مصنف : محمد الیاس اعظمی مرحوم
تبصرہ۔ نہال صغیر
’’مسلمانوں کی سیاست ، زخم اور علاج‘‘ میں مصنف نے بہت ہی تلخ حقائق کی جانب واضح نشاندہی کی ہے ۔ انہوں نے کسی بھی جگہ کسی قسم کی لاگ لپٹ سے کام نہیں لیا ہے ۔ تاریخی حقائق سے انہوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے بیباکانہ انداز میں قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ آزادی کی تحریک میں جس طرح مسلمانوں کو جذباتی طور پر بغیر نتائج کا جائزہ لئے جھونک دیا گیا اور اس کے بعد بھی اس کی خامیوں اور مسلمانوں کی بدتر حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ آج تک تحریک آزادی کے مختلف دور کو عقیدت کے لبادے میں لپیٹ کر بیان کیاجاتا ہے ۔ مذکورہ کتاب ان سب کا بے لاگ تجزیہ پیش کرتی ہے ۔ تحریر میں آپ کو تلخی ملے گی ۔ شاید اس لئے کہ یہاں حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ محض میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو سے کام لیا جائے ۔ بلکہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو غلطیاں مسلمانوں سے ہوتی رہی ہیں اس کا تریاق کیا جائے ۔ یوں بھی مرض بڑھ جائے تو تلخ دوائیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اگر اس سے بھی بات نہ بنےتو جراحی واحد راستہ بچتا ہے۔کتاب کی شروعات ’’مسلم حکمرانوں کی تاریخی غلطی‘‘ جیسے عنوان سے ہوئی ہے اور اس کا اختتام ’’راستہ کیا ہے؟‘‘پر ہوا ہے ۔ یعنی محض غلطیوں کی نشاندہی کرکے چھوڑ نہیں دیا گیا بلکہ راستے بھی بتائے گئے ہیں ۔ کوئی ضروری نہیں کہ جن راستوں کی طرح مصنف نے نشاندہی کی ہے وہی راستہ مستقل اور آخری ہو ، غور و فکر کے بعد کچھ اور راہیں وا ہو سکتی ہیں ۔ اس لئے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے تاکہ اس پر غور و فکر کرکے آگے کی راہ کا تعین ہو ۔ مصنف کے بارے میں صرف چند جملے سید توفیق جعفری کے تعارفی مضمون سے کافی رہے گا جو مذکورہ کتاب کے ابتدا میں ہے ۔وہ لکھتے ہیں ’’پیش نظر کتاب کے مصنف جناب الیاس اعظمی کے بارے میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے شہرت سے بھاگ کر صرف اپنا ہی نہیں بلکہ اپنے سیاسی نظریے اور مظلوم طبقات کی جد و جہد کو بھی نقصان پہونچایا ہے‘‘۔
’’مسلمانوں کی سیاست ، زخم اور علاج‘‘ محمد الیاس اعظمی کی وہ کتاب ہے جس میں انہوں نے تحریک آزادی ہند کی حقیقت بہت ہی مختصر مگر جامع انداز میں بیان کی ہے ۔ ہم جو تاریخ پڑھتے رہے ہیں اس میں حقیقت سے زیادہ عقیدت اور برہمنوں کے حسب منشا واقعات کو یک طرفہ بیان کیا گیا ہے ۔ جیسے تقسیم ہند کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کیلئے وہ برہمنی سوچ ذمہ دار ہے جو آزادی کے بعد سے ملک کے اقتدار پر قابض ہے یا اس کے اشاروں پر سارے کام انجام دیئے جاتے ہیں ۔ مصنف نے مسلمانان ہند کی ان تین اجتماعی اور عظیم غلطیوں کی بیباکانہ نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے مسلمان آج اس حالت میں پہنچ گئے ہیں کہ انہیں اپنی نجات کی کوئی راہ دکھائی ہی نہیں دے رہی ہے ۔ مصنف نے پہلی غلطی یہ بتائی ہے کہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد مسلمانوں نے سر سید کا ساتھ نہ دے کر علما کا ساتھ دیا جو اپنے محدود حلقہ سے باہر چند قدم بھی دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ مصنف مسلمانوں کی دوسری غلطی خلافت تحریک کو قرار دیتے ہیں جس نے مسلمانوں کا کچھ بھلا تو نہیں کیا لیکن کانگریس اور غیر مسلم لیڈر شپ کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ مصنف نے مسلمانوں کی تیسری اجتماعی غلطی ۱۹۴۸ کےلکھنو کنونشن میں مسلمانوں کی سیاست سے توبہ کو قرار دیا ۔ اس کے بعد مصنف نے ’’ایک عجیب الخلقت مخلوق کی تخلیق‘‘ عنوان کے تحت یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ’’مسلمانوں میں صرف نہرو اور ان کی نسل کے ازلی وابدی غلام ہی نیشنلسٹ تھے باقی سب انٹی نیشنل تھے‘‘۔ کانگریس کے اس طبقہ نے مسلمانوں میں ایک طرح کے احساس جرم کی نفسیات پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی جس کے نتیجہ میں ان کے اندر احساس کمتری جیسی ہلاکت خیز نفسیات کا جنم ہوا اور وہ زوال کی طرف اپنا برسوں کا سفر مہینوں میں طے کرنے لگا۔
ہندوستان کے حالات سے مصنف مایوس نہیں ، وہ مختلف ریاستوں میں سیاسی صورتحال اور مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کا مطالعہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’ملت کے باہر حالات کے نامساعد ہونے کا خواہ کتنا ہی پرپیگنڈہ کیا جائے لیکن ملت کے باہر کے حالات ضرورت سے زیادہ ہی سازگار ہیں البتہ ملت کے اندر یہی حالات ضرور نامساعد ہیں اور یہ غیر فطری بھی نہیں ہے‘‘۔ مصنف کا خیال ہے کہ ہم اگر کچھ برادریوں کا معائنہ کریں اور ان سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں تو حالات بدل سکتے ہیں ۔ ان کے مطابق بھارت میں ہمارا مستقبل تابناک ہے ۔ صرف ایک سو بارہ صفحات کی کتاب کی قیمت ایک سو تیس روپئے ہے ۔ یہ قیمت زیادہ ہے اور نہ ہی کتاب اتنی ضخیم ہے کہ موجودہ مصروفیت بھری دنیا میں اس کا مطالعہ بار ہو ۔ امید ہے کہ ملت کے حالات سے فکر مند احباب کیلئے یہ کتاب رہنما ثابت ہوگی ۔کتاب کے حصول کیلئے ناشر ارشد صدیقی سے ان کے موبائل نمبر ۹۹۳۰۰۰۱۳۰۰ پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔
_________
کتاب میلہ کا آخری دن؛ کچھ باتیں
اتواریہ : شکیل رشید
کیا اب اسکولی بچوں اور بچیوں کا ہی فرض رہ گیا ہے کہ وہ اردو زبان کو بچائیں؟ یہ سوال ممبئی کے اردو کتاب میلہ کے تناظر میں ہے ۔ میں میلے میں جب پہنچا اسکولوں کے بچوں اور بچیوں کو مختلف اسٹالوں پر جاتے اور کتابوں کی خریداری کرتے پایا ۔ ان بچوں نے باقاعدہ اپنے جیب خرچ کے پیسے کتابوں کی خریداری کے لیے جمع کیے اور اپنی اپنی پسند کی کتابیں حاصل کیں ۔ کئی بچوں نے بالخصوص بچیوں نے پانچ پانچ سو روپیے کی کتابیں خریدیں، ظاہر ہے کہ یہ اسکول کے بچوں کے لیے ایک بڑی رقم ہے ، لیکن بچوں نے کتابوں پر یہ رقم خوشی خوشی خرچ کی ۔ بی کے سی تک پہنچنا ایک طرح سے آگ کا دریا عبور کرنا ہے کیونکہ ممبئی کے مرکز میں ہوتے ہوئے بھی یہ ممبئی سے کٹا ہوا علاقہ ہے، کتاب میلے کا گراؤنڈ جہاں ہے وہاں تک آٹو رکشہ ہی سے پہنچا جا سکتا ہے، اگر بیسٹ کی سروس کا استعمال کیا جائے تو گراؤنڈ کو تلاش کرکے وہاں تک پہنچنا آسان نہیں ہے، اس دشواری کے باوجود اسکولوں سے بچے آئے ، اور کئی اسکولوں کے منیجمنٹ نے بسیں کرائے پر لے بچوں کو بھیجا ۔ یقیناً یہ اسکولوں کے مینجمنٹ اور طالب علموں کی اپنی زبان سے محبت ہے جو انہیں اپنے ٹھکانوں سے بی کے سی کے دور دراز میلے تک لے آئی ، ان سب کا بہت بہت شکریہ ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف بچوں ہی کے ذمے یہ فرض ہے؟ کیا ٹیچروں، اسکولوں میں تعلیم دینے والوں، ادیبوں اور شاعروں پر، اور بے شک صحافیوں پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ میں اب تک جب بھی میلے میں گیا تو پایا کہ بہت سے ادیب، شاعر، اساتذہ کرام اور صحافی حضرات این سی پی یو ایل کے پروگرام میں شریک تو ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر وہیں سے واپس، چائے ناشتہ کر کے اور اپنا نذرانہ وصول کر کے، گھر کی جانب منھ کرلیتے ہیں، میلے کی جانب پیٹھ ہوتی ہے اور کتابیں خریدنا تو دور کتابوں کے اسٹالوں کی جانب دیکھتے تک نہیں ہیں ۔ اور جو اسٹالوں کی جانب جاتے بھی ہیں، انہیں کتابیں خریدنے سے زیادہ لوگوں سے ملنے کی چاہ ہوتی ہے، یقیناً یہ طریقہ اردو دشمنی کا ہے ۔ کیوں ہم اپنی ذمہ داری دوسروں پر، وہ بھی بچوں پر تھوپ رہے ہیں، کیوں ہم کتاب دوستی سے دور بھاگ رہے ہیں، کیوں ہم اور ہمارے ادارے بے حس بنے ہوئے ہیں اور کیوں ہم نے کتابیں خریدنا، تحفے میں دینا بند کر دیا ہے؟ کتنے سوال ہیں مگر ہمارے پاس کسی کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ آج میلے کا آخری دن ہے، کم از کم آج تو آپ سب اردو زبان سے اپنی چاہت کا اظہار کریں اور کتاب میلے میں پہنچ کر، ان سے جو مہمان بن کر شہر ممبئی کتابیں لے کر پہنچے ہیں، کتابیں خریدیں ۔ کچھ تو اپنی ذمہ داری محسوس کریں، کچھ تو اپنا فرض ادا کریں ۔
__________
ادب اطفال :
نظم نمبر 44
"پالتو جانور"
علیم طاہر
پالتو جو جانور ہیں کون ہیں
جو ہمارے ہمسفر ہیں کون ہیں
ہم پہ کرتے ہیں جو انحصار وہ
ہم سے کرتے ہیں جو اکثر پیار وہ
جن میں گائے، بھینس، بکری، دیکھیے
دودھ ہم کو دیتے ہیں یہ سوچیے
جن میں اونٹ، گھوڑا، بیل، دیکھیے
جو سواری ہیں ہماری سوچیے
اور گدھا ہے جس میں اپنا پن بھی ہے
بھیڑ دیتا ہے ملائم اون جو
سردیوں میں گرم رکھتا خون جو
پالتو ایک جانور کتا ہے وہ
اپنے در کا سچا رکھوالا ہے وہ
علیم طاہر
___________
غزل 🔴صادق اسد مالیگاؤں (مدیرِ اعلی "اقراء)
ڈوبتے اور ابھرتے ہیں ، کنارے جائیں
ہم کبھی لب سے ترے بھی تو پکارے جائیں
کچھ صعوبت ہے مقدر ، مگر ایسا بھی کہاں
کیل کانٹوں سے ہمیں روز گذارے جائیں
مقتل عشق سے لوٹا نہیں کوئی پھر بھی
بس یہ حسرت ہے کبھی ہم بھی سنوارے جائیں
اپنے حالات ابھی بھی تو خرابے میں ہیں
کیا کسی اور کے ایسے میں دوارے جائیں
مطمئن دِل یہ کسی طور نہ ہوگا اپنا
چاند سورج بھی اگر گھر میں اتارے جائیں
صادق اسد مالیگاؤں، ناسک ، مہاراشٹر، انڈیا
صادق اسد مالیگاؤں انڈیا ـ