مختار عدیل
۱۹۲؍ صفحات پر مشتمل ،عرشیہ پبلی کیشنز دہلی کی شائع کردہ کتاب جسے ملک کے مشہور صحافی فرحان حنیف وارثی نے لکھا ہے۔اس کا عنوان ’وہ جو خبروں میں تھے‘اِس لئے بھی منفرد ہیکہ عنوان کی مناسبت سے فرحان نے کالموں کو کتابی شکل میں جمع کیا ہے۔اِس زمانے میں جب پی ڈی ایف بُکس اور آن لائن ریڈنگ کا مزاج پروان چڑھ رہاہے کسی کتاب کو شائع کرنا حقیقت میں جرات مندی کا کام ہے ہمیں لگتا ہیکہ مصنف کو ہماری طرح یقین ہیکہ کتابوں کا وہ تعلق جو انگلیوں کے لمس سے قائم ہے وہ قارئین اور کتابوں کے درمیان وابستگی خریداری اور مطالعہ کا وسیلہ بنا رہے گاچاہے دنیا میں کروڑوں کتابیں پی ڈی ایف یا آن لائن دستیاب ہوجائیں۔مالیگائوں میں یہ کتاب سٹی بک ڈپوکے وسیم بھائی (8087140474)اور ممبئی میں کتاب دار کے شاداب رشید (9869321477) سے خریدی جاسکتی ہیں ۔ ہمیں امید ہیکہ اُردو قارئین جوش وخروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرحان حنیف وارثی کے قلم کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
فرحان حنیف وارثی اُردو صحافت اور قارئین کے درمیان معروف نام ہے ۔انہوں نے صحافتی میدان میں نئی جہتیں تلاش کیں۔اُردو صحافت کو فنون لطیفہ سے جوڑنے اور فنون لطیفہ سے جڑی خبروں کو اُردو قارئین کیلئے پیش کرنے میں اُن کی عمر گزررہی ہے۔کتاب کے ابتدائی صفحات میں صحافت کے درخشاں ستاروں کی ایک فہرست مرتب کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہیکہ ’’میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتاہوں کہ مجھے ان کی تحریروں کو پڑھنے ، سیکھنے اور بعض کے ساتھ کام کرنے کا موقع دستیاب ہوا ہے۔‘‘اس فہرست میں حسن کمال ،شاہد لطیف ،محمد وجیہہ الدین ،شکیل رشید اور سرفراز آرزو کے علاوہ کئی نام شامل ہیں۔صفحہ نمبر ۹؍ پر ’ڈیسک سے‘کے عنوان پر مصنف نے لکھا ہیکہ اُردو ٹائمز کے ابتدائی دنوں میں اتوار کے شمارے کیلئے ایک کالم لکھنے کی ذمہ داری دی گئی ۔کالم کا نام ’وہ جو خبروں میں تھے‘تجویز ہوا ۔کامیابی سے کالم لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔اِس کتاب کا عنوان اسی کالم کی یادگار ہے۔مصنف نے یہ بھی لکھا ہیکہ مجھے خوشی ہیکہ میرے کالمز میرے ذاتی مشاہدے اور مطالعے پر مبنی ہیں۔
اِس کتاب میں فرحان حنیف وارثی نے کم وبیش ۹۰؍ شخصیات کا تذکرہ کیاہے ۔ شفیع انعامدار ،بھگوتی دیوی ،الکا ناتھ ،پارس مہامبرے ،روسی مودی ،این ٹی راما راؤ ،جسونت کور ،کرٹلی امبروز ،رام لکھن سنگھ یادو ،کماری شیلجا ،رجنی کانت اور محمد اظہر الدین کے علاوہ پی وی نرسمہارائواِس کتاب کے ضمنی عناوین ہیں۔اس میں اُن شخصیات سے متعلق اچھوتی انہونی معلوماتی اور دلچسپ باتیں لکھی گئی ہیں جو عموما اخبارات کے مشمولات یا خبروں کا حصہ بننے سے رہ جاتی ہیں۔مصنف نے شخصیات کے تذکرے کیلئے نپے تلے الفاظ کا انتخاب کیاہے ۔بہت زیادہ مبالغہ نہیں اور بہت زیادہ عمومی بھی نہیں ۔زبان وبیان کا خاص خیال رکھنے کے سبب تحریر میں شگفتگی ،سلاست اور روانی برقرار ہے۔جسٹس پی بی ساونت (پریس کونسل آف انڈیا)،احمد جاوید(ریزیڈنٹ ایڈیٹر انقلاب،بہار ایڈیشن) اوربالی ووڈ کے مشہور فلمی نغمہ نگار سمیر نے مصنف کے فن پر تاثرات لکھے ہیں اس سے صاحب ِ کتاب کی فنّی صلاحیتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
__________🔴
سائنس مائکروف : نمبر 3
تحریر : سید تحسین گیلانی
::::::::::::::[اَن رئیل UNREAL]:::::::::::::::::::
پل بھر میں سب اس کے سامنے فریز ہو گیا ۔۔وہ کس دنیا سے آئی تھی اور اسے کیا سمجھانے کی کوشش میں تھی وہ سمجھنےکی پوری کوشش کر رہا تھا ۔۔
You look like me
اس نے کہا ۔۔۔
ہاں تمہی جیسی دکھتی ہوں کیونکہ تمہی میں سے ہوں
لیکن ایک دنیا تو تباہ ہو چکی کیا تمہیں معلوم ہے ؟؟
تو ہم کہاں ہیں ۔۔۔؟ وہ چیخا ؟
ہم باقیات ہیں ۔۔۔
معلوم نہیں کس نے ہمیں تباہ کیا انہوں نے یا ہم نے خود لیکن کسی ہولناک جنگ کے نشان اس سارے منظر میں ابھی بھی موجود ہیں ۔۔۔
اس منظر کو یاد رکھنا ۔۔۔
تم انسان آسمان کی وسعتوں میں گم تھے اور تمہارا سارا انحصار شمسی توانائی پر تھا اور تم سب کو معلوم تھا کہ تمہاری زندگی اس Energy بنا صفر ہو جائے گی کیوں کہ تم سب سورج کے غلام بن کر رہ گئے تھے ۔۔
شاید ہم بیکار باتیں کر رہے ہیں!!؟
شاید!!!
لیکن اصل مدعے کی طرف آتے ہیں ۔۔۔ تم فنا ہو چکے سولر سسٹم سے اس وقت 300 نوری سال کی مسافت پر ہو ۔۔۔
وہ خود کو ہاتھ لگا کر محسوس کرنے لگا ۔۔
تمہارا مادی وجود اب نور میں تبدیل ہو چکا ہے اس لیے تم Survivors میں سے ہو ۔۔
تم انسان وہ تمام حسیات جن کو حواس خمسہ کہتے تھے اصلا الیکٹریکل سگنلز تھے ۔۔
Actually that Real was unrealistic.that was Electrical Signals interpreted by your brain.
یعنی وہ سب سوچ کا ،دماغ کا کھیل تھا گورکھ دھندا( وہ بولا)
ہو سکتا ہے۔
تو یہ کیا ہے
انرجی ہی انرجی ....یہ انرجی کی بادشاہت کا دور ہے تم دیکھ سکتے ہو جہاں تک چاہو، تم سن سکتے ہو جہاں تک چاہو، تم محسوس کرسکتے ہو جہاں تک چاہو ۔
آج تم یقین کو انرجی بنا کر پرواز کر سکتے ہو تم ایک گورکھ دھندے سے نکل کر ایک اور گورکھ دھندے کا حصہ ہو کیوں کہ اب تم کسی سسٹم کا حصہ نہیں بلکہ خود سسٹم ہو ۔۔
اب صرف منظر بدلیں گے چلو ایک انرجی سے دوسری انرجی میں تبدیل ہونے کے لیے تیار ہو جاو ۔۔
لیکن حقیقت کیا ہے ؟
وہ ہی تو کھوج رہے ہیں اور انسان کا سوال ہے ہی کیا؟
جواب ملنے تک منظر بدلتا رہے گا -
یہ سارے سفر بدلتے منظر صرف اسی سوال کی کهوج کے سفر ہی تو ہیں -
لیکن میں تو ابهی بهی سوچ سکتا ہوں تو انرجی کیا ہے ؟؟
______________🔴🔴
🎞️غزل
حفیظ مالیگانوی
مقام قرب تک وہ مظہر نور خدا پہنچے
نظر انساں کی کیا پہنچے جہاں پر مصطفیٰ پہنچے
جہاں انساں پہونچ سکتا نہیں اپنے تصور سے
محمد مصطفیٰ لے کر بشر کا آئینہ پہنچے
نوازہ ہے خدا نے منصب عالی سے حضرت کو
کرو صلی علیٰ کا ورد اس صورت سے محفل میں
فرشتوں تک صدائے نغمۂ صل علیٰ پہنچے
پہونچ سکتے نہیں جبرئیل بھی جس جا پہ اے حافظؔ
وہاں شمس الضحیٰ پہنچے وہاں نورالہدیٰ پہنچے
🎬نظم: لوڈ شیڈنگ🪔
چابیاں کھو گئیں
طاقچوں سے ادھڑتی کسیلی شبوں کی اداسی کے پلو میں کالک بندھی رہ گئی
آہٹیں جم گئیں
چرم کی مشک میں چھپکلی چھپ گئی
ایک دیوار پر خار اگنے لگے
بددعائی ہتھیلی کے پہلو سے اٹھے لہو کے فوارے
کراہت بھرے مومیائی نظارے
پلنگ سے لڑھکتی ہوئی چرچراہٹ
پرایا بدن ، اجنبیت کی کھٹ کھٹ
یہی قمقمے تھے جو پہلے نویلی دلہن کی طرح جگمگاتے تھے اب
راکھ دانوں کے قصوں کا دکھ ہیں
یہی نسل ہے جس نے دیکھا ہوا ہے
اندھیرے کے باغوں میں چھپتا سویرا
سیاہی کے پہلو میں اجلی لکیریں
چلیں کیک کاٹیں
چلیں مسکراہٹ سے چپکی ہوئی اپنی باچھوں کو چیریں
اگر نرخرہ کھردری گالیاں سہہ سکا
تو خدا سے کہیں گے کہ بجلی کا کوندا زمیں پر بھی پھینکے
ذرا جنتوں کے دریچوں سے چپکے ہوئے نرم کہرے کا سیال بھیجے
ہمارےسلگتے سروں پر انڈیلے
پسینے کی دھاری کمر چھیلتی ہے
#alizeerak
انتخاب #احمد نعیم (موت ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت)