اتواریہ : شکیل رشید
پہلے ایک واقعہ سُن لیں ؛ شہر ممبئی میں ( ویسے یہ کوئی بھی شہر ہو سکتا ہے ) ایک بِلڈر نے ایک کالونی بنوائی ، ساتھ ہی ایک مسجد بھی ۔ بلڈر نہ عالمِ دین تھا ، اور نہ ہی بہت تعلیم یافتہ ، لیکن اس میں دینی جذبہ تھا ۔ کسی نے مشورہ دیا کہ مسجد میں درسِ قران شروع کرادیں ، اس بلڈر نے درسِ قران شروع کروا دیا ۔ چند روز بعد ہی ’ اللہ کی راہ میں نکلنے والے ‘ آ دھمکے ، اور امام صاحب کو ڈانٹتے ہوئے پوچھنے لگے کہ درسِ قران شروع کرنے کے لیے کیا فلاں فلاں سے اجازت لی ہے ؟ امام صاحب نے کہا کہ مسجد کے صدر صاحب ( بلڈر ) نے درس قران شروع کروایا ہے ۔ کہنے لگے وہ کون ہوتے ہیں یہ شروع کروانے والے ، انہیں فون کرو، بلواؤ ۔ صدر مسجد آئے ، اور پھر ان کی ایسی پِٹائی ہوئی کہ کئی دن اسپتال میں رہنا پڑا ۔ ایک واقعہ اور سُن لیں ؛ میں پہلے ممبئی کے جس علاقے میں رہتا تھا ، وہاں کی مسجد میں ایک عالمِ دین بیان دیا کرتے تھے ، لیکن انہیں اس لیے بیان دینے سے روک دیا گیا کہ وہ ’ کسی اور گروپ ‘ کے ہو گیے تھے ۔ ایک واقعہ اور ، یہ ویڈیو وائرل بھی ہے ؛ چند باریش کرتا پائجامہ میں ملبوس افراد ایک مسجد سے یہ کہتے ہوئے باہر نکل رہے ہیں کہ انہیں مسجد سے کھدیڑ دیا گیا ہے ، کھدیڑنے والے بھی نظر آ رہے ہیں ، وہ بھی باریش اور کرتے پائجامے میں ملبوس ہیں ، اور ایک ہی مسلک کے ہیں ، لیکن ان کا ’ دعویٰ ‘ ہے کہ ’ یہ ہماری مسجد ہے اس میں یہ کیسے آکر بیان دے سکتے ہیں ۔‘ اب ایک ایسی بات سُن لیں جو باعثِ تشویش تو ہے لیکن ’ اللہ کی طرف بلانے والے ‘ آپس میں اس طرح دست و گریباں ہیں کہ دھیان نہیں دے رہے ۔ ایک علاقہ ہے جہاں ایک سڑک کے دونوں طرف آمنے سامنے دو مسجدیں ہیں ، ایک ہی مسلک اور ایک ہی جماعت کی ( بس گروپ کا فرق ہے ) کئی کروڑ روپیے دونوں طرف کی مسجدوں کو سجانے پر لگ چکے ہیں ، مزید پیسے لگائے جا رہے ہیں ۔ اس علاقے میں اکثریت غریب مسلمانوں کی ہے ، مگر کروڑوں میں کھیلنے والے مسلمان بھی ٹھیک ٹھاک تعداد میں ہیں ۔ اب حال دیکھیں کہ اس علاقے کے غریب مسلمان دوا کے لیے ، تعلیمی امداد کے لیے ، یا کسی ضرورت کے موقعہ پر علاقے کے چند مندروں اور ان کے سرگرم ٹرسٹ سے رجوع ہوتے ہیں ، برقعہ پوش خواتین قطار میں کھڑی راشن پانے کی منتظر رہتی ہیں ، بچوں کو چرچ کے ذمہ دار تعلیم کے لیے گاڑی سے لے جاتے ہیں ، اور واپسی پر انہیں پچاس پچاس روپیے بھی دیتے ہیں ۔ کیا یہ ارتداد کے لیے فضا نہیں بن رہی ہے ؟ لیکن غریب مسلمان کیا کریں ، نہ مسجدوں سے ان کی مدد کی جاتی ہے ، نہ امیر مسلمان انہیں پوچھتے ہیں ، اور رہی ’ دین کی باتیں ‘ تو یہ بتانے والے آپس میں ایک دوسرے کے گریبان پھاڑ رہے ہیں ۔ اگر کل کو کوئی مسلمان مرتد ہوگیا ، تو وہ تو ایمان سے گیا ، لیکن کیا یہ مسجدوں میں لڑنے والے ، غربت دیکھ کر نظریں پھیر لینے والے ، مندروں اور چرچ پر برقعہ پوش خواتین کی قطاریں دیکھ کر بھی فکر نہ کرنے والے ، اور دینی اور عصری تعلیم کا کوئی بندوبست نہ کرنے والے اللہ کی گرفت سے بچ سکیں گے ؟ کیا دس دس لاکھ کا اجتماع نجات اور مغفرت کی ضمانت بن سکے گا ؟ اس سوال کا جواب وہ شاید یہ دیں کہ ہم تو نماز اور دین کی طرف بلانے کا کام کرتے ہیں ، ہمارا کیا قصور ہے ؟ لیکن سچ یہ ہے کہ بس چند ہی لوگ ہوں گے جو خلوص سے اللہ کے راستے میں نکلنے اور نکلوانے کا کام کرتے ہیں ، باقی اپنے اپنے آقاؤں کی چمچہ گری میں جُٹے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اجارہ داری قائم ہو جائے ، اور ان کے آقا شہنشاہوں کی طرح رہیں ۔ وہ اللہ کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں ۔ بے شک وہ بڑے خسارے میں ہیں ۔
_______
حلقہ ارباب ذوق انٹرنیشنل کا آن لائن تنقیدی اجلاس:
افسانہ: تیلیاں جلانا جُرم ہے
مصنف: محمدجمیل اختر
وہ ایک فیکٹری کے کچے ملازمین میں بھرتی تھا اور آج اُسے کام کرتے ایک ماہ ہو چکا تھا۔۔۔کئی ٹرکوں میں سامان لوڈ کرانے کے بعد اُسے کچھ دیر کے لیے فراغت میسر آئی تھی تاہم آج وقت تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔وہ بار بار اسٹورانچارج کی طرف دیکھتا جو کاغذوں کا ایک پلندہ میز پر پھیلائے جھکا ہوا تھا۔۔
”آہ! آخر یہ تنخواہ کب آئی گی؟“ نوجوان نے سوچا۔۔اسٹور انچارج یوں مطمئن بیٹھا تھا جیسے اُسے تو کسی بات کی پروا ہی نہیں۔نوجوان کی کسی سے گپ شپ نہیں تھی، وہ صبح آتا اور کام میں گُم ہوجاتا۔اُسے صرف اپنی پریشانیاں یاد تھیں،اُس کا خیال تھا کہ اگر وہ ساری عمر کام کرتا رہے تب بھی قرض کی رقم نہ لُٹا سکے گا اوریہ بھی ممکن ہے کچھ قرض اِس کے بچوں کو بھی لوٹانا پڑے، اُس کے باپ کے بال وقت سے بہت پہلے سفید ہوگئے تھے لیکن قرض ختم نہ ہوا اور اب ٹی بی ہونے کے بعد وہ سارا دن کمرے کے ایک کونے میں لیٹا کھانستا رہتا تھا۔۔ہر شام جب نوجوان گھر لوٹتا تو اُس کا باپ اُس سے پوچھتا:
”کب ملے گی تنخواہ؟“
”مہینے بعد؟“وہ جواب دیتا
”قرض والے پھر آئے تھے۔۔“اُس کا باپ کہتا
”یہ روز کیوں آتے ہیں؟“وہ پوچھتا
”سالوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔میری عُمر تمہارے جتنی تھی جب میرے باپ نے قرض لیا تھا، تب سے یہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔“اُس کا باپ جواب دیتا۔۔
کبھی کبھی اُسے خیال آتا کہ ہم اِس لیے پیدا ہوئے ہیں تاکہ قرض لے سکیں اور اُسی کو لوٹاتے ہوئے عُمر گزار دیں۔۔۔
چار پانچ مزدور ایک کونے میں بیٹھے تھے۔۔
”مجھے ضرور اِن سے پوچھنا چاہیے“ اُس نے سوچا اور چلتا ہوا مزدوروں کے پاس پہنچ گیا۔۔
”یہ تنخواہ کب تک مل جائے گی؟“اُس نے مزدورں سے پوچھا۔۔
مزدوروں نے ایک دوسرے کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا اور قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔۔
نوجوان گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔۔
مزدور لگاتار ہنس رہے تھے۔۔اُن میں سے دو ہنستے ہنستے گر گئے اور زمین پر قلابازیں لگانے لگے۔
”تم زندہ ہو، اِس سے بڑھ کر تمہیں کیا چاہیے؟“ایک مزدور نے ہنستے ہنستے کہا
وہ اُنہیں چھوڑ کر کونے میں بنے چھوٹے سے باورچی خانے میں گھس گیا۔۔۔اور وہاں سے ایک ماچس کی ڈبیا اُٹھا لایا۔۔
”آہ! یہ وقت گزر کیوں نہیں رہا۔۔“۔۔وہ ایک کونے میں بیٹھ کر ماچس کی تیلیاں جلانے اور بجھانے لگا۔۔
اُسے ماچس کی تیلیاں جلاتے بجھاتے،اسٹور انچارج نے دیکھ لیا۔اُس نے کاغذ ایک طرف رکھے اور اُسے گھورتا ہوا آگے بڑھا۔نوجوان گھبرا گیا۔۔
”یہ تم ماچس کی تیلیاں کیوں ضائع کر رہے ہو؟ یہ سب فیکٹری کا مال ہے اور تمہیں اِس چوری کی سزا ملے گی“
”یہ تو بس معمولی سی تیلیاں تھیں، مجھے نہیں معلوم کہ میں ایسا کیوں کر رہا تھا تاہم میں آئیندہ احتیاط کروں گا۔۔“
”آئیندہ توجو تم کروگے دیکھا جائے گا۔۔ابھی جو تم آدھی ڈبی ضائع کر چکے ہو اِس کا حِساب کون دے گا؟“
”اِس کی قیمت محض پانچ روپے ہے، آپ میری تنخواہ سے کاٹ لیجیے گا“
”بات پانچ روپے کی نہیں اُس چوری کی ہورہی ہے جو تم نے فیکٹری میں کی ہے“
”اچھا تو یہ جو تم نے ماچس کی آدھی ڈبیا خالی کر دی۔۔۔تم نے کس سے پوچھا تھا۔۔؟“ اسٹور انچارج اب چلانے لگ گیا تھا۔۔
”یہ تو بس میں نے ویسے ہی اُٹھا لی۔۔ایسا میں نے چوری کی نیت سے نہیں کیا۔۔بس یونہی بے خیالی میں تیلیاں جلانے لگا۔۔“نوجوان نے گھبرا کر جواب دیا۔۔
”میں سکیورٹی والوں کو اِس چوری سے آگاہ کرتا ہوں، اب وہی تم سے بات کریں گے۔۔“اسٹور انچارج نے کہا۔
”لیکن سر میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔“نوجوان منمنایا
”جب تک اِس کیس کا کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا، تم اپنا کام نہیں کرسکتے۔۔ایک منٹ مجھے سکیورٹی آفیسر کو فون کرنے دو۔۔“
”ہیلو۔۔۔جی میں اسٹور روم سے بات کر رہا ہوں۔۔ چوری کی اطلاع دینی تھی۔۔میرے ڈیپارٹمنٹ کا ایک ملازم ماچس کی تیلیاں چوری کرتا پکڑا گیا ہے۔۔ڈبوں کی کُل تعداد تو نہیں معلوم۔۔۔ہوسکتا ہے وہ کافی عرصے سے ایسا کر رہا ہو تاہم میں آج اُسے پکڑنے میں
کامیاب ہوا ہوں۔۔“
”مگر سر۔۔یہ معمولی سی ڈبیا۔۔۔چوری نہیں۔۔۔“ نوجوان نے آہستگی سے کہا
”تم خاموش رہو۔۔مجھے بات کرلینے دو۔۔۔جی جی آپ بتائیں۔۔یہ بیچ میں وہی چور اپنی صفائیاں دے رہا تھا۔۔۔آپ فوراً پہنچیں اور ایچ آر آفیسر کو بھی ساتھ لیتے آئیں۔۔ممکن ہے اسے نوکری سے نکالنا پڑے۔۔۔“
”ایک ماچس کی ڈبیا پر کون نوکری سے نکالتا ہے؟“اُس نے حیران ہوکر پوچھا
”نوجوان تم باتیں بہت زیادہ کرتے ہو۔۔میں نے تمہیں پہلے بھی کہا کہ بات ماچس کی نہیں بلکہ چوری کی ہے جو تم کرچکے ہو۔۔۔“
”کیا مجھے آج تنخواہ مل جائے گی۔۔میں تو اُسی کے انتظار میں تیلیاں جلانے بجھانے لگ گیا تھا۔۔۔“
”تنخواہ؟؟؟؟ تمہارا دماغ درست ہے؟ یہاں تمہیں نوکری سے نکالنے کا کیس چل رہا ہے۔۔ابھی چیف سکیورٹی آفیسر آرہے ہیں۔۔ممکن ہے ہم تمہیں پولیس کے حوالے کر دیں اور تمہیں تنخواہ کی فکر کھائے جارہی ہے۔۔۔حد ہے“
”لیکن آج مجھے کام کرتے ہوئے مہینہ ہوچکاہے۔۔تنخواہ میرا حق ہے۔۔اِسی انتظار میں مجھ سے ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔۔مجھے تنخواہ دے کر بے شک نوکری سے نکال دیں۔۔“نوجوان نے کہا۔۔
کونے میں موجود پانچوں مزدور اب ہنس ہنس کر دوہرے ہوگئے تھے۔۔۔
”عجیب بے وقوف آدمی ہو تم۔۔ایک تو چوری کا ارتکاب کر چکے ہو۔۔اُس پر کس ڈھٹائی سے تنخواہ کا مطالبہ کررہے ہو۔۔۔وہ دیکھو چیف سکیورٹی صاحب بھی تشریف لے آئے۔۔“
آئیے آئیے جناب۔۔۔میں نے مجرم کو یہیں پکڑ رکھاہے ، کیا خبر میری نظر نہ پڑتی تو اب تک یہ فرار ہوچکا ہوتا۔۔۔“
”اچھا تو یہ ہے مجرم۔۔۔ہاں بھئی کب سے ماچس کے ڈبے چُرا رہے ہو؟“سکیورٹی آفیسر نے پوچھا۔۔
”سر میں نے کوئی چوری نہیں کی۔۔میں تو محض ایک ماچس کی ڈبیا لے کر یہاں بیٹھا تھا۔۔۔چند تیلیاں جلائی اور بجھائی تھیں۔۔“
”اوہ ہو۔۔میں تو اِسے چوری کا کیس سمجھ رہا تھا۔۔یہ آدمی تو اسٹور روم کو آگ لگانا چاہتا تھا۔۔کیا آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں؟“ سکیورٹی آفیسر نے اسٹور انچارج سے پوچھا۔۔
”میں حیران ہوں، آپ کس قدر زیرک آفیسر ہیں۔۔میرا تو اِس جانب دھیان ہی نہیں گیا تھا اور میں اِسے محض چوری کا کیس سمجھ رہا تھا۔۔یہ تو اسٹور روم جلانے کا بہت بڑا منصوبہ تھا۔۔۔“
”آخر تم اسٹور روم کیوں جلانا چاہتے تھے؟ کیا اِس منصوبے میں تمہارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ملوث ہیں؟“
”میں تو تنخواہ کے انتظار میں محض تیلیاں جلا بجھا رہا تھا۔۔۔“نوجوان نے کہا۔۔
”ہر مجرم یہی کہتا ہے کہ اُس کا کوئی قصور نہیں، قانون اِسی لیے بنایا گیا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ جرم کی نوعیت کیا ہے۔۔۔انچارج صاحب۔۔آپ کے پاس کون کون سے ثبوت ہیں؟“
”سر ایک تویہ جلائی گئی تیلیاں ہیں جو آپ کے سامنے بکھری پڑی ہیں۔۔آپ دیکھیں گے کہ ہر تیلی کو باقاعدہ جلایا گیا ہے۔۔میری نظر میں اتنی ساری تیلیاں جلانے کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ مجرم سارے اسٹور روم کو آگ لگانا چاہتا تھا۔۔لیکن شکر ہے کہ میری نظر پڑ گئی اور یہ موقع ہی پر گرفتار ہوگیا۔۔ورنہ کیا خبر اب تک یہ کروڑوں کا مال راکھ بن چکا ہوتا۔۔“
”آپ درست کہہ رہے ہیں، میں کوشش کروں گا کہ اِس کیس کی رپورٹ بناتے ہوئے آپ کی اِس بہادری اور دیانت داری کا ذکر ضرور کروں اور ادارے سے آپ کے لیے کسی خصوصی ایوارڈ کا بھی مطالبہ کروں۔۔“
”بہت شکریہ۔۔یہ تو میرا فرض تھا۔۔“
”مگر میں تو محض تنخواہ کے انتظار میں تیلیاں جلا بجھا رہا تھا۔۔۔“ نوجوان منمنایا۔۔۔
”چیزیں بہت واضح ہیں، میرا خیال ہے ہمیں اب پولیس کو اطلاع دے دینی چاہیے۔۔“ اسٹورانچارج نے کہا۔۔
”وہ میں یہاں آنے سے پہلے ہی انہیں اطلاع کرچکا ہوں کہ مجرم پکڑا گیا ہے، آپ فیکٹری پہنچیں۔۔۔۔
(پولیس سائرن)
”آئیے انسپکٹر صاحب۔۔۔آپ ہی کا انتظار تھا۔۔۔یہ ہے وہ آدمی جو فیکٹری کے اسٹورروم کو آگ لگانا چاہتا تھا۔۔۔انچارج صاحب نے اِسے رنگے ہاتھوں عین تیلیاں جلاتے ہوئے پکڑ لیا ہے۔۔۔اِسے گرفتار کرلیں۔۔“
”میری بات سنیں۔۔۔براہ مہربانی میری بات سنیں۔۔میں تو محض تنخواہ کے انتظار میں تیلیاں جلا بجھا رہا تھا۔۔“
”جوانو۔۔اِسے ہتھکڑی لگاؤ اور تھانے لے جاؤ۔۔باقی تفتیش وہیں ہوگی۔۔۔“
”لیکن میری تنخواہ۔۔۔میرے گھر والوں کا کیا بنے گا؟“
”بہت شکریہ کہ آپ نے قانون کے ساتھ تعاون کیا اور مجرم کو بروقت پکڑلیا۔۔بعض دفعہ ہم تفتیش کرتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ایسے نوجوان دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں۔۔ڈرگز۔۔اسلحہ۔۔دہشت گردی۔۔ایسے ہی نوجوانوں کے کام ہوتے ہیں۔۔مجھے لگتا ہے یہ بھی کسی ایسے ہی گینگ سے جڑا ہوگا۔۔۔“
”جی جی مجھے بھی ایسا ہی شک ہے۔اِس کی شکل بھی بالکل تخریب کاروں جیسی دکھائی دیتی ہے۔اسٹور انچارج صاحب محض اِسے چوری کا کیس سمجھ رہے تھے۔۔تاہم مجھے بھی اِس مجرم کے تانے بانے کسی بڑے گینگ سے جڑے دکھائی دیتے ہیں۔۔ورنہ آپ خود سوچیں۔۔اسٹورروم میں جہاں کروڑوں کا مال موجود ہے۔ وہاں تیلیاں کون جلاتا اور بجھاتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے دو سال پہلے فیکٹری میں جو آگ لگی تھی وہ بھی اِسی گینگ کی کارستانی ہو؟“
”جی بالکل ہم کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ دفعات لگا کر اِس کیس کو مضبوط بنائیں تاکہ مجرم کو قرار واقعی سزا مل سکے۔۔“
”اچھا میری بات سنیں۔۔۔“نوجوان نے اونچی آواز میں پکارا۔۔
”اِسے کیا تکلیف ہے۔۔؟“ انسپکٹر صاحب چلائے۔۔
”سر مجھے گولی مار دیں پلیز۔۔۔۔“
ختم شُد
__________
کاش بچے نہ مریں
نظم: غسان کنفانی
⭕ترجمہ: شگفتہ شاہ
’’ کاش بچے نہ مریں۔
کاش جنگ کے اختتام تک وہ عارضی طور پر آسمانوں کی جانب چلے جائیں۔
پھر جب وہ بحفاظت گھر لوٹیں، اور ان کے والدین ان سے پوچھیں:
آپ کہاں تھے؟
تو وہ کہیں:
ہم بادلوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔‘‘
"I wish children do not die.
I wish they would be temporarily elevated to the skies until the war ends.
Then they would return home safe, and when their parents ask them:
Where were you? They would say:
We were playing with the clouds."
Ghassan Kanafani
________
نظم
۔۔۔۔۔
ارشد عبدالحمید
" رویہ "
یہ مت کہو
کہ بارش ہونے والی ہے
چھت سے کپڑے اتار لاؤ
کہو
کہ بارش ہونے والی ہے
چلو تھوڑا سا بھیگ آئیں
_______