شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
شہر ممبئی کے ان افراد کو ، جنہیں اردو زبان و ادب سے پیار ہے ، اور انہیں جو اردو زبان کی کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں ، یہ جان کر خوشی ہوگی کہ شہر میں 6 ، جنوری یعنی کل سے ایک کتاب میلہ شروع ہو رہا ہے ، جو نو دنوں تک چلے گا ۔ یہ کتاب میلہ ’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی ‘ کے اہتمام اور ’ انجمن اسلام ممبئی ‘ کے اشتراک سے ممکن ہو سکا ہے ، ورنہ شہر ممبئی ایک طویل عرصے سے اپنے شایان شان کتاب میلے سے محروم رہا ہے ، یا یوں کہہ لیں کہ اسے محروم رکھا گیا ہے ، ’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی ‘ کا بھی اور ’ انجمن اسلام ممبئی ‘ کا بھی بہت بہت شکریہ ۔ لوگوں کو خوب یاد ہوگا کہ ممبئی میں جب بھی کوئی کتاب میلہ ہوا ہے ، کتابوں کی فروخت کا ریکارڈ بنا ہے ، اور اس بار بھی امید ہے کہ کتابوں کی فروخت کا ایک ریکارڈ بنے گا بلکہ سارے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے ۔ لیکن اگر لوگ ، کتابوں کے شوقین ، ادباء و شعراء ، اساتذہ کرام اور پروفیسر صاحبان ، طلباء اور علماء کرام گھروں میں بیٹھے رہے تو یہ ممکن نہیں ہوگا ، ممکن اسی صورت میں ہوگا جب لوگ وقت نکال کر کتاب میلے میں پہنچیں گے اور کتابیں خریدیں گے ۔ یقین کریں میلے میں ہر شخص کے پسند کی ، اور ہر موضوع کی ، کتابیں آ رہی ہیں ۔ ملک بھر کے پبلشر اور کتب فروش ایسی کتابیں لے کر پہنچ رہے ہیں ، بلکہ پہنچ چکے ہیں ، جو ممبئی کیا پورے مہاراشٹر میں کہیں ملیں گی نہیں ۔ دو باتیں بہت اہم ہیں ؛ اول یہ کہ جو کتب فروش آ رہے ہیں وہ ممبئی والوں کے مہمان ہیں ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پورے مہاراشٹر کے مہمان ہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ ممبئی پوری ریاست کا صدر مقام ہے ، یہ ملک کی معاشی راجدھانی بھی ہے ، لہذا ان آنے والے کتب فروشوں کا استقبال مہمانوں کی طرح کیا جانا چاہیے ، اور اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اُن سے کتابیں خریدی جائیں ۔ اسکولوں اور اداروں کو ، تنظیموں اور جماعتوں کو بھی آگے آنا ہوگا ، اور کتابیں خریدنی ہوں گی ۔ دوسری بات قدرے افسوس ناک ہے ، نو دنوں کے دوران جو پروگرام ہو رہے ہیں وہ روایتی ہیں ، ان میں نہ کتب بینی پر کوئی پروگرام ہے ، اور نہ کتابوں کے مطالعے کی ترغیب پر ، کتابیں پڑھنے کی اہمیت اور ضرورت پر بھی کوئی پروگرام نہیں رکھا گیا ہے ۔ یہ انتہائی اہم موضوع ہے اس لیے اس موضوع کے کسی ایکسپرٹ کو بلوا کر اس موقع پر بات کروائی جا سکتی تھی ، لیکن نہ جانے کیوں اس پر توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ کتابوں کی رونمائی اور ادیبوں سے ملاقات کے پروگرام بھی نہیں ہیں ، یہ بھی افسوس کی بات ہے ۔ کتابوں کی نشر و اشاعت اور فروخت ، اور پبلشروں و نشرانِ کتب و کتب فروشوں کے مسائل کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے ۔ ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ جو پروگرام ہو رہے ہیں ان کے منتظمین اپنی اپنی تشہیر تو خوب کر رہے ہیں ، لیکن کتاب میلے کا جو بنیادی مقصد ہے کتابوں سے عوام کو جوڑنا اُسے جیسے بھول گیے ہیں ۔ قومی کونسل نے تو اداروں کو پروگرام دے دیے ، لیکن جن اداروں کو پروگرام ملے ہیں انہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے تھا ۔ خیر ، جو پروگرام ہوں گے اُن کے منتظمین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے پروگرام کریں ، لیکن کتابوں کی خریداری کی ترغیب بھی دیں ، کیونکہ مشاعرے تو لوگ سنتے ہی رہتے ہیں مگر کتابیں خریدنے اور پڑھنے سے لوگ بہت دور ہو گیے ہیں ۔
_____
گاندھی جی،ادیبوں اور شاعروں کی نظر میی۔۔۔۔۔۔
🔴 ڈاکٹر تبسسم آراء حیدرآباد
انڈیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاندھی جی سے کون واقف نہیی دنیا کے کونے کونے میی ہر ادنی'و اعلی' اور بچہ بچہ ّ جانتا ہیکہ گاندھی جی ایک عظیم انسان تھے۔ان کے ناقابل فراموش کارناموں کی وجہہ سے انھیی باباۓ قوم کا لقب دیا گیا۔ موہن داس کرم چند گاندھی 2 اکٹوبر 1869 کو گجرات کے پور بندر مقام پر پیدا ہوۓ۔۔ ان کے والد کرم چند گاندھی ہندو مودھ کے دیوان تھے۔۔۔
مہاتما گاندھی ہندوستان کے جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔اج بھی ان کی مقبولیت میی کوی کمی نہیی آئ۔ یہ لندن میی تعلیم حاصل کرنے بعد1920ء میی کانگریس پارٹی کی قیادت سنبھالی۔اور ہندوستان کو آزادی دلانے میی جدوجہد کی۔۔۔۔اور ہنوستان کے مسلمانوں کو برابر کا حق دینے کا وعدہ کرنے پر 30 جنوری 1948ء کو ہندو قوم پرست ناتھورام گوڈ سے نے انھیی قتل کردیا۔۔۔۔افسوس۔۔۔۔۔ان کے قتل ہونے پر مجاز لکھنوی نے کہا تھا۔۔۔۔ہندو چلا گیا نہ مسلمان چلا گیا۔۔۔انسان کی جستجو میی ایک انسان چلا گیا۔۔۔۔۔۔
گاندھی جی نے لوگوں کو سچائ اور اچھائ کی راہ پر چلنے کی تلقین کی,ان کا یہ جذبہ انسانیت آج بھی سکھایا پڑھایا جاتا ہے۔گاندھی جی کے نظریہ کی تین بنیادیں ہیی, عدم تشدد , اہنسا اور سچائ پر ڈٹے رہنا۔وہ ستیہ گرہ اور سیاسی انفرادی حق راۓ دہی یا سوراج گاندھی صلح جوئ کے قائل تھے۔
مولانا ابوالکلام کی نظر میی گاندھی جی ۔۔۔۔۔۔
مولانا آزاد اور گاندھی جی کے آپس میی گہرے تعلقات تھے۔مولانا آزاد گاندھی جی کے نظریہ کو پسند کرتے تھے,انسان دوستی , رواداری ,اور سچائ پر یقین رکھتے تھے۔اور اپنے اپنے مذہب کے سچے پیروکار تھے ۔انگریزوں نے جب " پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ," کی پالسیی اپنائ ہندؤوں اور مسلمانوں میی اختلاف پیدا کیا تو مولانا آزاد اور گاندھی جی نے ملکر جی جان سے ہندؤوں اور مسلمانوں کو آزادی کے لیۓ لژنے کی ترغیب دی۔۔
چنانجہ مہاتما گاندھی تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔انھوں نے اپنے قول و فعل, مضبوط عزائم اور اصولوں کی پابندی کا مظاہرہ کرکے ہندوستان کی تقدیر بدلنے کے ساتھ ساتھ کئ دوسرے ملکوں کو بھی غیروں کی غلامی سے آزاد ہونے کی راہ دکھائ۔ اور ہندوستان کے سارے مذاہب کو پھلنے پھولنے کی آزادی, جیو اور جینے دو۔۔,کے اصول پر کار بند رہے تھے۔اور فرقہ وارانہ فسادات کے سخت خلاف تھے۔
پریم چند کی نظر میی گاندھی جی۔۔۔۔
پریم چند گاندھی جی کے اہنسا کے نظریہ اود عدم تعاون سے اس قدر متاثر ہوۓ کہ اپنی سرکاری ملازمت کو استعفی دیکر ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تحریک میی شامل ہوگۓ۔جس کی واضح مثال انکے افسانے ستیہ گرہ اور لال فیتہ ہیی۔۔
گاندھی جی شاعر منظر بھوپالی کی نظر میی,,,
گاندھی جی اب دیکھ لو آکر اپنا ہندوستان۔۔۔کیسے کیسے آپ کے چیلے ہوگۓ بے ایمان۔۔۔۔۔
جگر مرآدابادی نے گاندھی جی کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا,, وہی مہاتما وہی شہید امن و آشتی,,,پریم جس کی زندگی خلوص جس کا پیرہن ,,,,وہی ستارے ہیی مگر کہاں ماہتاب ہند,,,,وہی ہے انجمن مگر یہ کہاں وہ صدر انجمن۔۔۔۔۔۔۔۔🫧تبسم آراء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔9014782069
_________
"آو ہم کھو جائیں"
آو ہم کھو جائیں
کائنات کے اندیکھے گوشے میں۔۔
جہاں ہمیں سننے والوں میں
صرف ہم دونو ہوں
'ہم محبت میں تمام حدیں پار کریں گے'
سورج جب اپنی تپش سے
زمین پہ پانی کی قلّت کرے گا
ہم اک دوجے کے لبوں کو چوم کر یہ ثابت کریں گے
پیاس ایسے بھی بُجھائ جاتی ہے
مے زدا شام کا نشہ اترتے ہی
شاعروں پر لفظ نازل ہوتے ہیں
ہماری محبت پہ میں بھی نئ نظم لکھوں گا
جِسے ہمارے بعد ہماری روحیں گُنگناتی رہیں گی
ہم محبتی عٙلٙم لہرائیں گے
رقص کریں گے' مُسکرائیں گے
ایک دوسرے کو گلے لگا کر
کائنات بانہوں میں بھرنے کا شرف پائیں گے
تمہاری پیشانی سے گرے پسینے کے قطرے
دوسرے جنم میں ستارے بنتے ہیں،
تمہاری آنکھیں..
یاقوت پتھروں سے بھری جھیل ہیں،
تمہارے ہونٹ..
پتّوں پر پڑی اوس کی بوندوں جیسے ہیں،
تمہارے تراشے گئے ناخنوں کو دوبارہ جنت میں پناہ مل جاتی ہے،
تمہاری روح تمہارے جسم میں نظم کی مانند پروئ گئ ہے اور
تمہاری مسکراہٹ ایک نعمت ہے یارم
تم سے منسلک
تمام معجزات کو دیکھ کر
میرا ایمان اور بھی پختہ ہو گیا ہے
ہم اک دوجے میں محو رہنے کے حامل ہیں
اک دوجے کو دیکھ کر زندہ رہ سکتے ہیں
آو چلیں دو رنگوں والے پہاڑ کی گفا میں رات گزارنے..
آو ہم کھو جائیں اپنی محبت میں.!
"حمزہ-ز"
_______
دسمبر کی آخری شب
مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا
کہ میں اسے اظہارِ محبت نہ کر سکا
میرے دل و دماغ میں
اس کے سوا کچھ بھی نہیں
تسبیحِ عشق کے ہر دانے پر
میں اس کے نام کا ورد کرتا ہوں
میں مزار پرست نہیں
مگر ہر درگاہ پر میں نے اسے مانگا ہے
اگر اس کی زلفوں کے سائے تلے
زندگی بسر ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا ہے
وہ میری روح تھی
جس دن سے ہم جدا ہوئے ہیں
تب سے میں ایک زندہ لاش ہوں
جدائی کا وہ لمحہ کتنا تکلیف دہ تھا
مشالؔ بيمي خيل
_____