دنیا بھر کے مسلمان کسی بھی جگہ نماز ادا کرتے ہوئے اپنا رُخ بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی سمت کرتے ہیں۔ معتمرین اور حجاج عمرے اور حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران خانہ کعبہ کے گرد (گھڑی کی سُوئیوں کے مخالف رُخ) سات چکر لگاتے ہیں۔
اس حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں کہ اللہ کے اس گھر کو پہلی مرتبہ کس نے تعمیر کیا۔ قرآن کریم خلیل اللہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام کے بارے میں تصدیق کرتا ہے کہ ان باپ بیٹے نے اللہ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی دیواریں تعمیر کیں۔
آج خانہ کعبہ کی اونچائی 15 میٹر ہے تاہم اس کی چوڑائی ہر جانب مختلف پیمائش رکھتی ہے۔ مغربی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور گیارہ سینٹی میٹر ہے۔ مشرقی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور 84 سینٹی میٹر ہے۔ جنوبی جانب خانہ کعبہ کی چوڑائی 11 میٹر اور 52 سینٹی میٹر اور شمالی جانب 11 میٹر اور 20 سینٹی میٹر ہے۔
خانہ کعبہ کی موجودہ شکل بھی وہ نہیں ہے جس شکل میں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا۔ مختلف زمانوں کے دوران بیت اللہ نئے سِرے سے تعمیر کیا گیا۔ ان میں درجِ ذیل مواقع سامنے آتے ہیں :
اسلام سے قبل کے زمانے میں قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو کی.
- صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن الزبیر کے ہاتھوں اس کی تعمیرِ نو ہوئی.
- اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں حجاج بن یوسف نے تعمیر کروایا۔
- آخری مرتبہ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان مراد چہارم نے 1630ء میں اس کی تعمیر کروائی۔ یہ ہی خانہ کعبہ کی موجودہ شکل ہے۔
اسی طرح خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں جن میں ہر کونے کے نام کی ایک دلیل ہے۔ رکن یمانی کی جانب رُکنِ عراقی اور شامی ہے۔ رکن حجرِ اسود اُس کونے کو کہا جاتا ہے جس میں جنّت کا یہ مبارک پتھر نصب ہے۔ اسی کے قریب بیت اللہ کا دروازہ ہے جو سال میں دو بار کھولا جاتا ہے۔ ہمیں حطیم کو بھی نہیں بُھولنا چاہیے جو خانہ کعبہ کا ہی حصّہ شمار کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں خانہ کعبہ کی تاریخ میں بعض دیگر امور کا اضافہ ہوا۔ ان میں اُس کا غلاف (کِسوہ) جو سال میں دو مرتبہ تبدیل ہوتا ہے، میزابِ رحمت اور شاذروان (خانہ کعبہ کے چاروں جانب نچلی دیوار) شامل ہے۔
خانہ کعبہ کے دروازے کو ماضی میں طویل عرصے تک کسی منظّم ترتیب کے بغیر کھولا جاتا رہا۔ تاہم شدید بھیڑ کے باعث اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرہ درپیش ہوا۔ لہذا یہ امر اس بات کا متقاضی ہوا کہ اس دروازے کو سال میں صرف دو مرتبہ کھولے جانے تک محدود کر دیا جائے۔ پہلی مرتبہ شعبان میں غُسلِ کعبہ کے موقع پر اور دوسری مرتبہ اس کے غُسل اور نئے غلاف کی تبدیلی کے موقع پر ذوالحجہ کے مہینے میں.