حضرت داؤد 965 قبل مسيح فلسطین میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے۔ محمد بن اسحاق، حضرت وہب بن منبہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ حضرت داود پستہ قد تھے۔ آنکھیں نیلی تھیں، جسم پر بال بہت کم تھے، چہرے سے پاکیزگی جھلکتی تھی، نہایت ہم درد قوی بہادر اور نڈر ہونے کے ساتھ حکم رانی اور فیصلہ کرنے کی قوت تحفہ خداوندی تھی۔ آپ اسرائیلی اسباط میں یہودا کی نسل سے تھے۔ باپ
کا نام یسا یا یسی تھا۔
کم سن دائود کی پہلی فتح قوم عمالقہ کے ظالم و جابر بادشاہ، جالوت کی فوج کے مقابلے میں صف آرا بنی اسرائیل کے بادشاه حضرت طالوت کے لشکر میں ایک کم عمر نوجوان بھی اپنی غلیل کے ساتھ شامل تھا، کیوں کہ نو عمر ہونے کی وجہ سے اُسے اسلحہ نہیں دیا گیا تھا۔ جالوت جسم کو سامان حرب سے سجائے، نہایت
رعونت اور تکبر سے شاہی سواری پر بیٹھا اہل ایمان کو دعوت مبارزت دے رہا تھا۔ ابھی بنی اسرائیل کا یہ چھوٹا سا لشکر کوئی فیصلہ بھی نہ کر پایا تھا کہ اچانک اُن کی صفوں میں موجود یہ کم عُمر نوجوان عقاب جیسی
برق رفتاری سے باہر نکلا اور جالوت کے سامنے پہنچ کر اسے للکارنے لگا۔ گوشت کے پہاڑ، لحیم شحیم اور طویل القامت جالوت نے حیرت کے ساتھ نوجوان کو دیکھا تو حقارت سے بولا جا! میری آنکھوں کے سامنے سے دُور ہو جا، میں تجھے قتل کرنا پسند نہیں کرتا۔ بے خوف نوجوان نے بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گرج دار آواز میں جواب دیا لیکن تجھے قتل کرنا مجھے پسند ہے۔ پھر فلک پر چمکتے سورج کی تیز روشنی میں ارض و
سما نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔ نوجوان کی غلیل سے گولی کی طرح نکلے پتھر سے جالوت کا متکبر سر پاش پاش ہو چکا تھا اور اُس کا طاقت ور جسم زمین پر اوندھے منہ پڑا تھا۔
یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ جالوت کی اسلحے سے لیس فوج کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ یہ نوجوان ایک چرواہا تھا جو سارا دن جنگل میں بکریاں چرایا کرتا اور غلیل سے بکریوں
کے قریب آنے والے درندوں کو مار بھگاتا، لیکن قدرت نے تو اس کے لیے بڑے فیصلے کر رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اُسے بنی اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور
پھر اُسے نبوت اور رسالت کے عظیم منصب پر فائز فرمایا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے " داود نے جالوت کو قتل کر ڈالا اور اللہ نے اُن کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جن جن چیزوں کا چاہا، انھیں علم ديا"