا واقعہ بھی بڑا خبروں میں تھا. جو اپنی بیوی کی لاش کو کاندھے پر رکھ کر دس کلو میٹر کا سفر پیدل طئے کیا. صرف اسلئے کہ اس کے پاس بھی ایمبولینس کے لیے پیسے نہیں تھے.*
ایسے ہزاروں اور ان گنت واقعات ہمارے یہاں روزانہ وقوع پذیر ہوتے ہیں. لیکن ہم بس چند دیر اس پر کفِ افسوس ملتے ہیں پھر اپنے کام سے کام میں لگ جاتے ہیں. اور یہی وجہ ہے ارباب اقتدار کوئی نوٹس نہیں لیتے. کوئی واقعہ ہوا، متاثر کے گھر پہنچ کر تسلی دے دی گئی اور یہ سمجھ لیا گیا کہ فرض ادا ہوگیا. آخر مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی کہ جو ہوا، آخر کیوں ہوا، ہر آئے دن ایسا کیوں کر ہوتا ہے. آئندہ ایسا نا ہو اس کے لیے کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں.
*ایسے ہزاروں مزدور ہیں جو زمانے کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں. جن کا درد سمجھنے والا کوئی نہیں. انھیں سرکاری اسپتالوں یا اداروں میں وہ توجہ کیوں نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں. مزدور کل بھی پس رہا تھا اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پس رہا ہے. دنیا بدل گئی، حالات بدل گئے، سوچیں تبدیل ہوگئیں، لیکن مزدور کے حالات میں کوئی فرق نہیں آیا. اسے صحیح ڈھنگ سے کام نہیں ملتا اور کام ملتا ہے تو صحیح محنتانہ نہیں ملتا. مزدور تو آج بھی بنیادی سہولیات کے لیے پریشان ہے. ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کا سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ہے. بس اتنا جانتے ہیں کہ مروّتیں دم توڑ رہی ہیں. اور اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے تو پھر یہ واقعات بار بار کیوں پیش آرہے ہیں.*
شکریہ خدا حافظ
___________
عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ 148
"درندہ"
افسانہ نگار۔۔ عبدالرحمن اختر
مالیگاؤں مہاراشٹر انڈیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سورج اپنی دن بھر کی تھکی ماندی کرنوں کو سمیٹ کر غروب ہو رہا تھا.پرندے اپنے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے. نیلے آسمان پر شام کا سرمئی رنگ پھیلتا جا رہا تھا.گھروں میں موجود برقی قمقمے روشن ہونے لگے تھے. مگر رام داس کا مکان ویران پڑا تھا.
رام داس... عجیب آدمی تھا، سماج کا ستایا ہوا آدمی، اس کے چڑچڑے پن کی وجہ سے اس کے پڑوسی اس سے کٹے کٹے سے رہتے تھے اور اس کی کند ذہنی نے تو اسے کہیں کا نہ رکھا تھا.اسے کوئی اپنے یہاں کام پر نہیں رکھتا تھا اور یہی اسباب تھے کہ اس کی بیوی اکثر اس سے لڑا کرتی تھی، اسی حجت بک بک سے زندگی کی گاڑی چلتی رہی. جوں توں کچھ سال گزر گئے مگر آخر کار اسکی بیوی روز روز کی تک تک سے تنگ آکر اپنے اوپر کروسین ڈال کر خود خوشی کرلی تھی تب تو تقریباً تمام لوگوں نے ہی اس کا بائیکاٹ کردیا تھا. صرف ایک ڈیسوزا ہی تھا جو اس سے کبھی کبھی بات چیت کر لیا کرتا تھا.
ڈیسوزا، رام داس کا پڑوسی ایک ہنس مکھ ملنسار شخصیت کا مالک تھا.
اس شام رام داس اپنے دروازے سے دایاں کاندھا لگائے آنکھوں میں وحشت لئے کھڑا ہوا ڈیسوزا کے گھر کی طرف ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا. اس کے ڈاڑھی کے بال بڑھے ہوئے تھے لباس بے ترتیب گرد آلود اور سَر کے بال بکھرے ہوئے تھے.
ڈیسوزا کے گھر کے لان میں اس کا پیارا کتّا ٹامی ایک بڑی سی گیند سے کھیل رہا تھا اور ڈیسوزا اسے بڑے انہماک سے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا. اچانک ہی رام داس نےاپنے دروازے پر کھڑے کھڑے ٹامی کو آواز دی.
”کم ہیئر.....ہے ..... ٹامی.... کم ہیئر.“
اسکی آواز سن کر ڈیسوزا نے کھڑکی سے باہر دیکھا کہ ٹامی گیند کو چھوڑ کر رام داس کی طرف جا رہا ہے. اسے اس وقت بڑی حیرت ہو رہی تھی وہ سوچ رہا تھا.؛ رام داس تو ٹامی سے بہت نفرت کرتا ہے تو پھر اس نے ٹامی کو کیوں بلایا.؟ رامداس کی اس حرکت سے ڈیسوزا کو ایک ماہ قبل کا واقعہ یاد آگیا.
وہ شام کا خوشگوار ماحول تھا. فرحت بخش ہَوائیں چل رہی تھیں. ڈیسوزا اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا پاس ہی رام داس کی تین سالہ بیٹی شالنی اور ٹامی کھیل رہے تھے. ٹامی شالنی کے فراک کو منہ میں دابے اسے کھینچ رہا تھا اور شالنی کھلکھلا کر ہنس رہی تھی تب اچانک ہی رام داس چیختا ہوا آیا اور پاس پڑی ہوئی لکڑی اٹھا کر ٹامی کے پیٹ میں زور سے مار دی ٹامی دبی دبی سی آواز میں کیاؤں کیاؤں چیختا ہوا ایک طرف بھاگ گیا. رام داس نے اپنی بیٹی کو گود میں اٹھایا اور ڈیسوزا کے پاس پہنچ کر غرّاتے ہوئے بولا.
”ڈیسوزا تم اپنے وحشی جانور کو باندھ رکھا کرو.ورنہ کسی دن میں سے گولی مار دونگا.“
ڈیسوزا اس کی طرف حیرت سے دیکھتا رہا پھر اس کے خاموش ہوتے ہی نرمی سے کہا.
”سنو رام داس....! شالنی میری بیٹی کی طرح ہے........ وہ دن بھر اکیلے ہی رہتی ہے. ٹامی کے ساتھ تھوڑا وقت رہ کر اس کا دل بہل جاتا ہے. اور تم تو جانتے ہی ہو کہ تمہارے مزاج کی وجہ سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں کھیلتا.“اسکی بات سنتے ہی رام داس نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا.
”تمہیں میری ذات پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں.... تم پڑوسی ہو پڑوسی کی طرح رہو. میں جیسا بھی ہوں ٹھیک ہوں. بہر حال تم اپنے ٹامی کو قابو میں رکھو اس سے میری شالنی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے ورنہ... میں بےقابو ہو جاؤنگا سمجھے.......؟“
اس واقعہ کے بعد شالنی ایکبار بھی ٹامی کے ساتھ کھیلنے کے لیئے نہیں آئی تھی. جسکی وجہ سے ڈیسوزا اکثر سوچا کرتا تھا‘ شالنی بن ماں کی بچی ہے پتہ نہیں کس حال میں ہو کہیں رام داس نے اس پر ظلم نہ کیا ہو.... یا ہوسکتا ہے..... وہ بیمار پڑگئی ہو.....،
کتے کے بھونکنے پر اسکے خیالات بکھر گئے اور وہ چونک کر رام داس کے گھر کی طرف دیکھنے لگا.
وہاں پر ٹامی منہ اٹھائے گھر میں دیکھ رہا تھا‘ شاید وہ شالنی کو دیکھ رہا ہے.' اچانک وہ پھر بھونکنے لگا رام داس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ بڑے پیار سے ٹامی کی گردن کو سہلاتا ہوا اندر لے کر چلا گیا.
ڈیسوزا مسکرا کر انہیں دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا. ”آخر کار ٹامی کے تئیں رام داس کا دل نرم ہوہی گیا اسی لیئے تو وہ اسے اندر لے کر گیا ہے تاکہ وہ شالنی کے ساتھ کھیل سکے.“ ڈیسوزا کا دل بھی شالنی کو دیکھنے کے لیئے مچل اُٹھا اور وہ اپنے گھر سے نکل کر رام داس کے دروازہ پر پہنچ گیا.
پائیری پر قدم رکھتے ہی اسکے نتھنوں سے ناگوار بُو ٹکرائی وہ تھوڑا سا ہچکچایا پھر ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا.
ڈرائنگ روم کا تمام سامان بکھرا ہوا ہے. فرش بھی گرد آلود ہے جا بجا مکڑی کے جالے لگے ہوئے ہیں.
”بیوی کے گزرنے کے بعد تو رام داس اور بھی لاپرواہ ہو گیا ہے. پتہ نہیں شالنی کا مستقبل سنوار پائے گا یا نہیں...؟“
ڈیسوزا رامداس کو کوستا ہوا بیڈروم کی طرف بڑھ گیا. بیڈروم میں قدم رکھتے ہی اس کا پورا وجود لرز گیا. اس نے دیکھا روم میں ملگجا اجالا پھیلا ہوا ہے پورے کمرے میں ابتری پھیلی ہوئی ہے بدبو کے بھپکے سے دم گھٹتا ہوامحسوس ہو رہا ہے مگر....!! رام داس کمرے کے وسط میں بیٹھا ہوا ہے اور ٹامی کی ایک ٹانگ کو اپنے تیز دانتوں سے نوچ رہا ہے ٹامی پاس ہی پڑا ہوا ہے اسکا سر پھٹا ہے اور منہ کپڑے سے بندھا ہوا ہے. رامداس کے چہرے پر درندگی چھائی ہوئی ہے.اس کے دانت خون آلود ہیں اور ہونٹ کے کناروں سے تازہ تازہ خون بہہ رہا ہے.اس کے عقب میں ایک چھوٹاانسانی پِنجر پڑا ہوا ہے.
یہ سارے مناظر دیکھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا اسے پورا کمرہ اپنے گرد گھومتا محسوس ہوا. وہ اپنے سر کو دونوں ہاتوں سے پکڑ کر تھوڑی دیر ڈگمگایا اور پھر زمین پر آرہا......
ڈیسوزا کو فرش پر بےسدھ پڑا ہوا دیکھ کر رام داس نے درندگی سے بھرپور قہقہ لگایا اور ٹامی کی ٹانگ کو چھوڑ کر دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھنے لگاـ
_______
عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ 148
"درندہ"
افسانہ نگار۔۔ عبدالرحمن اختر
مالیگاؤں مہاراشٹر انڈیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سورج اپنی دن بھر کی تھکی ماندی کرنوں کو سمیٹ کر غروب ہو رہا تھا.پرندے اپنے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے. نیلے آسمان پر شام کا سرمئی رنگ پھیلتا جا رہا تھا.گھروں میں موجود برقی قمقمے روشن ہونے لگے تھے. مگر رام داس کا مکان ویران پڑا تھا.
رام داس... عجیب آدمی تھا، سماج کا ستایا ہوا آدمی، اس کے چڑچڑے پن کی وجہ سے اس کے پڑوسی اس سے کٹے کٹے سے رہتے تھے اور اس کی کند ذہنی نے تو اسے کہیں کا نہ رکھا تھا.اسے کوئی اپنے یہاں کام پر نہیں رکھتا تھا اور یہی اسباب تھے کہ اس کی بیوی اکثر اس سے لڑا کرتی تھی، اسی حجت بک بک سے زندگی کی گاڑی چلتی رہی. جوں توں کچھ سال گزر گئے مگر آخر کار اسکی بیوی روز روز کی تک تک سے تنگ آکر اپنے اوپر کروسین ڈال کر خود خوشی کرلی تھی تب تو تقریباً تمام لوگوں نے ہی اس کا بائیکاٹ کردیا تھا. صرف ایک ڈیسوزا ہی تھا جو اس سے کبھی کبھی بات چیت کر لیا کرتا تھا.
ڈیسوزا، رام داس کا پڑوسی ایک ہنس مکھ ملنسار شخصیت کا مالک تھا.
اس شام رام داس اپنے دروازے سے دایاں کاندھا لگائے آنکھوں میں وحشت لئے کھڑا ہوا ڈیسوزا کے گھر کی طرف ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا. اس کے ڈاڑھی کے بال بڑھے ہوئے تھے لباس بے ترتیب گرد آلود اور سَر کے بال بکھرے ہوئے تھے.
ڈیسوزا کے گھر کے لان میں اس کا پیارا کتّا ٹامی ایک بڑی سی گیند سے کھیل رہا تھا اور ڈیسوزا اسے بڑے انہماک سے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا. اچانک ہی رام داس نےاپنے دروازے پر کھڑے کھڑے ٹامی کو آواز دی.
”کم ہیئر.....ہے ..... ٹامی.... کم ہیئر.“
اسکی آواز سن کر ڈیسوزا نے کھڑکی سے باہر دیکھا کہ ٹامی گیند کو چھوڑ کر رام داس کی طرف جا رہا ہے. اسے اس وقت بڑی حیرت ہو رہی تھی وہ سوچ رہا تھا.؛ رام داس تو ٹامی سے بہت نفرت کرتا ہے تو پھر اس نے ٹامی کو کیوں بلایا.؟ رامداس کی اس حرکت سے ڈیسوزا کو ایک ماہ قبل کا واقعہ یاد آگیا.
وہ شام کا خوشگوار ماحول تھا. فرحت بخش ہَوائیں چل رہی تھیں. ڈیسوزا اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا پاس ہی رام داس کی تین سالہ بیٹی شالنی اور ٹامی کھیل رہے تھے. ٹامی شالنی کے فراک کو منہ میں دابے اسے کھینچ رہا تھا اور شالنی کھلکھلا کر ہنس رہی تھی تب اچانک ہی رام داس چیختا ہوا آیا اور پاس پڑی ہوئی لکڑی اٹھا کر ٹامی کے پیٹ میں زور سے مار دی ٹامی دبی دبی سی آواز میں کیاؤں کیاؤں چیختا ہوا ایک طرف بھاگ گیا. رام داس نے اپنی بیٹی کو گود میں اٹھایا اور ڈیسوزا کے پاس پہنچ کر غرّاتے ہوئے بولا.
”ڈیسوزا تم اپنے وحشی جانور کو باندھ رکھا کرو.ورنہ کسی دن میں سے گولی مار دونگا.“
ڈیسوزا اس کی طرف حیرت سے دیکھتا رہا پھر اس کے خاموش ہوتے ہی نرمی سے کہا.
”سنو رام داس....! شالنی میری بیٹی کی طرح ہے........ وہ دن بھر اکیلے ہی رہتی ہے. ٹامی کے ساتھ تھوڑا وقت رہ کر اس کا دل بہل جاتا ہے. اور تم تو جانتے ہی ہو کہ تمہارے مزاج کی وجہ سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں کھیلتا.“اسکی بات سنتے ہی رام داس نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا.
”تمہیں میری ذات پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں.... تم پڑوسی ہو پڑوسی کی طرح رہو. میں جیسا بھی ہوں ٹھیک ہوں. بہر حال تم اپنے ٹامی کو قابو میں رکھو اس سے میری شالنی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے ورنہ... میں بےقابو ہو جاؤنگا سمجھے.......؟“
اس واقعہ کے بعد شالنی ایکبار بھی ٹامی کے ساتھ کھیلنے کے لیئے نہیں آئی تھی. جسکی وجہ سے ڈیسوزا اکثر سوچا کرتا تھا‘ شالنی بن ماں کی بچی ہے پتہ نہیں کس حال میں ہو کہیں رام داس نے اس پر ظلم نہ کیا ہو.... یا ہوسکتا ہے..... وہ بیمار پڑگئی ہو.....،
کتے کے بھونکنے پر اسکے خیالات بکھر گئے اور وہ چونک کر رام داس کے گھر کی طرف دیکھنے لگا.
وہاں پر ٹامی منہ اٹھائے گھر میں دیکھ رہا تھا‘ شاید وہ شالنی کو دیکھ رہا ہے.' اچانک وہ پھر بھونکنے لگا رام داس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ بڑے پیار سے ٹامی کی گردن کو سہلاتا ہوا اندر لے کر چلا گیا.
ڈیسوزا مسکرا کر انہیں دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا. ”آخر کار ٹامی کے تئیں رام داس کا دل نرم ہوہی گیا اسی لیئے تو وہ اسے اندر لے کر گیا ہے تاکہ وہ شالنی کے ساتھ کھیل سکے.“ ڈیسوزا کا دل بھی شالنی کو دیکھنے کے لیئے مچل اُٹھا اور وہ اپنے گھر سے نکل کر رام داس کے دروازہ پر پہنچ گیا.
پائیری پر قدم رکھتے ہی اسکے نتھنوں سے ناگوار بُو ٹکرائی وہ تھوڑا سا ہچکچایا پھر ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا.
ڈرائنگ روم کا تمام سامان بکھرا ہوا ہے. فرش بھی گرد آلود ہے جا بجا مکڑی کے جالے لگے ہوئے ہیں.
”بیوی کے گزرنے کے بعد تو رام داس اور بھی لاپرواہ ہو گیا ہے. پتہ نہیں شالنی کا مستقبل سنوار پائے گا یا نہیں...؟“
ڈیسوزا رامداس کو کوستا ہوا بیڈروم کی طرف بڑھ گیا. بیڈروم میں قدم رکھتے ہی اس کا پورا وجود لرز گیا. اس نے دیکھا روم میں ملگجا اجالا پھیلا ہوا ہے پورے کمرے میں ابتری پھیلی ہوئی ہے بدبو کے بھپکے سے دم گھٹتا ہوامحسوس ہو رہا ہے مگر....!! رام داس کمرے کے وسط میں بیٹھا ہوا ہے اور ٹامی کی ایک ٹانگ کو اپنے تیز دانتوں سے نوچ رہا ہے ٹامی پاس ہی پڑا ہوا ہے اسکا سر پھٹا ہے اور منہ کپڑے سے بندھا ہوا ہے. رامداس کے چہرے پر درندگی چھائی ہوئی ہے.اس کے دانت خون آلود ہیں اور ہونٹ کے کناروں سے تازہ تازہ خون بہہ رہا ہے.اس کے عقب میں ایک چھوٹاانسانی پِنجر پڑا ہوا ہے.
یہ سارے مناظر دیکھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا اسے پورا کمرہ اپنے گرد گھومتا محسوس ہوا. وہ اپنے سر کو دونوں ہاتوں سے پکڑ کر تھوڑی دیر ڈگمگایا اور پھر زمین پر آرہا......
ڈیسوزا کو فرش پر بےسدھ پڑا ہوا دیکھ کر رام داس نے درندگی سے بھرپور قہقہ لگایا اور ٹامی کی ٹانگ کو چھوڑ کر دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھنے لگاـ
_______
سردارِ خلد ہو تمھی سلطانِ کربلا
سارے جہاں کی جان تم اے جانِ کربلا
ہوجاؤں میں کسی دن مہمانِ کربلا
نکلے مری یہ جان وہیں جانِ کربلا
باقی ہے ان کے خون سے ارکان دین کے
عترت کے خوں سے مہکا گلستانِ کربلا
معصوم طفل اور جوانوں کے لہو سے
لکھا گیا ہے دیکھیئے دیوانِ کربلا
لوگوں کی بات سن کے بہکنا فضول ہے
پختہ کرو دیوانوں تم ایمانِ کربلا
ان کا ہی ذکر کرنے کو بدعت کہیں ہیں لوگ
، جن کے لہو سے سرخ ہے میدانِ کربلا،،
کب تک یوں ہی پھروگے زمانے میں در بدر
اکمل بنالو آپ کو افسانِ کربلا
ظہیر اکمل
مالیگاؤں مہاراشٹر