مالدیپ حکومت کے کچھ افسروں نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے لکشدیپ دورہ پر جب سے قابل اعتراض تبصرہ کیا ہے، یہ معاملہ سرخیوں میں ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تو ’بائیکاٹ مالدیپ‘ لگاتار ٹرینڈ کر رہا ہے۔ اس بائیکاٹ ٹرینڈ کا اثر اب دکھائی دینا بھی شروع ہو گیا ہے۔ ’ٹی وی 9 ہندی ڈاٹ کام‘ پر شائع ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ مالدیپ نے خود بائیکاٹ سے ہونے والے نقصان کا اعتراف کیا ہے۔ مالدیپ سے آ رہی خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ وہاں کے تقریباً 44 ہزار فیملی کو بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دراصل اس تنازعہ کے شروع ہونے سے قبل مالدیپ ہندوستانیوں کے لیے پسندیدہ سیاحتی مقام تھا۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی وہاں گھومنے پہنچتے تھے جس سے مالدیپ کو معاشی فائدہ ہوتا تھا۔ اب ہندوستانی کے بائیکاٹ ٹرینڈ کے سبب مالدیپ کی سیاحت پر منفی اثر پڑنا لازمی ہے اور اس کا معاشی نقصان بھی کروڑوں روپے میں ہونے کا اندازہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حالات سنبھالنے کے لیے مالدیپ نے اپنے یہاں گھومنے کا خرچ بھی نصف کر دیا ہے، لیکن ہندوستانی سیاح وہاں جانے سے پرہیز کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آن لائن ٹریول پورٹل پر بھی ہندوستانیوں نے مالدیپ گھومنے کا متبادل تلاش کرنا بند کر دیا ہے۔ اس کی جگہ بڑی تعداد میں ہندوستانی لکشدیپ جانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ہندوستانی سیاحوں نے مالدیپ میں 38 کروڑ ڈالر (تقریباً 3152 کروڑ روپے) خرچ کیے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر نصف ہندوستانیوں نے بھی مالدیپ جانا بند کر دیا تو اسے روزانہ تقریباً 4.3 کروڑ روپے روزانہ کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔