شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
کرناٹک کے وزیراعلی سدا رمیّا حجاب پر پابندی ہٹانے کا اعلان کر کے پلٹ گیے ! وہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی حجاب پر سے پابندی ہٹی نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ زیرغور ہے ۔ اسے پلٹنا نہیں تو اور کیا کہیں گے ! یہ سچ ہے کہ حجاب پر سے پابندی کا ہٹایا جانا آسان نہیں ہے ، اس معنیٰ میں کہ بی جے پی اور سنگھی تنظیمیں اس کے خلاف واویلا مچانے لگی ہیں ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وزیراعلیٰ سدا رمیّا چاہیں تو آسانی کے ساتھ حجاب پر سے پابندی ہٹا سکتے ہیں ، وہ ایک ریاست کے سربراہِ اعلیٰ ہیں اور انہیں اس طرح کے فیصلے کرنے یا فیصلے لینے کا آئینی حق حاصل ہے ۔ مثال اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی لے لیں ، وزیراعلیٰ بنتے ہی انہوں اپنے اوپر لگے فرقہ وارانہ فسادات کے تمام مقدمے ختم کروا لیے ہیں ۔ سدا رمیّا کیوں ہچکچا رہے ہیں ؟ کرناٹک کے اسمبلی الیکشن کے دوران حجاب ایک مسٔلہ تھا ، اور کانگریس نے باقاعدہ یہ اعلان کیا تھا کہ اگر وہ منتخب ہوئی تو حجاب پر بی جے پی حکومت کے ذریعہ لگائی گئی پابندی کو ختم کر دے گی ۔ لیکن کانگریس آج تک حجاب پر لگی پابندی کو ہٹا نہیں پائی ہے ۔ ٹھیک ہے کہ ان دنوں حجاب کو لے کر کرناٹک میں کوئی فرقہ وارانہ ہنگامہ نہیں ہے ، اور باحجاب بچیاں کالج اور اسکول جا رہی ہیں ، لیکن جب تک پابندی ہے ایک تلوار لٹک رہی ہے ، کل کو کسی بھی اسکول یا کالج کا ذمہ دار اگر کسی باحجاب بچی کو کلاس میں بیٹھنے سے روک دے تو کیا کیا جا سکتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس کے پاس باحجاب بچی کو روکنے کا قانونی جواز ہے ، اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اب جبکہ یہ مسٔلہ ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے تو کل کو باحجاب بچیوں کو کلاسوں میں جانے سے روکا جا سکتا ہے ، اور شرپسند احتجاج اور مظاہرے بھی کر سکتے ہیں ۔ اس لیے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ حجاب پر سے جس قدر جلد ممکن ہو پابندی ہٹا لی جائے ۔ حجاب پر سے پابندی ہٹانے کے اعلان کے بعد کرناٹک میں فرقہ پرستوں کا ٹولہ شر پھیلانے لگا تھا ، بلکہ ہنوز شر پھیلا رہا ہے ۔ بی جے پی نے وزیراعلیٰ کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ۔ سابق وزیراعلیٰ بی ایس یدی یورپا نے کرناٹک حکومت کے حجاب پر سے پابندی ہٹانے کے فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے کیے گیے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں ۔ بی جے پی کا ایک ردعمل یہ تھا کہ کرناٹک کی حکومت حجاب پر سے پابندی ہٹا کر انگریزوں کی طرح ملک کو بانٹ رہی ہے ، گویا کہ شر پھیلانے کا عمل شروع کر دیا گیا ۔ یقیناً سدا رمیّا نے اسی لیے احتیاط برتتے ہوئے یوٹرن لیا ہوگا کہ ابھی معاملہ زیرغور ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں سدا رمیّا وضاحت دے رہے ہیں ، وہ کیوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں کہتے کہ کانگریس کا وعدہ تھا کہ حجاب پر سے پابندی ہٹائی جائے گی ، لہذا پابندی ہٹائی جا رہی ہے ، بی جے پی اس معاملے میں سیاست کرنے کی کوشش نہ کرے ؟ اب کانگریس کو اگر مگر کی حالت سے باہر نکلنا ہوگا ، ورنہ سمجھا یہی جائے گا کہ حجاب معاملہ پر یو ٹرن لے کر کانگریس بے حجاب ہوگئی ہے ، یعنی اُس صورت کو ظاہر کر دیا ہے جو سیکولر نہیں کہی جا سکتی ۔ سیکولرزم ہی کانگریس کا اصل ہتھیار ہے ، نرم ہندوتوا نہیں ۔ مثال مدھیہ پردیش کی لے لیں جہاں کمل ناتھ نرم ہندوتوا پر گامزن رہے اور ہندوؤں کے ووٹ بھی کھوئے اور مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے ووٹ بھی کھوئے ۔ اس معاملے میں حجاب پر پابندی کے خلاف شرپسندوں کے سامنے ’ اللہ اکبر ‘ کا نعرہ بلند کرنے والی طالبہ مسکان خان کا بیان بالکل درست ہے کہ اس معاملے پر سیاست نہ کی جائے ، بہت سی مسلم بچیوں نے حجاب پر پابندی کے سبب تعلیم منقطع کر دی ہے ، انہیں پڑھنے کے مواقع دیے جائیں ، حجاب پر سے پابندی ہٹائی جائے ۔ مسکان خان کا ردِ عمل ’ مذہبی ‘ نہیں ہے ، کیونکہ برقعے ، پردے اور حجاب کا معاملہ صرف ایک مذہبی معاملہ نہیں ہے ، یہ معاملہ ’ مذہبی آزادی ‘ کا بھی ہے ، اسی لیے یہ ’ آ ئینی حقوق ‘ کا معاملہ بھی بن جاتا ہے ۔ اور سماجی ، تہذیبی اور ناانصافی کا معاملہ بھی ۔ لہذا سدا رمیّا کی حکومت فوری طور پر حرکت میں آئے اور فرقہ پرستوں کے ردعمل کو نظرانداز کرتے ہوئے حجاب پر لگی پابندی کو ہٹا لے ۔ اگر یہ کیا تو ریاست کی عوام اور اقلیتوں کا اس حکومت پر اعتماد پختہ ہو جائے گا ۔
__________
کتاب کا نام:
"سوچ کینواس"
(علیم طاہر کی دلکش بیس(٢٠) نثری نظمیں)
شاعر: علیم طاہر
سن اشاعت: نومبر 2023
________________________________
نثری نظم نمبر01
"مرد اور عورت"
علیم طاہر
مرد ہوں میں
وہ اجالا ہوں
جو برائے راست
عورت پر پڑتا ہے
عورت چمک اٹھتی ہے،
جگمگاتے ہوئے ماحول میں
عورت کا وجود نمایاں ہے
میں مکمل لباس پہنے ہوئے
تالیاں بجا رہا ہوں
عورت معمولی لباس پہنے ہوئے
نمائش کی گشتی دکان بنی
اپنے حسن وجمال سے
مرد آسمان سا،
زمیں بنا دیا گیا
مرد اوپر سے نیچے آ گیا ہے
مرد پر زمیں مسلط ہے
عورت نیچے دیکھتی ہے
تو
مرد نظر آتا ہے
مرد اوپر دیکھتا ہے تو
عورت نظر آتی ہے،
اس اسٹیج کے دائیں بائیں
مردوں کا اک ہجوم ہے
جن کی نگاہوں کا مرکز
بس عورت ہے
ہر طرف نمایاں عورت
گلیمر کی چکاچوند میں
"عورت منظرنامہ " کو میڈیا
فل کوریج دے رہا ہے
یہ میڈیا وہ مرد ہے
جو اپنے کیمروں کے
بار بار فلیش کی صورت
تالیاں پیٹ رہا ہے،
مرد "ججیز"
آنکھوں میں مسرت خزانوں کی
بجلیاں لیے ہوئے
ہر ایوارڈ عورت کے نام لکھ چکے ہیں
پروگرام کے اختتام پر
"عورت گیت " گونج اٹھا ہے
اس دور کی ناری ہوں میں
ہمت میں کراری ہوں میں
اب نہیں سہوں گی
بہت ہوا، بہت ہوا......
مرد ہوں میں
گردن نیچے جھکائے
چل رہا ہوں. ........
(C) : Nasri Nazm,
"Mard Aur Aurat "
Aleem Tahir.
_______________________________
ایک نثری نظم.نمبر...۰۲...
( سوچ کینواس ).......علیم طاہر..
ایک قہوہ خانے پر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے
سوچ کینواس پر تیری صورت نمودار ہوئی
ایک سگریٹ جلانے کی خواہش نے لی انگڑائی
خواہش کے احترام.کو پایہءتکمیل تک پہنچانے کے لئے
جیب میں رکھا پاکٹ ہتھیلی کی گرفت میں آگیا
دوسرے ہی لمحے
لبوں کے شکنجے میں سگریٹ تن گیا
لایٹر کی لو سے سگریٹ جل کر مسکرانے لگا
میں کش پہ کش لے کر دھواں اڑانے لگا
سوچتا تھا کسی صورت، سوچ کینواس پر نمودار تری صورت
یا داشت کے اسکرین سے غائب ہو جائے
کہیں لاشعور میں جا کر کھو جائے
مگر یہ کیا دیکھتا ہوں
سگریٹ کے کش سے جو دھواں میں نے چھوڑا تھا
اسی دھواں نے تری صورت ہو بہو بنا ڈالی
میں خلاء میں گھورتے ہوئے سوچ کینواس کے عالم میں
محو ہو گیا
تجھے بھولنا مشکل نہیں ناممکن ہے
آج کا یہ دن یادگار دن ہے
A nasri nazm (soch kewas) by.....Aleem Tahir
________________________________
نثری نظم... 03
"مجھ میں مجھ کو گاڑ چکے ہو"
علیم طاہر
مجھ کو مار کے زندہ رہو گے
یہ سوال کے روپ میں الزام ہے
کیا صفائی دینا چاہو گے
مجھ کو مار کے تم زندہ ہو
سب کچھ تمہاری مرضی سے چل رہا ہے
میں ہنستی ہوں
میں روتی ہوں
تمہاری مرضی سے جیتی ہوں
تم نے مجھ کو فنا کیا ہے
خود کی خاطر ڈھال چکے ہو
مجھ میں مجھ کو گاڑ چکے ہو
خود میں گڑ کے ہوئی تمہاری
پوری اور ساری کہ ساری
گیم کھیل کے جیت چکے تم
جیو جشن مناؤ آؤ...
(C) :
Aleem Tahir
Mobile no. 9623327923
________________________________
(نثری نظم)... 04
"یہ کہانی بھی ناں".......
علیم طاہر
کتنے روپ بدل لیتی ہے؟
کتنے بھیس بدلتی ہے یہ؟
یہ کہانی بھی ناں!
زندگی ایک،
وجود ایک
مگر ہم سے کئی کردار جوڑ دیتی ہے
ایک سے بڑھ کر ایک
ہم مرکز بن جاتے ہیں
ارد گرد گھومتے ہیں کئی کردار
سب اداکار،
اپنے اپنے فنون کا مظاہرہ کرتے ہیں
جگاڑ کرتے ہیں
تگڑم بازی کرتے ہیں
عشق کرتے ہیں
پیار کرتے ہیں
انکار کرتے ہیں
فریب کرتے ہیں
بیقرار کرتے ہیں
سب کو پڑی ہے اپنی اپنی
سب اپنے چکر میں رہ کر کچھ نہ کچھ کوشش کرتے ہیں
کہانی میں جیتے مرتے ہیں
اپنی دنیا ایک اسٹیج ہے
ڈرامہ ابھی جاری ہے
کہانی اپنا کام کر رہی ہے
مشرق سے لے کر مغرب تک
شمال سے لے کر جنوب تک
زمین سے لے کر آسمان تک
کہانی پھیلی ہوئی ہے
کہاں نہیں ہے کہانی یہ؟
یہ کہانی بھی ناں!
(C) :
Aleem Tahir
Mobile: 9623327923
________________________________
نثری نظم نمبر....05
(تخلیقی الاؤ).......
علیم طاہر....
مری د ھڑکنوں کی آوازوں سے
تخلیقی الاؤ کی آنچ
اُسے
محسوس ہو رہی تھی
وہ
مرے سینے پر سر رکھ کر
خوابیدہ عالم میں سو رہی تھی
ہم دونوں
اک دوسرے کا لباس تھے
جینے کی آس تھے
اس نے اپنی آنکھیں کھولتے ہی
مرے کانوں میں سرگوشی کی
اے مرے سرتاج!
رات کے دو بج رہے ہیں
میں نے تمہارے سینے میں تخلیقی الاؤ کی آنچ محسوس کی ہے
صفحئہ قرطاس پر اپنے قلم سے
اس آنچ کو باہر کیوں نہیں نکال دیتے؟
یا
اپنے موبائل سے پبلک میں
کیوں نہیں اچھال دیتے؟
میں الہامی کیفیت کے عالم میں
موبائل میں فیس بک پر اردو زبان میں
تخلیقی الاؤ اگلنے لگا
جسے پڑھتے ہوئے
مری ہمراز کا رنگ بدلنے لگا
تخلیقی الاؤ اگلنے کے بعد
بے ساختہ مری ہمراز مبارکباد دیتے ہوئے
مرا لباس بن گئی
عالمِ خواب میں دور کہیں
آسمان پر تارے ٹوٹ کر گرنے لگے
جس کی روشنی سے
ہماری روحوں میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی
اور
تخلیقی الاؤ میں ٹھنڈک آئی ہوئی تھی
A nasri nazm no 04....by....Aleem Tahir....
________________________________
نثری نظم... نمبر۔۔06
"کہاں کھو رہی ہے "
علیم طاہر
میں کب کا مر چکا ہوں
تم کب تک مرے نام اگر بتی جلاتی رہو گی
خوشبو سے کمرہ مہکاتی رہو گی
اس خوشبو کے احساس سےکیا ہوتا ہے
مجھے یاد کرنے سے کیا مل سکے گا
او ہو اچھا اچھا، اب سمجھا!
شاید تم ماضی میں جینا چاہتی ہو
ماضی سے تمہیں سکون ملتا ہے؟
میرے لیے تو حال ماضی مستقبل سب برابر ہیں
اس دھواں کے مرغولوں میں کھو جاتی ہو
تم تم نہیں، میں ہو جاتی ہو
اگر بتی بجھنے تلک تم اپنا آ پا کھوئے رہتی ہو
ایک اسٹیچیو کی طرح، بیٹھی رہتی ہو
اک کورے سفید کاغذ پر
پینسل سے تمہاری محو تصویر ہو بہو اتر آتی ہے
وہ پینسل جن انگلیوں کی گرفت میں ہیں
وہ انگلیاں میری ہیں،
لیکن میں تو مر چکا ہوں!
مجھ میں جو زندہ ہے
کوئی پاگل، دیوانہ، ہے
چلو اٹھو
تمہیں میرے ساتھ
یونہی جیون بتانا ہے
اگر بتی اپنے وجود کی آخری راکھ
جھڑاتے ہوئے
لکڑی کی باریک کاڑی سے جدا ہو رہی ہے
اٹھو جان میری یہ پگلی سی بیٹھی کہاں کھو رہی ہے....
(C) :
Aleem Tahir
Mobile :
9623327923
Email :aleemtahir12@gmail.com
________________________________
نثری نظم
(یہاں میں تم کو ڈھونڈتاہوں).
نمبر07...علیم طاہر...
جانے تم کہاں کھو گئے ہو
یہاں میں تم کو ڈھونڈتا ہوں
نہیں پیپل کی چھاؤں میں بھی
کہاں بر گد کے سائے میں بھی
کہاں پنگھٹ کی بھیڑ میں بھی
نہیں ہے کھیت میں بھی اپنے
یہاں پگڈنڈیاں بھی سونی
کہاں ہو پربتوں کے پیچھے
نہیں ہو جھیل کے کنارے
کہاں تالاب کے طرف ہو
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں تم کو
جانے تم کہاں کھو گئے ہو........................
کہاں ہو گھر کے پاس بھی تم
کہاں دالان پر کھڑے ہو
کہاں ہو چھت بھی خالی خالی
کہاں ہو چمن چمن ڈھونڈوں
کہاں ہو گگن گگن ڈھونڈوں
کہاں ہو تھک گیئں ہیں نظریں
کہاں ہو چہچہائے پنچھی، بجائے فضافضا بنسی
یہ رستے پوچھتے کہاں ہو، یہ لمحے ڈھونڈھتے کہاں ہو
کہاں ہو خواب تھک گئے ہیں
کہاں ہو نیند اُڑ گئی ہے
جانے تم کہاں کھو گئے ہو....................
گر پڑی آس ہانپتی ہے ،کہاں ہو تم
امیدوں کی لویں بھی اب
مسلسل کانپتی ہیں،کہاں ہو تم
کہاں ہو تم، پوچھتی ہے
میری لاغر سی ہر خواہش
میرے کمرے کی ویرانی
پریشاں ہو گیا ہوں کتنا؟
میں خود سے پوچھتا ہوں اکثر
بحث مجھ سے ہی میری ہوتی
ہار جاتا ہوں میں ہی خود سے
جیت جاتا ہوں خود سے میں ہی
پتہ ہی چل سکا نہ اب تک
جانے تم کہاں کھو گئے ہو...................
A nasri nazm ..no.07...by...Aleem Tahir.
________________________________
نثری نظم....نمبر08...
علیم طاہر
گاؤں کی دوشیزہ نے
کنواں میں رسّی سے بندھا ہوا ڈول پھینکا
ڈول کے پانی میں گرتے ہی
پانی رقص کرنے لگا
کیونکہ اس ڈول کو دوشیزہ کے ہاتھوں نے چھوا تھا
پانی کو جیسے جادو سا ہوا تھا
ٹوٹ کر پانی
ڈول میں سما گیا
دوشیزہ ڈول کو کھینچنے لگی
ڈول مچلتے ہوئے ڈولنے لگا
ڈول کی رسّی لہرانے لگی
کیونکہ اس رسّی کو
دوشیزہ کے مخملی ہاتھ کھینچ رہے تھے
کنواں کے جنگلی کبوتر
مستیوں میں پھڑپھڑاتے ہوئے
دوشیزہ کے دیدار میں مگن تھے
ابابیلیں بھی اپنی جمالیاتی اڑانوں کی
جمناسٹک سے
مسرّتوں کا اظہار کر رہی تھیں
کنواں کے پانی کا کچھوا بار بار
اپنی گردن پانی سے باہر نکال کر
کن انکھیوں سے دوشیزہ پر
اچٹتی سی نگاہیں ڈال دیتا تھا
دوشیزہ نے ڈول کو اپنی گرفت میں لے کر
اپنی مٹّی کی گاگر میں انڈیل دیا
اور ان سب سے انجان اور بیگانی
گاگر کو سر پر اٹھا کر اپنے گھر کی جانب چلنے لگی
اس کے جاتے ہی
کچھوا ساکت ہو گیا
کبوتر اداس ہو کر کنواں کے منڈیروں پر بیٹھ گئے
ابابیلیں اپنے گھونسلوں میں ماتم کرنے چلی گئیں
پانی کی ہلچل پر سکتہ طاری ہو گیا
ڈول اوندھا پڑا بے جان سا لگنے لگا
رسّی مایوس ہو کر بے ترتیب ہو گئی
چند لمحوں پہلے کا خوشگوار کنواں
ویرانیوں میں کھو گیا
دوشیزہ کے جانے کے بعد
یہ کیا ہو گیا ؟؟؟؟؟؟؟....
یہ کیا ہو گیا ؟؟؟؟؟؟؟؟...
A nasri nazm no 08 by...Aleem Tahir.
________________________________
نثری نظم :
(ملاقات کریں ہم )
نمبر09....
علیم طاہر۔
آؤ پھر روبرو ہو کر بات کریں ہم
ملاقات کریں ہم
تبادلہء خیال بہت ضرو ری ہے
خوامخوہ ہمارے بیچ دوری ہے
مسائل کا حل گفت و شنید کے بغیر نکل نہیں سکتا
کسی کے بہکاوے میں آنے کی کیا ضرورت ہے
ہمیں اک دوسرے سے محبت ہے
ہمارے رشتوں کے درمیان وہ تنازعات کی فصیلیں اگا رہے ہیں
جن سے تم نے وجود پایا ہے
جن سے تمہیں جینا آیا ہے
تم ان فصیلوں کے پیچھے رشتے نبھا رہی ہو
خود اپنی ہستی کے بدن پر نشتر لگا رہی ہو
کیا تمہیں اپنے وجود سے وجود پانے والوں کا احساس نہیں؟
آخر کب تک انا کے ٹیلے پر اڑی رہو گی؟
آخر کب تک؟
دروغ گوئی کے بارود پر کھڑی رہو گی؟
اپنے نقلی خول سے باہر نکلو
تب دیکھ سکو گی
خوبصورت مستقبل تمہارا انتظار کر رہا ہے
صرف تمہارا نہیں!
تم سے وجود پانے والے معصوموں کابھی
جن کو مجھ سے جدا کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
جس رشتے کو خدا نے قائم کیا ہے
اسے کو ئی بھی توڑ نہیں سکتا
تم بھی نہیں
تمہیں ان کوششوں میں ناکامیاں مل رہی ہیں
توبہ کرو
تا کہ تم پر عذابوں کا سلسلہ ختم ہو
بس یہی اک راستہ ہے
آؤ پھر روبرو ہو کر بات کریں ہم
ملاقات کریں ہم..........................
A nasri nazm ( mulaqat karen hum)... no09 by....Aleem Tahir.
________________________________
آزاد رومانی نظم۔۔نمبر 10
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علیم طاہر (انڈیا)
چلے آؤ کہ سرد موسم اب
یوں فلیش بیک میں لے جاتا ہے
سرد سے ہاتھ اپنے ملتے ہیں
کسمساہٹ سی تن بدن میں ہوئی
جھرجھری سی تری انگڑائی میں
کپکپاہٹ بھی زلزلوں کی طرح
ہوش کی بلڈنگیں گراتی ہیں
زندگی جوش کے طوفانوں میں
کشتیاں عشق کی بہاتی ہیں
عشق احساس کی برساتوں میں
اور جذبوں کی حسیں باتوں میں
بھیگ کر گنگنا رہا ہے ابھی
تیرے ہونٹوں نے میرے ہونٹوں پر
رکھ کے اپنا وجود کھویا ہے
میری بانہوں میں جسم تیرا ہے؟
مجھ کو حیرت ہے مگر یہ کیسا
رات ہو کر بھی کیوں سویرا ہے ؟
علیم طاہر ( انڈیا)
(C)A roomani nazm...by... AleemTahir (India)
________________________________
(نثری نظم)
(کیا یہ فاصلہ کبھی کم ہو گا)
نمبر 11...علیم طاہر
مرے وجود سے
تمہارے وجود تک
کتنا فاصلہ ہے
کیا یہ فاصلہ کبھی کم ہو گا
میں اور تم مل کے ہم ہوگا
کبھی کبھی تنہائی میں سوچتا ہوں
تمہاری راہ پر دل چلا جا رہا ہے
چلا جا رہا ہے چلا جا رہا ہے
امیدیں ہیں پختہ
ملاقات ہو گی
مگر کوئی خدشہ بھی ابھرے ہے اکثر
کہیں راہ پر کوئی منزل ملے نا
میں تنہا ہی بھٹکوں مگر دل ملے نا
مرے وجود سے تمہارے وجود تک
کیا یہ فاصلہ کبھی کم ہو گا
Mobile no.9323177531
A nasari nazm...no.02.by...Aleem Tahir .
________________________________
آزاد نظم....نمبر 12 ( Free Verse )
علیم طاہر
" یہ داؤ کیسے الٹا ہوا"
وہ سوچتے ہیں ہمارے سوا کوئی اور نہ ہوں
جو حکومت کرے
حکومت کرنا ہمارا حق ہے
ہمارے مخالف کو مٹی چٹا دیں گے
وہ سنبھلے گا ہم گرا دیں گے
وہ گرے گا تو گریں گے مخالفین سارے!
ہمارے خلاف سوچنے پر،
نظر آئیں گے دن میں انہیں تارے!
لیکن یہ کیا ہوا؟
اسے گراتے ہی
چاروں طرف اک شور برپا ہوا
یہ داؤ کیسے الٹا ہوا ؟؟؟
(C)
Aleem Tahir.
________________________________
نظم نمبر 13: " وہ کہہ رہا ہے "
علیم طاہر
وہ کہہ رہا ہے
مری وجہ سے تری ترقی،
ہوئی ہے ساری،
میں سوچتا ہوں،
ازل سے اب تک،
خدا ہی ذریعہ بناتا آیا،
بنا رہا ہے،
وہ کہہ رہا ہے
مجھی سے جگمگ،
یہ جگمگاہٹ جگہ جگہ ہے
میں سوچتا ہوں
کرم خدا کا،
ہر اک چمک میں چمک رہا ہے
وہ کہہ رہا ہے
میں مشتعل ہوں،
تباہ کر دوں گا سوچ کر ہی
میں سوچتا ہوں،
بغیر مرضی کے اس خدا کی،
نہیں یہ ممکن نہیں ہے کچھ بھی
وہ کہہ رہا ہے
میں حکمراں ہوں،
تمام قوت کا مجموعہ ہوں،
میں سوچتا ہوں،
کسی کے کہنے میں کیا رکھا ہے،
کوئی بکا تو وہ بس بکا ہے،
(C) :
Aleem Tahir.
________________________________
نثری نظم...نمبر:14.....
علیم طاہر
آخر تمہارا میرا
کوئی جھگڑا نہیں تھا
تو پھر
تم نے جدا ہونے کا فیصلہ کیوں کر لیا
برسوں سے ایک ساتھ جی رہے تھے
آخر برسوں بعد ؟؟؟
اچانک یہ فیصلہ!
مجھے تذ بذ ب میں مبتلا کر رہا ہے
مرا دل جدا ہونے سے ڈر رہا ہے
کچھ تو بو لو
جتنے راز دل میں چھپے ہوئے ہیں
انہیں کھولو
کب تک مرے روبرو چپ چاپ بیٹھو گی
مری قوّتِ برداشت ختم ہونے سے پہلے
یا مجھ پر مری برانگیختگی غالب آ نے سے پہلے
مجھے جواب دو
ہوٹل میں تشریف فرما چند کپل
ہماری جانب متوجہِ ہو رہے ہیں
سنو مری جان
اپنی مجبوری بیان کر دو
مرا جینا بہت مشکل ہو گیا ہے
آسان کر دو
اتنا سنتے ہی
اس کی آنکھوں نے اشکوں کے دو موٹے قطرے اگل دیے
وہ بغیر کچھ کہے
اپنی سیٹ سے اٹھی اور ہوٹل سے باہر جانے لگی
میں ساکت ہو کر اسے دیکھتا رہا
ذہن ماؤف ہو چکا تھا
سمجھنے کی شکتی کھو چکا تھا
A nasri nazm....no.14...Aleem Tahir..
________________________________
نظمِ معرّ یٰ
....نمبر....15......
علیم طاہر......
(مجبوری)
ہم ایک دوسرے کا انتخاب نہیں
مجبوری ہیں
اگر انتخاب ہوتے
تو آپس میں اختلاف نہ ہوتا
کوئی کسی کے خلاف نہ ہوتا
ہم
ایک دوسرے کی
مجبوری ہیں
ایک دوسرے کو
برداشت کرتے ہیں
زندہ ہیں مگر
روز مرتے ہیں
A nazm e muarra..no.15.... by...Aleem Tahir...
________________________________
نثری نظم....
نمبر..16...
علیم طاہر....
کاش...... ..........
متعصب رویّوں نے
انسانی مزاجوں کو تبدیل کر دیا
اگر تم
دشمن روّیہ نہ رکھتے
تو مجھ میں یقینٍا ٍ
دوست رویّہ مجروح نہ ہوتا
مرا دل خون کے آنسو نہ روتا
کاش ایسا ہو جائے
تم مرے دل کو دل سے سمجھو
پھر ابھریں گے نئے نئے رنگ
امن
شانتی
یکجہتی
ان رنگوں کی آمیزش سے
ایک نیا ہی رنگ بنے گا
جیون جس کے سنگ ڈھلے گا
A nasri nazm....no16...by....Aleem Tahir.....
_______________________________
نثری نظم:
"دل نہیں مانتا ہے"
نمبر :17
کون کہتا ہے کہ تم مجھ سے جدا ہو
دل نہیں مانتا ہے
مگر یہ سچ ہے
کہ میں تنہا ہوں
اک ویران سی دنیا ہوں
جہاں خموشی بھی بولتی ہے
جہاں چیختے ہیں سنّاٹے بھی
جہاں خود کی صدائیں گونجتی ہیں
شور تھمتا نہیں کسی صورت
مرا وجود چلتی پھرتی اک مورت
میں خود سے خود ہی گمشدہ ہوں
حسرت ہوں محّبت ہوں رتجگا ہوں
کون کہتا ہے کہ تم مجھ سے جدا ہو
دل نہیں مانتا ہے
A nasari nazm...no.17 by....Aleem Tahir.
________________________________
(نثری نظم)
(کوئی منزل ضرور ملنی ہے )
نمبر.... 18..علیم طاہر
کوئی اپنا نہیں ملا مجھ کو
اس جہاں میں نہیں کوئی میرا
سارے دکھ میں نے تنہا کاٹے ہے
کوئی بھی ہمسفر نہیں میرا
دور تک کوئی سکھ نہیں ملتا
میرے تلوے لہو لہان ہوئے
پیچھے اپنے نقوش چھوڑوں میں
تنہا چلتا ہوں اپنی راہوں پر
کوئی منزل ضرور ملنی ہے
Mobile no.
09623327923.
A nasari nazm no.18....Aleem Tahir.
________________________________
( نثری نظم) نمبر :19
"ہم سب قیدی ہیں "
علیم طاہر
اپنی انائیں
خونخوار بھیڑیوں کی طرح ہیں
ہم سب ایک دوسرے کے
شکاری اور شکار ہیں
ایک دوسرے کو روندتے ہوئے
خاموش اندھیروں میں
تسکین پاتے ہیں
ہم انسان نما درندے ہیں
جن کی درندگی کے چنگل میں
سمۓ پھنسا ہوا ہے
مگر ٹھہرو ! یہ سراسر جھوٹ ہے
سچ یہ ہے کہ سمۓ کے حصار میں
ہم سب قیدی ہیں
علیم طاہر
C: Nasri nazm
"hum sab qaidee hain"
By
Aleem Tahir
Email id:
aleemtahir12@gmail.com.
________________________________
نثری نظم
نمبر....20
.....علیم طاہر.....
"ممبئی "
اے ممبئی!
سلام تیری عظمتوں کو
کہ تیری ہمّت کی داد دیتی ہے میرے چہرے کی دونوں آنکھیں
غموں کو سہہ کر تُو اپنی راہوں پہ سینہ تانے گزر رہی ہے
پٹریوں پر دوڑتے ہیں ریل کے چکّے
خوشبوؤں سی بکھری ہے زندگی فضاؤں میں
ہر فٹ پاتھ کے لبوں پر
ہمدردیوں کی دی ہوئی مسکراہٹیں ہیں
ماتھے پر بل لیے
دہشت گردی
حیران پریشان ہے
(C): A nasri nazm...no..20 ...
By:
Aleem Tahir.
________________________________
(C): kitaab ka Naam:
" Soch Canvas "
(Bees Nasri Nazmon ka majmua)
Shayer:Aleem Tahir
Email id: aleemtahir12@gmail.com
Mobile no.9623327923.
________________________________
افسانہ برائے "عالمی ایونٹ۔ اکیسویں صدی کے افسانے"
افسانہ نمبر75
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرگِ مفاجات
*************
افضال انصاری
مالیگاؤں، مہاراشٹر
انڈیا
بینر ( محمد ابصار )
"ڈاکٹر صاب میری بچی ٹھیک تو ہوجائے گی نا؟؟" ڈاکٹر جمشید مجاور نے آواز سن کر سر اٹھایا___وہ ایک ادھیڑ عمر کا، زرد چہرے اور دبلے پتلے بدن والا شخص تھا، کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جن پر زندگی اپنی سختیوں اور سنگینیوں کے انمٹ نقوش چھوڑ دیتی ہے__ اور کچھ چہرے کیوں؟__اکثر چہرے تو ایسے ہی ہوتے ہیں__یہ وہ چہرے ہوتے ہیں جو اپنی عمر سے دگنی رفتار میں آگے کی جانب بھاگتے ہیں___یہ چہرہ بھی انہیں چہروں میں سے ایک تھا____اس شخص کے چہرے پر سوال، یاس، امید، حسرت ساری چیزیں یکجا نظر آ رہی تھیں___ڈاکٹر جمشید مجاور نے مسکراتے ہوئے کہا ارے بھائی آپ بیٹھیں تو پہلے ، ہاں اب مجھے بتائیں کہ آپ کی بچی کو ہوا کیا ہے؟؟
وہ شخص سکڑا سمٹا ڈاکٹر کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگا "ڈاکٹر صاب دو ہفتوں سے میری بچی پیٹ کے شدید درد سے پریشان ہے__نا وہ کھا پاتی ہے__اور نا ہی رات میں سکون سے سو پاتی ہے__دو ہفتوں میں ہی اس کا وزن آدھا ہوگیا ہے__پڑوس کے حکیم صاب سے روزانہ دوائی لا کر کھلا رہا ہوں مگر تکلیف بڑھتی ہی جا رہی ہے___ڈاکٹر جمشید مجاور اس شخص کی باتیں سنتے ہوئے بچی کی طرف متوجہ ہوئے__ بچی کی عمر بمشکل گیارہ، بارہ برس رہی ہوگی__اس بچی کا چہرہ اتنا پیارا، خوبصورت اور معصوم تھا کہ ڈاکٹر مجاور کو بے ساختہ اس بچی پر پیار آگیا___اور وہ تھی بھی سلیقہ مند، ایسے گھرانوں کی بچیوں کو مائیں سلیقے کے سوا اور دے بھی کیا سکتی ہیں___سادہ سا لباس___بالوں میں تیل لگا کر چوٹی پڑی ہوئی__کانوں میں جھمکے جو اسے اور پیارا بنا رہے تھے____بیٹا آپ اس کاؤچ پر لیٹ جائیں ڈاکٹر مجاور نے بچی سے کہا___بچی ایک ہلکی سی کراہ کے ساتھ اٹھی اور کاؤچ پر لیٹ گئ_____ڈاکٹر جمشید مجاور نے بچی کی جانچ کرتے ہوئے پوچھا،، بیٹا آپ کا نام کیا ہے___بچی نے آہستہ سی آواز میں کہا "بانو"،
سچ ہی تو ہے غریب بچوں کے نام بھی عموما غریب ہی ہوتے ہیں، ڈاکٹر مجاور جانچ کرتے ہوئے سوچنے لگے___بیٹے بانو اب آپ نیچے اتر کر کرسی پر بیٹھ سکتی ہیں__بانو آہستہ سے نیچے اتری اور کرسی پر بیٹھ گئی____ہاں بھائی بچی کی جانچ تو میں نے کر لی ہے اور قریب قریب مرض بھی سمجھ میں آ گیا ہے__ لیکن پھر بھی ہمیں کچھ ضروری ٹیسٹ کروانے ہوں گے وہ میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کل آپ آتے وقت سارے ٹیسٹ کرواتے ہوئے آئیں____لیکن ڈاکٹر صاب میری بچی کو ہوا کیا ہے؟__یہ ٹھیک تو ہو جائے گی نا؟__ اس شخص پھر وہی سوال کیا جو وہ پہلے پوچھ چکا تھا___ارے ہماری گڑیا رانی بالکل ٹھیک ہو جائے گی، بس ایک چھوٹا سا آپریشن کرنا ہوگا اور بیماری ختم سمجھئیے __ڈاکٹر مجاور نے رسان سے سمجھایا___آپ بے فکر ہو کر جائیں کل آپ یہ سارے ٹیسٹ کروا لیں اور بچی کو اسپتال میں داخل کر دیں___وہ شخص اٹھا اور سلام کرتے ہوئے بچی کو لے کر چلا گیا____دوسرے روز وہ شخص پھر ڈاکٹر مجاور کے سامنے بیٹھا ہوا تھا__اس نے ساری رپورٹس ڈاکٹر مجاور کے ٹیبل پر رکھ دیں ___ڈاکٹر مجاور نے ساری رپورٹس کو بغور دیکھنے کے بعد اپنے اسسٹنٹ کو بلایا اور کچھ ہدایات دیں___پھر اس شخص کی طرف پلٹے اور کہا آج رات میں آپ کی بچی کا آدھے گھنٹے کا آپریشن ہوگا، دو ہفتوں میں بچی مکمل صحتیاب ہو جائے گی___بانو کا کامیاب آپریشن ہوا____دسویں دن جب بچی کو ڈسچارج کرنا تھا____وہ دونوں پھر ڈاکٹر مجاور کے کیبن میں موجود تھے___ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے بانو سے سوال کیا بیٹے اب آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟ بانو نے شرماتے ہوئے کہا اب تکلیف محسوس نہیں ہو رہی___ڈاکٹر جمشید مجاور کی نظریں بانو کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں__ انھیں بانو کا چہرہ آج کچھ ادھورا ادھورا سا لگ رہا تھا___کیا کمی تھی وہ سوچنے لگے ___کچھ تو کمی تھی__ جو ڈاکٹر مجاور کو کھٹک رہی تھی____اچانک ڈاکٹر مجاور کے ذہن میں جھماکا ہوا___اور ان کی نگاہیں بانو کے کان کی طرف گئیں___وہاں وہ جھمکے نہیں تھے جو انھوں نے پہلے روز دیکھے تھے__اور ٹیبل پر اسپتال کا بل اور بل کی ساری رقم رکھی ہوئی تھی___زندگی میں پہلی بار ڈاکٹر جمشید مجاور کو محسوس ہوا ٹیبل پر روپئے نہیں کسی نے بچھو لا کر رکھ دئیے ہیں...
************
*دو جنوری کو اسکس ہال میں شب انشائیہ ہر ماہ پہلے منگل کو ہوگی نششت*
*شہر عزیز مالیگاؤں شروع سے ہی ادبی لحاظ سے بڑا ذرخیز رہا ہے ہر دور میں ادب کی ہر صنف پر یہاں طبع آزمائی کی گئی مالیگاؤں کے اکابر ادباء و شعراء نے عالم گیر شہرت حاصل کی وہیں اردو کے حوالے سے بھی صنعتی شہےمر میں کافی بیداری رہتی ہے اکثر وبیشتر مشاعروں شعری نشستوں کا اہتمام ہوتا ہے وہیں نثری وافسانوی نشستیں بھی متواتر انعقاد پذیر ہوتی ہیں زمانے کے بدلتے منظر نامے اور مصروف ترین زندگی کی کشمکش میں لوگ ذوق کی تسکین کے لئے ظریفانہ تخلیقات کے بھی متلاشی نظر آتے ہیں طنز ومزاح انشائیہ ہمیشہ شہر میں رغبت کا باعث رہا ہے ایسے میں شب انشائیہ کا انعقاد بھی ضروری سمجھا جارہا ہے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے زندہ دلان مالیگاؤں اور اسکس لائبریری کے توسط سے اس کسک کو محسوس کرتے ہوئے لوگوں میں ژندہ دلی کا موقع فراہم کرنے کے لئے اندوہ شکن لمحات کی فراہمی کے لیے ذمہ داران نے ہر ماہ کے پہلے منگل کی رات اسکس ہال میں شب انشائیہ کے انعقاد کا عزم ظاہر کیا ہے اس سلسلے کی پہلی نشست دو جنوری بروز منگل کو اسکس ہال میں منعقد کی گئی ہے ادبی و تحقیقی با ذوق سامعین اساتذہ اور ریسرچر طلباء سے شرکت کی خصوصی گزارش کی گئی ہے واضح رہے کہ ژندہ دلان مالیگاؤں کے توسط سے اس صنف سے متعلق کافی کار آمد کوشش کی جاچکی ہے جو بڑی مقبولیت کا باعث بھی رہی ہے شہر میں ادبی ذوق کو پروان چڑھانے کے لئے کی گئی اس کوشش پر پیشگی اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے*