شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی زمین پر ایک عالیشان رام مندر کی تعمیر ہو چکی ہے ، فی الحال آرائش کا ، اور وزیراعظم نریندر مودی کے ، جو ۲۲ جنوری کے روز اس مندر کا افتتاح کریں گے ، استقبال کی تیاری کا کام چل رہا ہے ۔ رام مندر ٹرسٹ نے دنیا بھر کے وی وی آئی پی ، اور وی وی وی آئی پی حضرات کو ، جن میں بڑے بڑے صنعت کار ، فلمی ستارے ، سیاست داں اور کھلاڑی شامل ہیں ، مندر کے افتتاح پر مدعو کیا ہے ۔ اُن سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کو بھی دعوت نامے بھیجے گیے ہیں ، جو خود کو سیکولر کہلاتی ہیں ، جیسے کہ کانگریس اور ترنمول کانگریس ، کمیونسٹ پارٹیاں وغیرہ ۔ کچھ سیاست دانوں نے ، جیسے کہ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر سیتا رام یچوری اور برندا کرات نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ وہ ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے ۔ ممتا بنرجی کی طرف سے شرکت نہ کرنے کا بیان سامنے آ چکا ہے ۔ کانگریس کی طرف سے کوئی باضابطہ بیان نہیں آیا ہے لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ سونیا گاندھی افتتاحی تقریب میں شرکت کر سکتی ہیں ، اور اگر وہ نہیں گئیں تو کانگریس پارٹی کا ایک وفد نمائندگی کے لیے بھیجا جا سکتا ہے ۔ فلم اسٹار امیتابھ بچن بھی مدعو ہیں ، عالیہ بھٹ ، یش ، رنبیر کپور ، پربھاش وغیرہ کے نام بھی فہرست میں ہیں ۔ امبانی برادران ، اڈانی ، رتن ٹاٹا ، سچن تینڈولکر اور ویراٹ کوہلی بھی مدعو ہیں ۔ مسلم وی وی آئی پی کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد کو مدعو کیا گیا ہے ، لیکن ابھی ناموں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے ۔ رام مندر ٹرسٹ کا دعویٰ ہے کہ ۵۰ ملکوں سے لوگ شریک ہوں گے ، اور سعودی عربیہ ، دبئی سے بھی مہمان آ سکتے ہیں ۔ ویسے کسی مندر ، مسجد ، چرچ یا کسی عبادت گاہ کے افتتاح میں کوئی بھی جائے کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، یہ ہر شخص کی آستھا کا معاملہ ہے ۔ لیکن اگر عبادت گاہ کسی دوسری عبادت گاہ کو منہدم کر کے تعمیر کی گئی ہو ، اور اس کی بنیاد انسانی لہو پر رکھی گئی ہو تو ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ، اور اس کا جواب بالکل وہی ہے جو سیتا رام یچوری اور برنداکرات نے دیا ہے کہ سیاست کو مذہب سے نہیں جوڑنا چاہیے ۔ اس ملک میں بی جے پی نے رام مندر کی تحریک کو ’ ہندوتو ‘ کی تحریک بنا دیا ہے ، اور اس کے بَل پر اس نے مرکز پر قبضہ حاصل کر لیا ہے ۔ سونیا گاندھی اور کھڑگے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرکے وہ ہندوؤں کے ووٹ حاصل کر لیں گے ، تو وہ شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ ان کے سامنے مدھیہ پردیش کے اسمبلی الیکشن کی مثال ہے جہاں کمل ناتھ نے ’ نرم گرم اور سخت ‘ ہر طرح کے ’ ہندوتوا ‘ کو آزمایا ، مگر انہیں زبردست شکست ملی ۔ بی جے پی کے ’ ہندوتو ‘ کے سامنے کانگریس کا ’ ہندوتوا ‘ بے معنیٰ ہے ، کمزور ہے ۔ اگر کانگریس کو ’ ہندوتوا ‘ کی پالیسی ہی اپنانی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ بی جے پی سے بھی زیادہ کٹّر ہو جائے ۔ لیکن شاید یہ کانگریس نہ کر سکے ، کیونکہ اسے اپنا ’ سیکولر ‘ چہرہ بھی سامنے رکھنا ہے ۔ یاد رہے کہ دو کشتیوں کی سواری نقصان ہی پہنچاتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اِن پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہے ، لیکن مسلمانوں کے احساسات اور جذبات کو یہ ٹھوکر پر رکھتے ہیں ۔ کانگریس کے لیڈران اگر رام مندر کے افتتاح میں شرکت کرتے ہیں تو اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے ، یہ تو کہتے ہی چلے آ رہے ہیں کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہم نے ہموار کی ، اور رام مندر کی تحریک میں کانگریس کا بڑا حصہ ہے ۔ اور یہ سچ بھی ہے ، نرسمہا راؤ کانگریس کے وزیراعظم تھے ، اور انہی کے دور میں مسجد شہید کی گئی تھی ۔ خیر جسے جانا ہے وہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں جائے ، لیکن وہ یہ یاد رکھے کہ بابری مسجد کی شہادت کو ، اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں ہونے والے فسادات کو کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا ، یہ سانحے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی جیتی جاگتی مثال ہیں ، اور یہ جو شریک ہو رہے ہیں یقیناً ان کے لیے نہ مسجد کی شہادت الم انگیز ہے یا تھی ، اور نہ ہی فسادات میں جانے والی جانیں ان کے لیے کوئی معنیٰ رکھتی ہیں ۔ تو مسلمان بھلا کیوں ان کی فکر کریں !
_________
** انشائیہ**
بارے 'عورت' کے کچھ بیاں ہوجائے
از قلم؛ حبیبہ طلعت
سائنس ناقابلِ یقین حد تک آگے نکل گئی ہے مگر ابھی تک وہ گولی ایجاد نہیں کر سکی جو نظریاتی مردوں کے لیے عورت کی ترقی اور ہمسری کو ہضم کرنا ممکن بنا سکے۔ اپنے قریبی خاتون کی کسی صلاحیت کے اعتراف میں کیا قدر مانع ہوسکتی ہے؟ کسی باصلاحیت خاتون کو گنجائش دینے میں ہچکچاہٹ کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
عورت ہوکر سوچنا، رائے دینا، اظہار کرنا کوئی جرم تو نہیں ہے۔ ملکی آئین میں درج دفعات عورت کے بنیادی حقوق کی ضامن ہیں۔ حیوان ناطق کے عمومی اور اشرف المخلوقات کے خصوصی القاب میں عورت بھی برابر کی حقدار ہے۔ یہ جو فرض کر لیا جاتا ہے کہ عورت کو آزادی دی گئی تو معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا تو کونسا معاشرہ تباہ ہوا؟ کیا انہی تباہ شدہ معاشروں کی شہریت لینے کو ہمارے لوگ تڑپتے نہیں ہیں؟ اگر یوکے کا ویزا مل جائے تو یہی معراج ہے یا کسی یورپی ملک کی شہریت مل جائے تو جنت ہے۔
مثال کے طور پر مسلم ملک ملائشیا میں ہم سے بہتر مسلمان ہیں کہ وہاں اسلامی شعائر پر عمل ہوتا ہے۔ رمضان میں سماجی ماحول بابرکت اور مساجد بھری رہتی ہیں۔ (جب کہ دیس میں محض اس سال رمضان میں خصوصا معصوم بچے بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سماج میں مذہب اور قانون کی ابتر صورتحال کی گواہی دیتے ہیں۔) وہاں ملکی معیشت کی تعمیر میں خواتین بھی شریک کار ہیں۔۔ جاپان میں مرد عورت بالکل برابر ہیں مگر ان کا خاندانی نظام ویسا ہی مضبوط ہے۔۔چلیے خفا نہ ہوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ جی ہم جاپان سے کیوں مثال لائیں؟ ان کا سماج ہم سے مختلف ہے۔۔۔
یہاں ہم آپ کے لیے ریاست مدینہ کے درخشاں ماضی کی کچھ جھلک پیش کیے دیتے ہیں۔ اس دور میں خاندانی نظام مرد، بیوی اور غلام یا لونڈی پر مشتمل تھا۔ گھر کا کام کرنا بیوی کا فرض نہیں تھا۔ وہاں مختلف النوع علمی و سماجی سرگرمیاں جاری رہیں۔ کیا امہات المومینین کی احادیث اور تفسیر کے ضمن میں خدمات نہیں ہیں؟
کیا نبی پاک صلعم کو حضرت عائشہ صدیقہ رض اور حضرت خدیجہ رض کی ذہانت و فطانت پہ ناز نہیں تھا؟
کیا وہ ان کو کبھی؟ کہیں برسر محفل رد کرتے تھے؟
کیا شعر و ادب، حکایات، کتابت، طب سے لے کر تجارت اور مشاورت تک میں سماجی زندگی میں خواتین نے ہی اسلامی تاریخ کے درخشاں باب رقم نہیں کیے؟
پھر یہ غلط تشریحات اور تاویلات کہاں سے در آئی ہیں؟ ۔۔۔ ذرا سوچیے ہم نے مذہب منبر کے حوالے کردیا تو یہی کچھ ہوگا۔۔مذہب کے اجارہ دار یا مذہب کے بیوپار عورت کو خاص رد کرتے جائیں گے کیونکہ ان کی اپنی نظر میں یا فہم کے مطابق عورت گناہوں کی پوٹ ہے۔ معذرت کہ مذہب تو خیر منبر کے حوالے ہی رہے گا مگر معاشرہ مذہب کے حوالے نہیں ہونا چاہیے۔۔۔
"اسلام کسی کام کرنے والے کی شکل و صورت، حیثیت و مرتبہ اور خاندان اور قبیلے سے نہیں بلکہ کام کی نوعیت سے بحث کرتا ہے۔"
مزید
"قرآن حکیم مردوں اور خواتین کو تمدن زندگی کے ارتقاء میں برابر شریک ہونے کا نظریہ دیتا ہے۔ قرآن حکیم عرب کے جس معاشرے سے مخاطب تھا وہ صنعتی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اس طرح کا ترقی یافتہ نہیں تھا۔ جس طرح کا آج کا معاشرہ ترقی یافتہ ہے۔ لہذا قرآن حکیم نے عصری تقاضے کے مطابق فطری اصولی ہدایات فراہم کیں جو بدلتے ہوئے ظاہری سماجی و معاشی ڈھانچوں کے باوجود قابل عمل ہیں۔"
"عورت کی سماجی و معاشی زندگی"
از ڈاکٹر طاہرہ کوکب
تب کیسے ممکن ہے کہ کہا جائے کہ مرد کو عقل یا صلاحیت کے لحاظ سے فوقیت حاصل ہے۔ بس اتنا ہے کہ جسمانی قوت و طاقت مرد کو زیادہ حاصل ہے اور نظام تخلیق کے کارن عورت کو کچھ رعایت دی گئی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سماج کی تشکیل اور ارتقائی عوامل عورت کے مرہون منت رہے ہیں۔ مختلف فنون اور علوم عورت نے ہی رائج کیے ہیں۔ یہ تفصیل طلب موضوع الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ المختصر
"عورت اپنے ساتھ دنیا میں بہت سے مشاغل ساتھ لائی اور اس نے بہت سے فنون کی بنیاد ڈالی۔"جس طرح اختراع زبان کا مسئلہ اہم ہے اس طرح حفاظت کا مسئلہ بھی ہے اور عورتوں نے اس میں بھی بڑا اہم حصہ لیا ہے
اقتباس از "عورت اور فنون لطیفہ"
از علامہ نیاز فتح پوری
اب مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں اندازہ لگا لیجیے کہ کیا عورت ہو کر سوچنا منع ہے؟ یا اپنی رائے کا آزادانہ اظہار اسکے لیے ممنوع ہے؟ اپنی سماجی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی خاتون کا آزادانہ رائے رکھنا، اپنی سوچ و فکر کو پروان چڑھانا یا اسے فروغ دینا۔زندگی کے تمام شعبوں سے لے کر ادب پر تنقید سے لے کر تمام اصناف میں پیشکش سر انجام دینا اسکی اپنی شخصیت کا مظہر ہے۔ اب اگر وہ کسی فرد یا گروہ کی سرپرستی کے بغیر کلام کہے یا ناول لکھے، یا ان پر نقد و جائزے مرتب کرے۔۔۔ کسی عام یا خاص نوعیت کے بہن بھائی چارے کے بغیر تنہا شناخت کے سفر پر گامزن ہو یعنی کہ باشعور خاتون آپ کی سرپرستی میں آنے کو تیار نہ ہو۔ یا تابع فرمان بننے کو تسلیم نہ کرتی ہو۔۔۔ اگر وہ کسی شعبے میں آپ کی اجارہ داری کو چیلنج نہیں کر رہی محض اظہار اور ابلاغ کا مقصد پیش نظر ہو تب بھی ان تمدنی خدمات کو سراہنے کا ظرف ہونا چاہیے نہ کہ ان کی تضحیک اور رد کے لیے آپ پوسٹ لگائیں۔
خیال رہے کہ آپ ہماری سوچ کو لبرل یا ریڈیکل فیمینزم کا شاخسانہ کہہ سکتے ہیں تاہم اصولی طور پر ہمارے پاس ہمارے مذہب کی تعلیمات موجود ہیں۔ اب دیکھیے کہ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آبادی کے تناسب مرد و خواتین یکساں تعداد میں ہیں تاہم بہتر سال گزرنے کے باوجود سماج اپنی کنفیوژن دور نہیں کرسکا ہے۔ کیا ہم تحریک پاکستان کی ابتداء اور مسلسل جدوجہد میں سے خواتین کی خدمات کو منہا کرسکتے ہیں؟ نہیں تو پھر اب بھی دل مضبوط کرلیجیے اور تسلیم کرنا سیکھیے کہ عورت بھی صلاحیت اور کارگزاری کے اعتبار سے آپ سے ہرگز کم نہیں ہے۔۔۔۔
بر درِ دل رسید و حلقه بزد
پاسبان خُفته دید و در بشِکست
۔۔۔ خاقانی
________🔴
”ادب اطفال کی اہمیت اور ضرورت“
ادب اطفال ایک ایسا ادب ہے جسے شاعر ادیب بچوں کی ذہنی وفکری اور جسمانی صلاحیتوں کو مد نظر رکھ کر تخلیق کرتے ہیں۔ اس قسم کی تخلیقات میں بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے اور اچھی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ادب اطفال کا مقصد بچوں کی ذہنی آبیاری ہوتی ہے۔
سب سے پہلے کیا ہے جاننا ضروری ہے۔ ادب زندگی کے اظہار کا نام ہے‘ لفظوں کے ذریعہ جذبہ احساس یا فکر وخیال کے اظہار کو ادب کہتے ہیں۔ ادب کے ذریعہ ہم ز ندگی کاشعور حاصل کرسکتے ہیں۔
دوسرا لفظ اطفال سے مراد وہ بچے جن کے لئے ادب تخلیق کا جارہا ہے۔”ادب اطفال“ یعنی بچوں کا ادب کی اصطلاح میں شامل دونوں الفاظ سے اہم ہے۔
ملک کی حقیقی دولت دو لت اور سرم ایہ بچے ہی ہوتے ہیں بچپن میں انہیں جس قسم کی سکون وتربیت ونشو نما ملتی ہے اس پر ملک کا انحصار ہوتا ہے اور ان کی ذہنی اور جذباتی نشو نما مادری زبان سے ہی تعلیم ب چوں کے لئے مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
ادب اطفال ایک ایسا ادب ہے جسے شاعر اور ادیب بچوں کی ذہنی وفکری اورجسمانی صلاحیتوں کو مد نظر رکھ کر تخلیق کرتے ہیں۔ اس قسم کی تخلیقات میں بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے اور اچھی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ادب اطال کا مقصد بچوں کی ذہنی آبیاری ہوتی ہے۔
یوں تو ابتداء سے اردو شعر وداب میں ادب اطفال کی جھلک ملتی ہیں۔ لیکن آزادی کے بعد اردو شعراء وادیب نے بچوں کی صلاحیتوں کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کیں۔ اردو کے جن شاعروں نے ادب اطفال کو فروغ بخشا‘ جن میں اسماعیل میرٹھی‘ محمد حسین آزاد‘ پریم چند‘ خواجہ الطاف حسین حالی‘ عصمت چغتائی‘ کرشن چندر‘ پروفیسر جگن ناتھ آزاد‘ پروفیسر ڈاکٹر علامہ اقبال‘ قرۃ العین حیدر وغیرہ۔
اردو کے ادیبوں اور شاعروں نے ادب اطفال کو موضوع بنا کر کتابیں لکھیں ہیں۔ ان تحریروں میں کیا انہوں نے جو ادب کیا ہیں وہ بچوں کے ذہنی ارتقاء میں مفید ثابت ہو رہا ہے ہیں۔ بچوں کے لئے جو ادب تخلیق کیا جاتا ہے وہ ان کے مستقبل کے تعمیر وتشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے یا نہیں ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے۔
ادب اطفال کا بنیادی مقصد بچوں کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں بچوں کے ذہنی ارتقاء کو پیش رکھتے ہوئے ایسے کھلونے بھی تیار کئے گئے ہیں جو بچوں میں علمی وعملی فضاء قائم کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ادیبوں سے قبل والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کی تعلیم‘ غذا‘ رہن سہن‘ صفائی پر دھیان دیں تاکہ وہ نفیس ماحول میں پرورش پا کر اس قابل ہوجائیں کہ ادب اطفال سے مستفید ہوسکے۔
ادب اطفال کی اہمیت:
ادب اطفال اہمیت کاحامل ہے کیوں کہ اس سے بچوں میں صلاحیتوں کو فروغ دینے میں موقع فراہم ہوتا ہے۔ یہ ب چوں کو جذباتی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مدعو کرتا ہے یہ بچوں کی شخصیت اور معاشرتی صلاحیتوں کو نشو نما اور ترقی کو فروغ دیتا ہے۔
نورٹن کہنا ہے کہ بچوں کے لئے بے الفاظ تصویر کی کتابیں زیادہ اور تحریری زبان کے لئے بہترین محرک ہیں۔ بے الفاظ یعنی تصویری کتابیں پڑھنے والے طلبہ عکاسی کا تجزیہ اور کہان ی کے لئئے ایسے مکالمہ تیار کرنے ہوں گے۔
ادب اطفال بچوں کو اپنی ثقافتی ورثے اور دوسری اقوام کی ثقافتوں کے بارے میں جاننے کے لئے موقع فراہم کرتا ہے۔ موجودہ دور میں ان اقدار کو سیکھنا بچوں کے لئے بہت ضروری ہے کیوں کہ اپنی ثقافت اور دوسروں کی ثقافتوں کے تئیں مثبت رویوں کو فروغ دینا معاشرتی اوگر ذاتی ترقی دو نوں کے لئے ضرو ری ہے۔ ادب اطفال اس لئے اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس سے شخصیت اور معاشرتی ترقی کو تقویت ملتیی ہے ؤ ابتدائی سالوں کے دو ران بچے بہت متاثر کن ہو تے ہیں اور اس دور میں ادب اطفال ذمہ دار‘ کامیاب اور کیرنگ Caringاشخاص کی تشکیل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
ادب اطفال کے پرواز تخیل کو جلا بخشی ہے اگر ہم زندگی کے اس دور میں ان کی مدد نہ کریں تو وہ اپنی قوت کو کئی اور جگہ صرف کریں گے۔ جس سے ان کا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ بچپن کے اس دو ر میں تخیلی ادب کے ذریعہ ان کی پو شیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے کا کام کیا جاسکتا ہے۔ دلچسپ واقعات کے بیان سے ہم انہیں ادب کے قریبکرسکتے ہیں پرواز تخیل کی مدد سے وہ زمانے سے کچھ الگ سوجیں گے تو اس طرح نئے ایجادات بھی وجود میں آئیں گے۔ تو بچہ مجتہد اور مثالی شہری بن سکتا ہے۔
ادب اطفال کی ضرورت:
بچوں کا ادب ایسا ہونا چاہئے جو ان کی زندگی میں جوان کی بہتر تربیت کرسکے ۔ کیوں کہ آگے جا کر بچہ ہی کل کا شہری بنے گا۔ ان کا ادب ایسا جو انہیں سماج کے ذمہ دار شہری کے طور پر تیار کرے اور ان کی اندر ایثار ومحبت‘ قومی یکجہتی جیسے مثبت جذبات کو فروغ دے۔
ادب اطفال کے ذریعہ ہم بچوں کے ذۃن کو مثبت سمت میں ڈال سکتے ہیں بچے کی فطرت ہوتیی ہے وہ کبھی ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے وہ کبھی خالی ذہن سکون سے ہی رہ سکتا ہے اگر انہیں اس وقت بہتر ادب میسر کرکے مصروف نہ کیا جائے تو وہ اپنی اس توانائی کو صرف کرنے کے لئے کوئی دو سرا ذریعہ تلاش کرلیں گے۔
بچوں کے تحیر وتجسس کے ساتھ ان کے نہ ختم ہونے والے سو الات کا جواب دینا بہت ضروری ہے کیوں کہ یہ سوال ان کے ذہن کو مسلسل پریشان کرتے رہتے ہیں ان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ سوال پر سوال کرتے رہتے ہیں اور یہی سوال ان کی ترقی میں ان کے معاون ہوتے ہیں جب ان کے سوالوں کا جواب۔۔۔ جائے تو وہ مایوس ہوجائیں گے اور ان اپنی ز ندگی میں ٹھہر جائیں گے۔
بہتر ادب اطفال اس الجھن میں بچوں کی مدد کرتا ہے۔
”کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو
پہلی سیڑھی پر دم رکھ‘ آخری سیڑھی پھر آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو
تبسم آراء
پی ایچ ڈی اسکالر
عثمانیہ یونیورسٹی
____________
🔴ورن آنند لدھیانہ
🎬 غزل
چاند ستارے پھول پرندے شام سویرا ایک طرف
ساری دنیا اس کا چربہ اس کا چہرا ایک طرف
وہ لڑ کر بھی سو جائے تو اس کا ماتھا چوموں میں
اس سے محبت ایک طرف ہے اس سے جھگڑا ایک طرف
جس شے پر وہ انگلی رکھ دے اس کو وہ دلوانی ہے
اس کی خوشیاں سب سے اول سستا مہنگا ایک طرف
ساری دنیا جو بھی بولے سب کچھ شور شرابہ ہے
سب کا کہنا ایک طرف ہے اس کا کہنا ایک طرف
زخموں پر مرہم لگواؤ لیکن اس کے ہاتھوں سے
چارہ سازی ایک طرف ہے اس کا چھونا ایک طرف
اس نے ساری دنیا مانگی میں نے اس کو مانگا ہے
اس کے سپنے ایک طرف ہیں میرا سپنا ایک طرف