شاید’مسلم قیادت‘ کو اب ہوش آجائے! کل تک جو بات مسلمانوں کے اندر ہی سے اٹھتی رہی ہے اب وہی بات دوسرے بھی کہنے لگے ہیں ۔ اور یہ کہنا نہ طنز کے طور پر ہے اور نہ ہی مذاق اڑانے کے لیے، بلکہ یہ کہنا ’ آئینہ دکھانے‘ کے لیے ہے ۔ شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھ بیر سنگھ بادل نے دہلی میں سکھ گروپوں سے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ چونکہ مسلمان متحد نہیں ہیں اور ان کے پاس کوئی سیاسی قیادت بھی نہیں ہے ، اس لیے ۱۸؍فیصد ہونے کے باوجود وہ بے اثر ہیں ، لیکن سکھ فرقہ صرف ۲فیصد ہے ، مگر وہ بااثر ہے کیونکہ وہ متحد بھی ہے اور اس کے پاس قیادت بھی ہے ۔ بادل نے صرف اتنا ہی نہیں کہا ، انہوں نے مسلمانوں کو ایک ایسا مشورہ بھی دیا ہے ، جو انہیں پہلے بھی دیا جاچکا ہے ، لیکن اس مشورے کو ہربار انہوں نے ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے اڑایا ہے ، یہ مشورہ کہ ’’اگر مسلمان متحد ہوجائیں تو انہیں کوئی نظر انداز نہیں کرسکے گا ۔‘‘ یہ ایک نیک مشورہ ہے ، اور یقیناً اس لیے دیا گیا ہے کہ انہیں مسلمانوں کے انتشار سے تکلیف پہنچتی ہے ۔ اب ایک سوال مسلمانوں کی سیاسی ،مذہبی اور سماجی قیادت سے ہے ، کیا کبھی انہیں بھی سکھ بیر سنگھ بادل کی طرح مسلمانوں کے انتشار سے تکلیف پہنچی ہے ؟ کیا کبھی انہوں نے بھی تنہائی میں بیٹھ کر سوچا ہے کہ مسلمانوں کی ناقدری اور بے اثری کی وجوہ کیا ہیں؟ کیا کبھی انہیں یہ احساس ہوا کہ مسلمان کیوں سیاسی طور پر بے اثر ہیں اور کیوں ۔ہر سیاسی پارٹی اور ہر سیاست داں انہیں جوتے کی نوک پر رکھتا ہے ؟ یقیناً کسی بھی مسلم رہنما نے ، چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی کبھی بھی مذکورہ سوالوں پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا ہوگا ۔ غور کرے بھی کیوں، ان کا تو کام ہی انتشار پھیلانا ہے ۔ اب یہ دیکھ لیں کہ اُس منبر سے ، جہاں سے اتحادواتفاق کا درس دیا جاتا رہا ہے ، انتشار کا درس دیا جاتا ہے ۔ مسلکی اختلافات کو ہوادی جاتی ہے اور باقاعدہ تشدد کے لیے لوگوں کو اکسایا جاتا ہے ۔ رہے سیاست داں تو وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں اور سیاسی آقاؤں کے تلوے چاٹنے کے لیے ’ قوم‘ کومختلف سیاسی خانوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔ حیرت ، افسوس اور قابلِ شرم بات تو یہ ہے کہ بعض مسلم سیاست داں اس قدر بے غیرت ہوگیے ہیں کہ اُن سیاسی جماعتوں کے لیے ووٹ مانگنے کو ’ باعثِ فخر‘ سمجھتے ہیں جن کے کارکنان فسادات کے دوران بلقیس بانو جیسی نہ جانے کتنی باعفت خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے مجرم ہیں اور جو مسجدوں ، مقبروں اور مسلم عمارتوں پر نہ دعوے کرنے میں پیچھے رہتے ہیں اور نہ ہی انہیں مسمار کرنے میں ۔ افسوس کہ مذہبی اور سیاسی قیادت آپس میں جوتم پیزار ہے ۔ اور اس کی مثالیں موجود ہیں ، جماعتیں اور تنظیمیں یہاں تک کہ شرعی ادارے بھی انتشار اور اختلافات کے سبب تقسیم ہوئے ہیں اور ان کے مکھیا اتحاد کے لیے آمادہ نہیں ہیں، کیونکہ انہیں یہ لگتا ہے کہ وہی اللہ کے سب سے برگزیدہ بندے ہیں ۔ بات اسی پر نہیں رکتی ، وہ شخصیات جو تعلیمی ، تحریکیں چلاتے ہیں اور وہ جو سماج اور معاشرے کی اصلاح کے جلسے منعقد کراتے ہیں ، اپنی اصلاح سے بے فکر ہیں ۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ مسلمان اور ان کے رہنما اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور انتشار کے اسباب میں اپنی ’حرکتوں‘ اور سرگرمیوں کا احساس کریں ، اور نئے جوش کے ساتھ اتحاد کے لیے کوشاں ہوں؟ یہ ضروری ہے ، یہ سکھ بیر سنگھ بادل ہی نہیں ان سارے غیر مسلموں کا ماننا ہے جو مسلمانوں کے تئیں کچھ درد رکھتے ہیں ۔*
سکھ دو فیصد ہوکر بھی متحد وکامیاب مگر اٹھارہ فی صد مسلمان غیر متحد
دسمبر 28, 2023