شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
آج بات پھر منی پور کی ، کیونکہ اس شرم ناک واردات پر چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کی بجائے ، سیاست داں اب ’ تیرا ریپ ، میرا ریپ ‘ کی باتیں کرنے لگے ہیں ! اور اس ضمن میں ، خواتین و اطفال کی بہبودی کی مرکزی وزیر ، اسمرتی ایرانی کا بھی ذکر آئے گا ، جو منی پور معاملہ پر کوئی تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اور اپنی پارٹی بی جے پی اور حلیف سیاسی پارٹیوں کی اس بات سے متفق ہیں ، کہ اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں بہار ، چھتیس گڑھ اور راجستھان و مغربی بنگال میں بھی ایسے معاملات ہو رہے ہیں ! سب جانتے ہیں ، کہ جب سے منی پور میں برہنہ کر کے گھمائی گئیں تین خواتین کا ، جن میں سے ایک کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا ، اور باپ اور بھائی کی بے دردی کے ساتھ لنچنگ کر دی گئی تھی ، ویڈیو وائرل ہوا ہے ، اپوزیشن کا یہ مطالبہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر بیان دیں ، لیکن وہ پارلیمنٹ کے اندر بیان دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ہاں ، انہوں نے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے آغاز پر اپنے ایک مختصر سے بیان میں منی پور کی واردات پر اپنے ’ غم ‘ اور ’ غصے ‘ کا اظہار ضرور کیا تھا ، لیکن یہ اظہار صرف چھتیس سیکنڈ پر محیط تھا ، اور منی پور کے ذکر کے ساتھ انہوں نے چھتیس گڑھ اور راجستھان کا ذکر کر کے منی پور کی شرم ناک اور انتہائی لرزہ خیز واردات کو ، ریپ کی ایک کم لرزہ خیز واردات میں ڈھال دیا تھا ۔ اور بیان بھی ، ایوان کے اندر نہیں باہر دیا گیا تھا ۔ آج جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے ، متحدہ اپوزیشن ’ انڈیا ‘ کا ایک وفد منی پور کے دورے پر ہے ، اس سے قبل کانگریسی قائد راہل گاندھی منی پور کا دورہ کر آئے ہیں ، لیکن آج تک وزیراعظم نریندر مودی اور خواتین اور اطفال کی بہبودی کی وزیر اسمرتی ایرانی نے منی پور جانا ، مظلوموں سے ملنا ، ان کے زخموں پر مرہم لگانا ، اور ریاست میں امن و امان کے لیے اپیل کرنا بھی گوارہ نہیں کیا ہے ، یہاں تک کہ وہاں کے وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ کو ، جن پر منی پور کے کوکی قبائل کو نشانہ بنانے اور تشدد کو ہوا دینے کا سنگین الزام ہے ، برخواست بھی نہیں کیا ہے ! ظاہر ہے کہ یہ حالات اپوزیشن کو حکومتِ وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا ایک موقعہ فراہم کرتے ہیں ، اور ویسے بھی اپوزیشن کا یہ کام ہے کہ وہ حکومت کو اُس کے فرائض یاد دلائے ، اور فرائض کی عدمِ ادئیگی پر اُس پر کڑی تنقید کرے ۔ اپوزیشن نے اپنا یہ کام بخوبی کیا ہے ، اور کر رہی ہے ۔ پی ایم مودی پارلیمنٹ کے اجلاس سے غیر حاضر رہے ہیں ، کیونکہ یہ زور دیا جا رہا ہے ، کہ وہ منی پور پر بیان دیں ۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیوں یہ زور کہ پی ایم مودی ہی جواب دیں یا بیان دیں ؟ اس کا جواب سامنے ہے ؛ مودی ملک کے وزیراعظم ہیں ، اور ملک میں جو کچھ ہوگا ، اس کی ذمہ داری ان پر ہی ہوتی ہے ۔ جب وہ ’ وندے بھارت ‘ ٹرینوں کو ہری جھنڈی دکھانے جیسا ایک غیراہم کام کر سکتے ہیں ، تو منی پور کا معاملہ تو سنگین ہے ، وہاں کیوں جا نہیں سکتے ہیں ، یا بیان کیوں نہیں دے سکتے ہیں ؟ منی پور جانا یہ ذمہ داری اپوزیشن کی نہیں ہے ، لیکن اپوزیشن وہاں گیا ہے ، اور اس کا عزم ہے کہ وہ وہاں جاکر مظلوموں کی باتیں سُنے گا ، ان کے زخموں پر مرہم رکھے گا اور وہاں کے لوگ جو ایک طرح کی بے بسی میں جی رہے ہیں ، جنہیں لگتا ہے کہ کوئی ان کی خبر نہیں لے رہا ہے ، انہیں یہ احساس دلائے گا کہ کچھ لوک سبھا اراکین ہیں جو اُن کے غم میں اُن کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اب یہ خبر تو آنے لگی ہے کہ پی ایم مودی روزانہ کئی کئی بار منی پور کی خبر لے رہے ہیں ؛ لیکن وہ اب بھی نہ وہاں جانے کو تیار ہیں ، اور نہ کوئی بیان دینے کو ۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم منی پور پر کوئی بیان نہیں دینا چاہتے ؟ یہ سوال اس لیے اٹھ رہا ہے کہ ان کا ٹریک ریکارڈ کچھ ایسا ہی ہے ، نہ انہوں نے ’ پہلوان بیٹیوں ‘ کے جنسی استحصال پر زبان کھولی ، اور نہ ہی انہوں نے برج بھوشن شرن سنگھ پر بات کی ، نہ ہی انہوں نے احتجاجی کسانوں کی اموات پر منھ کھولا ، اور نہ ہی اڈانی پر لگے الزامات کا کوئی ذکر کیا ، جبکہ اُن دنوں پارلیمنٹ میں ’ مودی اڈانی بھائی بھائی ‘ کا شور تھا ۔ پی ایم مودی زبان کھولیں اس کو یقینی بنانے کے لیے اپوزیشن نے ‘ تحریکِ عدمِ اعتماد ‘ پیش کی ہے ، اس کا جواب پی ایم کے لیے دینا لازمی ہوگا ۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ پی ایم مودی لچھے دار بیان دے کر سارے معاملے کو ہوا میں اڑا دیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’تحریک عدمِ عتماد ‘ کا جواب دینے کی ’ لازمی ‘ پابندی کو اپنے لیے ’ لازمی ‘ نہ مانیں ، اور کوئی جواب نہ دیں ؛ کہتے ہیں نہ کہ ’ مودی ہے تو ممکن ہے ‘ ۔
مذکورہ پس منظر میں ۲۶ ، جولائی کے روز راجیہ سبھا میں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کے ’ غصے ‘ کو دیکھا جانا چاہیے ۔ وہ جس طرح سے طیش میں آئیں اُسے دیکھتے ہوئے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’’ اسمرتی ایرانی کو غصہ کیوں آتا ہے ؟ ‘‘ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’ اداکاری کب تک ؟ ‘‘ بات صرف اتنی تھی کہ اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ منی پور کا سوال اٹھا رہے تھے ، وہ یہ دریافت کر رہے تھے کہ کیوں خواتین اور اطفال کی بہبودی کی وزیر ہونے کے باوجود انہوں نے منی پور کی عورتوں ور بچوں کی کوئی خبر نہیں لی ۔ سوال جائز تھا کیونکہ منی پور سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ بے حد تشویش ناک ہیں ، خبر ہے کہ نابالغ بچیوں کا ریپ کیا گیا ہے ، اور لاشیں گڑھے میں دبا دی گئی ہیں ، خبر ہے کہ عورتوں کو ریپ کرنے کی اور انہیں برہنہ گھمانے کی ایک نہیں کئی وارداتیں ہوئی ہیں ، خبر ہے کہ بچے مارے گئے ہیں ، نوجوانوں کے سر کاٹے گئے اور آنکھیں نکال لی گئی ہیں ! یہ سارے واقعات اگر ہوئے ہیں ، تو انہیں ’ عام واردات ‘ نہیں کہا جا سکتا ؛ یہ انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کُشی ہے ، ایسا نہ بہار میں ہوا ہے ، نہ راجستھان میں ، نہ ہی چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال میں ۔ مگر سوالوں پر اسمرتی ایرانی کو شدید طیش آیا ، انہوں نے غصے سے لرزتے اور زور زور سے چیختے ہوئے کہا ، ’’ آپ میں یہ بتانے کی ہمت کب ہوگی کہ کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں خواتین کی عصمت دری کیسے کی جاتی ہے؟ آپ میں یہ بتانے کی ہمت کب ہوگی کہ راجستھان ، چھتیس گڑھ اور بہار میں کیاہو رہا ہے ؟ یہ بتانے کی ہمت کب ہوگی کہ راہل گاندھی نے منی پور کو کیسے آگ لگائی؟ اس کابینہ میں خواتین وزراء پر الزامات مت لگائیں ۔‘‘ کیا اسمرتی ایرانی ،منی پور کا موازنہ راجستھان ، چھتیس گڑھ اور بہار کے واقعات سے کرنے میں درست تھیں ؟ کیا واقعی جو کچھ مذکورہ ریاستوں میں ہوا ، وہ سب بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں مثلاً اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں نہیں ہو رہا ہے ؟ لہٰذا اگر اسمرتی ایرانی راجستھان ، چھتیس گڑھ اور بہار پر بحث کرانا چاہتی ہیں ، تو وہ یوپی اور ایم پی پر کا نام کیوں نہیں لے رہی ہیں ، کیوں اپنی فہرست سے ان دو ریاستوں کو باہر رکھا ہے ؟ اور اس سے بھی اہم سوال ، کیوں اسمرتی ایرانی خود مذکورہ ریاستوں پر بحث نہیں کروا لیتیں ، انہیں کس نے روکا ہے ؟ کیا یہ نہ سمجھا جائے کہ حکمراں جماعت منی پور کے معاملے میں بحث کرنے سے کترا رہی ہے ، کیونکہ اس بحث کے دوران جو سوالات اٹھ سکتے ہیں ، ان کے جواب دینا آسان نہیں ہوں گے ؟ اسمرتی ایرانی ۳ ، مئی سے ہی ، جب منی پور جلنا شروع ہوا تھا ، خاموش تھیں ، ان کی زبان اُسی وقت کھلی جب پی ایم نے اپنا مختصر سا بیان دیا ، اور اسی رُخ پر کھلی جِس رُخ پر پی ایم اس بحث کو لے جانا چاہتے تھے ، یعنی یہ کہ جب اپوزیشن کا کوئی ایم پی منی پور کا سوال اٹھائے ، تو اس کے سامنے راجستھان ، چھتیس گڑھ ، بہار اور مغربی بنگال کا سوال اٹھا دو ۔ یہ اور بات ہے کہ مذکورہ ریاستوں میں جرم کے خلاف بھی اور ملزمین کے خلاف بھی کارروائی ہو چکی ہے ۔ مزید یہ کہ اگر مذکورہ ریاستوں میں عورتوں اور بچوں کے خلاف جرم ہوا ہے ، تو ایک وزیر کی حیثیت سے آسمرتی ایرانی نے کوئی اقدام کیوں نہیں کیا ؟ کیااس لیے کہ بار بار ریاستوں کا نام لے کر اپوزیشن کو بدنام کیا جا سکے ؟ سچ یہ ہے کہ اسمرتی ایرانی جس طرح دوسرے محکموں کی وزیر کی حیثیت سے ناکام تھیں ، اسی طرح اب جس محکمے کی وزیر ہیں ، اس کا کام کاج کرنے میں بھی ناکام ہیں ۔ وہ ۲۰۱۹ء سے خواتین و اطفال کے بہبود کی وزیر ہیں ، اس دوران خواتین کے استحصال کے کئی سنگین معاملے سامنے آئے ، لیکن ان کی زبان کبھی نہیں کھلی ، وجہ یہ تھی کہ ان معاملات میں بی جے پی کے لیڈران پر الزام تھا ۔ ’ پہلوان بیٹیوں ‘ کا معاملہ ایک عرصے تک موضوعِ بحث رہا ، مگر اسمرتی ایرانی نے نہ کبھی خواتین پہلوانوں سے ملنے کی ضرورت محسوس کی ، اور نہ کبھی بی جے پی کے لیڈر برج بھوشن شرن سنگھ پر ، جو اس معاملے کے ملزم ہیں ، تنقید یا نکتہ چینی کرنا ضروری سمجھا ۔ بلقیس بانو کے مجرموں کو بری کیا گیا اسمرتی ایرانی کو شرم نہیں آئی ۔ ہاتھرس کا معاملہ ۲۰۲۰ء کا ہے ، یہ تب بھی عورتوں کی بہبود کی ذمہ دار تھیں ، اس معاملہ میں بھی ان کی زبان بند ہی رہی تھی ۔ ہریانہ میں رام رحیم کو ’ پیرول ‘ پر رہائی بی جے پی کے راج میں ملتی ہے ، اور بار بار ملتی ہے ، یہ خواتین کے جنسی استحصال کے مجرم ہیں ، مگر اسمرتی ایرانی کی زبان پر تالا لگا رہتا ہے ۔ انہوں نے ایک بار کسی بچے کو ماں کے ذریعے تھپڑ لگانے حمایت میں ایک ٹوئٹ کیا تھا ، جبکہ یہ بچوں کے بہبود کی وزیر ہیں ۔ ان پر اپنی بیٹی کے گوا کے ریستوراں کو ناجائز طور سے چلانے کا الزام لگا ہے ۔ ان کی ڈگری موضوعِ بحث بنی ہے ، مگریہ اپنے کام پر کوئی تنقید برداشت کرنے کی روادار نہیں ہیں ۔ اب تک انہوں نے منی پور کی اُن خواتین سے ، جن کے ویڈیو وائرل ہو چکے ہیں ، بات تک نہیں کی ہے ۔ وہ ۲۰۲۲ء سے اقلیتی محکمہ کی بھی وزیر ہیں ، اور اس حیثیت سے انہوں نے اس بار ہندوستانی حجاج کے لیے جو مشکلات پیدا کی تھیں ، ویسی مشکلات کبھی حجاج کو پیش نہیں آئیں ۔ اور اسی حیثیت سے انہوں نے ’ قادیانی ‘ فرقے کے لیے اپنی ’ ہمدردی ‘ کا اظہار بھی کیا ہے ، اور انہیں مسلم برادری سے خارج کرنے کے فیصلے پر ، مارے طیش کے کہا ہے کہ اس سے ’’ احمدیہ برادری کے خلاف نفرت بڑھے گی اور وقف بورڈ کو کسی کی مذہبی شناخت کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے اور وہ احمدیوں کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا ۔‘‘ بات دراصل یہ ہوئی کہ جمعیتہ علماء ہند نے آندھرا پردیش وقف بورڈ کی ایک تجویز کی ، جس میں احمدیہ ( قادیانی ) جماعت کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے ، حمایت کی ہے ، نیز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام مسلمان آندھرا پردیش وقف بورڈ کی تجویز سے متفق ہیں ۔ یہ تجویز بھی اس لیے لائی گئی ہے کہ اقلیتی امور کی وزارت یہ چاہتی ہے کہ اوقاف میں احمدیہ جماعت کا بھی حصہ ہو ! وزارت کو احمدیہ فرقے کی جانب ہی سے اس سلسلے میں ایک خط ملا تھا ، جس پر وزارت کا ردعمل آیا تھا ۔ اسمرتی ایرانی کی قادیانیوں کے تئیں ہمدردی سے کوئی اختلاف نہیں ہے ، وہ چاہیں تو انہیں اپنے ساتھ جوڑ سکتی ہیں ، لیکن چونکہ وہ اسلام کے بنیادی عقیدے ’ ختمِ نبوت ‘ کو نہیں مانتے ، اس لیے انہیں اسلام سے خارج کیا گیا ہے ، اور ساری اسلامی دنیا انہیں اسلام سے خارج مانتی ہے ، اسمرتی ایرانی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں دخل نہ دیں ۔ رہی بات ’ نفرت ‘ کی تو ذرا دیکھیں کہ بی جے پی کس قدر نفرت پھیلا رہی ہے ! اس پر دھیان دیں ۔ راہل گاندھی کے ’ آبزیشن ‘ سے باہر نکلیں ، راہل جون میں منی پور گئے تھے ، اور منی پور ۳ ، مئی سے جل رہا تھا ، شرم ناک واردات ۴ ، مئی کی ہے ، اس لیے اُن پر منی پور میں ’ آگ بھڑکانے ‘ کا الزام لگانا مودی سرکار کی ناکامی اور لاپروائی کو چھپانے کی کوشش ہے ؛ لیکن منی پور میں جو ہوا ، جو ہو رہا ہے ، اس پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا ۔
____________
پروین شاکر کا انٹرویو !
انٹرویو لینے والا : گلزار جاوید
-----------------------------
س : کہتے ہیں شاعری متعدی مرضی ہے آپ کب اور کیونکر اس کا شکار ہو ئیں؟
جواب : غلط کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے 1968ء میں پہلی نظم لکھی یہ یوم دفاع پاکستان کے موقع پر تھی۔
س ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے کلچر زدہ لوگ انگریزی زبان میں تھوڑی سی شدبد حاصل کرنے کے بعد مغربی ادب کے دلدادہ اور پر چارک بن جاتے ہیں آپ ماشا اللہ دنیا کی مشہور ترین درسگاہوں کی فارغ التحصیل ہونے کے باوجود اردو ادب کو کیوں اوڑھنا بچھونا بنائے بیٹھی ہیں؟
جواب : مجھے اپنی زبان ادب اور کلچر کے بارے میں کبھی احساس کمتری نہیں ہوا۔
س ۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آپ کے قاری اور مداح آپ کے بارے میں اتنا
کچھ نہیں جانتے جتنی ان کے دل میں خواہش پائی جاتی ہے۔
جواب : مجھے میری کتابوں میں ملیں۔
س ۔ آپ کے لہجہ میں متانت سنجیدگی اور ٹھہراؤ کس مکتب فکر کی دین ہے اور یہ کہ آپ شاعری کی کسی صنف کو محبوب گردانتی ہیں؟
جواب : یہ چیزیں کسی مکتب فکر سے نہیں آتیں۔ مزاج کا حصہ ہوتی ہیں۔ ہر صنف اچھی لگتی ہے ۔ لیکن غزل کی دلآویزی اپنی جگہ ہے ۔
س۔ آپ کے ہاں اجتماعی مسائل کی نسبت ذات کا غم نمایاں نظر آنے کا سبب کیا ہے؟
جواب : میری زندگی
س ۔ کامیابی اور کامرانی کے لیے رہبر و رہنما کا وجود کس قدر ضروری خیال کرتی ہیں یا فقط صلاحیت اور محنت کے بل بوتے پر خود کو منوانے کی قائل ہیں؟
جواب : دونوں چیزیں ضروری ہیں۔
س ۔ رنگ خوشبو موسم ، ماحول اور مزاج کونسی کیفت تخلیق کے لیے مہمیز کام دیتی ہے؟
جواب : اندر کا موسم
س ۔ ایک نقطہ نظر خواتین کو چار دیواری کی زینت بنانے پر مصر اور دوسرا مردوں کے شانہ بشانہ مصروف کار رکھنے کا آرزو مند، آپ ان میں سے کسی ایک سے متفق ہیں یا اپنا الگ تصور رکھتی ہیں؟
جواب : میں ایک " ورکنگ وومن " ہوں اور یہی آپ کے سوال کا جواب ہے۔
س ۔ پہلے باپ پھر شوہر عورت کی شناخت کے یہ حوالے توہینِ نسواں کے زمرے میں نہیں آتے؟
جواب : یہ تو بہت خوبصورت رشتے ہیں ۔۔۔ ان میں توہین کا پہلو کہاں سے نکل آیا ؟
پیشکش : عمار نعیمی
______
غزل
🔴منتظمِ عاصی مالیگاؤں
حسّاسِ دل طلوعِ اساسِ الم رہا
طائر عمارِ روحِ رواں آمدم رہا
دارالامکاں سے عالمِ اسرارِ لا مکاں
اصلاحِ عم سلامِ درودِ حرم رہا
طاہورِ حدِّ حور و ملک راہِ سالمہ
عالم کراں سَرارِ رُعادہ عدم رہا
معدوم حصار وا کُرَۂِ آسماں سَرا
اسلام سر علیٰ دمِ لہرا عَلَم رہا
محلول روحِ عادِ کلاں لم سلام کا
وعدہ امامِ عالی کا احرامِ دم رہا
مہموسہ لوحِ لام دِرَم ماہِ ماہ لا
احرامِ سلسلہ رگِ اکرامِ سَم رہا
عاصی علومِ عار عَرا عودِ عاملہ
مل کر ملولِ دل مہِ امدادِ ہم رہا
منتظمِ عاصی مالیگاؤں
______
غزل
دکھائی دے تو رہا تھا ہزار لوگوں کو
میں دستیاب ہوا تین چار لوگوں کو
गज़ल
दिखाई दे तो रहा था हज़ार लोगों को
मैं दसतियाब हुआ तीन चार लोगों को
مرے خدا کے کرم کی بڑی مثال ہے یہ
کفن سفید ملا داغدار لوگوں کو
मेरे खुदा के करम की बड़ी मिसाल है ये
क्फन सुफिद मिला दागदार लोगों को
ہر اک زمین کی تاریخ نے گواہی دی
تباہ کر کے رہا انتشار لوگوں کو
ये हर ज़मिन की तारिख ने गवाही दि
तबाह कर के रहा ईन्तेशार लोगों को
یہ ہر مقام پہ فوراً پہنچنا چاہتے ہیں
پسند آتی نہیں ہے قطار لوگوں کو
ये हर मकाम पे फौरन पहुंचना चाहते हैं
पसंद आती नहिं है कतार लोगों को
ابھی یہ قبر میں تجھ کو لِٹا کے لَوٹے ہیں
نہیں رکیں گے تُو چیخ اور پکار لوگوں کو
अभी ये कब्र में तुझ को लेटा के लौटे हैं
नहिं रुकेंगे तू चीख और पुकार लोगों को
سنا ہے اب وہی لوگوں کے انتظار میں ہے
کہ جس کا ہوتا تھا خوب انتظار لوگوں کو
सुना है ab वही लोगों के इन्तेज़ार में है
के जिस का होता था खूब इन्तेज़ार लोगों को
ارشاد انجم مالیگاؤں
इर्शाद अंजुम मालेगाँव