شکیل رشید ( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ آئینی ہے یا غیرآئینی؟ اس سوال کا جواب پیر کے روز سپریم کورٹ نے دے دیا ہے ۔ عدالت عظمیٰ کی پانچ رُکنی آئینی بنچ نے ، جس کی سربراہی چیف جسٹس چندچوڑ کر رہے تھے ، کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ ہٹائے جانے کی مخالفت میں دائر درخواستوں پر شنوائی کرتے ہوئے بہت واضح لفظوں میں کہا کہ ’ یہ فیصلہ بالکل درست ہے ، صدر جمہوریہ جموں و کشمیر میں آئین کی تمام دفعات کو مرکز کی رضامندی سے لاگو کر سکتے ہیں ، اور اس کے لیے ریاستی اسمبلی کی منظوری حاصل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔‘ اس فیصلے کے بعد ۵ ، اگست ۲۰۱۹ء کو ریاست جموں و کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے فیصلے کی توثیق بھی ہو گئی ہے ، اور سپریم کورٹ نے یہ بھی مان لیا ہے کہ ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کر کے لداخ کو مرکز کے زیرانتظام علاقہ قرار دینا بھی درست ہے ۔ گویا کہ اب جموں و کشمیر کی وہ پہلے والی حیثیت ، جس کے تحت کشمیریوں کو خصوصی درجہ حاصل تھا ، نہیں رہ گئی ہے ۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے بغیر کشمیر کی حالت کسی انسانی جسم سے روح نکالنے کے مترادف ہے ۔ روح ، کشمیری جس کو ’ کشمیریت‘ کا نام بھی دیتے ہیں ۔ جب آرٹیکل ۳۷۰ ہٹایا گیا تھا تب ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’ را ‘ کے سابق سربراہ اے ایس دُلت نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ اس فیصلے نے ’ کشمیری سائیکی کو شدید طور پر متاثر کیا ہے اور اب ہم کشمیریت کو الوادع کہہ سکتے ہیں ، میں ان لوگوں میں سے ایک تھا جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ آج بھی کشمیریت زندہ ہے، آج ہم نے اسے دفن کردیا ہے ۔‘ یہ کشمیریت کیا ہے ، اور کیا واقعی آرٹیکل ۳۷۰ کے بعد اسے کوئی خطرہ ہے ؟ کبھی کشمیر کے گاؤؤں میں اچھے خاصے پنڈت رہا کرتے اور وہاں کے مندروں میں پوجا ارچنا کرتے تھے ۔ اب پنڈت تو نہیں رہے کہ اس وقت کے کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر جگموہن نے انہیں کشمیر سے نکال باہر کیا تھا لیکن مندر اور پنڈتوں کے گھر رہ گئے ہیں ، جن کی حفاظت کشمیری مسلمان کرتے رہے ہیں ۔ سارے کشمیر میں ایسا ہی تھا اور ایسا ہی ہے ۔ اور یہی وہ عمل ہے یا وہ عمل تھا جسے کشمیریت کہا جاتا ہے ۔ کسی زمانے میں کشمیر میں اگر مسجدوں سے اذانیں گونجتی تھیں تو مندروں سے شنکھ اور گھنٹیوں کی آوازیں بھی آتی تھیں ، اگر کوئی ہندو میلہ لگتا تھا اور مسلمان اس میلے میں جاتے تھے تو سبزی کھاکر ، گوشت کھاکر نہیں ، یہی وہ عمل ہے یا وہ عمل تھا جسے کشمیریت کہا جاتا ہے - اور یہ کشمیریت اب تک نہ صرف زندہ تھی بلکہ ایک امید بندھائے ہوئے تھی کہ کسی نہ کسی دن پنڈت واپس کشمیر لوٹیں گے اور کشمیرکے ہندو اور مسلمان مل کر کشمیرکو پرانی ڈگر پر لے آئیں گے ۔ لیکن اے ایس دُلت کی مانیں تو آرٹیکل ۳۷۰ ہٹاکر ’ ہم نے اسے ( کشمیریت کو ) دفن کردیا ہے ۔‘
کشمیر کی ملی جلی تہذیب وثقافت کی بنیادی وجہ وہاں ڈوگرا خاندان کا راج رہا ہے ۔ راجہ ہری سنگھ کا ہندوستان سے الحاق ’ مشروط‘ تھا ۔ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں ملنے والی آزادی اور تقسیم کے المیے سے گذرنے کے بعد شاہی ریاستوں کو یہ اختیار تھا کہ وہ چاہیں تو ہندوستان سے الحاق کرلیں یا پاکستان سے ، راجہ ہری سنگھ نے چند ’ شرائط‘ پر ہندوستان سے الحاق کیا تھا ۔ شرائط تھیں ۔(۱ ) آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت ہندوستانی پارلیمنٹ کو جموں وکشمیر میں محض دفاعی ، خارجی اور مواصلاتی امور میں قانون بنانے کا اختیار ہے ۔ مرکز کو دیگر امور میں قانون کو نافذ کروانے کے لیے ریاستی حکومت کی منظوری مطلوب ہے ۔ ( ۲ ) آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت جموں و کشمیر ریاست پر ۱۹۶۷ء کا شہری زمینی قانون نافذ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ملک کی دیگر ریاستوں کے عوام جموں و کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتے ۔ (۳) چونکہ آرٹیکل ۳۷۰ مرکز کو سوائے دفاعی، خارجی اور مواصلاتی امور کے دیگر امور میں قانون سازی سے روکتا ہے اس لیے جموں وکشمیر ریاست پر آئین کی دفعہ ۳۵۶ نافذ نہیں ہوتی ۔ اسی وجہ سے صدر جمہوریہ کے پا س ریاست کے آئین کو ختم کرنے کاکوئی حق نہیں ہے ۔ یہی نہیں مرکز کو آئین کی دفعہ ۳۶۰ کے تحت ملک میں آئینی ایمرجنسی کے نفاذ کا جو حق ہے ، جموں و کشمیر ریاست میں وہ حق حاصل نہیں ہے ۔ (۴ ) آرٹیکل ۳۵( الف) ریاست جموں وکشمیر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ طے کرے ریاست کا شہری کون ہے ، کسے سرکاری نوکریوں میں خصوصی ریزرویشن دیا جائے ، ریاست میں جائیداد کون خریدسکتا ہے ، کن افراد کو اسمبلی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے ، اور کون ہیں جو اسکالر شپ اور دیگر عوامی تعاون اور سماجی فلاح وبہبود کے پروگراموں کا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ آرٹیکل جموں وکشمیر کو ایک خصوصی ریاست کا درجہ دیتا ہے اور ریاست کے ’ مقامی باشندوں‘ کو خصوصی حقوق ۔ خدشہ جتایا جاتا ہے کہ اب ان سارے خصوصی اختیارات یا حقوق سے کشمیری عوام محروم کر دیے جائیں گے ، یعنی اب کشمیر میں ایک غیر کشمیری بھی زمینیں خرید سکے گا ، اور ایک غیر کشمیری بھی سرکاری ملازمتوں کا حق دار ہو سکے گا ، وغیرہ وغیرہ ۔ اب ان سب تبدیلیوں کا نتیجہ کیا نکلے گا اس سوال کا جواب مستقبل ہی میں مل سکے گا ، لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ کشمیری شاید خود کو مزید تنہا محسوس کریں ۔ سارے کشمیری رہنماؤں نے ، بشمول غلام نبی آزاد جو وزیراعظم نریندر مودی کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ، سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے ، کچھ نے جد و جہد کا عزم کیا ہے ۔ بہرحال اب فیصلہ آگیا ہے تو حکومت کو اور مودی کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کشمیری عوام کے حقوق متاثر نہ ہوں ، اور وہ خود کو غیر ، تنہا اور اجنبی سمجھنے پر مجبور نہ ہوں ۔ مودی نے فیصلے پر اپنے ردعمل میں یقین دلایا بھی ہے کہ جموں ، کشمیر اور لداخ کے لوگوں کے خوابوں کو پورا کیا جائے گا ۔ فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایک اچھی بات یہ کہی کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال ہونی چاہیے ، لہذا مرکز کو چاہیے کہ اس پر فوری عمل کرے ۔ اس فیصلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ’ سارا کشمیر ‘ ایک متحدہ ہندوستان کا حصہ ہوگا ، لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ کشمیریوں کو ہندوستان کا حصہ سمجھا جائے اور ان کی شکائتوں کا انصاف پر مبنی ازالہ کیا جائے ۔
__________
"مالیگاؤں کے شعلے "
" کامیاب ترین فلم"
(یادیں اور باتیں)
( قسط چھ سے دس تک )
* علیم طاہر *
نام کتاب: فلم"مالیگاؤں کے شعلے"
(یادیں اور باتیں)
فکشن رائٹر: علیم طاہر
کاپی رائٹ: علیم طاہر
_________________________________________
_________________________________________
قسط نمبر :06
" نیازو سیٹھ " ناصر شیخ کے والد صاحب تھے ۔ ان دنوں مالیگاؤں میں کئی ایک جگہوں کے علاوہ ،قدوائی روڈ پر بھی "سٹے بازی کا کاروبار عروج پر تھا ۔ غالباً نیازو سیٹھ وہاں اس کاروبار کے کنگ تھے۔ شہر کے بے شمار لوگ باگ اس کاروبار کے شوقین ہونے کے ناطے حصے دار بننے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ انسان الگ الگ دور میں اپنی شناخت بھی الگ الگ بنایا کرتا ہے ۔ انسان اپنی سہولیات کے مطابق اپنے پیشے بھی تبدیل کرتا رہتا ہے ۔ انسان پیشے کے مطابق اپنے حالات کے اختیارات کا استعمال بھی کرتا رہتا ہے۔
ناصر شیخ کا یہ بیک گراؤنڈ قدرتی طور پر اسے حاصل تھا ۔اس ماحول کو بنانے میں ناصر شیخ کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔
ہاں اس پیشے کو ختم کرنے میں شاید ناصر کا ضرور ہاتھ تھا۔
اس نے مجھ سے کئی بار کہا کہ یار علیم سوچتا ہوں اس پیشے سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا لیا جائے۔ اور شاید اس چھٹکارا پانے یا نجات پانے میں اس کے اپنے گھر والوں کا بھی ساتھ رہا ہو۔
اسی سوچ کو آگے عملی جامہ پہناتے ہوئے ناصر شیخ کا شاید ویڈیو پارلر وجود میں آیا ہو۔۔ بھلے ہی ان دنوں سٹے کا کاروبار عروج پر رہا ہو۔ مگر نیازو سیٹھ کا "سٹا مرکز" اختتام کی جانب سفر کر رہا تھا۔
اس ویڈیو پارلر کے ذریعے فلمیں دکھائی جاتی تھیں ۔ صاف ستھری شدھ ذہنیت کا ناصر اسے آرٹ کے نظریے سے دیکھتا تھا۔
________________________________
قسط نمبر: 07
ہالی ووڈ کی، بالی وُوڈ کی فلمیں دیکھنے، یا ذہنی تفریق حاصل کرنے لوگ باگ آجایا کرتے تھے۔ اس مشہور پارلر کا نام تھا پرنس ویڈیو۔۔ جہاں ہمیشہ اچھی اچھی سبق آموز کہانیوں پر مبنی فلمیں دکھائی جاتی تھیں ۔
ناصر کی ذہنیت یا نظریات جن حالات اور جس دور کی پیداوار تھے وہ دور اچھے برے دونوں پہلوؤں سے مختلف ڈھنگ سے اجاگر تھا۔ ناصر شیخ کا ذہن آرٹ فیکلٹی کی طرف مائل تھا۔ شاید یہ نیچرل تھا۔ بالکل نیچرل۔ اس نے ڈرامہ بھی کروایا تھا بڑی مالیگاؤں ہائی اسکول میں۔
ڈرامے میں اس دور میں چھ ہزار روپے خرچ بھی ہوئے تھے۔ جو ناصر شیخ نے اپنے والد محترم نیازو سیٹھ سے لیے تھے۔ اور وہ ڈرامہ کافی دلچسپ تھا۔ اس ڈرامے کو دیکھنے کے لیے ناظرین اور سامعین بڑی مالیگاؤں ہائی اسکول کے وسیع عریض میدان میں بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے ۔اور وہ ڈرامہ خوب سراہا بھی گیا تھا ۔ کیونکہ وہ ڈرامہ زندگی کے مختلف موضوعات احساسات تجربات سے منسلک تھا۔ ناصر شیخ کی پہلی کوشش اقتصادی یا معاشی طور پر کامیاب نہیں ہو پائی تھی مگر تجرباتی اور شعوری طور پر ناصر شیخ کامیاب ہو گیا تھا ۔ کیونکہ زندگی میں تجربہ اور شعور بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی کا بنیادی سبب تسلیم کیا جاتا ہے۔ ناصر شیخ نے طے کر لیا تھا کہ میں اس خسارے کی بھرپائی اسی آرٹ کی فیلڈ سے حاصل کروں گا۔ اور آگے چل کر اس کا ذہن پوری طرح ڈائریکشن کی طرف مائل ہوا ۔ اور ڈرامے کی ترقی یافتہ شکل فلم پر جا کر مرکوز ہو گیا۔ وہیں سے نظریاتی طور پر فلم کی منصوبہ بندی کا پر جوش آغاز ہو چکا تھا ۔ اور اس اغاز کی پہلی مضبوط کڑی ، پیروڈی فلم "مالیگاؤں کے شعلے" فلم کے ذریعے وجود میں آ رہی تھی۔ جس طرح بدصورت لوہے کے ٹکڑوں کو انگار میں سرخ کیا جاتا ہے اور لوہار اسے پیٹ پیٹ کر جس شکل میں دیکھنا چاہتا ہے اس شکل میں وجود میں لے آتا ہے۔ اسی طرح ناصر شیخ کے ذہن میں جو کوئلے دہک رہے تھے۔ ان میں لوہے کے بد صورت ٹکڑوں کی طرح موضوعات سرخ ہو رہے تھے۔ اب صرف ان ٹکڑوں کو باہر نکال کر ہتھوڑوں کے ذریعے خوبصورت آکار دینے کی ضرورت باقی تھی۔
مالیگاؤں شہر میں ان دنوں ڈراموں اور نکڑ ناٹکوں کا ماحول بھی سلیقہ مندی سے اپنے سفر کی جانب گامزن تھا ۔ سراج دلار سر ، نکڑ ناٹکوں کا اہم ترین نام تھا ۔ انیس سرتاج سر ، ڈراموں کا اہم ترین نام تھا ۔ ڈرامہ اداکاروں میں اہم لیڈ اہم کردار شکیل بھارتی کا بھی تھا۔ آئے دن نکڑ ناٹک مالیگاؤں شہر کی سڑکوں اور چوراہوں پر دیکھنے کو مل جایا کرتے تھے۔ اور تو اور مختلف اسکولوں کے وسیع و عریض میدانوں میں ڈراموں کو دیکھنے کے لیے ایک عوامی اژدھام امڈ پڑتا تھا۔ ڈراموں کے لیے شہر بھر میں پوسٹرز اور بینرز آویزاں کیے جاتے تھے۔
اگر اس منظر نامے کو مدنظر رکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ فنون لطیفہ کی خصوصیات شہر کے ہر فرد میں موجود تھیں ۔ آرٹ سے شہر کے ہر فرد کا گہرا رشتہ تھا ۔ مالیگاؤں شہر کے عوام ہمیشہ مختلف علوم و فنون میں شاید اسی لیے آگے ہی رہے ہیں۔
اسی ماحول میں ناصر شیخ بھی سانسیں لے رہا تھا ۔ ماحول انسان کو تربیت دیتا ہے ۔یعنی ماحول کو انسان کا استاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ ۔۔۔۔۔
"مالیگاؤں کے شعلے" پیروڈی فلم کی منصوبہ بندی نظریاتی طور پر پختہ اور نا پختہ شعور کے ارد گرد کبھی خوبصورت تتلیوں سی محسوس ہوتی تو کبھی گہرے کالے بھنورے جیسی گن گن کرتی ۔ ایسا اس لیے کہا جا سکتا کہ ۔۔۔۔
________________________________
قسط نمبر:08
زندگی کسی بھی اہم کام کو کرنے میں صرف سہولتیں فراہم نہیں کرتیں ۔ بلکہ رکاوٹوں کا چیلنج بن کر ہمارے حوصلے بھی پست کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی۔ شاید یہ نظام فطرت کا ایک مزاج ہے اور اس مزاج کو سمجھنے کے لیے انسانی فہم و فراست یا عقل دانش نا پختہ ہے۔
ہمارے ماحول کی مشکلات تربیت گاہ کا درجہ رکھتی ہیں ۔ مشکلات ہمیں مسلسل تربیت دیتی ہیں ۔ ناصر شیخ پر بھی مشکلات نے اپنا گھیراؤ تنگ کرنا شروع کر دیا تھا ۔ انسانی زندگی کی فطرت میں بدلاؤ شامل ہے ۔ وہ ہمیشہ ایک رنگ میں نہیں رہتی ۔ کبھی دکھ ، تو کبھی سکھ ۔
شوٹنگ کی شروعات تو ہو چکی تھی ۔ شوٹنگ کی تکنیکی خصوصیات ناصر کے ذہن میں موجود رہتی تھیں ۔ اداکاروں کے ذہنی ماحول میں اداکاری کے احساسات وجذبات ۔ بہ حیثیت ڈایریکٹر و کیمرہ مین ناصر اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا رہا تھا ۔ وہیں مجھے بطور اداکار کے ایک چیف اسسٹنٹ کی ذمےداری سونپ دی گئی تھی ۔ جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا اولین فرض گردانتا تھا ۔
اسکرپٹ کے لحاظ سے کسی اداکار کا کوئی ڈائیلاگ نہ چھوٹنے پاۓ ۔ دوران شوٹنگ کسی بھی سین کے فوٹیج میں کوئی کسر نہ رہنے پائے ۔ سین کی ترتیبات یا سکوینس ذہنی گوشے میں محفوظ تھیں ۔ یہاں اہم ڈفیکلٹی پیروڈی فلم "مالیگاؤں کے شعلے " کو اصلی فلم کے مطابق سین بائے سین بنانا ضرور تھا مگر ڈائیلاگ یکسر تبدیل کر دیے گئے تھے ۔ یہ پیروڈی کرتے ہوئے بھی ایک بہت بڑا رسک تھا۔ اصلی فلم شعلے کے ڈائیلاگ سے مماثلت کاپی رائٹ کا بہت بڑا مسئلہ بن سکتا تھا ۔ اس پر بہت دھیان دیا گیا تھا۔
کیونکہ فلم "شعلے " ایک بلاگ بسٹر فلم ثابت ہو چکی تھی ۔ فلم انڈسٹری میں ایک تاریخی درجہ رکھتی تھی۔ جس کے ڈائیلاگس بچہ بچہ کو ازبر ہو گئے تھے۔ جس کی شہرت گھر گھر ہر فرد تک رسائی حاصل کر چکی تھی۔ اور ایسی فلم پر فلم بنانا یعنی پاؤں پر پاؤں رکھنے کا عمل تھا۔ اب پیروڈی کے روپ میں اسے پیش کیا جانا تھا۔ تو ہمیں یہ خیال بھی رکھنا لازمی تھا۔کہ دیکھنے والوں کو وہ کس طرح پسند آ سکتی تھی۔ مزاحیہ انداز میں۔۔۔ مزاحیہ ڈائیلاگ کے ساتھ۔۔ اور بوریت کا کوئی احساس بھی نہ ہونے پائے۔ تاکہ لوگ باگ جو ذہنی تفریح کی غرض سے اپنی جیب سے پیسہ دے کر وقت گزاری کے لیے آتے ہیں۔۔وہ پیسہ وصول ہو گیا کا تصور لے کر جائیں ۔
تو ہم سے غلطیاں سر زد ہو سکتی تھیں ۔ شاید یہ غلطیاں ہی اس پیروڈی فلم کا پلس پوائنٹ تھا۔
کوئی بھی اصلی ڈائیلاگ حقیقی کیفیت میں آنے نہ پائے۔ کوشش کی گئی تھی کہ سین ملتے جلتے دکھاۓ جائیں ۔ اس کا ہمیں کافی دھیان تھا ۔
________________________________
قسط نمبر: 09
فلم کی ایک شوٹنگ کے بعد ناصر کے پاس روپے ختم ہو جاتے تھے کوئی مستقل ذریعہ تو تھا نہیں۔ جو اس کے پاس مسلسل پیسے آرہے ہو ۔ اگر ویڈیو پارلر ذریعہ تھا بھی تو اس پر پورے گھر والوں کا ، بھائیوں کا اختیار تھا ۔وہ الگ سے اپنے اخراجات سے روپے بچا کرو شروعات میں شوٹنگ پر لگایا کرتا تھا۔
وہ سوچتا تھا کہ کس طرح کم سے کم بجٹ میں شوٹنگ ہو جائے۔
وہ سوچتا تھا، اور اس پر عمل پیرا بھی ہو جاتا تھا اداکار الگ الگ گھروں سے تعلق رکھتے تھے ۔ الگ الگ ذمہ داریوں،اور زندگی کے شکنجوں میں کسے ہوئے تھے۔ اداکاروں کی الگ الگ زندگیاں تھیں ۔ مسائل تھے۔ الجھنیں تھیں ۔
مگر ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ ناصر ان اداکاروں کو اپنے دوستانہ خلوص کے ذریعے شوٹنگ پر آنے کے لیے قائل کر لیتا تھا۔ شاید اسے "لیڈرشپ کوالٹی" قرار دیا جا سکتا ہے۔
ہر اداکار اپنی زندگی کے دائرے میں مقید تھا۔ پھر شوٹنگ مسلسل بھی نہیں ہوتی تھی۔ آج ہوئی تو پھر شاید دوسرے ہفتے ۔ یا پھر ایک مہینہ گزر گیا۔ یا پھر دو مہینے ۔۔۔
اس طریقے سے ایک طویل انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ اس انتظار کے درمیان ان دنوں ڈیلی میری ملاقات ناصر سے ہوا کرتی تھی۔ طویل وقت تک ہم رات کا کھانا ایک ساتھ ہوٹل میں کھایا کرتے تھے ۔اور گھنٹوں فلم کے متعلق گفتگو کیا کرتے تھے ۔اس گفتگو ہم میں کیا نیا لا سکتے تھے فلم میں۔ جو عوام کے لیے ناظرین وشائقین کے لیے دلچسپی کا باعث بنے۔ اس پر زور دیا جاتا تھا۔ ہنسی مذاق میں ہماری گفتگو کا موضوع مزاحیہ ڈائیلاگ ہوا کرتے تھے۔
ناشر گفتگو کرتے ہوئے ڈائریکشن کے اینگلز بتایا کرتا تھا۔ بیک گراؤنڈ کے مناظر کے متعلق گفتگو کیا کرتا تھا۔
_______________________________
قسط نمبر: 10
اسکرین پلے کے متعلق ہمارا خاص دھیان رہا کرتا تھا۔ خاص طور پر جس جگہ شوٹنگ کرنی ہوتی تھی۔ میں اور ناصر بائیک کے ذریعے دن میں وہاں پر پہنچ کر مشاہدہ کرتے تھے ۔پہلے ہی مشاہدہ کرتے ہوئے ہم طے کر لیتے تھے کہ اس جگہ شوٹنگ کریں گے۔ اور یہاں پر یہ کریکٹر اس جگہ کھڑا ہوگا ۔ وہ کریکٹر اس جگہ کھڑا ہو گا ۔
اس طریقے سے شوٹنگ سے پہلے ہی منصوبہ بندی بھی ہو جایا کرتی تھی بلکہ اس جگہ کو تصوراتی ڈھنگ سے ایک فریم بنا لیا جاتا تھا۔ تصور کر لیا جاتا تھا کہ پیروڈی فلم "مالیگاؤں کے شعلے " اسکرین پر چل رہی ہے ۔ تصور کر لیا جاتا تھا کہ لوگ ہوم تھیٹرز میں بیٹھ کر اس کا نظارہ کر رہے ہیں ۔سیٹیاں بجا رہے ہیں۔ شور مچا رہے ہیں۔ انجوائے کرتے ہوئے چلا رہے ہیں۔ یہ تصور دراصل ہمارے جنون کی انتہا تھی۔ یا تصوراتی کامیابی کی جانب ایک خوشگوار سفر ہی قرار دیا جا سکتا تھا ۔ اس شاہراہ کے قائد مسافر ناصر شیخ کی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں ۔ کیونکہ چھٹی حس مستقبل کے وہ مناظر بھی دکھا دیتی ہیں جس سے ہم ناواقف رہتے ہیں ۔ ان مناظر کا دیدار کرتے ہوئے آنکھوں میں چمک نمودار ہونا بالکل فطری عمل تھا ۔
پرنس ویڈیو پارلر میں اکثر ہم رات آخری شو کے بعد شوٹنگ کر کے لائے ہوئے تمام مناظر کو اسکرین پر بیٹھ کر دیکھتے تھے۔ اور محسوس کرتے تھے کہ کس طریقے سے آج کی شوٹنگ ہوئی ہے ۔
یا کون سا سین کتنی اچھی طریقے سے ادا کیا گیا ہے۔ اداکاری میں کون سی خامیاں رہ گئی ہیں۔ اداکاری میں کون سا سین سب سے اچھا گزرا ہے ۔ یہ معمول بن گیا تھا۔ جس دن شوٹنگ ہوا کرتی تھی ۔ شوٹنگ کے بعد ہم اس رات آخری شو کے بعد تھیٹر میں بیٹھ کر کی گئی شوٹنگ کے مناظر کو دیکھتے تھے ۔ اور خوش ہوتے تھے۔ اکرم خان ، عرفان الیاس ، حامد سبحانی، شفیق پیٹر ، شفیق بچن۔۔ ، وغیرہ کے علاوہ مقیم ،ندیم شکیل، بھی شریک رہتے تھے ۔ ناصر کے بھانجے ،بھتیجے جنھوں نے پس پردہ تو تام جھام سنبھالا ہی تھا ،مگر شوٹنگ کے دوران ڈاکوؤں کا رول بھی دلجمعی سے نبھایا تھا ۔ جن میں میرے برادران کی شمولیت بھی تھی۔
شب دو ،تین بجے ہم اپنے اپنے گھروں کو پہنچتے تھے۔
اس کے بعد کا مرحلہ ایڈیٹنگ کا ہوتا تھا ۔ ایڈیٹنگ کے مرحلے میں سین کا انتخاب کرنا تھا۔ کون سا سین پرفیکٹ اور پراثر ہوا ہے۔ اسی سین کو رکھا جاتا تھا۔
اور ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ جب تک ناصر مطمئن نہیں ہو جاتا تھا تب تک وہ اداکار سے سین کرواتا تھا۔
کیپ کوایٹ ۔۔۔ کیپ کوایٹ ۔۔۔۔دوران شوٹنگ ناصر کا تکیہ کلام بن گیا تھا ۔ جسے حامد سبحانی شرارتی لہجے میں اکثر دہرایا کرتا تھا ۔ مگر کام کے وقت ناصر کسی سے جلدی الجھتا نہیں تھا۔ حنیف حمدانی ظرافت نگاری کا مکمل سراپا تھے ۔ بات بات پر ہنسنا ہنسانا ان کے مزاج کا اٹوٹ حصہ تھا ۔ شفیق پیٹر بھی کافی ہنس مکھ کیریکٹر کا نام ہے ۔ عرفان الیاس بہترین ذہین اداکار ، جو ڈائیلاگ ڈلیوری کے بعد کیمرے کے منی اسکرین پر سین دیکھنے کے بعد قہقہے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا تھا۔ مجھے بھی ان قہقہوں کے بیچ ہنسی چھوٹ جایا کرتی تھی ۔ ناصر شیخ بھی ہنس ہنس کر اپنی آنکھیں بھگا لیتا تھا ۔ ایکدوسرے کی ہنسی اور بلند قہقہے گڈمڈ ہو کر رہ جاتے تھے۔ کچھ دیر بعد ہم اپنے آپ پر قابو پا لیتے تھے ۔
اور اگلے سین کرنے کے لیے دوبارہ اپنے اپنے کریکٹر کے خول میں داخل ہو جاتے تھے۔ ناصر بھی دوبارہ ڈائریکٹر اور کیمرہ مین کے اپنے خول میں مقید ہو جاتا تھا۔ کیمرہ ۔۔۔۔رول ۔۔۔۔کٹ۔۔۔
کی آوازیں پہاڑی علاقوں میں دور تک جا کر معدوم ہو جایا کرتی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔..
(C):
Aleem Tahir
Mobile no.9623327923.
Email id: aleemtahir12@gmail.com
_________
یومِ اطفال کی مناسبت سے ایک نظم دیکھیں:
عنوان: بچّے
نتیجۂ فکر: طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں.
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے جھگڑوں سے عاری بچّے
جب بھی ملتے ہیں کرتے ہیں باتیں پیاری پیاری بچے
جو بولیں جیسا بھی بولیں، سب معصوم الفاظ میں بولیں
جھوٹے سچّے لفظوں کے کب ہوتے ہیں بیوپاری بچّے
اَڑ جائیں تو مرغ مُسلَّم اور بریانی ہی کھاتے ہیں
موڈ اگر ہو، پھیکی پھیکی کھاتے ہیں ترکاری بچّے
بچّے اپنی میٹھی زباں کی کِلکاری سے دل کو جیتیں
ترشولی کب ہوتے ہیں؟ کب رہتے ہیں تلواری بچّے؟
بھول کے انساں اپنا رشتہ کاٹے سر انسانوں کا جب
تب بھی چندا ماما سے جوڑیں ہیں رشتے داری بچّے
بچّے دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کر خوشیاں لے لیتے ہیں
عید ہو یا پھر دیوالی ہو لیتے ہیں تیوہا ری بچّے
بچے خود اپنی دنیا کے آپ ہی تو راجا ہوتے ہیں
تنظیمی کب ہوتے ہیں؟ کب رہتے ہیں سرکاری بچّے
جو بچّے اب خاموشی سے ٹی وی کو تکتے ہیں کل وہ
دادا سے کرتے تھے کیسی باتیں پیاری پیاری بچّے
طاہرؔ گلّا اِک دو روپیوں سے بھر کر خوش رہ لیتے ہیں
دو نمبر کی نوٹوں سے کیا خاک بھریں الماری بچّے؟
____________
تعزیتی نظم
سابق ایم ایل اے شیخ رشید صاحب کی رحلت کی خبر نے دل پر عجیب اثر ڈالا ہے 😔
تمام ملاقاتوں کے مناظر آنکھوں میں گھومنے لگے ہیں ۔
ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور بہت محبت سے ملے ۔
یقین نہیں آرہا ہے کہ اب صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔
اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور اپنے خاص فضل و کرم کے سائے میں رکھے
دل کی کیفیات خود بخود شاعری کے قالب میں ڈھل گئی ہیں
مکمل اپنا سفر کر گئے ہیں شیخ رشید
ہر ایک آنکھ کو تر کر گئے ہیں شیخ رشید
اب ایک اور وفا کا نصاب ختم ہوا
پھر آج ایک سخاوت کا باب ختم ہوا
ہمیشہ تم نے سخاوت کا وصف ساتھ رکھا
تمام عمر غریبوں کے سر پہ ہاتھ رکھا
جو غمزدہ ہوا وہ تم سے مل کے شاد ہوا
تمہارے در سے تو دشمن بھی بامراد ہوا
سدا غریبوں کے غمخوار بھی تمھی ٹھہرے
سخی بھی تم رہے، سردار بھی تمھی ٹھہرے
ملی جو خوشبو تو اس کو فضا میں خرچ کیا
خدا کے مال کو راہِ خدا میں خرچ کیا
خود اپنا زادِ سفر تم نے مختصر رکھا
مدد کے واسطے ہاتھوں کو کھول کر رکھا
کبھی وفا میں نبھائی کبھی محبت میں
کسی کو دیکھ نہ پائے کبھی مصیبت میں
ہزاروں لاکھوں کے کام آئے راہِ ہستی میں
تمہارا ذکر نمایاں ہے ساری بستی میں
ہمیشہ لوگوں کے دکھ درد کا علاج کیا
وہ راجہ تم تھےکہ لاکھوں دلوں پہ راج کیا
تمہارا وصف تمہارے ہی ساتھ جائےگا
تمہاری خالی جگہ کوئی بھر نہ پائے گا
ہمیشہ چاند کے ہمراہ چاندنی ہوگی
تمہاری راہ میں صدقوں کی روشنی ہوگی
تمہارے صالحہ اعمال معتبر فرمائے
خداا تمہارے گناہوں کو درگزر فرمائے
خدا کا فضل میسر رہے قیامت تک
تمہاری قبر منور رہے قیامت تک
تمہارے ہاتھ میں کوثر کا جام دے مولی
تمہیں بھی خلد میں اعلی مقام دے مولی
🖋️ فرحان دِل ۔ مالیگاؤں ۔
📞 9226169933