ٹیپو کی فوج نے غداری کی
ایک اور تاریخ دان لشنگٹن اپنی کتاب ’لائف آف ہیرِس‘ میں لکھتے ہیں ’حالانکہ سوراخ زیادہ بڑا نہیں تھا، تو بھی جارج ہیرِس نے اپنے فوجیوں کو اس کے ذریعہ قلعے کے اندر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اصل میں ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘
’ان کی فوج بھوکی تھی۔ بعد میں ہیرس نے کیپٹن میلکم کے سامنے خود قبول کیا کہ میرے خیمے پر تعینات انگریز گارڈ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ اگر اسے دھکا دیا جاتا تو وہ نیچے گر جاتا۔‘
تین مئی کی رات تقریباً پانچ ہزار فوجی جن میں قریب تین ہزار انگریز تھے خندقوں میں چھپ گئے تاکہ ٹیپو کی فوج کو ان کی سرگرمی کا پتا نہ لگے۔ جیسے ہی حملے کا وقت نزدیک آیا ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والے شخص میر صادق نے فوجیوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے بلایا۔
ایک اور تاریخ دان میر حسین علی خان کرمانی نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ میں کرنل مارک ولکس کے حوالے سے لکھا ہے ’ٹیپو کے ایک کمانڈر ندیم نے تنخواہ کا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا۔ اس لیے دیوار کے سراخ کے پاس تعینات فوجی بھی اس کے پیچھے چل دیے۔ اسی وقت انگریزوں نے پیچھے سے حملہ بول دیا۔‘
اس درمیان ٹیپو کے ایک بہت وفادار کمانڈر سعید غفار انگریزوں کی توپ کے گولے سے ہلاک ہو گئے۔
کرمانی لکھتے ہیں کہ جیسے ہی غفار کی موت ہوئی، قلعے سے غدار فوجیوں نے انگریزوں کی جناب سفید رومال ہلانے شروع کر دیے۔
یہ پہلے سے طے تھا کہ جب ایسا کیا جائے گا تو انگریز فوج قلعے پر حملہ بول دے گی۔ جیسے ہی سگنل ملا انگریز فوج نے دریا کے کنارے کی جانب بڑھنا شروع کر دیا جو وہاں سے صرف سو گز کے فاصلے پر تھا۔
دریا بھی محض 280 گز چوڑا تھا اور کہیں ٹخنے تک پانی تھا تو کہیں کمر تک۔
میجر الیگزانڈر ایلن اپنی کتاب ’این اکاوٴنٹ آف دا کیمپین ان میسور‘ میں لکھتے ہیں ’حالانکہ انگریزوں کی آگے بڑھتی ہوئے فوج کو قلعے سے بڑی آسانی سے توپوں کا ہدف بنایا جا سکتا تھا، پھر بھی خندقوں سے نکل کر انگریز فوجی محض سات منٹ کے اندر قلعے کی دیوار کے سراخ سے داخل ہو کر برطانوی جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔‘
ٹیپو سلطان خود جنگ میں کودے
سراخ پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد برطانوی فوج دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
بائیں جانب بڑھنے والی فوج کو ٹیپو سلطان کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیپو کی فوج کے ساتھ دست بدست مقابلے میں اس دستے کی رہنمائی کرنے والے کرنل ڈنلپ کی کلائی پر تلوار سے گہرا زخم لگا۔ اس کے بعد کالم کے دستے کو آگے بڑھنے سے روکنے میں ٹیپو کے فوجی کامیاب رہے۔
ٹیپو سلطان اپنی فوج کی ہمت بندھانے خود جنگ میں شامل ہو چکےتھے۔
ڈنلپ کی جگہ لیفٹننٹ فارکیوہار نے لی۔ لیکن وہ بھی جلد ہلاک ہو گئے۔ چار مئی کی صبح ٹیپو نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے کی دیوار میں ہونے والے سوراخ کا معائنہ کیا اور اس کی مرمت کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ غسل کے لیے چلے گئے۔
کرمانی لکھتے ہیں کہ ’صبح ہی ان کے نجومی نے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ دن ان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس لیے شام تک انھیں اپنی فوج کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔‘
غسل کے بعد ٹیپو نے غریبوں میں پیسے بانٹے۔
چیناپٹنا کے ایک پجاری کو انھوں نے ایک ہاتھی، تِل کی ایک بوری اور دو سو روپے دیے۔ دیگر براہمنوں کو ٹیپو نے کالی بکری، کالے کپڑوں سے بنی ایک پوشاک اور نوے روپے کے علاوہ تیل سے بھرا ایک برتن بھی دیا۔ اس سے قبل انھوں نے لوہے کے برتن میں رکھے ہوئے تیل میں اپنا سایہ دیکھا۔ اُن کے نجومی نے بتایا تھا کہ ایسا کرنے سے ان پر آنے والی مصیبت ٹل جائے گی۔
انھوں نے محل میں واپس لوٹ کر رات کا کھانا کھایا۔
کھانا شروع ہی کیا تھا کہ انھیں اپنے کمانڈر سعید غفار کے ہلاکت سے متعلق خبر ملی۔ غفار قلعے کے مغربی سرے کی حفاظت کے لیے تعینات فوج کی قیادت کر رہے تھے۔
لیفٹیننٹ کرنل الیکزانڈر بیٹسن اپنی کتاب ’اے ویو آف دا اوریجن اینڈ کنڈکٹ آف دا وار ود ٹیپو سلطان‘ میں لکھتے ہیں ’ٹیپو یہ خبر سنتے ہی کھانا چھوڑ کر اٹھ گئے۔‘
انھوں نے ہاتھ دھوئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر اس جگہ کی جانب نکل پڑے جہاں دیوار میں سوراخ ہوا تھا۔ لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی انگریزوں نے وہاں اپنا جھنڈا لہرا دیا تھا اور قلعے کے دوسرے علاقوں کی جانب بڑھنا شرع ہو چکے تھے۔
گئی ہو۔
ایک بازو بند کے علاوہ جسم پر کوئی زیورات نہیں تھے۔ وہ بازوبند اصل میں ایک چاندی کا تعویز تھا جس کے اندر عربی اور فارسی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔
جنرل بیئرڈ نے ٹیپو کی لاش کو انھیں کی ڈولی میں رکھنے کا حکم دیا۔ دربار کو پیغام بھیجا گیا کہ ٹیپو سلطان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی لاش پوری رات ان کے دربار میں رکھی گئی۔‘
حیدر علی کی قبر کے بغل میں دفن
اگلے دن شام کو محل سے ٹیپو سلطان کا جنازہ نکلا۔ ان کے جنازے کو ان کے ذاتی ملازمین نے اٹھایا ہوا تھا۔ ان کے ساتھ انگریزوں کی چار کمپنیاں بھی چل رہی تھیں۔
برطانیہ کی 'نیشنل لائبریری آف سکاٹ لینڈ' میں رکھی دستاویزات کے مطابق 'جرنل آف دا وار وِد ٹیپو' میں لکھا ہے 'ان کے جنازے کے ٹھیک پیچھے شہزادہ عبد الخلیق چل رہے تھے۔
ان کے پیچھے دربار کے اہم اہلکار تھے۔ جن سڑکوں سے جنازہ گزرا، ان کے دونوں طرف بھیڑ تھے۔ لوگ زمین پر لیٹ کر جنازے کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔ لوگ زور زور سے رو رہے تھے۔ انھیں لال باغ میں ان کے والد حیدر علی کی قبر کے بغل میں دفنایا گیا۔'
اس کے بعد ٹیپو سلطان کے جنازے میں شریک افراد کو پانچ ہزار روپے بانٹے گئے۔ بیٹسن نے لکھا کہ ’رات ہوتے ہوتے ماحول اور زیادہ غمزدہ ہو گیا جب بادلوں کی گرج کے ساتھ زبردست آندھی چلی۔ اس آندھی میں دو انگریز اہلکار ہلاک ہو گئے اور متعدد زخمی ہو گئے۔‘
ٹیپو سلطان کی تلوار
ٹیپو سلطان کے مرنے کے بعد انگریز فوجیوں نے سرنگاپٹنم کو بُری طرح لوٹا۔
پھر بھی ٹیپو کا تخت، ہاتھی پر بیٹھنے کی چاندی کی سیٹ، سونے اور چاندی سے بنی پلیٹیں جواہرات سے جڑے تالے اور تلواریں، مہنگے قالین، ریشم کے بہترین کپڑے اور جواہرات سے بھرے بیس بکسے عام فوجیوں کے ہاتھ نہیں لگے۔
ٹیپو کی بہترین لائبریری کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا جس میں تاریخ، سائنس اور احادیث کے بارے میں عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبانوں میں دو ہزار سے زیادہ کتابیں تھیں۔
انگریز فوج کی جانب سے ایک ہیرے سے بنا ستارا اور ٹیپو کی تلوار ویلیز لی کو پیش کی گئی۔ میجر ایلکزانڈر ایلن نے اپنی کتاب 'این اکاوٴنٹ آف دا کیمپین ان میسور' میں لکھا ہے کہ ہیرس نے ٹیپو کی ایک اور تلوار بیئرڈ کو تحفے میں دے دی اور سلطان کے تخت میں جڑے شیر کے سر کو ونڈسر کاسل کے خزانے میں بھیج دیا گیا۔
ٹیپو سلطان اور موراری راوٴ کی ایک ایک تلواریں لارڈ کارنوالس کے پاس یادگار کے طور پر بھیج دی گئیں۔
تب تک انگریزوں کا سامنا انڈیا میں ٹیپو جیسے بادشاہ سے نہیں ہوا تھا۔ ٹیپو کے بعد انگریزوں کو جنگ میں چیلینج کرنے والا کوئی نہیں بچا تھا۔
ایک انگریز صحافی پیٹ آبیر نے اپنی کتاب 'رائز اینڈ پروگریس آف برٹش پاور ان انڈیا' میں لکھا ہے کہ ’ٹیپو کی شکست کے بعد مشرق کی پوری سلطنت ہمارے قدموں میں آ گری۔‘