لیکن اسی درمیان چیٹ جی پی ٹی جیسی اے آئی ٹیکنالوجیز کی آمد کے ساتھ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی بھی تیزی سے آگے بڑھی ہے، جس سے کسی کے لیے بھی محدود تکنیکی معلومات سے بھی منٹوں میں ڈیپ فیک آڈیو یا ویڈیو بنانا آسان ہو گیا ہے۔
ٹیکنالوجی میں تبدیلی کو دیکھتے ہوئے ڈیپ فیک بنانے والے تخلیق کاروں نے بھی اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں، جیسے کہ پارٹیوں کو انفرادی ووٹرز کے لیے پیغام کو ذاتی بنانے میں مدد کرنا جس کے تحت پارٹی لیڈرز ووٹروں کو ان کے نام سے مخاطب کرتے ہیں، یعنی سبھی ووٹر کے لیے ایک معیاری ویڈیو کے بجائے ہر ووٹر کے لیے ان کے حساب سے پیغام بنایا جاتا ہے۔
سینتھل نایگم، جو کہ چنئی میں موونیم نامی ایک ڈیپ فیک ’سٹارٹ اپ‘ چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو اپنا نام سننا پسند ہے اور اس طریقہ کار سے فوری رابطہ پیدا ہوتا ہے اور لوگ اکثر پیغام کو نظرانداز کرنے کے بجائے سنتے ہیں۔
یہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایک اہم، سستا اور تیز ٹول ثابت ہو سکتا ہے۔
ابتدائی طور پر دیویندر اور سینتھل جیسے لوگ بیداری پیدا کرنے کے لیے مقبول فلموں کے ’لو ٹیک‘ ڈیپ فیکس نقل بناتے تھے۔ لیکن انڈیا میں اے آئی سے ’ایتھیکل‘ ڈیپ فیک بنانے والی کم از کم چار کمپنیوں نے تصدیق کی کہ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی طرف سے ڈیپ فیک مواد بنانے کی درخواستوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے درمیان یہ عجلت اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، جن پر اکثر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ انڈیا میں کمپیوٹر جیسی نئی ٹیکنالوجیوں کے تعارف کے خلاف تھے، نے بھی حالیہ انتخابات میں ایک اے آئی ’اینکر‘ بنائی ہے جو کہ انتخابات کے دوران لوگوں تک پارٹی کے نظریے سے خبریں پہنچاتی ہے اور ساتھ میں موسیقی کے سٹریمینگ پلیٹ فارم سپوٹیفائی پر بھی ایک چینل بنایا ہے جو مصنوعی آڈیو کے استعمال سے خبریں نشر کرتا ہے۔
لیکن ڈیپ فیک تخلیق کار بتاتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں خود رابطہ کرنے کے بجائے اکثر اپنے کسی نمائندے کے ذریعے ان سے رجوع کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ وہیں قومی جماعتوں کے ساتھ کام کرنے والے دو سیاسی مشیروں (کنسلٹنٹس) کے مطابق اس طرح کی ٹیکنالوجی کی آسان دستیابی کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب بہت سی جماعتوں کے پاس ڈیپ فیک بنانے کے لیے اپنی اندرونی ٹیمیں یا ان کے نمائندے موجود ہیں۔
کیا سچ کیا جھوٹ؟
اپریل سنہ 2022 میں بی جے پی کے ایک سیاست دان نے جنوبی ریاست تمل ناڈو حکومت کے ایک وزیر کی دو آڈیو کلپس جاری کیں جن میں وزیر اپنی پارٹی کے ممبران پر بدعنوانی کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس ریکارڈنگ کے سامنے آنے کے بعد انھیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا لیکن انھوں نے دعویٰ کیا کہ آڈیو جعلی تھیں۔
ٹیکنالوجی پر خبریں لکھنے والی ’ریسٹ آف ورلڈ‘ نامی پورٹل کے تجزیے کے مطابق ان میں ایک کلپ حقیقی تھی لیکن دوسرے پر شک ہے کہ اس میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، یعنی یہ پوری طرح واضح نہیں کہ کیا یہ کلپس حقیقی تھے یا ان میں کیے گئے دعوے سچ تھے۔
یہ واقعہ اس بات کی ایک جھلک پیش کرتا ہے کہ ڈیپ فیک کے اثرات حقیقت کو دھندلا کرنے میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور انتخابات میں، خاص طور پر ووٹنگ کے دنوں میں، منفی رول ادا کر سکتے ہیں۔
دیویندر کہتے ہیں ’سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کے گمراہ کن استعمال سے لوگ حقیقت پر بھی یقین نہیں کریں گے۔ اس میں ’کنفرمیشن بائیس‘ کام کرے گا یعنی آپ کے لیے وہی سچ ہوگا جو آپ سننا چاہتے ہیں‘۔
دیویندر اس کے منفی استعمال کی ایک مثال دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں جاری پارلیمانی انتخابات سے چند دنوں پہلے ایک پارٹی کے سیاستدان کا نمائندہ ڈیپ فیک ویڈیو بنانے کی درخواست لے کر ان کے پاس آیا۔
یہ ایک عجیب و غریب درخواست تھی، کیونکہ ماضی کے برعکس جب درخواست گزار اپنے مخالفین کی حقیقی نظر آنے والی گمراہ کن ڈیپ فیک ویڈیوز کا مطالبہ کرتے تھے، وہ شخص اپنے لیڈر کے چہرے کے ساتھ ڈیپ فیک ویڈیو چاہتے تھے لیکن اس میں لیڈر کے چہرے کا ریزولوشن کم چاہتے تھے تاکہ وہ ویڈیو جعلی لگے۔ (ڈیپ فیک ویڈیوز میں اکثر حقیقی ویڈیو سے مختلف ریزولیوشن ہوتا ہے، آواز اور ہونٹ ساتھ نہیں چلتے، یا چہرہ بگڑا ہوتا ہے)
اس شخص نے دیویندر کو بتایا کہ ان کی مخالف پارٹی کے ہاتھ ان کے لیڈر کی ایک ویڈیو لگ گئی ہے جس میں وہ ایک ایسے فعل میں شامل ہیں جس کا سرعام ہونا ان کی انتخابی مہم کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
جدوں کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ اصلی ویڈیو باہر آنے کی صورت میں وہ بڑی تعداد میں کم ریزولوشن والی ڈیپ فیک ویڈیوز سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر پھیلا دیں گے اور کہیں گے، ’یہ دیکھو، یہ تو ڈیپ فیک ویڈیو ہے‘۔
ایک عام صارف کے لیے اس طرح کی ویڈیو کی تصدیق کرنا کافی مشکل ہے اور گمراہ کرنے والے اسے بخوبی جانتے ہیں۔
دیویندر کہتے ہیں ’یہ سچائی کو دھندلا کرتا ہے، خاص طور پر الیکشن سے پہلے اگر کوئی آخری لمحات میں ڈیپ فیک ویڈیو نشر کر دے تو اس وقت فیکٹ چیکرز کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے کہ وہ کچھ کر پائیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ اصولی خدشات کی وجہ سے انھوں نے یہ پروجیکٹ نہیں لیا لیکن یہ بات ان کے لیے تشویشناک تھی کیونکہ اس طرح کے فعل سنگین بحران پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ انڈین انتخابات میں منظم طور پر غلط معلومات اور گمران کن خبروں کے پھیلاؤ کو مزد سنگین کر سکتے ہیں
اس کے برعکس حیدرآباد میں مقیم اونتری کمپنی کے صدر بھیرو شنکر اسے دوسرے نظریے سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انڈیا میں پچھلے پانچ برسوں میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے بہت تیزی آئی ہے، لیکن ڈیپ فیک کا اثر اتنا نہیں ہو گا جتنا لوگوں کو خدشہ ہے۔
انھوں نے مختلف پارٹیوں کے ساتھ ان کی انتخابی مہم پر کام کیا ہے جس میں انھوں نے ’اے آئی ٹیکنالوجی‘ کے ذریعے سیاسی لیڈروں کے ساتھ ’ورچوئل سیلفی‘ بنوائی ہے، ’وی وار‘ کے استعمال سے لوگوں کی لیڈروں سے ورچوئل ملاقات کرائی ہے اور ’کیو آر کوڈ‘ کے ذریعے سیاسی لیڈروں کو براہ راست لوگوں کے موبائل فون تک پنہچایا ہے۔
وہ فی الحال جنوبی انڈیا کی ایک ریاستی پارٹی کی انتخابی مہم میں مدد کر رہے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ڈیپ فیک کا ان کے علاقے میں زیادہ اثر نہیں ہے۔
ان کے مطابق جہاں وہ کام کر رہے ہیں وہاں لوگوں میں اس قسم کے مواد پر شدید عدم اعتماد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک سروے کیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’لوگ ان سب باتوں میں نہیں آنے والے‘۔
وہ کہتے ہیں جو چیزیں یہاں کام کر رہی ہیں وہ لوگوں کے جذبات کو چھونے والی چیزیں ہیں اور انھیں تفریح دلانے والی چیزیں ہیں، جسے اے آئی کی مدد سے ہم بڑے پیمانے پر بنا سکتے ہیں اور یہ بنائے بھی جا رہے ہیں۔
وہ اسے قدیم زمانے کی کولوزیم کی طرح دیکھتے ہے۔ ’ہم ان سیاست دانوں سے یہ امید کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں تفریح فراہم کریں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ اس فیلڈ میں آپ جتنا زیادہ مواد بناتے ہیں، جتنے زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، آپ اپنے بیانیے کے ساتھ لوگوں کو اتنا ہی اپنی طرف کھینچیں گے اور آپ کے سامعین کی ایک بڑی تعداد آپ کی بات سننے کے لیے تیار ہو گی‘۔
ان کے مطابق آج کے زمانے کے ہوشیار تخلیق کار اس کو سمجھتے ہیں اور اس کا استحصال کر رہے ہیں۔
انھوں نے جاری پارلیمانی انتخابات کے لیے کانگریس کے منشور کی مثال دی جس میں وسائل کی زیادہ منصفانہ تقسیم کا وعدہ کیا گیا ہے، لیکن بی جے پی نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کانگریس ہندوؤں سے وسائل چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بھیرو کا کہنا ہے کہ اس کے لیے مواد بنانے کے لیے بی جے پی کے حامیوں نے اے آئی کا بڑے ماہرانہ طور سے سہارا لیا اور کافی جذباتی مواد بنایا۔
وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ایسی ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں واضح طور پر اے آئی کے استعمال سے آواز اور گرافکس بنائے گئے تھے ’اور یہ آوازیں کسی کمپیوٹر کے ذریعہ بنائی گئی تھیں۔ کسی کمپیوٹر سے سکرپٹ لکھوا لیا جو کہ ایک ایڈیٹر اسے چند سٹاک فوٹیج پر چسپاں کر دے گا۔ لیں جی ہو گیا ویڈیو تیار۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جس ویڈیو کو بنانے میں مجھے ایک دن لگے گا، وہ اے آئی کی مدد سے 20 منٹ میں تیار ہے۔ یہ میرے لیے ایک بہت بڑا گیم چینجر ہے‘۔
اس طرح کا خصوصی مواد انڈیا کے لیے نئے امکانات پیدا کرتا ہے۔
سینتھل کہتے ہیں کہ انڈیا کے زیادہ تر وزیر اعظم ہندی بولنے والی شمالی انڈین ریاستوں سے رہے ہیں۔ ’کیا اے آئی، جو کہ کئی زبانوں کا فوری طور پر ترجمہ کر دیتی ہے، کسی تمل شخص کو وزیر اعظم بننے میں مدد کر سکتا ہے؟‘
یہ اس بات پر منحصر ہے کہ مستقبل کے اتنخابات میں اے آئی کتنا اثر انداز ہوتا ہے۔ ڈیپ فیکرز کا کہنا ہے کہ اس کے صحیح موازنے کے لیے ہمیں چار جون کو انتخابی نتائج آنے تک انتظار کرنا چاہیے۔