ایران نے کل پاکستان میں حملے کیے جس کو اس نے عسکریت پسند گروپ’ جیش العدل ‘کے اڈوں پر کیا ۔ان حملو ں سے ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا جو پہلے ہی غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے باعث پھیل چکا ہے۔ پاکستان نے کہا کہ اس حملے میں دو بچے ہلاک اور تین دیگر زخمی ہوئے جسے اس کی فضائی حدود کی "بلا اشتعال خلاف ورزی" قرار دیا گیا۔
انگریزی روزنامہ ’دی ہندوستان ٹائمس‘ کے نیوز پورٹل پر شائع خبر کے مطابق ایران کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے اندر حملے سے دونوں ممالک کے تعلقات کو خطرہ لاحق ہے، جو طویل عرصے سے سفارتی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یہ حملہ ایک دن پہلے عراق اور شام پر ایرانی حملوں کے بعد کیا گیا ہے۔ واضح رہے تہران نے اس ماہ ہونے والے دو خودکش بم حملوں کے بعد اس کی مذمت کی تھی جس کی ذمہ داری سنی عسکریت پسند گروپ داعش نے قبول کی تھی جس میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنس ارنا اور سرکاری ٹیلی ویژن نے کہا تھا کہ پاکستان میں حملوں میں میزائل اور ڈرون استعمال کیے گئے۔ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے انگریزی زبان کے پریس ٹی وی نے اس حملے کی ذمہ داری ایران کے نیم فوجی پاسداران انقلاب کو قرار دی ہے۔
جیش العدل، یا "آرمی آف جسٹس "، 2012 میں قائم ہونے والا ایک سنی عسکریت پسند گروپ ہے جو بڑی حد تک پاکستان میں سرحد علاقوںمیں کام کرتا ہے۔ عسکریت پسند ماضی میں بم دھماکوں اور ایرانی سرحدی پولیس کو اغوا کرنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔
مسجد پر لگایا لال پرچم
ایران نے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ لڑی ہے لیکن پاکستان پر میزائل اور ڈرون حملوں کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ایرانی رپورٹس کے مطابق یہ حملے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پہاڑوں میں ہوئے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے ان حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "پاکستان ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی کی شدید مذمت کرتا ہے جس کے نتیجے میں دو معصوم بچے جاں بحق اور تین زخمی ہو گئے،" بیان میں مزید کہا گیا کہ "پاکستان کی خودمختاری کی یہ خلاف ورزی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔"
پاکستان نے مزید کہا "پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ دہشت گردی خطے کے تمام ممالک کے لیے ایک مشترکہ خطرہ ہے جس کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی یکطرفہ کارروائیاں اچھے ہمسایہ تعلقات کے مطابق نہیں ہیں اور یہ دو طرفہ اعتماد کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
دو پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے بتایا کہ ایرانی حملوں سے بلوچستان کے ضلع پنجگور میں ایک مسجد کو نقصان پہنچا، جو ایرانی سرحد سے پاکستان کے اندر تقریباً 50 کلومیٹر (30 میل) دور ہے۔ عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ انہیں صحافیوں سے بات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ دو بچے ہلاک اور تین لڑکیاں زخمی ہوئ ہیں۔ بلوچستان کو دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے نچلی سطح کی شورش کا سامنا ہے۔ بلوچ قوم پرست ابتدائی طور پر صوبائی وسائل کا حصہ چاہتے تھے لیکن بعد میں آزادی کے لیے بغاوت شروع کر دی۔