عزیزان ِگرامی!!!
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا نو روزہ قومی کتاب میلہ 2024 ممبئی 14 جنوری اتوار کو اپنے اختتام کو پہنچ گیا لیکن ممبئی اور اطراف کے اردو داں طبقے کے لئے یہ ایک ایسا یاد گار ایونٹ بن گیا ہے جو ہمیشہ کے لیے ان کی سنہری یادوں میں محفوظ رہے گا.
عزیز دوست برادر امتیاز خلیل کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ابتدا سے ہی اس میلے کے متعلق ہر خبر فوراً مل جاتی تھی اس لیے اب میلے کے اختتام پر بہت ساری افواہوں کو سن کر افسوس بھی ہوتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے کہ لوگ بلا تصدیق کچھ بھی بولتے ہیں اور بلا تکان بولتے جاتے ہیں. بے شک میلے میں انتظامی نقطہ نظر سے کچھ کمی ضرور تھی جس پر بولنا ضروری تھا اور ہم خود ذمہ داروں کے سامنے پہلے ہی دن سخت انداز میں اپنے اعتراضات پیش کیے تھے لیکن بے بنیاد باتیں کرنا با شعور لوگوں کا کام نہیں ہے.
ہمارے مذہب میں اس شخص کو جھوٹا کہا گیا ہے جو کوئی بھی بات سن کر بلا تصدیق اسے آگے بڑھا دیتا ہے.
قومی کتاب میلہ 2024 ممبئی کا بجٹ لوگ تین کروڑ بتا رہے ہیں جب کہ اس سے تقریباً آدھا بجٹ مختص تھا، جب کہ میلے میں ہونے والے کلچرل پروگراموں کا بجٹ محض سولہ لاکھ روپے تھا معلوم نہیں لوگوں کو کہاں سے تین کروڑ اور کچھ لوگوں کو سات کروڑ کا بجٹ نظر آگیا. ایسا کرکے ہم اردو والے ہی اہل اردو کے دلوں میں بد گمانی پیدا کررہے ہیں. شاعروں ادیبوں، ڈرامہ نگاروں، ججوں، صحافیوں، محققین، ناقدین، مہمانوں اور دیگر شرکاء کو دیے جانے والے مشاہیرے پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے کہ مشاہیرہ نہ دیتے ہوئے اس پیسے کو بچوں کی بسوں کے لیے خرچ کردینا چاہیے تھا. ظاہر سی بات ہے یہ انتہائی نا معقول بات ہے کہ اردو کے خادمین کے لیے اگر حکومت محض ڈھائی ہزار روپے Honorarium فراہم کررہی ہے تو اس پر بھی اعتراض جتایا جائے.
ایک اعتراض لوگ کتاب میلے کے لیے جگہ کے تعین پر کررہے ہیں لیکن ان کے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے جہاں اتنا بڑا کتاب میلہ منعقد کیا جا سکتا تھا. اس سے پہلے بارہ سال قبل جب کتاب میلہ ہوا تھا تب صابو صدیق کالج کے گراونڈ میں ہوا تھا جہاں بمشکل پچاس اسٹال لگ سکے تھے اور کلچرل پروگراموں کے لیے کالج کے پہلے فلور پر موجود الما لطیفی ہال میں انتظام کیا گیا تھا. کتاب میلہ 2024 میں کل 185 بک اسٹال لگے تھے اور کلچرل پروگراموں کے لیے بہت وسیع و عریض خوبصورت ہال بنایا گیا جہاں ٹوٹل 26 بڑے کلچرل پروگرام ہوئے جس میں اردو زبان کے فروغ کا بھرپور سامان کیا گیا جس کی مثال ماضی کے کسی کتاب میلے میں ملنا ممکن نہیں ہے. ظاہر سی بات ہے موجودہ کتاب میلے کے مقابلے میں اُس کتاب میلے کا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا. کتابوں کی فروخت کے معاملے میں حالیہ میلہ صابو صدیق کے میلے کے مقابلے دوگنا اور FOOTFALL کے لحاظ سے دوگنا سے بھی زیادہ کامیاب رہا ایسے میلے کو لوگ کامیاب میلہ نہیں کہیں گے تو پھر کیا کہیں گے؟؟ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جتنی بھیڑ باندرہ کرلا کمپلیکس میں نظر آئی اتنی بھیڑ کا تصور بھی صابو صدیق میں نہیں کیا جا سکتا ہے.
باندرہ کرلا کمپلیکس ایک ایسا گراونڈ ہے جو ممبئی کے بالکل قلب میں واقع ہے جہاں پر ہر طرف سے لوگ جوق در جوق شامل ہو سکتے ہیں. جہاں پارکنگ کے لیے اتنی بڑی جگہ فراہم کی گئی تھی کہ بیک وقت 70 بسیں پارک کی جا سکی تھیں، جو ممبئی کے کسی بھی دوسرے ایسے میدان میں ممکن نہیں ہے جہاں اس قسم کے اور اس قدر طویل پروگرام کی اجازت ہے. موجودہ زمانے میں باندرہ کرلا کمپلیکس تک رسائی کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے، یہاں اکثر شادیاں ہوتی ہیں اس کے علاوہ اکثر EXHIBITION وغیرہ لگتے ہیں جس میں ممبیکر شوق سے شریک ہوتے ہیں اور ہر وقت ٹوائلٹ وغیرہ کا یہی نظم ہوتا ہے جو کتاب میلے میں تھا لیکن کبھی کسی بھی موقع پر کسی نے اتنا ہنگامہ آرائی نہیں کی جتنی ہم کررہے ہیں. کیا اسے اردو محبت کہتے ہیں؟؟
اس پروگرام کے پہلے دن افتتاحی تقریب میں کم از کم چھ سات ہزار اسکولی بچے اور ٹیچرس بیک وقت حاضر ہوئے تھے، اسی طرح آخری کے تین دن یعنی جمعہ، سنیچر اور اتوار کو روزانہ کم از کم سات آٹھ ہزار افراد میلے میں شریک ہوئے، صرف سنیچر کو ممبرا اور تھانہ سے کل 54 بسوں میں طلبہ اور اساتذہ شریک ہوئے اس کے علاوہ ممبئی کارپوریشن اور دیگر پرائیویٹ اسکولوں سے کم از کم 20 سے 25 بسیں لائی گئیں جس کی پارکنگ اس وسیع گراونڈ میں ہی ممکن تھی. تنقید کرنے والوں کے پاس ایسا کوئی متبادل گراونڈ نہیں ہے جہاں اس قدر لوگ بغیر کسی بھگڈر اور بد نظمی کے جمع ہوسکتے ہیں.
کچھ لوگوں نے یہ افواہ بھی پھیلا دی کہ بچوں سے پیسے لے کر بسوں کا انتظام کیا گیا. جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر علاقے کے سوشل ورکر، لیڈر، اسکولوں کے اساتذہ، پرنسپل اور خیر خواہ حضرات نے یہ انتظام کیا تھا تاکہ بچوں کو موبائل سے دور کرکے کتابوں سے قریب کیا جا سکے اور خاص طور پر اردو زبان کے فروغ میں اپنا حصہ لگا سکیں. ممکن ہے کسی اسکول والے بچوں سے کچھ پیسے لے کر بس کا انتظام کیے ہوں لیکن کیا ہماری قوم کے ان لوگوں کو جو بھیونڈی کے ڈھابوں پر جاکر لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں اپنی ترجیحات بدلنے کے لئے چند روپے خرچ کرنا گراں گذر رہا ہے؟ ہماری شادیوں میں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا لیکن ایک اہم مقصد کے لیے جب ہمارے بچے خرچ کررہے ہیں تو اس پر اعتراض کیا جارہا ہے اور امید یہ کی جارہی ہے کہ اس کے لیے بھی قومی کونسل خرچ کرے.
الحمدللہ میلے کی کامیابی سے سارے خیر خواہوں نے سکھ کا سانس لیا کہ جس دور میں لوگ دو روپے کا اردو اخبار خرید کر پڑھنا چھوڑ دیئے ہیں ایسے دور میں محض نو روز میں بلکہ آخری کے چار دن میں اسّی سے نوّے لاکھ روپے کی سینکڑوں موضوعات کی لاکھوں کتابیں فروخت ہوئیں (ایک بہت مشہور پبلشر سے جب اس تعلق سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے دس پبلشر کا جو بزنس بتایا وہی تیس لاکھ روپے سے زیادہ تھا ظاہر سے بات ہے ایک سو اسّی اسٹال کا مجموعی بزنس کم از کم اسی سے نوے لاکھ روپے کا ہوا ہوگا ) . یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اب تک کل 26 کتاب میلے میں سب سے زیادہ کتابیں مالیگاؤں کتاب میلہ 2021 میں فروخت ہوئیں تھیں جو کل ایک کروڑ 39 لاکھ روپے کی تھی. یہ اعزاز صرف مالیگاؤں کو ہی حاصل ہے اور یہ ریکارڈ ٹوٹنا آسان نہیں ہے جس کے بارے میں پھر کسی وقت ضرور لکھوں گا.
قومی کتاب میلہ 2024 ممبئی سے اردو کے قارئین ،اساتذہ ،طلبہ، صحافی، ڈاکٹر، پروفیسر،بزنس مین، حتیٰ کہ مزدوروں، ڈرائیوروں اور گھر میں کام کرنے والی عورتوں نے اپنے گھر، اسکول اور لائبریریوں کے لیے جھولی بھر بھر کر کتابیں خرید کر خوشی خوشی لے گئے ہیں جس کا اندازہ کتاب میلے میں لی گئی تصاویر سے ہوتا ہے جسے ان کتابوں کے لاکھوں شیدائی سوشل میڈیا پر مسلسل شیئر کررہے ہیں جس سے کچھ لوگ شاید ناخوش ہیں ورنہ اتنا بے سر پیر کا الزام کبھی نہیں لگاتے.
آخر میں ایک بات کہہ کر اپنی بات ختم کروں گا کہ کتاب میلہ رگڑے (گھگھری) کا ٹھیلہ نہیں ہے جس کی کامیابی کا دار و مدار ہانڈی میں لائے ہوئے رگڑے کے ختم ہونے پر ہوتا ہے بلکہ کامیاب کتاب میلہ وہی ہوتا ہے جو باندرہ کرلا کمپلیکس میں لاکھوں اردو کے شیدائیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا. امید ہے کہ یہاں سے خریدی گئی کتابیں اردو کے ساتھ ساتھ خریداروں کے اہل خانہ کا مستقبل سنوارنے میں اہم کردار ادا کرے گی.
__________
عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 104
مشورہ
محمود انصاری
میراروڈ, ممبئی، انڈیا
"دیکھو! تُم ناں اک بار رئیس چاچا سے بات کر ہی لو کہ اپنے بچوں کو سمجھائیں، نہیں تو کسی دن اُن کے گھر کی عورتوں سے میرا جھگڑا ہوجائے گا"
کہتے ہوئے زارا ناشتے کی پلیٹ تھامے میری طرف لپکی.
" یہ کیا تُک ہے یار؟ آفس سے آکر ٹھیک سے بیٹھا بھی نہیں اور تم شروع ہوگئیں!!!"
میں نے جواباً کہتے ہوئے اپنی ناراضی جَتلائی تو وہ بھڑک کر کہنے لگی.
" تم سے کِس وقت بات کی جائے؟ مجھے ٹائم ٹیبل بتا دو، صبح کچھ کہنے کی کوشش کرو تو کہتے ہو ابھی آفس کے لیے نکلتے وقت ہی کہنا ضروری ہے کیا؟؟ لنچ بریک میں فون کرو تو کہتے ہو کھانا کھاؤں یا تم سے گپّیں لڑاؤں؟؟ رات میں تو نیند تمہیں اتنی پیاری ہوتی ہے کہ کچھ سننا ہی گوارا نہیں"
زارا کے سخت تیور دیکھتے ہوئے میں نے اُس کی شکایت سُن لینا ہی بہتر سمجھا اور قریب ہی پڑی کرسی پر بیٹھ کر زارا سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے نرم لہجے میں دریافت کیا
" اچھا بولو! کیا بات ہے؟"
زارا نے تفصیل بتانی شروع کی...
" کل رات جب ہم چُھٹّیاں گزار کر گاؤں سے یہاں پہنچے تب تو میں نے تَھکان کی وجہ سے دھیان نہیں دیا مگر آج صبح صفائی کرتے وقت کھڑکی کے شیشے تڑخے ہوئے دیکھے، یقیناً یہ رئیس چاچا کے پُوتوں کی حرکت ہوگی۔ سارا دن کرکٹ کھیلتے رہتے ہیں۔ گیند کبھی کسی کی کھڑکی پر لگتی ہے تو کبھی کسی کے دروازے سے ہوتے ہوئی گھر میں جَا پہنچتی ہے، پڑوسیوں کو پریشان کر رکھا ہے اُن بچوں نے."
میں نے گہری سانس لیتے ہوئے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
"اِس کی وجہ کچھ اور بھی ہوسکتی ہے زارا، بِناء ثبوت انہیں ذمّہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں. ویسے بھی چھوٹے سے گھر میں بے چارے پندرہ لوگ آپس میں ہی اُلجھے رہتے ہیں"
زارا نے زِچ ہوتے ہوئےکہا۔
"یہی تو کہہ رہی ہوں میں, اِس کو اُس کو تکلیف دینا اُن کی عادت ہے. اور تُم؟ تُم بڑی سائیڈ لے رہے ہو پڑوسیوں کی تو اُنہیں کے گھر جا کر رہو"
میں ہونقوں کی طرح, کچن کی جانب پیر پٹکتے ہوئے جاتی زارا کو دیکھتا رہ گیا۔ بات کو مزید طُول نہ دیتے ہوئے میں نے ٹی وی آن کیا اور میرے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا ریموٹ پر حرکت کرنے لگا.... تیزی سے بدلتے چینل اور انگوٹھے کی حرکت, ٹی وی اسکرین پر اُبھرتی حادثاتی تصویروں پر جا کر رُک گئیں. مُلک کے سرحدی علاقے کی فوجی چھاؤنی میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کی خبریں بیان کرتے نیوز رپورٹر پر نگاہیں جَم گئیں. 'نیوز ابھی تک' کا نوجوان رپورٹر دہشت گردانہ کاروائی پر اپنے مخصوص انداز میں سوال اٹھا رہا تھا -
" بڑی خبر آرہی ہے کہ سرحدی علاقے پَردَھان کوٹ میں واقع فوجی چھاؤنی پر آتنکیوں نے ہلّہ بول دیا ہے. یہ علاقہ عام شہریوں کے لیے ممنوعہ علاقہ مانا جاتا رہا ہے۔ حملے میں پڑوسی ملک کی دہشت واد تنظیم کے ملوث ہونے کی بھی خبریں آرہی ہیں. اب تک مِلی جانکاری کے مطابق سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ چھ سات آتنکی ہماری مضبوط اور چَوکنّا فوج کی آرام گاہ اور اسلحہ جات کے ذخیروں تک کس طرح پہنچ گئے؟؟ جہاں اک نہتّے معصوم شہری کا پہنچنا دُشوار گزار ہوتا ہے وہاں مسلّح آتنکی کس طرح رسائی پا گئے؟؟؟ کیا اِس آتنکی حملے کے پیچھے چُھپی کہانی منظر عام پر آسکے گی؟؟؟ یہ سب جاننے کے لیے جُڑے رہیئے ہم سے... پَردَھان کوٹ سے جلیل سردار، نیوز ابھی تک"
اسکرین پر اب جلیل سردار کی جگہ کیسر سے بنے پان مسالہ کی خوبصورت پاؤچ اشتہار میں نظر آرہی تھی۔ میرا ذہن جلیل سردار کے بیان کردہ سوالوں کی گرداب میں پھنسا جارہا تھا۔ دِل یہ بات قبول کرنے کے لیے پس و پیش میں تھا کہ جہاں کے مَلٹی پیلکس تھیٹروں میں بغیر ٹکٹ اور بِناء چیکنگ کے اندر داخل ہونا ممکن نہیں وہاں کی فوجی چھاؤنی میں اسلحہ بردار دہشت گرد داخل ہوگئے. اور کیا کوئی اتنا بھی بے وقوف ہے کہ غیر قانونی اور دہشت گرد کاروائی پر نکلتے ہوئے اپنی شناخت کے تمام شواہد ساتھ لے آئے؟
اچانک کچن میں گلاس ٹوٹنے کی آواز نے مجھے سوالوں کی دنیا سے نکال کر وہیں پہنچا دیا جہاں کچھ وقت پہلے ہی زارا ناراض ہو کر مجھے پڑوس میں جَا بسنے کا مشورہ دے گئی تھی۔ میں یہ سوچتے ہوئے اُٹھ کر کِچن کی طرف بڑھ گیا کہ دہشت گردانہ حملے پر ذہن میں اُمنڈتے سوالوں کے جواب میں بھی کہیں زارا کے مشورے کی طرح کوئی مشورہ میرا منتظر نا ہو۔
_____________
عیب و ہنر سے کھیلنے والوں کے شہر میں
میں گھر گیا ہوں تنگ خیالوں کے شہر میں
ہم تو سیاہ بخت ہیں لیکن خطا معاف
جو لوگ گم ہوئے ہیں اجالوں کے شہر میں
یا رب یہ کیا کہ اور بھی بیگانہ ہو گئے
آ کر وہ اپنے چاہنے والوں کے شہر میں
وہ اک جواب تلخ دل بے قرار کو
الجھا گیا ہے کتنے سوالوں کے شہر میں
میرا ہی ذکر کیا ہے کوئی مطمئن نہیں
اس زندگی سے کھیلنے والوں کے شہر میں
کیا بات ہے ہر ایک یہاں تیرہ ذہن ہے
بستے ہیں کیسے لوگ اجالوں کے شہر میں
آتا نہیں ہے کوچۂ دل کا بھی کچھ خیال
رہتا ہوں محو کس کے خیالوں کے شہر میں
چھائی ہے مردنی سی یہ کیوں ہر طرف عتیقؔ
جام حیات بانٹنے والوں کے شہر میں
عتیق احمد عتیق (مدیر توازن مالیگاؤں)
_______________
آنسووں کا شہر : مالیگاؤں
مالیگاؤں کے بزرگ و معتبر شاعر جناب مقیم اثر بیاولی کی ایک مشہور نظم
شہر تو اور بھی ہیں مثالی کئی
شان سب سے نرالی مرے شہر کی
تان سب سے انوکھی مرے شہر کی
اہل دیں خدمتِ دیں میں ڈوبے ہوئے
اہل دانش مسائل میں الجھے ہوئے
قائدینِ سیاست ، سیاست میں گم
اہل فن رہتے ہیں فن کی عظمت میں گم
اس کی آغوش گہوارۂ علم و فن
اس کی محنت میں ہے زیست کا بانکپن
اس کی بانہیں محبت کی پیغام بر
کوئی آئے کھلی ہیں سبھی کے لیے
سب کو سامانِ روزی مہیا کرریں
بابِ رحمت ہے محنت کشوں کے لیے
ساڑیوں میں ہیں گل زار کشمیر کے
دھوتیوں میں ہے دیہات کی سادگی
رقص کرتی ہے راہوں میں دوشیزگی
شاعروں اور ادیبوں کی کثرت سے ہے
شہر البیلی تانوں میں ڈوبا ہوا
شور ہی شور ہے گویا چاروں طرف
لیکن اس شور میں اے مرے دوستو
دھڑکنیں بھی ہیں شامل اسی شہر کی
جو ابھی تک سماعت سے محروم ہیں
مختلف رنگ اور روپ کا شہر ہے
چھاوں کاشہر ہے دھوپ کا شہر ہے
دوہی تاروں پہ موقوف ہے زندگی
ایک تارِ نفَس ، دوسرا سوت کا
ان میں سےایک بھی ٹوٹ جائے اگر
زندگی سب کی ہوجائے نامعتبر
اِس کی صبحوں کو ہے آفتابوں کا غم
اس کی شامیں نہیں ہیں ابھی محترم
راتیں بے نور ہیں مثلِ طاقِ حرم
گویا ہونٹوں پہ ہے وقت کا مرثیہ
اس کی صبحوں میں رنگِ بنارس نہیں
اس کی شامیں اودھ کا سنگھاسن نہیں
پھر بھی مستی میں ڈوبا ہوا شہر ہے
سلسلہ محنتوں کا ازل تا ابد
دستِ کاوش میں ہے کپڑا بُننے کافن
چار جانب مشینوں کااک شور ہے
زندگی باوجود اس کے کمزور ہے
صبح تا شام کرگھوں میں ڈوبا ہوا
بھوک اور پیاس ہے محنتوں کا صلا
ٹیکس کا بوجھ سر پر اٹھائے ہوئے
لر رہا ہے تمدن کے بحران سے
یہ نوازش ، کرم ، مہربانی ، عطا
میری اپنی حکومت ہی کی دین ہے
کوئی مونس نہیں کوئی پُرساں نہیں
آنسووں کی تمازت میں ڈوبا ہوا
یہ مرا شہر ہے ، یہ مرا شہر ہے
میں اسی شہر کا ایک فن کار ہوں
شان سب سے نرالی مرےشہر کی
تان سب سے انوکھی مرے شہر کی
منتظر ہوں میں اس صبحِ امید کا
جو مرے درد و غم کا مداوا کرے
جو غریبوں کو آسودگی بخش دے
میری تہذیب کو ،میرے احساس کو
میر ےجذبات کو میرے حالات کو
اک نئی روشنی ، اک نئی تازگی
اک نئی آرزو ، اک نئی جستجو
بے تکان اک سفر اک نئی سمت دے
منتظر ہوں میں جس صبحِ امید کا
اے خدا! موت اور زندگی کے خدا!!
زندگی کے افق سے وہ سورج اُگا !!
............