"پوس کی رات " میں افسانے کا تعارف پیش کیا گیا ہے اس کی آخری دو لائن میں لکھا ہے.
"افسانے کے فن میں پلاٹ، کردار، زمان و مکان، مرکزی خیال اور اسلوب کی خاص اہمیت ہے."
افسانے کے فن میں پلاٹ اور کردار وغیرہ کا ذکر تو کیا گیا ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہیں بھی *وحدت تاثر* کا ذکر نہیں آیا جو افسانے کا سب سے اہم جزو ہے. وحدت تاثر کے بغیر افسانے کو افسانہ نہیں کہا جا سکتا.
افسانے کے فن میں وحدت تاثر کے علاوہ *مکالمے* کو بھی فراموش کر دیا گیا ہے یہ بھی افسانے کا اہم جزو ہے.
علاوہ ازیں زمان و مکان کی بجائے زماں و مکاں لکھنا چاہیے.
________
افسانہ *آس*
قلمکار :- نورالدین نور (مالیگاؤں ، مہاراشٹر ،انڈیا)
آپ آگۓ! کیسا رہا جی آپکا انٹرویو ؟؟ جیسے ہی حسن گھر میں داخل ہوا اسکی رفیقہ حیات نمرا نے سوال کیا - تھکا ماندہ حسن اپنی وفا شعار بیوی کے لبوں پر رقص کرتی مسکراہٹ میں کھو گیا - کچھ توقف کے بعد پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ، ہممم اچھا ہی رہا، انہوں نے کہا ہے کہ وہ رابطہ کریں گے - ابھی اور بھی امیدوار انٹرویو کیلئے باقی ہیں - کہتے ہوئے وہ پاس رکھی نیم خستہ حال کرسی پر ڈھیر ہوگیا - آنکھیں موند کر اپنی اکھڑی سانسیں درست کرنے لگا - بچّے اسکول سے نہیں آۓ ابھی ؟ اس نے پوچھا ، وقت ہو چلا ہے آتے ہی ہوں گے کہتے ہوئے نمرا نے اسے شربت کا گلاس تھما دیا - اس نے مسکراتی ہوئی نگاہوں سے اپنی بیوی کی ستائش کی اور شربت پینے لگا - شربت کے ہر ایک گھونٹ کے ساتھ تلخ غموں کو یکے بعد دیگرے نگلتا رہا - نمرا باورچی خانے میں مصروف ہوگئی اور وہ تصورات کی وادی میں کھو گیا - صبح کے انٹرویو کی یادوں نے شربت کے ذائقہ میں تلخی گھول دی تھی - شربت ختم کرکے اس نے گلاس میز پر رکھا اور چند ساعتوں میں ہی وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا -
حسن معاشی طور پر ایک نچلے درمیانی طبقے کا فرد تھا - شریف النفس تھا ، عمر تقریباً 36 سال ، آنکھوں پر عینک جازب نظر لگتی تھی - متانت و سنجیدگی ہمہ وقت چہرے سے جھلکتی تھی - متناسب و پرکشش داڑھی جسمیں سیاہ و سفید بالوں کا سنگم ، کانوں کے اطراف ہلکی سی چاندنی اور جھکے ہوئے شانے اسکی بڑھتی عمر کی چغلی کھاتے تھے - یوں وہ اپنی عمر سے زیادہ کا دکھائی دیتا تھا - اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشے سے معلم تھا - گزشتہ 9 برسوں سے مختلف نجی اسکولوں میں خدمات انجام دیتا چلا آرہا تھا - محلے کے معتبر افراد میں اسکا شمار ہوتا تھا - معاملات کے حل کا وہ ایک ایسا دریا تھا جس سے لوگ خوب فیض اٹھاتے تھے -
بچوں کی اسکول سے واپسی اور سلام کی آواز پر خوابیدہ حسن بیدار ہوا- بچے ہی اسکی کل دولت تھے - بیٹی شمائلہ ہفتم جماعت میں تھی اور بیٹا انذر جماعت چہارم میں تھا - دونوں بچے سرکاری اسکول میں زیرتعلیم تھے - اس نے بیدار ہوتے ہی برجوش انداز میں بچوں کے سلام کا جواب دیا - انھیں گلے دے لگا کر دعائیں دیں - وہ جب بھی اپنے بچوں کے معصوم چمکتے دمکتے چہروں کو دیکھتا تو یکسر اپنے سارے غم بھول جاتا تھا - سورج شفق کی لالی کو سپرد آسماں کر کے مغرب کی سنگلاخ پہاڑیوں میں غائب ہو چکا تھا - کچھ دیر بعد موذن صاحب کی صداۓ اللہ اکبر سے سماں گونج اٹھا - وہ فوراً اپنا حلیہ درست کرکے انذر کو اپنے ہمراہ لیۓ تیز قدموں سے مسجد کی جانب روانہ ہوا- فرض نماز کے بعد وہ طویل دعا میں مصروف رہا ، اسکی نیم روشن آنکھیں نمناک تھیں - دعا ختم کرکے ایک یقین کے ساتھ سنت نماز ادا کرنے کیلئے کھڑا ہوگیا - اچانک ہی وہ غش کھا کر کٹی پتنگ کی مانند لہرا کر گر پڑا - بغل میں ہی محلے کے دستگیر چاچا کا جواں سال بیٹا فارق تسبیح میں مشغول تھا - حسن فارق کے شانوں پر ہی گرا تھا اسی وجہ سے اسے زیادہ چوٹ نہ آئی - فارق نے اسے سنبھال کر لٹا دیا اور اسکے بدن کو جنبش دیتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں پکارا ، کیا ہوا حسن بھائی ؟وہ تو حواس سے بیگانہ ہوا جارہا تھا اسے فارق کی آواز دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی - تھوڑی دیر میں وہ مکمل بے ہوش ہوچکا تھا - گرنے کی آواز اور فارق کی پکار سن دوسرے مصلیان بھی جمع ہوگئے - دستگیر چاچا بھی نماز سے فارغ ہوچکے تھے فوراً جائے وقوعہ پر پہنچے - چند افراد اٹھا کر اسے مسجد سے باہر لے آۓ اور آٹو رکشا کے ذریعے قریب کے اسپتال لیجایا گیا - تھوڑے علاج و معالجے کے بعداسے ہوش آیا - خود کو اجنبی جگہ پاکر ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا - دستگیر چاچا نے فوراً تھام لیا اور دوبارہ لٹادیا - نرمی سے کہا لیٹے رہو بیٹا ، اب کیسا لگ رہا ہے تمھیں ؟ اس نے چاچا کے سوال کو نظر انداز کر کے پوچھا ، میں یہاں کیسے آپہنچا ؟میں تو مسجد.... اور انذر کہاں ہے ؟ دستگیر چاچا اور فارق نے واقعہ بتایا - کچھ دیر رک کر دستگیر چاچا نے پوچھا ، کیا بات ہے حسن ابھی تو کچھ خاص عمر بھی نہیں اور تمھیں یوں غش آنے لگے ؟ اسکے کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گۓ - ہونٹ کپکپا کر رہ گئے-مگر الفاظ ندارد ہاں آنکھوں نے بہت کچھ کہہ دیا - دو باریک سی نہریں آنکھوں سے نکل کر رخساروں کے نشیب وفراز سے گزرتی ہوئی قمیص کے کالر میں جذب ہو گئیں - چاچا نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا - وہ کچھ سوچنے لگے پھراسکی کی جانب متوجہ ہوۓ تو اسکی آنکھوں میں التجا اور چہرے پر کئی سوالات نظر آۓ - چاچا نے کہا کوئی کی خاص بات نہیں ہے بیٹا ڈاکٹر نے کہا ہے تمھیں آرام کرنے کی ضرورت ہے - نرس نے ڈاکٹر کے آنے کی اطلاع دی - دستگیر چاچا دیر تک ڈاکٹر کی کیبن میں مصروف رہے - باہر نکلے تو پیشانی پر گہری تشویش کے آثار تھے- یہی سوال بار بار ذہن میں اٹھتا کہ آخر نروس بریک ڈاون کیوں ہوا ؟حسن کو کیا صدمہ ہوا ہے ؟؟؟
اسی ادھیڑ بن میں حسن کو ڈسچارج کرواکر گھر لے آۓ تھے - حالانکہ فارق نے اطلاع دے دی تھی کہ حسن بالکل ٹھیک ہے مگر جب تک وہ گھر نہیں پہنچا وہ بے قرار رہی - چند گھنٹے اسے صدیوں کی مانند لگے - رات گہری ہوتی جارہی تھی - چاند اپنے پورے شباب پر تھا - اپنے شوہر کو دیکھتے ہی نمرا کا چہرا دودھیا چاندنی میں چاند سے بھی زیادہ روشن ہو گیا - حسن کو گھر میں پہنچا کر دستگیر چاچا نے اسے زیادہ سے زیادہ آرام کرنے اور سخت غم و غصہ سے بچنے کا مشورہ دیا - اور اپنے گھر روانہ ہوگئے -
رات خیریت سے گزری - دواؤں کے زیراثر وہ دیر تک سوتا رہا - دن چڑھے بیدار ہوا تو بچے اسکول جاچکے تھے - ناشتہ کے بعد نمرا نے اسکے آگے اخبار رکھ دیا اور ایک اشتہار کی جانب مسکراتے ہوئے اشارہ کیا -
جلی حروف میں لکھا تھا
*فوری ضرورت استاذ*
سن رائز ہائی اسکول میں ایک قابل اور تجربہ کار استاز کی ضرورت ہے - امیدوار کا انگریزی زبان و ادب اور گرامر سکھانے میں ماہر ہونا لازمی ہے
مکمل سرکاری اسامی*
*نوٹ :- قابلیت اور تجربہ کو ترجیع دی جائے گی*
اشتہار پڑھتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا - وہ تصورات کے لامتناہی سمندر کی گہرائی میں غرق ہوگیا - گزشتہ روز امداد قوم ہائی اسکول کے انٹرویو کی ایک فلم اسکے تصورات میں چلنے لگی - اپنے چہیتے اساتذہ کو انٹرویو لینے والی ٹیم میں دیکھ کر وہ کتنا خوش ہوا تھا - انہوں نے ہمیشہ ایمانداری اور جفاکشی کا درس سکھایا تھا - مگر - انٹرویو کے وقت دستاویزات کی فائل ایک جانب رکھ کر بس ایک ہی سوال پوچھا تھا - آپ کتنا دے سکتے ہیں؟ وہ تو سکتے کی حالت میں استاذ محترم کو بس دیکھتا رہ گیا تھا - اسے خاموش دیکھ کر ان میں سے ایک نے کہا ، دیکھۓ حسن سر آپ اگر دس لاکھ دے سکتے ہیں تو ٹھیک ہے- آپکی قابلیت کو دیکھ کر چئرمین صاحب راضی ہوگئے ورنہ کئی امیدوار اس سے زیادہ پر بھی تیار ہیں -وہ ابتداء سے ہی خاموش تھا - بنا کچھ کہے اپنی دستاویزات کی فائل اٹھائی اور ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح بوجھل قدموں آفس سے نکل آیا تھا اور گھر آتے ہی دستاویزات کی فائل کوڑے دان میں پھنک دی تھی - وہ تصورات میں کھویا ہوا تھا اچانک زور سے بولنے لگا ، نہیں سر ، میں نہیں دے سکتا ، کہاں میری ماہانہ دس ہزار تنخواہ اور کہاں دس لاکھ، ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا - اسکے ہذیانی قہقہے بلند ہوۓ - اچانک بالکل خاموش ہوگیا پھر بولا ، سر یہ آپ کہہ رہے ہیں - آپ تو- نہیں - مگر کیسے - ہاں ہاں آج کل تو سبھی کے ہاتھ میز کے نیچے دراز ہوتے ہیں بیچارے معزز افراد علی الاعلان تو کہہ نہیں سکتے - قابلیت ، ایمانداری ، جفاکشی سب کتابی باتیں ہو کر رہ گئی ہیں-اسکی تیز آواز سن کر نمرا دوڑتی ہوئی آئی ، کئی آوازیں دیں لیکن وہ اب بھی ہذیانی کیفیت میں ہی تھا - مسلسل کہے جارہا تھا بس اب اور نہیں - بہت ہو چکا اب اور کوئی انٹرویو نہیں دینا- بالکل بھی نہیں- نمرا کا گبھراہٹ کے مارے برا حال تھا اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کرے - اس نے حسن شانوں کو پکڑ کر زور جھنجھوڑ دیا اور چنیخ پڑی حسن ....- حسن ہذیانی کیفیت سے نکل آیا - سراسیمہ نمرا سامنے کھڑی کانپ رہی تھی - لپک کر اسے بانہوں میں بھر لیا ، کچھ دیر دونوں ایکدوسرے کے شانوں کو بھگوتے رہے اور پھر نارمل ہوگۓ - نمرا باورچی خانے میں چلی گئی - تب ہی بچے اسکول سے لوٹ آۓ - انھیں دیکھ کر حسن کی بانچھیں کھل اٹھیں - بچوں کو گلے سے لگایا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خوب پیار کرتا رہا - کچھ دیر گہری سوچ میں گم رہا پھر آہستہ سے اٹھا اور کوڑے دان کی جانب چل پڑا
__________
دل شکووں سے بھرا ہوا ہے کیا لکھوں میں
میرے پاس اب یہی بچا ہے کیا لکھوں میں
میں نے اس دن کس مشکل سے فون کیا تھا
تم نے سن کر “کون ؟”کہا ہے کیا لکھوں میں
میں کیسے پہچان کراؤں پہلے جیسی
میرا بھی چہرہ بدلا ہے کیا لکھوں میں
ایک یہ ڈر کہ تم یہ رشتہ توڑ نہ ڈالو
ایک یہ غم کہ ٹوٹ گیا ہے کیا لکھوں میں
سوچا تھا وہ لکھونگی جو سب لکھتے ہیں
پھر جانے کیا کیا سوچا ہے کیا لکھوں میں
آنسو آنکھ کنارے آکر بیٹھ گئے ہیں
ان مہمانوں کا خدشہ ہے کیا لکھوں میں
میں نے اس کو خالی پیار محبت سمجھا
سب دھوکہ ہے سب مایا ہے کیا لکھوں میں
تم لکھنا تم کیسے ہو اور سب کیسے ہیں
خط لکھنا تم کو آتا ہے کیا لکھوں میں
_______________
اسنٰی بدر
_________
نظم
۔۔۔۔۔۔
ارشد عبدالحمید
" ساز سخن کوش "
دل میں اک لے سی ابھرتی ہے سخن کوشی کی
دھن کوئی جیسے بجی جاتی ہے خاموشی کی
ذہن اک تار فراموش کو یوں چھیڑتا ہے
جیسے اغیار میں احباب کی یاد آتی ہے
جیسے سبزے پہ ہوا کرتا ہے شبنم کا نزول
جیسے اندھیارے میں مہتاب کی یاد آتی ہے
جیسے کھڑکی سے اتر آئے شعاعوں کی سبیل
جیسے آنکھوں پہ مئے نور کے چھینٹے پڑ جائیں
جیسے پردیس میں کھل جائے دعا کی زنبیل
رات پر جیسے طلسمات کے پردے پڑ جائیں
لفظ یوں آتے ہیں جیسے کہیں مہوا کا شجر
بوند بوند آس پہ برسائے خماری کا رس
جام جیسے کوئی بھر لیتا ہے انگوری سے
دل میں بھر جاتا ہے یوں شکر گزاری کا رس
شکر ہے خامشی نغمے میں بدل سکتی ہے
میری تخئیل تری بزم میں ڈھل سکتی ہے
یہ جو سناٹا رگ و پے میں سرایت ہے مری
اسی سناٹے سے آواز نکل سکتی ہے
دل میں اک لے سی ابھرتی ہے سخن کوشی کی
دھن کوئی جیسے بجی جاتی ہے خاموشی کی