دریا جو بہہ رہا ہے سبحان تیری قدرت
ہر قطرہ کہہ رہا ہے سبحان تیری قدرت
جو بار اٹھاسکے نہ،ارض وجبال وافلاک
انسان سہہ رہا ہے سبحان تیری قدرت
تمام ترحمدوثنا،تعریف وتوصیف ،بزرگی ،بڑائی کبریائی ،شہنشاہی کے لائق ہے وہ رب ذوالجلال ،خالق کون ومکاں،مالک ہردو جہاں،جس نے انسان کو اپنا نائب و خلیفہ مقرر کیااور تمغۂ اشرف المخلوقات سے نواز کر کائنات کی ہرچیز کو اس لیے مسخر کردیا حتی کہ وہ بار امانت جس کے متعلق پہاڑوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ ہم اس کا تحمل نہیں کرسکتے ،وہ لازوال نعمت ’’قرآن کریم ‘‘ ہے جو کلام الٰہی ہے ،فرمان ربانی ہے،دستور ومنشور حیات ہے ،پندونصائح کا خزینہ ہے،عبرت و نصیحت کا مجموعہ ہے ،جس کے پڑھنے پڑھانے ،یاد کرنے کرانے پر دونوں جہاں کی عزت وعظمت،کامیابی وکامرانی کامژدہ ہے ،اسی لیے قادر مطلق نے قرآن پاک کا سمجھنا سمجھانا،یاد کرنا کراناہرانسان کے لیے انتہائی سہل وآسان بنادیا،بنابریں آج دنیا کے کونے کونے میں حفاظ کرام کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور اس میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ،سرزمین مالیگائوں پر واقع دینی درس گاہ ،تعلیمی وتربیتی دانش گاہ(معہد ملت) کسی تعارف کی محتاج نہیں ،اس کی خدمات اور کارنامے اظہر من الشمس اور روزروشن کی طرح عیاں ہیں ،البتہ شعبۂ حفظ میں زیر تعلیم ’’عبد اللطیف وسیم احمد ‘‘(ساکن پوارواڑی ،مالیگائوں) نے صرف ۹۶ ؍دنوں کی قلیل مدت میں قرآن پاک مکمل حفظ کرکے جو نمایاںکارنامہ ،سرزمین مالیگائوں پر اولین ریکارڈ،معہد ملت کی ۷۰؍سالہ تاریخ میں مثال قائم کی ہے ،وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
اسی ذہین وفطین ،ہونہار ومتین طالب علم کے اعزاز واکرام ،استقبال وانعام کے لیے ایک تہنیتی جلسہ کا انعقاد حضرت مولانا مقبول اختر قاسمی صاحب کی صدارت میں عمل میں آیا،اس پروقار عظیم الشان جلسہ میں دیگر چار طلباء بھی صاحب اعزاز تھے ،مورخہ ۲؍جنوری ۲۰۲۴ء مطابق ۱۹؍جمادی الاخری ۱۴۴۵ھ بروز منگل صبح ساڑھے دس بجے مسجد نعمانی میں ہونے والے اس اعزازی جلسہ کا آغاز قاری شہزاد انوری کی پرکیف تلاوت سے ہوا،شان رسالتؐ مآب میں گلہائے عقیدت حافظ صدیق صاحب نے بشکل نعت پاک پیش کی ،اغراض ومقاصد مع نظامت راقم الحروف کے سپرد رہی ،قاضی شریعت مفتی محمد حسنین محفوظ نعمانی صاحب نے صاحب اعزاز حافظ عبد اللطیف صاحب وبقیہ چار صاحبان اعزاز طلباء کو ہدیۂ تبریک پیش فرماتے ہوئے بصیرت افروز کلمات سے شعبہ حفظ کے جمیع اساتذہ کی خدمات کی تحسین فرمائی !حافظ عبد اللطیف صاحب نے عربی نظم کے ذریعہ جلسہ کو رونق بخشی بعدہٗ حضرت مولانامفتی حامد ظفر ملی رحمانی صاحب نے واقعات کی روشنی میں تسلی بخش ،حوصلہ افزا ملفوظات عالیہ سے حاضرین مجلس کو نوازا،آبروئے ملت شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا ادریس عقیل ملی قاسمی صاحب بسبب علامت حاضر نہ ہوسکے تاہم حوصلہ بخش پیغام تہنیت کے ذریعہ مسرت وشادمانی کا اظہار فرمایا،جس کی خواندگی مفتی شارق صاحب نے کی ،درمیان درمیان میں طلبائے حفظ نے تعلیمی مظاہرہ بھی پیش کیا ،جلسہ کے آغاز ہی سے بنفس نفیس حاضر،مسیحائے معہد ،پاسبان و مہتمم معہد ملت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے مختصر مگر پر اثر خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اراکین ،اساتذہ ومتعلقین معہد ملت کے لیے بڑی خوشی کا موقع ہے کہ طلباء محنت ومجاہدہ کرکے آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنا امتیاز و تفوق ثابت کررہے ہیں ،اس دورمسابقت میں ایسی ہی کوشش و فکر کی ضرورت ہے ،مثال کے ذریعہ حاضرین وطلباء کو سمجھایا کہ جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ،اسی طرح ادارہ اپنے فرزندوں سے پہچانا جاتا ہے ،آپ طلباء معہد کی شناخت وشان ہیں ،آپ کو اپنا مقام وامتیاز اپنی صلاحیت سے ثابت کرنا ہے،معہد کی ۷۰ ؍سالہ تاریخ میں یہ پہلا کارنامہ ہے جو معہد کے لیے نشان امتیاز ہے ،دیگر طلباء کی کارکردگی بھی نمایاں ہے ،اور ان شاء اللہ بہت جلد آپ دیکھیں گے اور سنیں گے کہ ان ہی صاحبان اعزاز طلباء نے ایک نشست میں مکمل قرآن پاک سنا بھی لیا ،ہماری خواہش ہے کہ معہد کا ہر طالب علم خواہ عالمیت کا ہو یا حفظ کا،وہ ہر لحاظ سے آگے رہے اور معہد کی نیک نامی کا سبب بنے،نیز حاضرین میں سے علماء نظماء،صدور،معلمین ،اساتذہ اور ہمدردان و مخیران سے مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ محنت کرنے والے اساتذہ و طلباء کی حوصلہ افزائی ضروری ہے ،کام کرنے والوںکی قدرومدد ہونی چاہیے ،اساتذہ وطلباء کے لیے انعامات دینے والے تمام مخیران وہمدردان معہد ملت کا خوب خوب شکریہ ادا کیا اور ڈھیر ساری دعائوں سے نوازا،حضرت والاکے خطاب کے بعدصاحبان اعزاز کو گرانقدر انعامات ،قیمتی تحفے تحائف ،اور نقد رقومات سے نوازاگیا،ساتھ ہی پربھنی کے مسابقہ میں سوم پوزیشن پانے والے دو طلباء حافظ طلحہ(تقریر)اور حافظ عبداللہ (حفظ)کو بھی اعزاز واکرام اور انعامات دیئے گئے دعا اور کلمات تشکرکے ذریعہ اس پر بہار ،جلسے کا اختتام ہوا۔