____________________
✒️ ڈاکٹر آصف فیضی (مالیگاؤں)
____________________
🍁 شہر کے باہر پسماندہ سماج کے لوگوں کی بستی تھی۔پوری بستی میں دیہاڑی مزدور تھے،صبح دم گھر نکل جانا۔شہر جا کر دن بھر محنت مزدوری کرنا اور اس کےعوض جو کچھ ملتا،شام ڈھلے لا کر بیوی بچوں پر نچھاور کردینا،یہی ان کا روزانہ کا معمول تھا۔روز کنواں کھودنا اور روز پانی پینا کے تحت ان زندگی کی گاڑی چل رہی تھی۔ناگہانی حالات میں ان کا اللہ ہی حافظ۔
رامو اسی بستی کا دیہاڑی مزدور تھا۔شہر جا کر گڑھا کھودنا اس کا کام تھا۔دن بھر گڑھا کھودنے کے بعد جو دیہاڑی ہاتھ آتی شام کو لاکر بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیتا۔
رامو روزانہ صبح ناشتہ کرتا اور دوپہر کے لئے ٹفن باندھ کر کام پر نکل جاتا۔ٹفن بھی کیا باجری کی دو روٹیاں،پیاز اور ہری مرچی کا ٹھیسا۔شہر جاکر دن بھر گڑھا کھودتا۔شام کو مزدوری لے کر سیدھا شراب کی دکان پر پہنچ جاتا۔خوب شراب پی لیتا تو لڑکھڑاتا ہوا گھر کی طرف روانہ ہوجاتا۔ادھر بیوی بچے رامو کا انتظار کرتے رہتے۔جیسے ہی دور سے رامو کو آتا دیکھتے،بچے خوشی سے اچھل پڑتے۔بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ پکارتے ہوئے رامو کی طرف دوڑتے۔رامو کا ہاتھ تھام لیتے۔رامو لڑکھڑاتا ہوا بچوں کے ساتھ گھر تک پہنچتا۔پہنچتے ہی زمین پر پڑ جاتا۔رامو کی بیوی اس کی جیب سے روپے نکال کر قریب ہی موجود بنیے کی دکان پر پہنچتی۔چاول،دال،تیل، مسالا وغیرہ ایک وقت کے کھانے کے حساب سے خریدتی،بچوں کے لئے کچھ کھانے کی چیزیں لیتی اور فورا گھر لوٹ آتی۔جھونپڑی کے باہر ہی چولہا سلگاتی،ہانڈی چڑھاتی اور تھوڑی دیر میں کھانا تیار ہوجاتا۔وہیں سب لوگ کھانے بیٹھ جاتے۔رامو بے سد پڑا ہوتا۔بچے اسے بابا۔۔۔ بابا کہہ کر کھانے کے لئے اٹھاتے۔تھوڑی کوشش کے بعد رامو اٹھ جاتا۔رامو جب زیادہ چڑھا لیتا تو لاکھ اٹھانے کے بعد بھی نہ اٹھتا۔سب ساتھ میں کھانا کھاتے۔رامو وہیں دوبارہ پڑ جاتا اور پھر صبح ہی کی خبر لاتا۔بچے ماں کے ساتھ تھوڑی دیر کھیلتے اور سو جاتے۔یوں دن تمام ہوجاتا۔
تہوار کا دن آنے والا تھا۔رامو کو بچوں کی فکر ستائے جارہی تھی۔رامو نے آج مالک سے کچھ روپے تہوار کے لئے مستعار لے کر کچھ جلدی ہی گھر آگیا۔رامو کو دیکھتے ہی بچے اچھل پڑے۔رامو نے بچوں کو گود میں اٹھا لیا۔آج رامو شراب کے نشے میں نہیں تھا۔بچوں کو لاڈ پیار کرنے کے بعد رامو بیوی بچوں کو لے کر شہر کی مشہور کپڑوں کی دکان پر پہنچ گیا۔بچوں کے لئے اچھے کپڑے خریدے،بیوی کے لئے ایک اچھی سی ساڑی،بچوں کے لئے نئی چپل،گھڑی،کیپ، چشمہ اور مٹھائی خریدی۔ بیوی نے رامو کو خود کے کپڑے اور چپل خریدنے کے لئے اصرار کیا تو رامو نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔جیب سے چند روپے ہی برآمد ہوئے، جو ناکافی تھے ۔رامو نے بیوی کو تسلی دی کہ وہ کل سیٹھ سے روپے لے کر خرید لے گا۔گھر آتے ہوئے بنیے کی دکان سے پکانے کے سامان لے کر یہ ٹولی بادشاہوں کی طرح ٹھاٹھ سے گھر پہنچ گی۔بیوی نے چولھا سلگایا۔ بچے خوشی خوشی اپنے کپڑے اور دوسری چیزیں دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔کبھی رامو کو دکھاتے اور کبھی ماں کو۔بچوں کو خوش دیکھ کر رامو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔کھانا کھانے کے بعد بچے مستی کرتے کرتے سو گئے۔تھوڑی دیر بعد رامو اور اس کی بیوی بھی سو گئے۔دوسرے دن رامو معمول کے مطابق کام پر پہنچ گیا۔دن بھر مزدوری کرنے کے بعد دیہاڑی لے کر شام کو گھر پہنچا تو بچے نئے کپڑے،جوتے،گھڑی وغیرہ پہن کر تیار تھے۔بیوی بھی نئے کپڑوں میں ملبوس تھی۔گھر میں خوشی کا ماحول تھا۔رامو کو اپنے بچے کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہے تھے ۔بچے سٹی گارڈن جانے کی ضد کرنے لگے۔بچوں کی ضد کے آگے رامو بے بس تھا۔رامو نے جلدی جلدی غسل کیا،پرانے کپڑوں میں سے ایک صاف ستھرا کپڑا زیب تن کیا۔بیوی بچوں کو لے کر سٹی گارڈن پہنچ گیا،جہاں پہلے ہی سے بھیڑ تھی۔بچے کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔رامو اور اس کی بیوی بچوں کو خوشی میں کھیلتے دیکھ کر پھولے نہیں سمارہے تھے۔🍁
___________
ادارہ نثری ادب، مالیگاؤں رپورٹ ماہانہ ادبی نشست ۲۷ ا پریل ۲۰۲۴ء
گذشته ۲۷ اپریل ۲۰۲۴، کو حسب معمول ادارہ نثری ادب مالیگاؤں کی ادبی نشست کا انعقاد ہوا۔ یہ نشست دیڑھ مہینے کے بعد دوبارہ جاری ہوئی تھی۔ در میان میں ناغہ کی وجہ رمضان المبارک تھا۔ ہمیشہ کی طرح امسال بھی رمضان مبارک میں نشستیں موقوف تھیں۔ چونکہ عید کے بعد نشست کا آغاز ہوا تھا اس لئے سامعین کی تعداد شاید معمول سے کچھ کم تھی۔ اس نشست میں جناب عبد المجید ماسٹر صاحب نے اپنی کہانی سنائی۔ کہانی کی عنوان تھا ”مورتی کا کرشمہ ۔ پوری کہانی بھائی بہن دو کرداروں کے گرد گھومتی ہے لیکن اس مرتبہ ماسٹر کی کہانی وہ تاثر نہ دے سکی جو اس سے پہلے کی کہانیوں کا خاصہ رہا تھا۔ ان کی کہانیاں عام طور پر سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد جب ختم ہوتی ہے تو انھیں اتنی باتیں بھی سننی پڑتیں ہیں۔ اس مرتبہ ان کی کہانی کی نا کامی شاید ان کی طبیعت کی ناسازی تھی ۔ چونکہ آواز ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اور پھر پڑھتے پڑھتے انھیں تین مرتبہ کہانی کو درمیان میں روک کر روم کے باہر جانا پڑا تھا جس کی وجہ سے کہانی کا تسلسل بھی سامعین کے سامنے برقرار نہیں رہ سکا دوم ان کی سانس بھی پھول رہی تھی اور گلا بھی بالکل بیٹھا ہوا سا تھا۔ وہ کافی عرصے سے علیل چل رہے ہیں لیکن نشست کا سحر ، کہانیاں سنانے کا بے پناہ بڑھا ہوا شوق اور نشست کے بہانے رات کا ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی طرح گزار دینا ان کی ایسی ناگزیر مجبوریاں ہیں جن سے وہ کسی طرح پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔ وہ کسی بھی حیلے سے نشست میں آہی جاتے ہیں اور کہانی بھی سناتے ہیں۔ ویسے ان کی کہانیاں سنی بھی جاتی ہیں اور وہ اتنی بری بھی نہیں ہوتیں۔ لیکن اس مرتبہ ان کی کہانی سننے کے بعد یہ بات انتہائی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ کہانی آج بھی راج کرتی ہے شرط یہ ہے کہ اسے سنانے والا اس کے فن سے واقف ہو۔ وہ خود بھی کہانی سنانے کا اچھا تجربہ رکھتے ہیں اور اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ سننے والا مجبور ہو جاتا ہے اور اس کے سحر میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ اس نشست میں ماسٹر صاحب نے جو کہانی پیش کی تھی وہ کچھ ادھوری ادھوری سی تھی۔ اس میں جگہ جگہ سے کہانی کے ادھورے ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ کہانی بھی مختلف سمت میں بہکتی ڈھلکتی چلی جاتی تھی اسی سبب بکھرتی اور ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ ڈاکٹر اقبال برکی صاحب کی کہانی نے سماں باندھ دیا۔ کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی جا رہی تھی اور جن جن علاقوں، وادیوں ، میدانوں ، ایوانوں اور مناظر سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی سامعین بھی اس کے ساتھ سفر کرتے اور ایک ایک منظر و پس منظر سے لطف اندوز ہوتے۔ گرچہ کہ کہانی معمول سے کچھ طویل ضرور تھی لیکن آخر تک سامعین پر پکڑ بنائے ہوئے تھی۔ کہانی کی تیز رفتاری، برجستگی ، جملوں کی درو بست، ماروں اور کہاوتوں کے چٹخاروں نے کہانی کو اور بھی نکھار دیا تھا اور مزیدار بنا دیا تھا۔ ان عناصر کی موجودگی میں کہانی کا لطف دوبالا ہو گیا۔ کہانی گو کہ کچھ طویل ضرور تھی لیکن آخر تک شوق اور ذوق سے سنی گئی۔ حاضرین مجلس آخر تک کہانی کے سحر میں کھوئے رہے۔ گویا کہانی ایک دریا کی مانند سننے والوں کو اپنے ساتھ بہائے لئے چلی جارہی تھی۔ اس کہانی کا عنوان تھا ” خونی جنگل “۔ اس کہانی میں فنطاسیہ حقیقت نگاری، زبان کی چاشنی، برجستگی و پرکاری سب کچھ نے مل کر کہانی کو ایک کامیاب
کہانی بنادیا اور سامعین اسے عرصے تک پاد رکھیں گے۔ اقبال برکی صاحب کے بعد میونسپل اردو اسکول کے سبکدوش مدرس جناب اشفاق عمر نے ایک منی افسانہ یا افسانچہ پیش کیا۔ اس کا عنوان ” نمبر“ تھا۔ افسانچے کا اختتامیہ کچھ جذباتی سا تھا۔ اس افسانچے کے متعلق مجموعی تاثر بھی ٹھیک ٹھاک ہی تھا۔ اشفاق صاحب قلم چلانا جانتے ہیں اور وہ اچھی کہانیاں لکھ سکتے ہیں لیکن انھوں نے افسانچے جیسی صنف کو ہاتھ لگا کر شارٹ کٹ کیوں اختیار کیا یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ چاہیں تو اچھے اور طویل افسانے لکھ سکتے ہیں۔ انھیں مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ فعل لینگتھ افسانے لکھیں اور پوری توجہ و تندہی کے ساتھ اس طرف توجہ دیں۔ ان کے بعد نشست کے آخر قلم کار کے طور پر طاہر انجم صدیقی صاحب کو پیش کیا گیا۔ انھوں نے بہت دنوں بعد افسانہ سنایا تھا۔ شاید ادارہ نثری ادب میں گزشتہ دس برسوں میں پیش کیا جانے والا ان کا یہ واحد افسانہ ہے۔ طاہر کا خمیر ہی ہنگامی اور ہیجانی واقعات و حادثات کے درمیان سے افسانے کے تانے بانے اٹھانے کا رہا ہے۔ وہ ان موضوعات پر اچھے افسانے لکھتے بھی رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ ایک طویل عرصے سے وہ نہ جانے کس کس صنف میں طبع آزمائی کر رہے تھے۔ ان کے افسانے کا عنوان شور تھا۔ ان کا یہ افسانہ فلسطین کی جنگوں کے پس منظر میں مجاہدین کی جانبازی کے حوالے سے ایک اچھی کہانی ہے۔ بہت دنوں بعد مکمل افسانوی زبان و بیان کے ساتھ افسانوی موضوع کو اس کے منطقی انجام تک پہنچاتی ہوئی طاہر انجم کی اس کہانی نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ افسانے کی خوب خوب پذیرائی ہوئی اور اسے سراہا گیا۔ طاہر اب دوبارہ افسانوں کی طرف لوٹے ہیں تو مستقبل قریب میں شاید کچھ اچھے افسانے کو سننے کو مل جائیں۔
اس نشست کی صدارت سٹی کالج کے پروفیسر جناب ڈاکٹر مبین نذیر فرما رہے تھے۔ تمام تر تخلیقات کے اختتام پر انھوں نے سب پر سیر حاصل بحث کی اور اپنے قیمتی خیالات سے سامعین کا دل جیت لیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو کے قاتل وہ سب لوگ ہیں جن کے بچے اردو میڈیم اسکولوں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے والا چاہے جس مضمون میں آگے بڑھے لیکن اگر اس کی مادری زبان اردو ہے تو اردو کا ہی فرد تصور کیا جائے گا اور اس کے کسی خیال اور عمل سے اردو اور اردو کے کسی کا ز کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ بھی اردو کا قاتل ہی کہلائے گا۔
اس نشست میں جمہور ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے پرنسپل احمد ایوبی صاحب اور گلشن ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے پرنسپل محترم نعیم شاہین صاحب نے بھی شرکت کر کے نشست کو رونق بخشی اور اس نشست کے وقار کو بڑھایا۔ ان دونوں صاحبان نے خصوصی طور پر اس بات کا اعتراف کیا کہ ایسی نشستوں میں شہر کی اردو میڈیم کے تمام اساتذہ کو ضرور بالضرور شرکت کرنا چاہئے کیوں کہ یہاں نہ صرف لفظوں ، جملوں، محاروں کہاوتوں کی بات ہوتی ہے بلکہ تمام تخلیقات ان کے اصناف پر اور ان کے لکھنے والوں پر ان کے فن پر اور ان کی تاریخ پر بحث ہوتی ہے اور اس طرح ایک قلم کار کو ان کے درمیان نئے راستے ملتے ہیں اور انھیں آگے بڑھنے کی نت نئی راہیں بجھائی دیتی ہیں۔ نعیم شاہین صاحب نے اس موقع پر ایک شاندار پیش کش بھی کی تھی کہ اب جب بھی مشما (مالیگاؤں کی اردو ہائی اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرس کی تنظیم ) کی میٹنگ ہوگی میں اس ادارے کے چند اراکین کو مدعو کروں گا اور تمام ہیڈ ماسٹرس کے سامنے ان کی تخلیقات پیش کرنے کی درخواست کروں گا تا کہ انھیں بھی احساس ہو کہ یہ ادارہ ایک طویل عرصے سے جو خدمت کر رہا ہے اس کی تعلیمی اور تہذیبی طور پر کتنی اہمیت ہے اور اس سے ہماری تعلیمی سرگرمیوں میں کتنی مدد لی جاسکتی ہے۔ بہر حال احمد ایوبی اور نعیم شاہین دونوں اصحاب نے اردو کے خدمت کے حوالے سے مختلف زاویوں سے ادارے اور ادارے کے اراکین کی حوصلہ افزائی کی اور پیش کش کی ہے۔ شاید ادارہ نثری ادب مالیگاؤں کے ادبی افق پر کچھ نئی روشنی بکھیرنے کا ضامن بن جائے۔ ماہانہ ادبی نشست نمبر 214کی کامیاب نظامت ادارے کے فعال رکن رضوان ربانی سر نے انجام دی جبکہ شکریہ، صدرِ ادارہ محترم عتیق شعبان سر نے انجام دیے
________
۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔🔴شکیل ابن شرف دھولیہ
بلا کا زور ہماری ذرا سی جان میں تھا
جو وقت ہم پہ پڑا تھا خود امتحان میں تھا
تلاش رزق کہوں یا عذاب در بدری
شکستہ پر تھا پرندہ مگر اڑان میں تھا
یہ بات سچ ہے کہ مارا ہے دشمنوں نے مجھے
مگر سوال یہ ہے میں تری امان میں تھا
میں چاہتا تھا کہ قسمت سنوار دوں اس کی
مگر وہ شخص تو کچھ اور ہی گمان میں تھا
وہ مجھ سے زیر ہوا بھی تو کیا تعجب ہے
مقابلہ ہی زمین اور آسمان میں تھا
شکیل کیوں نہیں آیا جواب آج تلک
جو خط لکھا اسے تم نے کس زبان میں تھا
.. شکیل ابن شرف..
__________
🔴غزل
از : احتشام اطہرؔ نعیمی (دھولیہ)
➖➖➖➖➖➖
مجھے خموشی تجھے اجتناب مل گیا تھا
ترے سوال میں میرا جواب مل گیا تھا
تبھی تو قطع تعلق ہوا ستاروں سے
مرے عزیز! تجھے ماہتاب مل گیا تھا
عطائے غم کا میں اب تک حساب دے رہا ہوں
دیارِ غم سے مجھے بے حساب مل گیا تھا
یہی سبب تھا ترے بعد جی گیا کچھ روز
مجھ اشتیاق کے مارے کو خواب مل گیا تھا
میں ہوگیا تھا کوئی منظرِ شکستہ یا
تری نظر کو نیا انتخاب مل گیا تھا
پھر اس کے بعد مری اصل بے نقاب ہوئی
ہوا تھا یوں کہ مجھے اک نقاب مل گیا تھا
جو تشنہ لب تھے وہ ہو بیٹھے تشنہ کام اطہرؔ
رہِ وفا میں اک ایسا سراب مل گیا تھا
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
الف اطہرؔ نعیمی۔۔ 8668766035
__________