مالیگاؤں :(خیال اثر) مٹی ڈال کے تخلیق کار ڈاکٹر واصف یار کی مالیگاؤں آمد پر کوہ نور میوزک اکیڈمی کے ریکارڈنگ روم میں ایک منفرد اعزایہ شعری نششت کا انعقاد کیا گیا.سینئر صحافی و شاعر سلیم جھانگیر کی صدارت اور عمران راشد کی نظامت میں ڈاکٹر واصف یار کا نہ صرف عظیم الشان استقبال کیا گیا بلکہ ان کی خدمت میں گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی آمد کو اہالیان مالیگاؤں کے لئے خوش آئند قرار دیا گیا. ڈاکٹر شہروز خاور, صدیق اکبر, ندا فاروقی, خیال اثر, فرنود رومی, مشتاق احمد مشتاق, جیسے شعراء کے علاوہ صاحب اعزاز واصف یار اور صدر مجلس سلیم جھانگیر نے اپنے کلام بلاغت نظام سے سامعین کو محظوظ فرمایا. ڈاکٹر واصف یار کی جدید رجحانات و امکانات اور کروٹیں بدلتے ہوئے ردیف و قوافی پر مبنی غزلوں کو بے انتہا سراہا گیا. یاد رہے ڈاکٹر واصف یار کا تعلق دار السرور برہانپور جیسے تاریخی شہر سے ہے. موصوف کے والد محترم نصف صدی سے زائد عرصہ سے سال بہ سال ممتاز محل فیسٹول کے عنوان سے ممتاز کی یاد میں کل ہند مشاعرہ ,سیمنار و دیگر تقاریب کا باقائدگی سےانعقاد کرتے آئے ہیں. برسوں پہلے واصف یار کے والد محترم شہزادہ آصف خان غوری نے برہانپور جیسے تاریخی شہر اور ممتاز محل کے اولین مدفن کو ویران تاج محل جیسے تاریخی ورثے کی حیثیت سے کتابی شکل میں ترتیب دے کر اسے عام بھی کیا تھا. جس طرح واصف یار کے اجداد ماضی میں سونے چاندی کے ورق بنایا کرتے تھے بالکل اسی طرح آج موصوف لفظوں کی بنت
سے شعر و شاعری میں ناموری حاصل کرتے جارہے ہیں. واصف یار کے جد امجد موحوم اشرف پینٹر بھی اپنے وقت کے نامور مصور رہے ہیں. شاہکار فلم مغل اعظم کے مختلف رنگوں کے امتزاج سے قد آدم پوسٹر مہینوں تک سنیما گھر کی زینت بنا رہا تھا. مرحوم اشرف پینٹر کے تعلقات کے آصف, نوشاد, دلیپ کمار, شکیل بدایونی, حسرت جے پوری,محبوب جیسے نابغہ روزگار فنکاروں و قلمکاروں سے دیرنہ رہے ہیں بلکہ دلیپ کمار تو ان کے مکان پر قیام پذیر بھی ہوئے تھے. برہان پور میں ایک نمایاں شخصیت کے حامل یہ خانوادابرہانپور کے تاریخی ورثے کی بقاء کے لئے مسلسل سرگرداں رہا ہے.یہ شہزادہ آصف خان غوری ہی تھے جنھوں نے برہان پور میں موجود ملکہ ہندوستان ارجمند بانو المعروف ممتاز محل کااولین مدفن دریافت کرتے ہوئے دنیا کو چونکانے کا سبب بنے تھے. عجب بات ہے کہ شہزادہ آصف خان غوری اور ان کا خانوادہ چار سو پچاس سال سے زیادہ ممتاز محل کی بوڑھی روح کی زلف گرہ گیر کا عاشق دل گیر ہے. برہان پور کے ہی ایک شاعر شعور آشنا کے مطابق راتوں کے پر ہول سناٹوں میں ممتاز محل کے عشق میں مجنوں بنے آصف خان ممتاز محل کے ویران مدفن پر ممتاز محل ممتاز محل کی گردان پاگل پن کی حد کرتے دکھائی دیتے ہیں. مرحوم اشرف پینٹر کے خانوادے کا یہ جنون ہے کہ ختم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے .اس خانوادے کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ محمکہ آثار قدیمہ اس عظیم تاریخی ورثے کی حفاظت کے لئے متوجہ ہو چاہے وہ برہان پور کی کالے پتھروں سے تعمیر شدہ خوب صورت ترین جامع مسجد ہو یا شاہی قلعہ ممتاز محل یاحمام ہو یا پھر ممتاز محل کا اولین مدفن. وہ مدفن جو ممتاز محل کے مردہ جسم اور روح سے عاری ہے. برسوں پہلے شہزادہ آصف خان غوری نے حکومت وقت سے مطالبہ بھی کیا تھا کہ ممتاز محل کی آخری وصیت پر عمل پیرا ہو کر ان کے اولین مدفن پر تاج محل تعمیر کیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو آگرہ میں جمنا کے کنارے سنگ مرمر سے تعمیر کئے گئے تاج محل کو سائینس و جدید ٹیکنا لوجی کے ذریعے ٹکڑوں میں کاٹ کر برہان پور لائیں اور اسی مقام پر آن بان اور شان کے ساتھ استادہ کر دیا جائے جہاں پر ممتاز محل کو موت کے بعد پہلے دفن کیا گیا تھا نیز ایسا کرنے میں جو بھی خرچ درکار ہوگا اسے وہ خود برداشت کرنے کی قوت رکھتے ہیں. آج چند ماہ بعد ہی ممتاز محل فیسٹول اور ممتاز محل کی برسی قریب آرہی ہے اور ہندوستان کی فضاؤں میں شہزادہ آصف خان غوری کی ممتاز محل ممتاز محل کی گردان سنائی دے رہی ہے. ڈاکٹر واصف خان یار یا ان کا خاندان اسی مقام پر سکونت پذیر ہے جہاں شہنشاہ ہند شاہجہاں کے احباب خاص میں شامل عبدالرحیم خان خاناں کا قیام تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز برہان پور کے تاریخی مقامات اور ممتاز محل ہو. بہرحال جو بھی ہے واصف یار کی مالیگاؤں اہالیان شہر کے لئے خوش آئند ہے. موصوف کی شاعری کو مجلس میں تمام ہی شعراء اور سامعین نے بے پناہ داد و تحیسن سے نوازہ. اس موقع پر کوہ نور میوزک اکیڈمی کے روح رواں ابوالفصل جاوید نے بھی واصف یار کی خدمت میں گلہائے عقیدیت پیش کرتے ہوئے نہ صرف نیک خواہشات کا اظہار کیا بلکہ انھیں بار بار مالیگاؤں آنے کی پر خلوص دعوت دی.
🔴افسانہ
مہاجرین
. افسانہ نگار ۔۔ صـــــــادق اســــــــد
مالیگاؤں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات کی تاریکی میں ایک کشتی ساحل پر آکر رکی، ملاح نےکشتی سے تختی کولٹکا دیا، جس پراندھیرے کے سبب ہلکا ہلکاکچھ لکھا ہوا نظر آرہا تھا ،کچھ دیر بعد مختلف سمتوں سے کئی لوگ اپنے اپنے پریواروں کےساتھ آےَ، اور کشتی پر سوار ہونے لگے، جب سبھی لوگ کشتی میں بیٹھ گئے توملاح نے چپو سے زمین کو دھکیلنے کی کوشش کی، کشتی گہرے پانی کی طرف بڑھ گئی؛ ملاح اپنی مخصوص نششت پر بیٹھ گیا؛ اورچپو سےپانیوں کو چھلنی چھلنی کرنے لگا، عورتوں مردوں اور بچوں سے بھری کشتی سمندر پر ریگنے لگی؛ شیر خوار بچےاپنی ماوُں کے زانوں پر کچھ سو رہے تھے، اور کچھ پانیوں پر پڑ تے ہی چپو سے آنے والی چھپ چھپ کی آواز کوسن رہے تھے، ان کی مائیں چھپ چھپ کے ساتھ ساتھ اپنےبچوں کو تھپکیاں دینے لگیں؛ مسافروں کےدلوں سےوطن بدری کا دکھ ابھی کم بھی نہ ہو پایا تاکہ سمندر میں ارتعاش پیدا ہو نے لگا،سمندر کی موجیں اوپر اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے سےٹکرانے لگیں، ملاح نے سمندرکے ارادے کوبھانپ لیا؛ اورکشتی کا رخ موڑ کرلہروں کی سمت چلنے لگا؛ کبھی کبھی اونچی ہوتی ہوئیں لہرےکشتی سے ٹکرا جاتیں اورکشتی ہچکولےکھا نے لگتی، عورتوں اوربچوں کی دردناک چیخیں فضا میں گونجنےلگتیں، کشتی آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بہت دور نکل گئی،پانیوں کا جوش ختم ہونے لگا؛ موجوں کا اٹھنا بند ہوگیا؛ آسمان کے ایک کنارے سے اجالاپھوٹنے لگا؛ عٙمادالحسن جواپنےپریوار کےساتھ ہجرت کر رہے تھے؛ کشتی میں کھڑے ہو کر چاروں جانب دیکھنے لگے؛ دور دور تک کنارا نظر نہ آیا،ہاں سمندر کے ایک طرف اونٹ کے کوہان کی مانندپہاڑ دکھائی دے رہے تھے؛ جو ان کے ذہن کےنقشے میں نہیں تھے.
عمادالحسن ملاح کےقریب بیٹھتے ہوئے کہنے لگے"،میرے خیال سے ہمیں اب تک پڑوسی ملک کی سرحد نظر آجانی چاہئے تھی "ملاح جو تھک چکا تھا،سر ہلا تے ہوئے کہنے لگا"ہاں پر مجھے لگتا ہے،رات جب،میں نے طلاطم کی وجہ سے کشتی کا رخ بد لا تو شاید ہم کسی اور سمت نکل آئے" ہیں ،"کیا" ،عمادالحسن حیرت سے بولے،اور پھر ایک سمت دیکھنے لگے،لیکن پانیوں کےسوا کچھ نظر نہ آیا،عمادالحسن نےملاح کے چہرے پر نظریں گاڑدیں اور گویا ہوئے "اب کیا کرینگے"ملاح چپ رہا،اور دھیرے دھیرے چپو چلا تا رہا.
مسافروں کو جب یہ پتا چلاکہ ہم راستہ بھٹک گئے ہیں؛ تو وہ ملاح سے لڑ نےجگھڑ نے لگے،عمادالحسن رات کے طوفان کو یاد دلاتے ہوئے لوگوں کو سمجھاتے رہے لیکن لوگوں کا شور کم نہ ہوا،ملاح بہت تھک چکا تھا،ایک شخص آگے بڑھا،اور ملاح سے چپو چھینتے ہوئے کہا "لاوُچپو مجھے دو کشتی میں چلاتا ہوں" ملاح اٹھا،اور چپ چاپ دوسری جگہ بیٹھ گیا؛وہ شخص جس نے چپو لیا تھا،جیسے تیسے کشتی کا رخ موڑا اورایک نئی سمت چلنے لگا ،سورج چڑھ آیا اور کشتی چلتی رہی، کچھ گھنٹوں بعد وہ شخص بھی تھک گیا،اک اور شخص آگے آیا چپو کو تھامااور کشتی چلانے لگا،دن رات کی طرح کشتی کا رخ بدلتا رہا،ہر نیا شخص آتا،چپو سبھا لتا،اور ایک نئی سمت کشتی چلانے لگتا،مگر دور دور تک ساحل نظر نہ آتا ہفتہ گزر گیا کشتی کا سفر جاری رہا،مسافروں کے لائے ہوئے سامان ختم ہونے لگے،کچھ دنوں بعد ماوُں کی چھاتیاں خشک ہونے لگیں،چہرے کے گو شت اندر کو دھنس گئے،ہڈیاں ابھر آئیں؛آنکھوں کی چمک ماند پڑگئی،بچے بھوک سے روتے بلکتے اور پھر چپ ہو جاتے،ماںُیں اپنے کمزور ہاتھوں سے کچھ کپڑوں میں لپیٹ کر اپنے بچوں کو سمندر کے سپردکر دیتیں، جب مردوں کے بازوؤں میں اتنی قوت نہ رہی،کہ کشتی کو میل آدھا میل چلا سکیں، تو کچھ نامراد ہو کر سمندر میں کود گئے، کچھ آنکھیں آسمان کو تکتے تکتے پتھرا گئیں، ملاح کا بدن کب سرد پڑا کسی کو نہیں معلوم، ملاح سے پہلے بھی کئی جسم اکڑ چکے تھے، جب کشتی چلا نے کےلئے بازو نہ رہے ،توسمندر کی لہریں کشتی کو ایک سمت لے کر چلنے لگی،کشتی میں آخری بچے ہوئے شخص عمادالحسن کی ہلکی ہلکی سانسوں کاسلسلہ جاری تھا، کہ ایک کرخت آواز ان کے کانوں میں پہنچی"کون ہو تم کھڑے ہو جاوُ، اور اپنے اپنے ہاتھوں کو اوپر کرلو"کشتی سے کوئی جواب نہ پاکر پھر وہی لہجہ وہی جملے گونجے،اب بھی کشتی سے نہ کوئی جواب ملا نہ کوئی حرکت کچھ دیر خاموشی چھائی رہی پھر ایک کہ بعد کئی فوجی کشتی پر چڑھ گئے،اور اپنی اپنی بندوقیں تان لیں، آگے بڑھتے ہوئے فوجی ان اکڑے ہوئے جسموں کو ٹھوکریں مار مارکر دیکھنے لگے، ایک فوجی کی نظر عمادالحسن پر پڑی جو کشتی کے ایک طرف ٹیک لگائے اپنے پچکے ہوئے پیٹ پر ہاتھ رکھے،ان فوجیوں کو دیکھ رہے تھے ، وہ فوجی انکے قریب آ یا،اور زور سے چلا یا" کون ہو تم"......،تمام فوجی اس آواز کی طرف پلٹے عمادالحسن اپنے چہرے کو دھیر ے سے ایک سمت کئے اور غور سے دیکھنے لگے،تمام فوجی بھی اس طرف دیکھنے لگےجس طرف ایک تختی تھی اور تختی پر لکھا تھا مہاجرین...
🎬🎬🎬🎬
______یوم پیدائش 01 جون 1970
فلک سے کوئی ستارہ گرے تو رک جاؤں
اداس پیڑ کا پتہ ہلے تو رک جاؤں
تھکن سے چور ہوں جاری ہے زندگی کا سفر
زرا سی دیر کو رستہ رکے تو رک جاؤں
کسی کے ساتھ میں چلنا ہے میرا طئے لیکن
کسی کے واسطے رکنا پڑے تو رک جاؤں
قدم سے لپٹا ہوا ہے مسافرت کا جنوں
یہ کیسے ہو کوئی روکے مجھے تو رک جاؤں
میں بزم یار سے نکلا تو سوچ کر نکلا
کوئی خلوص سے آواز دے تو رک جاؤں
وہ جھولے میلے وہ بچپن کی یاد تازہ ہو
کہیں پہ راہ میں سرور ملے تو رک جاؤں
رفیق سرور
*غــــــــــــــــــــــــــزل*
خصلتِ بے جا نواہی تجھے لے ڈوبے گی
تیرے اعضا کی گواہی تجھے لے ڈوبے گی
بحرِ موّاج میں ہے زیست کا ہے بیڑا پیارے
یہ تِری فطرتِ شاہی تجھے لے ڈوبے گی
تُو ابھرتے ہوئے سورج سے سبق لے ورنہ
شمس ڈوبا تو سیاہی تجھے لے ڈوبے گی
چِھیپ دریائے محبّت میں تکبّر کی نہ ڈال
وہ انا کی ہے جو ماہی تجھے لے ڈوبے گی
ہے امیری تو فقیروں کی خبرگیری کر
چندروزہ ہے دُراہی، تجھے لے ڈوبے گی
کرب لہجے سے ہو واضح یہ ضروری ہے عطا
یہ تِری فکرِ فُکاہی تجھے لے ڈوبے گی
•┈┈┈┈• ★ *شاعر* ★ •┈┈┈┈•
*عطـــا عـــلوی