جس میں سماجوادی پارٹی یووا جن سبھا کے جنرل سکریٹری مستقیم ڈگنیٹی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسے ہمارے شہر کی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ناگپور اسمبلی اجلاس میں شہر کے نمائندہ نے کوئی خاص کارکردگی انجام نہیں دی۔ اول تو انہیں شہر مالیگاؤں کے حقیقی مسائل پتہ نہیں ہے اسی کے ساتھ انہیں نہ ہی بنکروں کے مسائل معلوم ہیں اور نہ ہی کلکتہ بجلی کمپنی کی ظالمانہ کاروائیوں کے بارے میں کوئی خاص علم ہے۔
مستقیم ڈگنیٹی نے مزید کہا کہ موجودہ رکن اسمبلی ناگپور کے سرمائی اجلاس کو سنتروں کا شہر اور پکنک پوائنٹ سمجھتے ہیں۔ ریاستی حکومت نے مہاراشٹر بھر میں جاری پاورلوم صنعت کے مسائل کو جاننے اور اسے حل کرنے کی خاطر ایک جائزہ کمیٹی بنام اسٹڈی گروپ تشکیل دیا ہے لیکن اس میں مالیگاؤں شہر جس کا دار ومدار پاور لوم صنعت پر ہے یہاں کے نمائندے کو اسی بنیاد پر اس کمیٹی میں شریک نہیں کیا گیا-
انہوں نے بتایا کہ سماجوادی پارٹی کے دونوں ارکان اسمبلی رئیس شیخ اور ابو عاصم اعظمی صاحب کے مسلسل مطالبے کی بنا پر مہاراشٹر حکومت نے جو اسٹڈی گروپ تشکیل دیا ہے اس میں بھیونڈی کے نمائندہ رئیس شیخ اور دیگر پاور لوم مراکز کے ذمہ داران کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
مستقیم ڈگنیٹی نے یہ بھی کہا کہ سماجوادی پارٹی کے ریاستی صدر و رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی صاحب کا مالیگاؤں سے گہرا لگاؤ رہا ہے ماضی میں بھی انھوں نے شہر مالیگاؤں کے بیشتر مسائل اسمبلی اٹھائے ہیں۔
حالیہ اسمبلی اجلاس میں انہوں نے پاور لوم صنعت کے مسائل، کلکتہ بجلی کمپنی کے ظالمانہ سلوک کے علاوہ متعدد مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی رئیس شیخ صاحب نے اسمبلی میں پاورلوم صنعت کا مدعا اٹھاکر نہ صرف بھیونڈی والوں کا بلکہ مہاراشٹر بھر کے پاور صنعت سے وابستہ لوگوں کی نمایندگی کا حق ادا کیا ہے۔
اس تعلق سے 3 جنوری کو رات 8 بجے ایک اہم میٹنگ بنام پاور لوم پریشد کا انعقاد بنکر لانس میں کیا جارہا ہے جس میں رئیس شیخ کے ساتھ پرتاپ ہوگاڑے صاحب بھی شرکت کریں گے۔
رئیس شیخ کے ساتھ فون پر تفصیلی گفتگو میں درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اسٹڈی گروپ کے سبھی اراکین کو ساتھ لایا جائے تاکہ ہم مالیگاؤں شہر کے چھوٹے بڑے بنکروں اور صنعت کاروں کو ساتھ لے کر اس اسٹڈی گروپ کے سامنے اپنی بات رکھیں گے سکیں۔
شان ہند فیبرکس نامی کارخانے میں منعقدہ اس پریس کانفرنس سے شان ہند نہال احمد صاحبہ اور مولانا زاہد ندوی نے بھی مختصر خطاب کیا اور اسمبلی میں شہری نمائندگی کی کارکردگی پر سوال اٹھائے۔