آپ بنی اسرائیل کے ایک طاقتور بادشاہ اور نبی تھے۔ طالوت کی طرف سے جالوت سے لڑے۔ آپ نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے آپ کو بادشاہی اور نبوت عطا کی۔
اللہ نے آپ پر زبور نازل کی۔
نہایت پر تاثیر آواز ’’ لحن داؤدی‘‘ بخشی اور پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ کے ساتھ تسبیح کریں۔
اللہ نے آپ کے فرزند سلیمان کو ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ قرآن نے آپ کو خلیفہ الارض بھی کہا ہے۔ آپ سے قبل یہ اعزاز صرف آدم کو حاصل تھا۔
قرآن مجید کی سورۃ بقرہ، نساء، مائدہ، انعام، اسرا، انبیا اور سبا میں آپ کا ذکر ہے۔
بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے تورات نازل کی جا چکی تھی لیکن قوم شریعتِ موسوی کو فراموش کر کے راہ ہدایت سے بھٹک چکی تھی اللہ نے راہِ ہدایت کے لیے زبور نازل فرمائی۔ زبور کے لغوی معنوں میں سے ایک پارے اور ٹکڑے کے ہیں۔ اس کا ایک مطلب شیر بھی ہے۔ زبور تختی یا کتاب لکھنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ عربی شاعری میں زبور اور زُبر کتابت، کتاب اور تختی کے معنوں میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو منتخب فرمایا اور انھیں زبور کا تحفہ عطا کیا۔ زبور، حمد و ثنائے کبریا سے معمور تھی۔ داؤد علیہ السلام کو ایک معجزہ یہ بھی عطا ہوا تھا کہ آپ مکمل زبور کی تلاوت اتنی مختصر مدت میں کر لیتے تھے کہ جتنی دیر میں گھوڑے پر زین کسی جاتی ہے۔ یوں آپ کا یہ معجزہ حرکتِ زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ داؤد علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا تھا کہ جب آپ تلاوت فرماتے تو اس لحن کے باعث پرندے و جانور تک وجد میں آجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ترتیل کا حکم عطا کیا تھا، جس کے باعث پہاڑ اور پرندے ان کی خوش الحان قرأت میں آواز سے آواز ملا کر پڑھنے پر مجبور ہو جاتے۔ آپ کی آواز میں وہ نغمگی، مٹھاس اور ایسا زیر و بم تھا کہ شجر و حجر سبھی کو متاثر کرتا تھا۔ ہوا میں اُڑتے ہوئے پرندے رُک جاتے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہاڑ بھی صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کرنے پر مامور تھے۔
کائنات کا ہر ذرہ حمد و ثنا کرتا ہے بے شک ہم نہ سمجھ سکیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک رات صحابیِ رسول ابو موسیٰ اشعری تلاوت کلام پاک کر رہے تھے۔ رسول کریمﷺ دیر تک سنتے رہے پھر خوش ہو کر فرمایا کہ آج مجھے لحن داؤد علیہ السلام کا کچھ حصہ مل گیا ہے۔ داؤد علیہ السلا م سے پہلے بنی اسرائیل میں یہ سلسلہ قائم تھا کہ حکومت ایک خاندان اور نبوت و رسالت کسی دوسرے خاندان سے وابستہ ہوتی تھی۔ داؤد علیہ السلام کے عہد میں یہودا کا گھرانا نبوت اور افراہم کا خاندان حکومت و سلطنت سے سرفراز تھا۔ شمویل کے عہد میں لوٹ مار اور حملہ آوروں کا زور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ بنی اسرائیل نے آپ علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ اپنے بیٹوں کی بجائے کہ وہ شرائط بادشاہت پر پورے نہیں اترتے، کسی اور کو بادشاہ مقرر کر دیجیے، جو ظالموں کا مقابلہ کرنے کی طاقت و قوت رکھتا ہو۔ بنی اسرائیل کے اصرار پر آپ نے طالوت نامی شخص کو بادشاہ مقرر کیا جو بہت بہادر و جری تھا جس نے نہایت سمجھداری سے مجاہدین کا انتخاب کیا جو دشمن سے مقابلہ کے لیے آگے بڑھا۔ ابھی مجاہدین میدانِ جنگ تک نہ پہنچے تھے کہ راستے میں ایک نہر آ گئی۔ گرمی کا موسم تھا، سبھی پیاسے ہو رہے تھے، طالوت نے اپنے مجاہدین کی صبر و برداشت اور ہمت و حوصلہ آزمانے کی خاطر حکم دیا کہ کوئی بھی ایک چلو سے زیادہ پانی نہ پیے۔ چند ایک کے سوا سبھی نے حکم عدولی کی۔
’’ پھر جب طالوت فوجیں لے کر باہر نکلا تو اس نے کہا یقیناً اللہ تم کو ایک نہر سے آزمائے گا جس نے اس کا پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جس نے اس کے پانی کو نہ چکھا وہ میرا ہے مگر ہاں جو اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ پھر ان میں سے سوائے چند کے سب نے اس سے پانی پی لیا۔ ‘‘
لشکر میدانِ جنگ پہنچا، وہ جنھوں نے جی بھر کر پانی پیا تھا، خود میں مقابلے کی طاقت نہ پا کر الگ ہو گئے کہ یہاں ان کا مقابلہ جالوت نامی بہت قوی و دیو ہیکل شخص سے تھا۔ لشکر بھی اس کا بہت بڑا تھا۔ طالوت کے مٹھی بھر مجاہدین کو جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی، جالوت اور اس کے لشکر سے خوفزدہ ہونا چاہیے تھا لیکن انھوں نے کہا کہ حق باطل پر غالب آتا رہا ہے۔ قلیل مجاہدین نے کفار کی کثیر تعداد پر فتح پائی ہے۔