خراج عقیدت : غم دوراں کو غم جاناں پر فوقیت دینے والا مالیگاؤں کے ادبی اُفق کا’ ہلال‘جو7ستمبر1976 کو طلوع ہوا اور2 ستمبر 2015ءکو بجھ گیا
’’خود اپنی راہ بنا بے بسی کی بات نہ کر‘‘کی عملی مثال تھےعبداللہ ہلال مالیگ
اظہر مرزا
mirzaazhar.waquar@gmail.com
2ستمبر کوشہر مالیگاؤں کےایک بہترین شاعر و قلمکار انصاری عبداللہ ہلال مالیگ کی برسی تھی۔غنیمت تھی کہ اس قلندرمزاج شاعرکے کچھ چاہنے والوں نےاسے یاد کیا۔ورنہ مجھ جیسے رفاقت کا دم بھرنے والوں کو خاک خبر ہوتی۔بقول آغااکبر آبادی:’’کون آیا پڑھتے فاتحہ، کس نے چڑھائے پھول =مرنے کے بعد پوچھتا ہے کوئی یار کب ‘‘ اس سادہ لوح ،یارباش شخص کودنیا سے رخصت ہوئےآج ۶؍سال بیت گئے۔ منوں مٹی تلے جانے والوں کو دنیاکچھ وقت کے بعد بھول جاتی ہے۔ کچھ ہی ہوتے ہیں جو اپنے اخلاق ، اعمال،کردار، فن سےذہنوں میں زندہ رہ جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک تھے بھائی عبداللہ ہلال مالیگ۔ 7ستمبر 1976ء (سرکاری ریکارڈ :یکم جون1976ء )کو کمال پورہ کی وضعدار شخصیت حافظ عبدالواحد (مرحوم) کے گھریہ ہلال شعر وادب طلوع ہوا۔ والد نے رئیس احمد عبدالواحد کا نام دیا، جو اپنے قلمی نام عبداللہ ہلال مالیگ سے مشہور ہوا ۔6؍فٹ کے قریب لانبا قد،چھریرا جسم، لمبوترا چہرہ،کھڑی ناک، سیاہ رنگت، اندرکو دھنسی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں، سر پر زلفیں دراز ۔ چہرے مہرے اور چال ڈھال سےانجان کیلئے پہلی نظر میں ایک عجیب سے شخص تھے وہ،لیکن جاننے والوں کیلئے ایک نرم گفتارانسان اور دوست احباب کیلئے یاروں کے یار تھے۔رنگ و شکل کو خوبصورتی کاپیمانہ ماننے والی دنیا کیلئے ان کی صورت کچھ خاص نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ خدااگر کچھ لیتا ہےتو بہت کچھ دیتا بھی ہے۔ اسکی جیتی جاگتی مثال تھے عبداللہ ہلال ۔ خدانےایسی خوش الحانی دی کہ جو سنتا، سنتا رہ جاتا ۔فکر و قلم میں وہ جادوبیانی تھی کہ پڑھنے والا پڑھتا رہ جاتا۔ کچھ بینائی کی کمزوری اور کچھ حالات کی مجبوری تھی کہ مرحوم نے آٹھویں جماعت تک ہی تعلیم پائی۔ درسگاہ سے ناطہ ٹوٹا تو ہلال مالیگ نے خوداکتسابی کو شیوہ بنایا۔ یوں دنیا کی بھٹی نے تپا کر اسےکندن بنادیا۔ ایک حساس شاعر،مشاق قلم کار،عمدہ خوش نویس ،بہترین ناظم کے طور پر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔وہ اردو کے ایسے سچے عاشق تھے، زبان جن کی گھٹی میں پڑی تھی۔ اپنی مٹی اور وطن کی محبت ہی تھی کہ خود کو مالیگ کہلاتے۔ ان کی زندگی کا فلسفہ انہی کا یہ شعر معلوم ہوتا ہے؎
خود اپنی راہ بنا بے بسی کی بات نہ کر
ہلال مالیگ کے حیات و فن کو نہ تو میں اس مضمون میں سمیٹ سکتاہوں اور نہ ہی یہ میرا منشاء ہے ۔میں تو اپنےا س ربط وضبط کو قلم برداشتہ کررہا ہوں جو عبداللہ ہلال مالیگ کی نیک دلی کا مظہر ہے۔ مرحوم سے میری پہلی ملاقات ماموں زاد بھائی آصف اقبال مرزا کی آفس پر ہوئی تھی۔تب میں غالباً ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ عرصے بعد تب شروع ہوا جب مجھے معلوم ہوا کہ عبداللہ بھائی سٹی زن کامپلیکس(تعلیمی ادارہ) میں ’واچ مین‘ کی ملازمت کرتے ہیں۔ پھر کیا تھا میں اپنے بچپن کے دوست عمر فاروق کیساتھ اکثر عبداللہ بھائی سے رات ۹؍کے بعد ملاقات کیلئے جانے لگا۔ شعر وادب سے متعلق ان کی باتیں ہم دونوں بڑی توجہ سے سنتے۔ کچھ باتیں پلے پڑتیں کچھ سر سے جاتیں۔ اسی دوران عمر فاروق اور مجھے خیال گزرا کہ کیوں نہ ہم لوگ بچوں کا اخبار نکالیں۔ یہ ارادہ جب ان کے گوش گزار کیا تو انہوں نے حوصلہ افزائی کی۔ ہم نے اخبار کیلئے کچھ نام بتائے، انہوں نے ’عالم اطفال‘ کو پسندکیا۔ ساتویں آٹھویں کےطالب علموں کوصحافتی رموزواوقاف کی کیا شد بد ہوتی۔ ہم نے مشمولات کا جو خاکہ بتایا وہ سراسر ’ادبی سرقہ بازی‘ تھی۔ عبداللہ بھائی نے پھر بھی حوصلہ شکنی سے گریز کیا۔ میں اورعمر فاروق پہلے ہی طے کرچکے تھے کہ عبداللہ بھائی سے اخبارلکھوائیں گے۔ ہم نے منشا بیان کیا انہوں نے اسے حکم جانا۔یوں یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ہم مختلف اخبارات، رسائل سےکانٹ چھانٹ کر کہانیاں، لطائف، عام معلومات کے تراشے جمع کرتے اور انہیں عبداللہ بھائی کو سونپ آتے۔ وہ مقررہ وقت پر اخبارکی خوش نویسی کا کام مکمل کردیتے۔ایک دوبار تو ہم ان کے گھر تک جاپہنچے۔ شہر کے کمالپورہ علاقہ کی ایک تنگ گلی میں چھوٹے سے مکان میں رہنے والا یہ محنت کش قلم کا سپاہی اپنے گھر کو ’چمنستان اردو‘ کہتا تھا۔ ہمارا یہ اخبار لکھنے کا کام وہ بلامعاوضہ کرتے تھے۔ یہ ان کی اردو دوستی اور مدد گار طبیعت تھی ۔ہاں، ان کے دیوان’موم کی سیڑھی‘ کا ایک چوکھٹا ہم ان سے جبراً ضرور شائع کراتے تھے۔(تب یہ دیوان شائع نہیں ہوا تھا) اس طرح ہماری دانست میں ہم ان کا احسان کا بدلہ چکارہے تھے،ہائے کیا نادان تھے ہم۔ خیر چار صفحات لکھواکر ہم دونوں دوست اس کی زیراکس کاپیاں کرواتے اور پھر ہم جماعتوں میں تقسیم کرتے۔ کچھ خریدار خود سے آتے اور کچھ کو ہم جبراً خریدار بناتے۔
یہ سلسلہ کچھ ماہ چلا۔پھرہمارا یہ صحافت کا کلبلاتا ہوا کیڑا خاموش ہوگیا ۔ لیکن عبداللہ بھائی کے دربارمیں حاضری کا یہ سلسلہ نہیں تھما۔ ہفتے میں ایک دو روز تو ہم جادھمکتے۔ کبھی ابن صفی پر بات ہورہی ہے تو کبھی شاعری پر۔ کبھی کہانی نویسی پر مشورہ ہورہا ہے توکبھی کسی شعر کا مطلب سمجھا جارہا ہے ۔ ان کا کوئی نہ کوئی افسانہ نگار،شاعردوست روزانہ ہی مہمان ہوتا۔ اسلئے بیشتر اوقات تو ہم صرف سامع ہی ہوتے ۔ وہ بڑے یار باش تھے۔ روزانہ دوچار گھنٹے وہ محفل سجاہی لیتے۔مالی تنگی سے ہاتھ بھلے ہی تنگ تھے مگر دل کے امیر تھے۔ ہر مہمان کی وہ چائے سے تواضع کرنا اپنا فرض عین سمجھتے۔ عبداللہ بھائی سے یہ ربط و ضبط بارہویں تک باقاعدہ رہا۔ پھر بغرض تعلیم و ملازمت پونہ گیا تو ملاقاتیں کم کم رہیں۔ اس درمیان ہر سالگرہ پر عبداللہ بھائی کا ایک تہنیتی پیغام موصول ہوتا۔ یہ عبداللہ بھائی کی دوستی کا ایک انداز تھا کہ انہوں نے ہر دوست کی سالگرہ کی تاریخ اپنے موبائل کے ریمائنڈر میں سیٹ کرلی تھی۔ ہر کسی کو وہ سالگرہ کے وقت ضرور یاد کرتے۔ انہیں جب خبر ہوئی کہ مجھے انقلاب میں ملازمت مل گئی ہے تو بے انتہا خوش ہوئے۔ فون کرکے خوب دعائیں دیں۔ 2014 ءمیں ان کا شعری مجموعہ’’موم کی سیڑھی‘‘ طبع زاد ہوا تو مجھے تقریب کا دعوت نامہ بھیجا۔ ملازمت کے تقاضہ کے سبب میں شرکت نہ کرسکا۔ کچھ مہینوں بعد میری سرراہ ملاقات ہوئی تو اپنے جھولے سے کتاب کا نسخہ نکالا اور نذر خلوص کے کلمات لکھ کر سونپ دیا۔ میں نے نذرانہ دینا چاہا تو وہ انکار کرتے رہے۔ میرے غصہ ہونے پر پھر مجبوراً مان گئے۔ یہی میری ان سے آخری ملاقات تھی2015 میں ان کی علالت کی اطلاع ملی۔ گردہ کے عارضہ میں مبتلا ہوئے۔ اتفاق ایسا کہ میں عیادت کو جا ہی نہ سکا، پھر ان کے داغ مفارقت کی خبر ہی پہنچی۔ کچھ گھنٹے ملال رہا، کچھ دن وہ یادرہے پھر ہم اپنی دنیا میں مگن۔ جیتے جی سب کو یاد کرنے والے کو بعد مرنے کےکم ہی یاد رکھتے ہیں۔ یہی دنیا کا دستور ہے۔ اس یاروں کے یار سے محبت کا دم سب نے بھرا، نبھایا کچھ نے ہی۔بے شک خدا ہی ان کی محنت و خلوص کا اجر دے گا۔ اللہ مالک ان کی مغفرت فرمائے اور ورثاء کیلئے زندگی آسان کرے۔ آمین ۔
شہر میں اردو کے حلقے اب بھی سرگرم ہیں، شعری محفلیں بھی سجتی ہیں، ادبی نشستیں اب بپا ہوتی ہیں لیکن ان میں عبداللہ ہلال مالیگ جیسے اردو کے بے لوث متوالے کی کمی کھلتی ہے۔ میری دانست میں عبداللہ ہلال مالیگ غم جاناں سے زیادہ غم دوراں کو برتنے والے شاعر تھے۔ ان کے رنگ تغزل کو سمجھنا بوجھناہو تو ’موم کی سیڑھی‘سہارا بن سکتی ہے۔ اس میں ان کی جدوجہد بھری زندگی کا عکس بھی ہے اور ان کے قلم کی جولانیاں بھی ۔ یوں بھی کسی فنکار کیلئے سچا خراج یہی ہے کہ اس کے فن سے استفادہ کیا جائے اور اسے عام کیا جائے۔ عبداللہ ہلال نے اپنے جیتے جی یہ شعری مجموعہ تو شائع کروادیا لیکن اب بھی ان کے علمی ذخیرہ کا کافی کچھ کچھ مواد غیر مطبوعہ ہے اگر یہ شائع ہوجائے اور اسے اہل اردو ہاتھوں ہاتھ لیں تو یہ ایک قلم کے سپاہی کی قدردانی بھی ہوگی اور اس کے اہل خانہ کیلئے مالی سہارا بھی ہوگی۔
انصاری عبداللہ ہلال مالیگ کے شعری مجموعہ ’موم کی سیڑھی ‘ سے کچھ اشعار
اپنا رستہ خود بنا اور اپنی منزل خود تلاش
رہبران وقت کی ہوگی نوازش بھول جا
-------
ماضی و حال کا ماتم نہیں کرتے دانا
آنےو الا ہے جو کل اس پر نظر رکھتے ہیں
-------
موم کی سیڑھی سے چڑھ چڑھ کے مرے شہر کے لوگ
چاہتے ہیں کہ اٹھالائیں دہکتا سورج
اونچی بلڈنگ کے مکینوں کو یہ احساس کہاں
مفلسوں کو نظر آتا نہیں پیارا سورج
-------
ہم لوگ ہلال ایسے مد مست قلند رہیں
دنیا کی نظر کوئی للچائی نہ لی جائے
-------
سناتا کون گزرے وقت کے پُردرد افسانے
اگر اس عہد پرآشوب میں دادی نہیں ہوتی
-------
اجلی کاریں پیٹ کا ایندھن اور بچوں کی آس
مستقبل کے تانے بنتے آ اب لوٹ چلیں
-------
ساحرؔ سا کوئی درد نہ اظہرؔ سی تڑپ ہےغزلوں میں
یہاں صاحب دیوان بہت ہیں
-------
تسلیم نہ جب تک کرے اردو کو زمانہ
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
-------
بچوں کی کلکاری میرا خون بڑھاتی ہے گھر میں
خون پسینہ بن کرلیکن گھر کے باہر بہتا ہے
-------
گاؤں میں اصل چہرے ملتے ہیں
شہر میں آئینہ نہیں ملتا
زندگی بن گئی افلاس میں ڈھل کر پتھر
ہم تو جیتے ہیں شب و روز نگل کر پتھر
-------
نئی تہذیب اب انگلش زدہ ہے
تم اردو کے رسالے ڈھونڈ لوگے
-------
طے نہ کرپائے کوئی سمت سفر
زندگی کم اور ہلالؔ ارماں بہت
-------
ہمارے خوں سے روشن ہے شعورستان کی قندیل
جہاں جائیں وہاں اک روشنی ایجاد کرتے ہیں
-------
آج ہر قانون پر حاوی امیر شہر ہے
کیا رسائی ہو کسی مظلوم کی دستور تک
-------
بوقت دفن میت ہی ہمیں سمجھے گی یہ دنیا
ہم اپنی تلخیاں اشعار کے نشتر میں رکھتے ہیں
-------
سیاسی رہبروں نے کردیا ہے کھوکھلا اتناکہ
اپنے ہی وطن میں خودوطن کی آزمائش ہے
-------
مری زندگی کی سبھی تلخیاں اب
غزل بن کے شعروں میں ڈھلنے لگی ہے
_________
افسانہ
برف ہوتی رگیں
نعیم سلیم ، مالیگاوں، مہاراشٹر،
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شاہراہ عام پر بھیڑ جمع ہے .پولس کے جوان مجمع کو قابو میں کررہے ہیں .ٹی وی چینل میڈیا کے نمائندے دوڑے چلے آرہے ہیں.........
انکاؤنٹر ہوا ہے.......
ہوگا سالا کوئی کریمنل....
ارے نہیں آتنکوادی ہوگا دیکھا نہیں کیا چہرہ.....
یہ سالے سب طرف بم پھوڑتے رہتے ہیں......
خود بھی چین سے نہیں جیتے اور نہ جینے دیتے ہیں.........
اور بھی پتہ نہیں کیا کیا کہا جاتارہا,میں تیزی سے بھیڑ چیرتا ہوا وہاں سے آگے بڑھا پیچھے
مڑکر دیکھ رہا ہوں تو کوئی میرے تعاقب میں نہیں ہے. ..پولس کے جوان بھیڑ کو قابو کرنے کے چکر میں مجھ سے غافل ہوگئے ہیں..... ...کچھ دور چل کر ابھی روڈ کراس ہی کیا ہوں کہ ایک منظر دیکھ کر پاؤں جم سے گئے.ایک نوجوان کو چند لوگ بری طرح ماررہے ہیں .لوگ دیکھتے اور آگے بڑھتے جارہے ہیں..میں نے ایک نوجوان سے کہا
ارے بھائی مرجائیگا.....
مگر میری بات پر کسی نے دھیان نہیں دیا.
ان میں سے ہی ایک چلایا اور مارو سالے کو بہت ہمت بڑھ گئ ہے ان کی......
ہمارا دیش ہے.ہم جیسے چاہیں ویسا چلائیں گے......
ارے بس کرو نہیں تو یہ مرجائے گا اتنا کافی ہے اس کی اوقات بتانے کیلئے............
چلو چلو.کئ آوازیں گونجیں اور وہ سب ایک طرف.چل دئے....
.میں نے دوڑ کر اسے اٹھانا چاہا مگربہت زیادہ زخمی ہوجانےکی وجہ سے وہ میری بات نہیں سن پارہا ہے..کافی خون بہہ چکا ہے بچنا مشکل ہے....... .
ارے بھائی کوئی تو مدد کرو......ارے بھائی لوگ اسے ہاسپٹل لے چلنے میں مدد کرو میری.......
ٹیکسی.........
میں چینخ رہا ہوں
مگر سب ایک نظر دیکھ دیکھ کر آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں.
لو آرہی ہے ایمبولنس اتنا احسان تو کردیا کسی نے کہ انہیں خبر کردی.......
میں آگے بڑھتا ہوں..یہ شہر کا سبزیوں اور پھلوں کا بازار ہے .دوکاندار آوازیں لگا رہے ہیں.مول تول ہورہا ہے.
کیا ؟ سو روپے کلو..؟
سبزی بیچ رہے ہو یا سونا......
آگ ہی لگ گئ ہے.سب چیزوں میں.........
غریبوں کا تو جینا دوبھر کردیا ہے........
کیا کریں صاحب مال کی قلت ہے ہمیں کتنی مشکل سے مل رہا ہے.ہم جانتے ہیں...
ارے نہیں لینا تو مت لو....یہ فالتو کی بک بک مت کرو.....
کہیں نرمی سے تو کہیں غصے میں تکرار بہر حال جاری ہے......
سامنے سڑک کے کنارے قریب ستّر پچھتّر سال کی بوڑھی عورت ایک ٹوکرے میں آم لئے بڑی حسرت سے راہگیروں کو تک رہی ہے.لوگ ایک سرسری نظر ڈال کر آگے بڑھ جارہے ہیں...اس کے عین پیچھے آرام دہ آفس میں چند تاجر اور کمیشن ایجنٹ بیٹھے ہنسی مذاق میں مشغول ہیں......
چلو میں ہی خرید لوں کچھ تو ٹوکرے کا بوجھ کم ہوجائے... ضعیفہ کے قریب پہنچا اس کی آنکھوں میں چمک آگئ.............
آم کیسے دئے مائی ...؟
شاید اس کی قوت سماعت جواب دے چکی ہو.
پھر خیال آیا بھاؤ تاؤ کیوں کرنا ؟ براہ راست پیسے دیدوں جتنا اسے لینا ہو لے گی........
کتنا خرید سکتا ہوں جیب کا جائزہ لینے کیلئے ہاتھ ڈالا تو طوطے اڑگئے جیب خالی ہے..رنجیدہ ہوکر پھر اسی تیزی سے اٹھ کر آگے بڑھ جاتا ہوں.............
آخر میں بے مقصد سڑکوں پرکیوں بھٹک رہا ہوں.؟ارے ہاں میں تو بھاگ رہا ہوں.....
بلاوجہ کے الزام سے.....
قانون کے محافظوں کی گرفت سے بچنے کیلئے.......
کیونکہ..
میرے پاس میری بے گناہی کا ثبوت بھی تو نہیں ہے..........
ہاں میرا نام اور حلیہ ہی مجھے میڈیا اور سماج کی نظروں میں مجرم ثابت کرنے کیلئے کافی ہے................
سڑکوں پر بھیک مانگتے معصوم بچے..دووقت کی روٹی اور سر چھپانے کیلئے چھت سے بھی محروم بے شمار معمّر افراد...........
ہوٹلوں میں کام کرتے گندے کپڑوں میں ملبوس دھول میں اٹے جیسے کنول کے پھول...
بازارحسن میں ننھی ننھی کلیاں.........
فیکٹریوں میں کارخانوں میں..........
بڑی بڑی دوکانوں میں....
سڑکوں پر....
بوجھ لادے پسینے میں شرابور مزدور....
ہرصاحب ِاختیار شخص کا اپنے ماتحتوں کا استحصال.......... ...
قتل غارت گری...
لوٹ مار عصمت دری....
اور بھی بے شمار مناظر جو میں دیکھ رہا ہوں وہ کسی اور کو نظر بھی آرہے ہیں یا نہیں....؟
حکومت اپوزیشن میڈیا کہاں ہیں سب کے سب ؟؟؟؟؟؟
میری رفتار اب دھیمی ہوگئ ہے .........
ً تین دنوں سے بھاگتے بھاگتے بہت تھک گیا ہوں..............
حیرت ہے اب کی بار کوئی میرے تعاقب میں نظر نہیں آرہا .....؟
تھوڑا سُستانا چاہئے.
وہ رہاسامنے ایک شوروم جہاں خواتین خریداری کررہی ہیں اور مرد بچوں کوساتھ لئے موبائل پر نظریں گاڑے تو کچھ لوگ ہال کے وسط میں لگے ہوئے ایک بڑے اسکرین پر آنکھیں جمائے مست ہیں. .............
ابھی کچھ دیر پہلے شہر کے مرکزی علاقے میں ایک دہشت گرد انکاؤنٹر میں ماراگیا.......
پولس کو ملی بڑی کامیابی.........
دہشت گرد انجام دینے والا تھا کوئی بڑی واردات....
پولس کا دعویٰ.......
تازہ خبروں کیلئے بنے رہئے ھمارے ..............
اور جب وہاں کے لائیو مناظر بتائے گئے تو میں بے اختیار چینخ پڑا......نہیں........
میں دہشت گرد نہیں ہوں.......
میں دہشت گرد نہیں ہوں......
جائے حادثے پر پہنچنے کیلئے مڑا اور سرپٹ دوڑنے لگاجیسے ہی قریب پہنچاتو دیکھا کہ نورانی لباس میں مسکراتے کچھ چہرے میری جانب بڑھے آرہے ہیں .
ک.ک.ک.کون ہو تم لوگ.؟
بھیس بدل کر مجھے گرفتار کرنے آئے ہو...؟
کیا بگاڑا ہے میں نے کسی کا....؟
میں تو انسانیت اور انصاف کیلئے کوششیں کررہا تھا......لیکن ....
مجھے دہشت گرد بدنام کردیا گیا......
میں دہشت گرد نہیں ہوں.........
میں دہشت گرد نہیں ہوں..........
آخر وہ نورانی لباس میں ملبوس گروہ مجھ تک پہنچ ہی گیا...
_______🔴🔴
غزل
ضروری تو نہیں پھر بھی چلو یہ کام کر لیں گے
ہم ان کے سارے دکھ دردوں کو اپنے نام کر لیں گے
نہ آنے دینگے تجھ پر آنچ بدنامی کے شعلوں کی
تیری خاطر ہم اپنے آپ کو بدنام کر لیں گے
ہوا کے سرپھرے پن سے ہمیں کب کوئی مطلب ہے
کرے وہ کام اپنا ہم بھی اپنا کام کر لیں گے
گریزاں ہم کو رہنا ہے گھنے پیڑوں کے سایوں سے
ملا موقع تو غم کی دھوپ میں آرام کر لیں گے
ہزار انجم ہماری راہ میں ہو جائیں گے روشن
جو ہم ان شب زدہ لمحوں کو زیر ِ دام کر لیں گے
صلیب ِ حادثات ِ وقت ہے اکسیر اور ہم ہیں
اسی پر آؤ ہم اپنی کہانی رام کر لیں گے
محمد ہارون اکسیر
ادیب(علیگ)
کمالپورہ مالیگاؤں ناسک
______🔴
غزل
مجھ سے وفا کے جذبوں کو مارا نہیں گیا
آنکھوں سے میری عکس تمہارا نہیں گیا
دھندلا گیا جو نقش نکھارا نہیں گیا
آنکھوں میں حسرتوں کو ابھارا نہیں گیا
نظروں سے تیری گر کے گوارا نہ تھی حیات
اس راستے سے خود کو گزارا نہیں گیا
دن کا قرار، نیند تو شب کی مری لٹی
اس معرکے میں کچھ بھی تمہارا نہیں گیا
جب سے ترا فراق ہے اس دل میں شعلہ زن
دیوار و در کو مجھ سے سنوارا نہیں گیا
مانگی نہیں ہے میں نے کبھی بھیک میں وفا
مجھ سے کبھی ضمیر کو ہارا نہیں گیا
چھپ جائیں جس کی تہہ میں کئی بد نما نقوش
وہ روپ مجھ سے شہر میں دھارا نہیں گیا
زریؔاب پھر کسی کی تمنا نہیں رہی
پھر دل میں کوئی شخص اتارا نہیں گیا
ہاجرہ نور زریاب آکولہ
Hajra Noorahmad