URDU NEWS se .........
بھیما بائی کا ’ کتابوں کا ہوٹل‘جہاں پانچ ہزار سےزائد کتابیں ہیں
یہاں گاہکوں کو کچھ کھائے پیئے بغیر بھی صبح سے شام تک مطالعے کی سہولت ہے
اسپیشل اسٹوری : فرحان حنیف وارثی
75؍سالہ بھیما بائی اور ان کے بیٹے پروین جوندھالے نے ناسک ہائی وے پر ایک ایسا ہوٹل کھولا ہے جس میں گاہکوں کےلیے چائے ناشتے اور طعام کےساتھ کتابیں پڑھنے کی سہولت بھی دستیاب ہے ۔اس منفرد ہوٹل میں تقریباًپانچ ہزار کتابوں کو ریک ، ٹیبلوں ، دیواروں اور ہوٹل کے باہر درختوں پر سجایا گیاہے ۔’ ریلیکس کارنر ناوانے ہوٹل ‘ کے ٹیبلوں پر مینو کارڈ کی جگہ کتابیں رکھی ہیں ۔بھیما بائی سات بھائی بہنوں میں سب سے بڑی ہیں ۔انھوں نے مشکل سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے ۔ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ان کی سگائی ہوگئی ۔ان کے پتی کو شراب نوشی کی لت تھی اور سسرال میں غریبی کا ڈیرہ تھا۔بھیما بائی نے اپنے دونوں بچوںکو کھیتی باڑی کرکے پالا۔اپنی بیٹی کی شادی بھی جلد کردی ۔ اس وقت ان کی بیٹی آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھی۔بیٹے نے جدوجہد کےدنوں میں اپنی ماں کا ساتھ دیا اور غریبی کو شکست دی ۔
آج ان کا کھولا ہوا کتابوں کا ہوٹل کامیابی سے چل رہاہے اور ترقی کر چکاہے۔بھیما بائی بتاتی ہیں :’ ہوٹل میں پانچ ہزار کتابیں ہیں ۔گاہکوں کو کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔اگر کسی کو کچھ کھانا پینانہیں ہے توبھی وہ یہاں بیٹھ کر کتابیں پڑھ سکتا ہے ۔‘یہاں مراٹھی ، ہندی اور انگریزی زبانوں میں کویتاؤں ، کہانیوں اورتاریخ کی کتابوں کے ساتھ ناول بھی رکھے ہیں ۔ہوٹل کی دیواروںپرکویتاؤں کے مصرعےاور عظیم ہستیوں کے مشہور جملے درج ہیں ۔بھیما بائی کا وطن ڈِنڈوری تعلقہ کا جولکےڈِنڈوری گاؤں ہے ۔انھوں نے 2010میںچائے کی ایک ٹپری کھولی تھی ۔انھوں نے محسوس کیاکہ جب تک چائے بنتی ہے ، گاہکوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے ۔انھوں نے ایک دن ٹیبلوں پر چند اخبارات اور کتابیں رکھ دیں ۔انھیں یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ گاہک خالی بیٹھنے کی بجائے اخباروں اور کتابوں میں وقت گذارنے لگے ۔جب یہ بات مشہور ہوئی تو ان کا ہوٹل چل نکلا اور گاہکوں کی تعداد میں اضافہ ہونےلگا۔ان کے بیٹے نے بھی کتابیں جمع کرنے میںتعاون پیش کیا اور آہستہ آہستہ کتابوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔بھیما بائی کے پاس آگرہ ممبئی ہائی وے پر ایک زمین تھی جو ان کے پتی نے سستے داموں میں بیچ دیا تھا ۔بھیما بائی نے پیسے آتے ہی وہ زمین واپس لے لی ۔زمین نے مالک نے انھیں بتایاکہ یہ زمین بڑی مہنگی ہے اور یہاں ہوٹل نہ کھولیں ،مگربھیما بائی نے اپنے خوابوںکو پورا کیا اور وہاں کتابوں کا ہوٹل ہی کھولا۔اپنے جدوجہد کے دنوںمیں پروین جوندھالےنےایک اخبارکی ایجنسی لی تھی ۔بعد ازاں وہ رپورٹنگ سے منسلک ہوگئے تھے ۔بھیما بائی نے اپنے بیٹے کی کمائی سے ہی اپنے ہوٹل کاایک لائبریری کی طرح ڈیکوریشن کروایاہے ۔بھیما بائی کو ان کے گاہک ’ پُستکانچی آئی ‘بُلاتے ہیں۔وہ چاہتی ہیں کہ موجودہ نسل موبائل میں اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے کتابوں سے دوستی کریں ۔
بات گھاٹ کوپر کی مسجد کے انہدام کی
شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
اب ملک ہندوستان میں کسی ایسے واقعے یا کسی ایسی کارروائی پر ، جس کا مقصد ایک فرقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرکے ، دوسرے فرقے کو خوش کرنا ، اور اس بنیاد پر سیاسی دکان چمکانا ہو ، کوئی حیرت نہیں ہوتی ، اسی لیے ممبئی کے گھاٹ کوپر علاقے کی طاہرہ مسجد کا انہدام کسی کے لیے بھی باعث حیرت نہیں تھا ۔ لوگوں کے ، یا یہ کہہ لیں کہ مسلمانوں کے ، وہ بھی مقامی مسلمانوں کے ، مذہبی جذبات یقیناً مجروح ہوئے ہیں اور ان میں شدید قسم کی ناراضی بھی ہے ، لیکن نہ جذبات کا مجروح ہونا فرقہ پرست انتظامیہ کے لیے کوئی معنیٰ رکھتا ہے اور نہ ہی اسے کسی کی ناراضی کی کوئی فکر ہے ، اسے تو اپنا کام کرنا تھا ، سو اس نے کر دیا ! اور کیا ہوشیاری اور چالاکی سے کیا ! رات کے چار بجے سرکاری انہدامی دستہ پہنچا اور پولیس فورس نے ، جو ساتھ تھی ، سارے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیا ، کوئی دو کلو میٹر کے رقبہ پر سیکیورٹی لگا دی گئی ، رہے مسجد کے ذمے داران تو سب کو رات ہی میں پولیس اسٹیشن لا کر بیٹھا دیا گیا تھا ، وہ سب اس وقت تک اس غیر قانونی حراست میں تھے جب تک کہ مسجد مکمل شہید نہ کر دی گئی اور ملبہ ہٹا کر زمین ہموار نہیں کر دی گئی ۔ جو خبریں ملی ہیں ان کے مطابق اس راستہ سے کوئی برج گزرنا ہے ، مسجد اس منصوبے کے آڑے آ رہی تھی ۔ معاملہ 2018 سے گرم ہے ، بات عدالت تک پہنچی ہے اور مسجد کے ذمے داروں کا دعویٰ ہے کہ عدالت نے مسجد کے انہدام پر اسٹے دے رکھا ہے ، لیکن نہ میونسپل عملے کو عدالت کا اسٹے سمجھ میں آیا اور نہ پولیس کو ، لہذا مسجد کے کاغذات ان کے لیے ردی کی طرح تھے ، وہ مسجد توڑنے آئے تھے ، انہوں نے مسجد ڈھا دی ۔ انہدامی دستے کے افسر کا دعویٰ ہے کہ عدالت کا اسٹے نہیں تھا اس لیے انہدامی کارروائی کی گئی ۔ مان لیا ! ویسے اسٹے بھی ہوتا تو کیا فرق پڑتا ، بلڈوزر کہاں اسٹے دیکھتے ہیں ، ملک بھر میں مسلمانوں کے گھر ڈھائے تو جا رہے ہیں ، اور قانون و انصاف کھلی آنکھوں سے سب دیکھ رہا ہے ۔ اس ملک میں جب ایک چیف جسٹس نے یہ ماننے کے بعد بھی ، کہ بابری مسجد کسی مندر کو ڈھا کر نہیں بنائی گئی تھی ، اس کی جگہ رام مندر بنانے کے لیے دے دی ، اور اس جگہ رام مندر بنا دیا گیا ، تو چھوٹی عدالتیں تو کچھ بھی کر سکتی ہیں ۔ جب ایک چیف جسٹس سیاسی دباؤ میں آ سکتا ہے تو چھوٹے درجے کے منصف اور سرکاری افسروں کی کیا حیثیت کہ سیاسی دباؤ میں نہ آئیں ! گھاٹ کوپر کا معاملہ اس حقیقت کو واضح انداز میں ظاہر کرتا ہے کہ اب اس ملک میں مسلم اقلیت کی کوئی بھی عبادت گاہ محفوظ نہیں ہے ۔ دن کے اجالے میں نہ سہی رات کے اندھیرے میں سہی ، گرانا ہوگا تو گرا دی جائے گی ۔ اور کوئی احتجاج بھی نہیں کرے گا کیونکہ احتجاج کا انجام سب جانتے ہیں ؛ پولیس کے ڈنڈے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسجد جو قانونی تھی ، جس میں پانچ وقت کی نماز ہوتی تھی اور باقاعدہ مدرسہ چلتا تھا دوبارہ اپنی جگہ کھڑی ہو سکے گی؟ شاید نہیں ! مقصد برج بنانا ہے ، انہدامی کارروائی سنیچر کو کی گئی ، وہ بھی رات کو ، کوئی ذمے دار نہ سنیچر کو عدالت جا سکا نہ اتوار کو ، ایسے میں اگر مجوزہ برج کا کوئی ڈھانچہ کھڑا کر دیا جائے تو کیا اس کو ہٹوانا ممکن ہوگا؟ شاید نہیں ۔ یہ تشویش ناک کارروائی ہے ، اسے دوسری جگہوں پر دوہرایا جا سکتا ہے ۔ دہلی کی سنہری مسجد کے انہدام کی بھی ، اسی بنیاد پر کہ سڑک چوڑی کرنی ہے ، کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ سب منصوبہ بند ہے ۔ متھرا سے لے کر وارانسی تک کی عالیشان مسجدیں نشانے پر ہیں ۔ کل ہی بی جے پی کے ایک لیڈر اننت کمار ہیگڈے کا شرانگیز بیان آیا ہے کہ مسجدیں جہاں نظر آئیں توڑ دیں ۔ حالات ویسے ہی 22 جنوری کی ایودھیا کی تقریب کے سبب خراب ہیں اور ایسے واقعات مزید کشیدگی کا سبب بنتے ہیں ۔ صبر لازمی ہے ، لیکن یہ سوچنا بھی لازمی ہے کہ کیا اس طرح کے واقعات پر کسی طرح روک لگائی جا سکتی ہے؟ ضروری ہے کہ قوم کے دانشوران اور قانون کے ماہرین اور قوم کے سیاست دان سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی حل تلاش کریں ۔
ادارہہ
________
"سکول کا پہلا دن"
آج کا دن کچھ عجیب وغریب تھا.
مجھے صبح سویرے اٹھایا گیا.
میری ماں نے مجھے نہلایا.
بالوں میں کنگھی کی،
آنکھوں میں سرمہ لگایا.
آبی جی نے مجھے دونوں گالوں پر چوما.
سب نے کہا کتنا پیارا لگ رہا ہے.
دادا نے میرا ہاتھ تھاما
اور ہم روانہ ہوگئے.
راستے میں دادا ہنسی مذاق کے باتیں سناتے رہے
اور میں ہنستا رہا، ہنستا رہا.
اچانک ہم ایک پکی زرد عمارت میں داخل ہوئے.
اس میں بچوں کا بہت شور تھا.
بزرگ کم اور بچے زیادہ تھے.
میری حیرت کی انتہا نہیں رہی
کہ یہ کیا ہوگیا؟
یہ میں کہا آگیا؟
مشالؔ بيمي خيل
رسی سے ٹنگا انسان:
میں نے ایک رسی سے لٹکا شخص دیکھا
جو پتہ نہیں کب کا مر چکا تھا
پر آج اس نے اپنے مرنے کی رسم ادا کی
اس رسم کا وہ خود ہی تماشائی تھا
خود ہی اداکار
خود ہی وہ اس پہ رونے لگا
خود ہی خود کو دلاسہ دے کر خاموش ہو گیا
کمرے میں خاموشی رسی کی طرح تن گئی
اس تنی رسی پہ چلنا محال تھا
ابھی اس نے اپنی منحنی ٹانگوں سے اس پہ چلنے کا فن دکھانا تھا
نیچے گہری کھائی میں آگ اگلتا ایک کنواں ہے
اسے خدا نے لاکھوں نوری سال سے دہکا کے رکھا ہے
کسی ایسے گناہ کی وجہ سے
جسے وہ بھول چکا تھا
وہ اس کنویں میں گر جاتا ہے
ایک ننھا سا چھپاکا روشنی کا ہوتا ہے
جیسے کوئی پلک جھپکتا ہے
خاموشی ٹوٹ پڑتی ہے
رسی اپنی جگہ پہ لٹکتی رہتی ہے
اور اس پہ ٹنگا انسان وہاں سے غائب ہوتا ہے
طاہر راجپوت