محفل طنز و مزاح (سلسلہ )
اسکس لائبریری کے زیر اہتمام زندہ دلان مالیگاؤں کے اشتراک سے مورخہ 7مئی بروز منگل شب دس بجے اسکس لائبریری ہال میں محفل طنز و مزاح (سلسلہ ) کا انعقاد ذیل کے مطابق عمل میں آرہا ہے ۔
صدارت: نعیم شاهین صاحب (پرنسپل گلشن آمنہ ہائی اسکول و جونیر کالج) نظامت : رضوان زبانی
تبرک :- ڈاکٹر مختار فیمس ( مرحوم حکیم نیازی کی مشہور پیروڈی
) مزاحیہ کلام ،:- جاوید آفاق اور ظہیر قدسی
انشائیہ و طنز و مزاح (نثر)
(1) ڈاکٹر آصف فیضی (معلم پرائمری اسکول)
(۲) احمد ایوبی (پرنسپل جمہور ہائی سکول )
آصف سبحانی
شکریہ : عبد الماجد انصاری
نقابت : ؟
صدر و اراکین اسکس لائبریری و زندہ دلان مالیگاؤں نے حِس مزاج رکھنے والے زندہ دل
سامعین کرام سے شرکت کی گذارش کی ہے ۔
_______
اب کی بار فرقہ پرستوں کو کرنٹ!
شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
ملک کے وزیر داخلہ ، وزیراعظم نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ کی انتخابی مہم کا ایک ویڈیو وائرل ہے ، جس میں انہیں بولتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ امراوتی والوں اس بار بٹن اتنا زور سے دباؤ کہ کرنٹ اٹلی تک پہنچے ۔ کرنٹ سے امیت شاہ کا پریم کوئی نیا نہیں ہے ، وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ بٹن اتنا زور سے دباؤ کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے ۔ شاہین باغ کا معاملہ تو پرانا ہو چکا ، وہ وہاں کیوں کرنٹ پہنچانا چاہتے تھے سب کو پتہ ہے ، اب سوال یہ ہے کہ وہ اٹلی تک کرنٹ کیوں پہنچانا چاہتے ہیں؟ اگر اس لیے کہ کانگریس کی سینیئر لیڈر سونیا گاندھی اٹلی کی ہیں ، تو انہیں پتا ہونا چاہیے کہ سونیا گاندھی اٹلی میں نہیں دہلی میں رہتی ہیں ، لہٰذا کرنٹ پہنچانا ہی ہے تو دہلی میں پہنچائیں ۔ امراوتی میں لوگ بٹن دبائیں اور کرنٹ دہلی تک پہنچے ! لیکن شاید امیت شاہ میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہے کیونکہ دہلی میں نریندر مودی بھی رہتے ہیں ، بلکہ دہلی ان کی حکومت کا پایہ تخت ہے ۔ رہا اٹلی تو وہ ایک آزاد ملک ہے اور ہندوستان سے اس کے خوشگوار تعلقات ہیں ، جب اسے پتا چلے گا کہ امیت شاہ اسے کرنٹ لگونا چاہتے ہیں تو اسے کس قدر افسوس ہوگا ! ویسے امیت شاہ سے سوال ہے ، بلکہ کئی سوال ہیں ؛ وہ بے روزگاری کے خلاف کرنٹ کیوں نہیں لگوانا چاہتے؟ وہ مہنگائی روکنے کے لیے کرنٹ کیوں نہیں لگواتے؟ وہ تعلیمی پسماندگی کے خلاف بٹن دبا کر کرنٹ پہنچانے کی بات کیوں نہیں کرتے؟ وہ پچھڑے پن ، جاہلانہ رسومات ، توہم پرستی کے خلاف کیوں کرنٹ لگانے کی اپیل نہیں کرتے؟ وہ کیوں غربت پر بٹن دبوا کر کرنٹ نہیں دوڑا دیتے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ وہ کب لوگوں سے اپیل کریں گے کہ بٹن اتنا زور سے دباؤ کہ فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں تک کرنٹ پہنچے؟ یقیناً امیت شاہ کے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں ہوں گے کیونکہ گزشتہ دس برسوں میں نہ انہوں نے اور نہ ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے مذکورہ مسائل حل کرنے کی سعی کی ہے ۔ تعلیمی وظائف مودی حکومت نے بند کر رکھے ہیں ، اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے عام جنتا پر بند ہیں ، سرکاری نوکریاں مفقود ہیں ، بے روزگاروں کو بجائے ملازمت مہیا کرنے کے ، بی جے پی میڈیا سیل کا سپاہی بنا دیا گیا ہے ، گویا کہ ان کی زندگیاں برباد کر دی گئی ہیں ۔ ملک میں بدامنی ، تعصب ، فرقہ پرستی ، کام چوری ، لوٹ پاٹ ، غبن کا دوردورہ ہے ۔ بینکوں کے فراڈ سے عام جنتا کراہ رہی ہے اور کروڑوں روپیے ہڑپ کرنے والے سیاسی پناہ میں ہیں ۔ الیکٹورل بانڈ کے نام پر بی جے پی نے جو کیا ہے اسے ملک کا سب سے بڑا فراڈ کہا جا رہا ہے ۔ پی ایم کیئر فنڈ پر شک و شبہے کے سائے ہیں ۔ اڈانی اور امبانی پر اور ان کے ساتھ ہی پی ایم مودی پر انگلیاں آٹھ رہی ہیں ۔ بدعنوانوں کو بی جے پی کی واشنگ مشین میں دھو کر کلین چٹ یا تو دے دی گئی ہے یا دی جا رہی ہے ۔ چونکہ مرکزی حکومت نے کچھ کیا نہیں ہے اس لیے پی ایم مودی اس الیکشن کو ہندو بنام مسلمان بنا رہے ہیں اور ان کے دست راست امیت شاہ اٹلی تک کرنٹ پہنچانے کی بات کر رہے ہیں ۔ ووٹر سمجھدار ہیں ، خوب جانتے ہیں کہ یہ سب جملہ بازی ہے ، تو کیوں نہ اب کی بار وہ سب بٹن اس قدر زور سے دبائیں کہ کرنٹ فرقہ پرستوں ، بدعنوانوں اور ملک کو ترقی ، جمہوریت اور آئین کی راہ سے ہٹانے والوں تک پہنچے ۔
__________
"موسم بدلنے دو"
افسانوی سمندر کا
سرسبز و شاداب جزیرہ نما مجموعہ"
*مبصر* :*علیم طاہر*
دنیائے اردو ادب میں شہر مالیگاؤں نظم نثر کے حوالے سے اپنی معیاری و معتبر شناخت رکھتا ہے ۔
ادھر حال ہی میں افسانوی ادب کی چمک دمک میں اضافہ کرنے والے بیشتر معتبر و معیاری فنکاروں میں محترم ہارون اختر کا نام پیش پیش دکھائی دیتا ہے۔
جو تقریبا بیس پچیس ، سالوں سے افسانوی ادب کو فروغ دینے کا غیر معمولی کارنامہ انجام دے رہے ہیں .
مزدوری پیشے سے منسلک ہارون اختر صاحب نے زندگی کے مختلف کرب کا اظہار کیا ہے۔
ان کی مشاہداتی نگاہوں میں زندگی مختلف پہلوؤں سے برہنہ ہو گئی ہے۔
جنسی موضوعات بھی زندگی کا اہم حصہ ہے ۔
ہارون اختر نے ان موضوعات کو بھی سلیقے سے برتنے کی کامیاب تگ و دو کی ہے۔
ہارون اختر کے افسانوں میں انسانی سماج سانسیں لیتا ہوا صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
وہ معاشرے کی دکھتی ہوئی نبض پر انگلیاں دھرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
ان کے کردار اساطیری، طلسماتی نہیں۔
بلکہ آج کی دنیا کے چلتے پھرتے انسانی کردار ہوتے ہیں۔
جو پرآشوب زندگی کے مختلف الخیال افراد ہیں۔
اور انہی افراد کے مجموعے کا نام سماج ہے۔
ہارون اختر ایک معتبر افسانہ نگار ہیں۔
انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے نفسیاتی پیچیدگیوں کا نہ صرف اظہار فرمایا ہے۔
بلکہ ان پیچیدگیوں کی گتھیوں کو سلجھانے کا کام بھی کیا ہے۔
جو ان کے ذہین افسانہ نگار ہونے کی کھلی دلیل ہے۔
وہ انسانی احساسات جذبات تخیلات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔
الگ الگ افسانوی کرداروں کے ذریعے زندگی کے منفرد مسائل کو پیش کرتے ہیں۔
ان مسائل کا حل نکالتے ہیں۔
غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں جس سے شعور کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
اندھی عقیدت کا خاتمہ ہوتا ہے۔
غیر منصفانہ رویوں کی موت ہوتی ہے۔
انصاف پروان چڑھتا ہے۔
وسیع نظری راہ پاتی ہے۔
ہارون اختر کا افسانوی مجموعہ "موسم بدلنے دو "
میں جتنے بھی افسانے ہیں، اہمیت و افادیت سے منسلک ہیں۔
اس مجموعے میں سراج عظیم (دہلی) ڈاکٹر الیاس صدیقی ، مشتاق احمد وانی (کشمیر) ڈاکٹر اقبال, برقی ،شبیر احمد ماہر اور دیگر معتبر قلم کاروں نے اپنی نایاب آرا پیش فرمائی ہیں ۔
جو ہارون اختر کے فن کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔
ہارون اختر کا یہ افسانوی مجموعہ افسانوی سمندر کا سرسبز شاداب "جزیرہ نما" مجموعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں افسانوی فن کی وہ تمام خوبصورتی جھلملاتی ہے جو ایک سرسبز شاداب جزیرے کا خاصہ ہوتی ہے.
اس سرسبزشاداب جزیرے تک رسائی حاصل کروانے میں احمد نعیم کا کردار پیش پیش رہا ہے۔
جن کا میں بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
کہ وہ نہ صرف افسانوی فن کے پرستار ہیں۔
بلکہ اس اعتبار سے وسیع القلب فنکار بھی ہیں۔
کہ اچھا اور سچا فنکار لامحدودیت اختیار کر جائے۔
نہ کہ بے نیازی کے دائرے تک محدود رہ کر گمنامی کا استعارہ بن جائے۔
*مبصر*: *علیم طاہر*۔
*Aleem Tahir*
________
غزل ۔۔۔۔۔ بلال اسود
نہ پوچھو اصلیت اپنی
ہے دوہری شخصیت اپنی
تمہیں مرنے سے بچنا ہے
دکھاؤ شہریت اپنی
یہ دنیا صاف ستھری ہے
بُری ہے ذہنیت اپنی
کجا تہذیب جنگل کی
کجا انسانیت اپنی
بہ مثلِ خاک بارآور
غموں کی نوعیت اپنی
یہ اک محدود سا قالب
یہ لامحدودیت اپنی
کہاں تھے زندگی میں تم
رکھو اب تعزیت اپنی
ہمارا دل بڑا عاقل
بدن روحانیت اپنی
کرو خیرات کچھ باتیں
بتاؤ خیریت اپنی
بُرا اچھا، کھرا کھوٹا
عجب ہے تربیت اپنی
چھپایا کچھ نہیں اُن سے
مگر وہ کیفیت اپنی
یہ گوروں کا نگر، اسود
یہاں کیا حیثیت اپنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
نگر میں راستہ دشوار کر دیا گیا ہے
ہجوم شہر کو بیدار کر دیا گیا ہے
ہمارے ہاتھ سے چھینا گیا قلم اور پھر
ہمارے ہاتھ کو تلوار کر دیا گیا ہے
خرد کو لایا گیا ہے جکڑ کے مقتل میں
اُدھر جنوں بھی گرفتار کر دیا گیا ہے
کہا کہ کام تھا سوچوں کو ورغلانے کا
کہا کہ جی مری سرکار کر دیا گیا ہے
🔴 سعید سادھو