اپریل کے مہینے میں جب ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف 300 سے زیادہ میزائل اور ڈرون داغے گئے تو ایک بار پھر ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیاں سخت کرنے کے مطالبات اٹھے جو اس ملک کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہیں۔
متعدد عالمی پابندیوں کے باوجود ایرانی کسٹم کے سربراہ کے مطابق ان کا ملک 2024 کے پہلے عشرے میں تقریبا 36 ارب امریکی ڈالر مالیت کا تیل برآمد کرنے میں کامیاب ہوا جو چھ سال کی مدت میں سب سے زیادہ ہے۔
ایسے میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایران عالمی پابندیوں سے بچ کر کیسے تیل برآمد کرتا ہے؟
اس سوال کا جواب ایران سے سب سے زیادہ تیل خریدنے والے ملک چین کی جانب سے استعمال کیے جانے والے طریقوں میں پوشیدہ ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی مالیاتی خدمات کی کمیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران یومیہ ڈیڑھ ملین بیرل تیل برآمد کرتا ہے جس میں سے 80 فیصد چین جاتا ہے۔
چین ایران سے تیل کیوں خریدتا ہے؟
امریکی پابندیوں کے باعث ایران کے ساتھ تجارت کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ تو پھر چین، جو دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے، یہ خطرہ کیوں مول لے رہا ہے؟
اس کی ایک سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ایرانی تیل سستا بھی ہے اور معیاری بھی۔ ایک جانب جہاں دنیا بھر میں تنازعات اور جنگوں کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ایران عالمی پابندیوں کی وجہ سے کم قیمت پر اپنا تیل فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔
عالمی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی جانب سے اکتوبر 2023 میں جاری کردہ ایک رپورٹ، جو تجارتی اعداد و شمار پر مبنی تھی، کے مطابق چین نے 2023 کے پہلے نو ماہ کے دوران ایران، روس اور وینیزویلا سے ریکارڈ تعداد میں تیل خریدا اور تقریبا 10 ارب ڈالر کا سرمایہ بھی بچایا کیوں کہ تینوں ممالک نے انتہائی کم قیمت پر تیل فروخت کیا۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمت تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن عام طور پر یہ 90 ڈالر فی بیرل سے نیچے ہی رہتی ہے۔
ہمایوں فلک شاہی کپلر کمپنی میں سینئر آئل تجزیہ کار ہیں جن کے تخمینوں کے مطابق ایران نے فی بیرل کروڈ آئل پانچ ڈالر تک میں بھی بیچا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ قیمت 13 ڈالر تک رہی۔
ہمایوں کا کہنا ہے کہ ’عالمی طاقتوں کے مفادات کا بھی اس میں عمل دخل ہے۔ ایران اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان ایک بڑے کھیل کا حصہ بنا ہوا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایران کی معیشت کو سہارا دے کر چین مشرق وسطی میں امریکہ کے لیے عسکری اور سیاسی مسائل میں اضافہ کر رہا ہے خصوصا ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تناؤ کے تناظر میں۔‘
’چائے کی کتیلی‘ جیسے چھوٹے کارخانے
ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران اور چین نے گزشتہ برسوں کے دوران پابندیوں سے بچنے کے لیے تیل کی تجارت کا ایک پیچیدہ نظام ترتیب دیا ہے۔
اٹلانٹک کونسل کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے اکنامک نیشنل پالیسی مایا نکول کا کہنا ہے کہ ’اس تجارتی نظام کے اہم ستونوں میں ’چائے کی کتیلی‘ جیسے چھوٹے اور خودمختار تیل صاف کرنے والے کارخانے، گمنام ٹینکروں کا بیڑہ اور چین کے ایسے علاقائی بینک ہیں جن کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ جانا نہیں جاتا۔
’ٹی پاٹ‘ یا ’چائے کی کتیلی‘ جیسی ریفائنریاں ایران کے تیل کو صاف کرتی ہیں اور یہ ایسے نیم خودمختار کارخانے ہیں جو بڑے سرکاری کارخانوں کے متبادل کے طور پر کام کرتے ہیں۔
ہمایوں نے وضاحت دی کہ ’یہ ایک تجاری نام ہے کیوں کہ بنیادی سہولیات رکھنے والی یہ ریفائنریاں ابتدا میں بلکل کسی چائے کی کتیلی جیسی نظر آتی ہیں اور ان کی اکثریت چین کے دارالحکومت بیجنگ کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع ہیں۔‘
تیل صاف کرنے والے یہ چھوٹے چھوٹے کارخانے چین کے لیے ان بڑے سرکاری کارخانوں کے مقابلے میں کم خطرات رکھتے ہیں جن کو عالمی سطح پر کام کرنا ہوتا ہے اور انھیں امریکی مالیاتی نظام تک رسائی بھی درکار ہوتی ہے۔
ہمایوں نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ ’چھوٹے نجی کارخانے بین الاقوامی سطح پر کاروبار نہیں کرتے اور نہ ہی امریکی ڈالر میں تجارت کرتے ہیں۔ ان کو بین الاقوامی سرمایہ بھی درکار نہیں ہوتا۔‘