تکلف برطرف : سعید حمید
مہاتما گاندھی مرڈر کیس کا ایک اہم مجرم تھا
وشنو رام کرشناکرکرے ، ایک چت پاون برہمن
جوہندو مہاسبھا کا ایک لیڈر بھی تھا ۔ گاندھی مرڈر پلاٹ میںوہ پوری طرح شامل تھا ۔
جیون لال کپور کمیشن کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کرکرے سمیت
گاندھی مرڈر کیس کے مجرموں کو اس خطرناک منصوبے کی سازش ،
منصوبہ بندی اور اس کو انجام دینے کے دوران کسی بھی قسم کی مزاحمت یا
رکاوٹ کا سامنا نہیںکرنا پڑا ۔
انہیں پولس کا کوئی خوف اور ڈر نہیںتھا ، یہ مجرمین ہندو مہا سبھا بھون سے لیکر
عام ہوٹلوں ،یا ریلوے اسٹیشنوں ، ریلوے پلیٹ فارم پر ہی سوتے
حالانکہ کہنے کیلئے ان کا پولس ریکارڈ بھی تھا اور ان پر،
ان کی تنظیم اور ساتھیوں پر انٹلی جنس کی نگاہ بھی تھی ۔۲۰
جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو ان کی گینگ نے برلا ہاؤس میںبم بلاسٹ کیا
لیکن گاندھی جی پر گولیاں چلانے میں ناکامیاب رہے پھر بھی اس ناکام
قاتلانہ حملے کے دس دنوں میںہی یعنی
۳۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو اسی گینگ راشٹر پتا کا کام تمام کردیا اور پولس منہ دیکھتی رہ گئی ۔
وشنو رام کرشنا کر کرے کو اس کیس میںعمر قید کی سزا ہوئی ۔
مہاتما گاندھی پر ۲۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کے ناکام حملے اور ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ
کو ان کے قتل سے قبل اور بعد کے ایام کرکرے نے اس سازش کو انجام دینے کیلئے
مہاتما کا ایک قاتل ؛ یہ بھی ایک کرکرے :
وشنو رام کرشنا کرکرے گاندھی مرڈر کیس کا ایک اہم مجر م ، احمد نگر سے تعلق رکھتا تھا ۔
اس کا احمد نگر میں ایک ہوٹل دکن گیسٹ ہاؤس نام سے تھا ، ا
ور وہ مقامی ہندو مہاسبھا کا اہم ممبر و لیڈر تھا ۔
وہ یہاں پاکستان سے آنے والے ہندو شرنارتھیوں میں کام کرتا تھا ،
ہندو مہا سبھا کی سرگرمیوں پر روپیہ خرچ کرتا تھا ، شرنارتھیوں میںسرگرم رہنے کی وجہ سے ہی
مدن لال پاہوا اس کی طرف متوجہ اور متعارف ہوا ۔ مدن لال پاہوا اس زمانے میںاحمد نگر میں
اپنی مسلم دشمن سرگرمیوں اور مقامی کانگریس لیڈر ان جیسے راؤ صاحب پٹوردھن کی
جارحانہ مخالفت کی وجہ سے خاصا بدنام تھا ۔
اس بات کے بھی ثبوت ملے ہیںکہ اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے
کر کرے نے گاندھی مرڈر کیس کے دوسرے مجرم نارائن آپٹے سے بھی مالی مدد لی تھی جو
اس زمانے میںاحمد نگر میںایک اسکول میں ٹیچر کی نوکری کرتا تھا ۔
کمیشن کی سماعت میں ایس وی کیتکر نے کر کرے کی شناخت کرتے ہوئے یہ کہا تھا
کہ یہ وہی شخص ہے جس نے اسے وہ ہتھیار اوربارود دئے تھے جو ( پولس نے )
اس کے پاس سے ضبط کئے ۔اور اسی لئے کرکرے کے گھر اور ہوٹل کی بھی تلاشی لی گئی تھی ۔
گاندھی قتل کے کلیدی مجرم ناتھو رام گوڈسے اور نارائن آپٹے کرکرے سے ۲
جنوری ۱۹۴۸ ٔ اور ۳ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو اس کے ہوٹل پر احمد نگر میں ملے تھے ۔
۶ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو کرکرے احمد نگر سے روانہ ہوگیا ۔
۷ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو وہ نارائن آپٹے سے اس کے اخبار آگرنی کے دفتر ( پونے ) میںملا ۔۹
جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو اس نے مدن لال پاہوا کی ملاقات نارائن آپٹے سے کروائی ،
اسی دوپہر وہ مدن لال کو لیکر دوسرے مجرم بڑگے کے گھر پہنچا ، تاکہ سامان یعنی ہتھیار اور بم وغیرہ دیکھے ۔
۱۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو کرکرے ممبئی پہنچا، وہاں سے وہ تھانہ میں جی ایم جوشی کے گھر گیا ۔
۱۱ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو اس نے ممبئی میںہندو مہاسبھا کے دفتر میںمدن لال پاہوا سے ملاقات کی ،
وہاں سے وہ چمبور ، ممبئی کے مضافات کی بستی میں پہنچا جہاں پاکستان سے آنے والے
ہندو شرنارتھیوں کا کیمپ تھا ۔مدن لال پاہوا اس کے ساتھ ہی تھا ۔
۱۳ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو وہ دادر میں ساورکر کے گھر پہنچا تاکہ ہندو مہا سبھا چیف سے ملاقات کرے
لیکن اس دن اس کی ملاقات ساورکر سے نہیں ہوسکی ۔
دوسرے دن اس کی ملاقات ساورکر سے ہوئی اور اس ملاقات میںاسنے ساورکر سے مدن لال پاہوا کو ملوایا ۔
اس کے بعد شام میں چھ بجے وہ مدن لال پاہوا کیساتھ پروفیسر جین سے ملاقات کیلئے گیا ۔
۱۵ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو آپٹے ، بڑگے اور کرکرے ؛ ناتھو رام گوڈسے
اور مدن لال پاہوا کے ساتھ بھولیشور گئے ، وہاں انہوں نے دکشٹ جی مہاراج سے ملاقات کی
اور ان کے پاس سے سامان یعنی ہتھیا ، بم ، وغیرہ لیا ۔مدن لال پاہوا اور کرکرے
پیشاور ایکسپریس کے ذریعہ دہلی روانہ ہوئے اور۱۷جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو وہ دہلی پہنچ گئے ۔
ان کے ساتھ انگچیکر نامی شخص بھی تھا ، وہ تینوں ہندو شریف ہوٹل میںمقیم ہوئے
اور انہوں نے دوسرے دن یعنی ۱۸ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کی صبح ملنے کا وقت مقرر کیا ۔
۱۸ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کی صبح میںکرکرے نے مرینا ہوٹل دہلی میں نارائن آپٹے اور ناتھو رام گوڈسے
سے ملاقات کی ۔ناشتہ کے بعد وہ ، آپٹے اور ناتھو رام گوڈسے ؛ تینوں ہی گوپال گو ڈسے سے ملنے کیلئے
نئی دہلی ریلوے اسٹیشن روانہ ہوئے ۔لیکن گوپال گوڈسے وہاں پہنچ نہیںسکا ۔
اس لئے وہ سب ہندو مہا سبھا بھون میں واپس لوٹ آئے ۔اس دن صبح ساڑھے گیارہ بجے گوڈسے
نے کرکرے کو ایک چٹھی دی ، یہ چٹھی ہندو مہاسبھا بھون کےسیکریٹری کے نام لکھی گئی تھی ،
جس میںاسے ایک کمرہ الاٹ کرنے کیلئے کہا گیا تھا ، اس لئے کرکرے کو روم نمبر ۳ الاٹ کیا گیا ۔
دوپہر میںساڑھے تین بجے آپٹے ، گوڈسے اور کرکرے برلا ہاؤس گئے
اور وہاں سے مرینا ہوٹل لوٹے ۔کرکرے نے آپٹے اور گوڈسے کیاتھ رات کا کھانا کھایا اور پھر وہاں
سے وہ تینوں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن چلے گئے یہ دیکھنے کیلئے کہ گوپال گوڈسے پہنچا ،یا نہیں
۔لیکن تب بھی انہیںگوپال گوڈسے وہاں نہیںملا اس لئے وہ لوگ پھر سے رات میںواپس مرینا ہوٹل آگئے ۔
جب کہ واقعہ یہ تھا کہ گوپال گوڈسے پلان کے مطابق نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچ چکا تھا
لیکن وہ ریلوے پلیٹ فارم پر ہی سو گیا ۔
تیسرے دن یعنی ۱۹جنوری ۱۹۴۸ ٔ کی صبح وہ تینوں ، کرکرے ، گوڈسے اور آپٹے برلا ہاؤس پہنچے
تاکہ وہاں جو پرارتھنا سبھا ہوتی ہے اس کا جائزہ لیں
۔اس دوران گوپال گوڈسے بھی صبح ساڑھے گیارہ بجے ہندو مہاسبھا بھون پہنچ گیا ۔
کرکرے پھر مدن لال پاہوا کے ساتھ ہندو شریف ہوٹل لوٹ گیا
اور رات میں مدن لال پاہوا اور گوپال گوڈسے کو لیکر آٹھ بجے ہندو مہاسبھا بھون پہنچا ۔
رات میں ۹ بجے کرکرے اور پاہوا گولے مارکیٹ گئے اور وہاں انہوں نے رات کا کھانا کھایا۔
اسی شام میںآپٹے ، گوپال گوڈسے ، بڑگے اور کرکرے نے ہندو مہا سبھا بھون کے پاس واقع جنگل میں ایک میٹنگ لیکر ( مہاتما گاندھی پر ) گولی چلانے کے منصوبے پر غور و خوص کیا تھا ۔آپٹے اور کرکرے مرینا ہوٹل آکر سوگئے ، جبکہ دیگر مجرمین ہندو مہاسبھا بھون چلے گئے ۔
۲۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کی صبح کرکرے ہندو مہا سبھا بھون آیا اس کے بعد کر کرے اور مدن لال پہلے برلا ہاؤس اور پھر وہاں سے مرینا ہوٹل چلے گئے ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ان سب ( کرکرے ، آپٹے ، مدن لال ، گوپال گوڈسے ) نے مرینا ہوٹل میںملاقات کی ۔ اس میٹنگ میںسب نے مختلف قسم کے ہتھیار آپس میںتقسیم کئے ۔
کرکرے اور مدن لال ٹھیک چار بجے برلا ہا وٌس پہنچ گئے ۔
وہاں پہنچ کر کرکرے اور گوپال گوڈسے سبھا میںجاکر عوام میں شامل ہوگئے ۔
(مدن لال پاہوا کے ذمہ بم بلاسٹ کا کام سونپا گیاتھا ۔)،
ٹھیک چاربجکر ۴۵ منٹ پر بم دھماکہ ہوا ۔دھماکہ سے افراتفری مچ گئی
( اس دوران مدن لال پاہوا رنگے ہاتھوں گرفتار ہو چکا تھا اور
کرکرے و گوپال گوڈسے کو مہاتما گاندھی پر گولی چلانے کی ذ مہ داری دی گئی تھی ، بم
بلاسٹ سے ہونےوالی افراتفری میں وہ لوگ اپنا کام نہیں کرسکے اور واپس لوٹ گئے ) ۔
۲۰؍ جنوری ۱۹۴۸ ء : ایک ناکام بم بلاسٹ ، ایک مجرم رنگے ہاتھوں گرفتار ؛
اگر دہلی اور بامبے پولس چاہتی ، غفلت ، لاپرواہی کی مجرمانہ حرکت نہیں کرتی تو پوری گینگ کو
چند دنوں میں گرفتار کیا جاسکتا تھا اور گاندھی مرڈر کی سازش کو ناکام بنایا جا سکتا تھا ۔
افسوس کہ ایسا نہیں ہوا ۔
_______________
درسی کتابوں کی غلطیاں
قسط نمبر 23
اعتراض نمبر 149
14 نومبر 2020
(یوم اطفال)
از : عمران امین
نویں جماعت
جغرافیہ
2017 (پہلا ایڈیشن)
تجارت
صفحہ نمبر 69
محترم اساتذۂ کرام!!
گذشتہ اقساط میں نویں جماعت کی اردو کمار بھارتی کی کتابوں کی غلطیوں کی نشاندہی کی تھی . آج جغرافیہ مضمون کی فاش غلطیوں کی نشاندہی کررہا ہوں. درآمد اور برآمد کا معنی و مفہوم ہر وہ شخص جانتا ہے جو تجارت کی تھوڑی سی بھی شد بد رکھتا ہے. نویں جماعت کی جغرافیہ کی کتاب میں یہ بالکل الٹا لکھا ہوا ہے. پیراگراف ملاحظہ فرمائیں :
برآمدات اور درآمدات
"برآمدات اور درآمدات بین الاقوامی تجارت کی بنیادی سرگرمیاں ہیں. جب کوئی ملک اپنے یہاں قلت میں پائی جانے والی شے یا خدمات کو کسی دوسرے ملک سے خریدتا ہے اسے "برآمد" کہتے ہیں. جب کسی ملک میں اضافی پیدار ہوتی ہے اور وہ اس پیداوار کو ضرورت مند ممالک کو بیچتا ہے اسے "درآمد" کہتے ہیں."
آپ لوگوں نے محسوس کر لیا ہوگا کہ درآمد کے محل پر برآمد اور برآمد کی جگہ درآمد لکھا گیا ہے. درسی کتاب کی اس غلطی سے معاشیات کا بنیادی اصول ہی بدل گیا ہے.
اسی سبق میں یہی غلطی کئی مرتبہ دہرائی گئی ہے جس میں سے کچھ غلطیوں کی نشاندہی اگلی قسطوں میں کروں گا.
عمران امین
مالیگاؤں
9867325358
______________
غزل
اسی شہرکا ہوں مگر اجنبی ہوں
میں جب کہ تمھاری طرح آدمی ہوں
ہے بس فرق اتناکہ دامن میں اپنے
سمیٹے ہوے۶ آج بھی مفلسی ہوں
میری موت کی جودعا مانگتےہیں
میں زندہ انھیں کیلے۶ آج بھی ہوں
تجھےکچھ خبر ہی نہیں میرےہمدم
تیری زندگی کیلے۶ زندگی ہوں
میرا امتحاں تم جہاں چاہولےلو
میں شاعر حقیقت میں سوفیصدی ہوں
میرے بعد رقصاں شب تار ہوگی
کہ گھر کا میں اپنے چراغ آخری ہوں
غنی سیم وزر جو دکھاتے ہیں مجھ کو
انھیں یہ بتا دو کہ عبدالغنی ہوں
عبدالغنی غنی مبارکپوری نیو آزاد نگر
شانتی نگر بھیونڈی تھانہ مہاراشٹر انڈیا
__________--___---__--
کاش بچے نہ مریں
نظم: غسان کنفانی
⭕ترجمہ: شگفتہ شاہ
’’ کاش بچے نہ مریں۔
کاش جنگ کے اختتام تک وہ عارضی طور پر آسمانوں کی جانب چلے جائیں۔
پھر جب وہ بحفاظت گھر لوٹیں، اور ان کے والدین ان سے پوچھیں:
آپ کہاں تھے؟
تو وہ کہیں:
ہم بادلوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔‘‘
"I wish children do not die.
I wish they would be temporarily elevated to the skies until the war ends.
Then they would return home safe, and when their parents ask them:
Where