موہن تھیٹر پچھلے دنوں خبروں میں چھایا ہوا تھا۔یہ مالیگاؤں کا ایک سنگل اسکرین سنیما ہے۔ یہاں ’ٹائیگر۳‘ کی نمائش کے دوران آتش بازی کی گئی تھی۔اس کا ویڈیو سوشل میڈیا پرگھوما اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے نیوز چینلوں کا ’مسالہ ‘بن گیا۔ غیرملکی ذرائع ابلاغ میں بھی یہ معاملہ گونجا۔ مٹھی بھر عاشقوں کی کارستانی جگ ہنسائی کا سبب بنتے دیکھ کراہل شہر کاخون بڑاکھولا۔ نجی محفلوں سے لے کر عام بیٹھکوں تک میں اس عمل پر ناراضگی کااظہار کیا گیا۔ سوشل میڈیا اور مقامی اخبارات کے ذریعہ خاطیوں کو خوب صلواتیں سنائی گئیں۔ لوگوں کا غصہ جائزبھی تھا۔کیونکہ ’’کرتا ایک ہے بھرتے سب ہیں‘‘ اب تک اس ’کارستانی‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ دو دن قبل ہی اس حوالے سے ایک رپورٹ نظر سے گزری۔ یہ دائیں بازوکے نیوزپورٹل نے شائع کی،جس میںموہن سنیما معاملہ کا جائزہ لیا گیا۔ بظاہر بحث کا موضوع’ فعل‘ نظرآتا ہے، لیکن سارا زور ’فاعل‘ سےمتعلق بیانیہ گھڑنے پر دیا گیا ہے۔ سینما ہال کی ہنگامہ آرائی، بدنظمی، گندگی کا سارا ٹھیکرا ایک قوم سے تعلق رکھنے والے فلم بینوں کے سرپھوڑدیا گیا۔
عمومی بات کی جائے تو گاؤں اورشہروں کے سنگل اسکرین تھیٹروں کاحال تقریباً ایک جیسا ہوتاہے۔پان،گٹکھا،تمباکو کھانے والے فلم بین ہر جگہ ہوتےہیں، جوسینما ہال کی کرسیوں، دیواروں پرتجریدی آرٹ کے نمونے چھوڑ جاتے ہیں۔ چھوٹے گاؤںاورشہروں کے سنیما گھروں میں تو بیڑی اور سگریٹ کے چھلّے و مرغولے بھی اڑتے ہیں۔ادھر آپ سنیما ہال میں قدم رکھیں اور اُدھر ’بھپکا‘ آپکا استقبال کرتا ہے۔ ایسے تھیٹروں میں ہنگامہ آرائی اور ہلڑبازی بھی تقریباً یکساں ہی ہوتی ہے۔ہیرو کی ’انٹری‘ پر سیٹیاں بھی گونجتی ہیں، اچھے مکالموں پر تالیاں بھی بجتی ہیں، اور ویلن کی شہ زوری پر گالیاں بھی نکلتی ہیں۔
بات فلم بینی کی چل نکلی ہے تو لگے ہاتھوں کچھ باتیں کرلیتےہیں۔مالیگاؤں میں تقریباً سارےہی سنیما ہال سنگل اسکرین ہیں۔ یہاں فلم بینی کے طور طریقے کچھ ہٹ کر ہیں۔اگر آپ نئی فلم دیکھنے گئے ہیں تو پھر ٹکٹ خریدنے سے لے کر داخلہ پانے تک کا مرحلہ ایڈونچر سے کم نہیں ہوتا۔قطار کی دھکم پیل اور کھینچ تان سے جوجھ کر اگر آپ ٹکٹ پاجائیں تو سکون کا سانس نہ لیں۔ کیونکہ اب باری ہے ’بھرتی ‘کی یعنی سنیما ہال میں داخلے کی ۔ یہاں سیٹ پہلے آؤ پہلے پاؤ کے قانون سے ملتی ہے۔ یعنی آپ نے گھستے ہی جتنی سیٹوں پر قبضہ جمالیا وہ آپ کی ہوگئیں۔ اس کیلئے چپل سے’ریزرو سیٹ‘ کی تختی کا کام لیا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ کچھ سیانے تھیٹر میں قدم رکھتے ہی مطلوبہ حصے کی قطار کی ایک سیٹ پر اپنی ایک چپل دھرتےہیں اور دوڑکر دوسرے سرے کی کرسی پر کھڑے ہوجاتے ہیں گویا کہ قطار فتح کرلی ہے۔ جو اس مشقت کی سکت نہیں رکھتا وہ اپنی من پسند جگہ نہیں پاتا۔فلم نئی ہو یا پرانی، آخری شو ہنگامہ خیز ہوتا ہے۔ یہ باتیں تحریر کرتے ہوئے مجھے زمانہ طالب علمی کا ایک تجربہ یا د آگیا۔ جیوتی پر ’پردیس‘ لگی ہوئی تھی۔اس تھیٹر کے ٹکٹ کے نرخ سب سےکم ہوتے تھے، سو ہم یاردوست پہنچ گئے۔ شو کے دوران خوب ہنگامہ آرائی رہی۔ شاہ رخ کے مداحوں کی ہمت اتنی بڑھی کہ انہوں نے ہال میں پٹاخے پھوڑدئیے۔ تھیٹر مالک نے پولیس بلالی ۔ شوروک کر مشتبہ افراد کی ’اٹھان‘ کی گئی ۔ بڑے بالوں والے سارے فلم بینوں کو باہر لیجایا گیا۔ ہم بھی دھرلئے گئے،حال یہ تھا کہ کاٹو تو خون نہیں۔ ایک کانسٹبل نے سب کے ہاتھ سونگھے اور تلاشی لی۔ہمیں چھٹکارا تو مل گیا لیکن حولدار نے انتباہ دیاکہ ’’جاؤ بیٹھو لیکن اب پٹاخہ پھوٹا تو سب کو اندرکردوں گا‘‘ حوالات کے ڈر اور گھر پر کٹائی کے خوف نے ہمیں باہر کا راستہ دکھایا ۔پھر وہی ہوا جان بچی سو لاکھوں پائے خیر سے بدھو گھر کو آئے۔
-اظہر مرزا
_________
افسانہ *آس*
قلمکار :- نورالدین نور (مالیگاؤں ، مہاراشٹر ،انڈیا)
آپ آگۓ! کیسا رہا جی آپکا انٹرویو ؟؟ جیسے ہی حسن گھر میں داخل ہوا اسکی رفیقہ حیات نمرا نے سوال کیا - تھکا ماندہ حسن اپنی وفا شعار بیوی کے لبوں پر رقص کرتی مسکراہٹ میں کھو گیا - کچھ توقف کے بعد پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ، ہممم اچھا ہی رہا، انہوں نے کہا ہے کہ وہ رابطہ کریں گے - ابھی اور بھی امیدوار انٹرویو کیلئے باقی ہیں - کہتے ہوئے وہ پاس رکھی نیم خستہ حال کرسی پر ڈھیر ہوگیا - آنکھیں موند کر اپنی اکھڑی سانسیں درست کرنے لگا - بچّے اسکول سے نہیں آۓ ابھی ؟ اس نے پوچھا ، وقت ہو چلا ہے آتے ہی ہوں گے کہتے ہوئے نمرا نے اسے شربت کا گلاس تھما دیا - اس نے مسکراتی ہوئی نگاہوں سے اپنی بیوی کی ستائش کی اور شربت پینے لگا - شربت کے ہر ایک گھونٹ کے ساتھ تلخ غموں کو یکے بعد دیگرے نگلتا رہا - نمرا باورچی خانے میں مصروف ہوگئی اور وہ تصورات کی وادی میں کھو گیا - صبح کے انٹرویو کی یادوں نے شربت کے ذائقہ میں تلخی گھول دی تھی - شربت ختم کرکے اس نے گلاس میز پر رکھا اور چند ساعتوں میں ہی وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا -
حسن معاشی طور پر ایک نچلے درمیانی طبقے کا فرد تھا - شریف النفس تھا ، عمر تقریباً 36 سال ، آنکھوں پر عینک جازب نظر لگتی تھی - متانت و سنجیدگی ہمہ وقت چہرے سے جھلکتی تھی - متناسب و پرکشش داڑھی جسمیں سیاہ و سفید بالوں کا سنگم ، کانوں کے اطراف ہلکی سی چاندنی اور جھکے ہوئے شانے اسکی بڑھتی عمر کی چغلی کھاتے تھے - یوں وہ اپنی عمر سے زیادہ کا دکھائی دیتا تھا - اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشے سے معلم تھا - گزشتہ 9 برسوں سے مختلف نجی اسکولوں میں خدمات انجام دیتا چلا آرہا تھا - محلے کے معتبر افراد میں اسکا شمار ہوتا تھا - معاملات کے حل کا وہ ایک ایسا دریا تھا جس سے لوگ خوب فیض اٹھاتے تھے -
بچوں کی اسکول سے واپسی اور سلام کی آواز پر خوابیدہ حسن بیدار ہوا- بچے ہی اسکی کل دولت تھے - بیٹی شمائلہ ہفتم جماعت میں تھی اور بیٹا انذر جماعت چہارم میں تھا - دونوں بچے سرکاری اسکول میں زیرتعلیم تھے - اس نے بیدار ہوتے ہی برجوش انداز میں بچوں کے سلام کا جواب دیا - انھیں گلے دے لگا کر دعائیں دیں - وہ جب بھی اپنے بچوں کے معصوم چمکتے دمکتے چہروں کو دیکھتا تو یکسر اپنے سارے غم بھول جاتا تھا - سورج شفق کی لالی کو سپرد آسماں کر کے مغرب کی سنگلاخ پہاڑیوں میں غائب ہو چکا تھا - کچھ دیر بعد موذن صاحب کی صداۓ اللہ اکبر سے سماں گونج اٹھا - وہ فوراً اپنا حلیہ درست کرکے انذر کو اپنے ہمراہ لیۓ تیز قدموں سے مسجد کی جانب روانہ ہوا- فرض نماز کے بعد وہ طویل دعا میں مصروف رہا ، اسکی نیم روشن آنکھیں نمناک تھیں - دعا ختم کرکے ایک یقین کے ساتھ سنت نماز ادا کرنے کیلئے کھڑا ہوگیا - اچانک ہی وہ غش کھا کر کٹی پتنگ کی مانند لہرا کر گر پڑا - بغل میں ہی محلے کے دستگیر چاچا کا جواں سال بیٹا فارق تسبیح میں مشغول تھا - حسن فارق کے شانوں پر ہی گرا تھا اسی وجہ سے اسے زیادہ چوٹ نہ آئی - فارق نے اسے سنبھال کر لٹا دیا اور اسکے بدن کو جنبش دیتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں پکارا ، کیا ہوا حسن بھائی ؟وہ تو حواس سے بیگانہ ہوا جارہا تھا اسے فارق کی آواز دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی - تھوڑی دیر میں وہ مکمل بے ہوش ہوچکا تھا - گرنے کی آواز اور فارق کی پکار سن دوسرے مصلیان بھی جمع ہوگئے - دستگیر چاچا بھی نماز سے فارغ ہوچکے تھے فوراً جائے وقوعہ پر پہنچے - چند افراد اٹھا کر اسے مسجد سے باہر لے آۓ اور آٹو رکشا کے ذریعے قریب کے اسپتال لیجایا گیا - تھوڑے علاج و معالجے کے بعداسے ہوش آیا - خود کو اجنبی جگہ پاکر ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا - دستگیر چاچا نے فوراً تھام لیا اور دوبارہ لٹادیا - نرمی سے کہا لیٹے رہو بیٹا ، اب کیسا لگ رہا ہے تمھیں ؟ اس نے چاچا کے سوال کو نظر انداز کر کے پوچھا ، میں یہاں کیسے آپہنچا ؟میں تو مسجد.... اور انذر کہاں ہے ؟ دستگیر چاچا اور فارق نے واقعہ بتایا - کچھ دیر رک کر دستگیر چاچا نے پوچھا ، کیا بات ہے حسن ابھی تو کچھ خاص عمر بھی نہیں اور تمھیں یوں غش آنے لگے ؟ اسکے کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گۓ - ہونٹ کپکپا کر رہ گئے-مگر الفاظ ندارد ہاں آنکھوں نے بہت کچھ کہہ دیا - دو باریک سی نہریں آنکھوں سے نکل کر رخساروں کے نشیب وفراز سے گزرتی ہوئی قمیص کے کالر میں جذب ہو گئیں - چاچا نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا - وہ کچھ سوچنے لگے پھراسکی کی جانب متوجہ ہوۓ تو اسکی آنکھوں میں التجا اور چہرے پر کئی سوالات نظر آۓ - چاچا نے کہا کوئی کی خاص بات نہیں ہے بیٹا ڈاکٹر نے کہا ہے تمھیں آرام کرنے کی ضرورت ہے - نرس نے ڈاکٹر کے آنے کی اطلاع دی - دستگیر چاچا دیر تک ڈاکٹر کی کیبن میں مصروف رہے - باہر نکلے تو پیشانی پر گہری تشویش کے آثار تھے- یہی سوال بار بار ذہن میں اٹھتا کہ آخر نروس بریک ڈاون کیوں ہوا ؟حسن کو کیا صدمہ ہوا ہے ؟؟؟
اسی ادھیڑ بن میں حسن کو ڈسچارج کرواکر گھر لے آۓ تھے - حالانکہ فارق نے اطلاع دے دی تھی کہ حسن بالکل ٹھیک ہے مگر جب تک وہ گھر نہیں پہنچا وہ بے قرار رہی - چند گھنٹے اسے صدیوں کی مانند لگے - رات گہری ہوتی جارہی تھی - چاند اپنے پورے شباب پر تھا - اپنے شوہر کو دیکھتے ہی نمرا کا چہرا دودھیا چاندنی میں چاند سے بھی زیادہ روشن ہو گیا - حسن کو گھر میں پہنچا کر دستگیر چاچا نے اسے زیادہ سے زیادہ آرام کرنے اور سخت غم و غصہ سے بچنے کا مشورہ دیا - اور اپنے گھر روانہ ہوگئے -
رات خیریت سے گزری - دواؤں کے زیراثر وہ دیر تک سوتا رہا - دن چڑھے بیدار ہوا تو بچے اسکول جاچکے تھے - ناشتہ کے بعد نمرا نے اسکے آگے اخبار رکھ دیا اور ایک اشتہار کی جانب مسکراتے ہوئے اشارہ کیا -
جلی حروف میں لکھا تھا
*فوری ضرورت استاذ*
سن رائز ہائی اسکول میں ایک قابل اور تجربہ کار استاز کی ضرورت ہے - امیدوار کا انگریزی زبان و ادب اور گرامر سکھانے میں ماہر ہونا لازمی ہے
مکمل سرکاری اسامی*
*نوٹ :- قابلیت اور تجربہ کو ترجیع دی جائے گی*
اشتہار پڑھتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا - وہ تصورات کے لامتناہی سمندر کی گہرائی میں غرق ہوگیا - گزشتہ روز امداد قوم ہائی اسکول کے انٹرویو کی ایک فلم اسکے تصورات میں چلنے لگی - اپنے چہیتے اساتذہ کو انٹرویو لینے والی ٹیم میں دیکھ کر وہ کتنا خوش ہوا تھا - انہوں نے ہمیشہ ایمانداری اور جفاکشی کا درس سکھایا تھا - مگر - انٹرویو کے وقت دستاویزات کی فائل ایک جانب رکھ کر بس ایک ہی سوال پوچھا تھا - آپ کتنا دے سکتے ہیں؟ وہ تو سکتے کی حالت میں استاذ محترم کو بس دیکھتا رہ گیا تھا - اسے خاموش دیکھ کر ان میں سے ایک نے کہا ، دیکھۓ حسن سر آپ اگر دس لاکھ دے سکتے ہیں تو ٹھیک ہے- آپکی قابلیت کو دیکھ کر چئرمین صاحب راضی ہوگئے ورنہ کئی امیدوار اس سے زیادہ پر بھی تیار ہیں -وہ ابتداء سے ہی خاموش تھا - بنا کچھ کہے اپنی دستاویزات کی فائل اٹھائی اور ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح بوجھل قدموں آفس سے نکل آیا تھا اور گھر آتے ہی دستاویزات کی فائل کوڑے دان میں پھنک دی تھی - وہ تصورات میں کھویا ہوا تھا اچانک زور سے بولنے لگا ، نہیں سر ، میں نہیں دے سکتا ، کہاں میری ماہانہ دس ہزار تنخواہ اور کہاں دس لاکھ، ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا - اسکے ہذیانی قہقہے بلند ہوۓ - اچانک بالکل خاموش ہوگیا پھر بولا ، سر یہ آپ کہہ رہے ہیں - آپ تو- نہیں - مگر کیسے - ہاں ہاں آج کل تو سبھی کے ہاتھ میز کے نیچے دراز ہوتے ہیں بیچارے معزز افراد علی الاعلان تو کہہ نہیں سکتے - قابلیت ، ایمانداری ، جفاکشی سب کتابی باتیں ہو کر رہ گئی ہیں-اسکی تیز آواز سن کر نمرا دوڑتی ہوئی آئی ، کئی آوازیں دیں لیکن وہ اب بھی ہذیانی کیفیت میں ہی تھا - مسلسل کہے جارہا تھا بس اب اور نہیں - بہت ہو چکا اب اور کوئی انٹرویو نہیں دینا- بالکل بھی نہیں- نمرا کا گبھراہٹ کے مارے برا حال تھا اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کرے - اس نے حسن شانوں کو پکڑ کر زور جھنجھوڑ دیا اور چنیخ پڑی حسن ....- حسن ہذیانی کیفیت سے نکل آیا - سراسیمہ نمرا سامنے کھڑی کانپ رہی تھی - لپک کر اسے بانہوں میں بھر لیا ، کچھ دیر دونوں ایکدوسرے کے شانوں کو بھگوتے رہے اور پھر نارمل ہوگۓ - نمرا باورچی خانے میں چلی گئی - تب ہی بچے اسکول سے لوٹ آۓ - انھیں دیکھ کر حسن کی بانچھیں کھل اٹھیں - بچوں کو گلے سے لگایا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خوب پیار کرتا رہا - کچھ دیر گہری سوچ میں گم رہا پھر آہستہ سے اٹھا اور کوڑے دان کی جانب چل پڑا
_-_____________
بھائی دانیال طریر اور گوہر گھرانہ سے ایک روحانی لگاؤ رہا ہے اسی گھرانے کی قندیل بدر کے جنم دن پر سلامتی کی دعائیں اور ان ہی کی ایک غزل پیش خدمت ہے ☂️بینر رنگ کینوس # Zara Rizwan
اُجلی اُجلی دُھلی ہوئی لڑکی
چاندنی میں رچی ہوئی لڑکی
رقص میں ہے کئی زمانوں سے
چاک پر اک دھری ہوئی لڑکی
خود میں سمٹی ہوئی اکیلی، چپ
ڈائری میں بسی ہوئی لڑکی
آگ سے تو بنا ہوا لڑکا
اور مَیں جَل سے بنی ہوئی لڑکی
تجھ کو کاغذ پہ کون لکھے گا
بادلوں پر لکھی ہوئی لڑکی
اپنی پلکوں کی ایک جنبش سے
روح کھنگالتی ہوئی لڑکی
دھند اوڑھے ہوئے خلاؤں میں
بے خبر تیرتی ہوئی لڑکی
رات کو دیکھ گھپ اندھیرے میں
جگنوؤں سے گھِری ہوئی لڑکی
تُو اگر دیکھ لے تو جل جائے
اوس میں بھیگتی ہوئی لڑکی
روز منظر نئے بناتی ہے
شاعری پھانکتی ہوئی لڑکی
قندیل بدر
_________
بدر
کیا تم جانتے ہو
بدر کو
ہاں بدر
بدر بن مغیرہ
پہاڑوں میں رہنے والا
عقاب ۔
جس نے مٹتے ہوئے
اندلس کو
ہر ممکن کوشش کی
سمیٹنے کی ۔
اور پھر شہید ہوگیا ۔
راہ حق میں ۔
اور چھوڑ گیا
یوسف کو
جو اپنے باپ کی طرح
مرد مومن تھا ۔
میں بھی اس دور
کے بدر بن مغیرہ
کی تلاش میں
ہوں ۔
جس کا خون
شامل ہو
اس لشکر میں
جو بیت المقدس
کی طرف کوچ کرے ۔
از - صدف جمال