سعودی عرب کا کہنا ہے کہ رواں برس حج کے دوران کم از کم 1,301 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر ایسے غیر رجسٹرڈ عازمین تھے جنھیں شدید گرمی میں طویل فاصلے پیدل طے کرنے پڑے۔
یاد رہے کہ اس سال حج کے دوران شدید گرمی تھی اور درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔
سرکاری سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سے تین چوتھائی سے زیادہ غیر رجسٹرڈ عازمین تھے جن کے پاس حج پرمٹ نہیں تھا اور ان کو اسی وجہ سے پناہ گاہوں تک رسائی حاصل نہیں تھی۔
سرکاری ایجنسی کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں کئی ادھیڑ عمر تھے اور کئی بیمار بھی تھے۔
سعودی عرب کے وزیرِ صحت فہد الجلاجیل کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے حجاج کو شدید گرمی سے پیدا ہونے والے خطرات اور ان سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں آگاہی دینے کی کوشش کی گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دورانِ حج تقریباً پانچ لاکھ عازمین کو علاج فراہم کیا گیا اور ان میں سے 140,000 وہ تھے جن کے پاس حج کے اجازت نامے نہیں تھے۔ وزیرِ صحت کے مطابق کئی افراد اب بھی ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
اتوار کو جاری کیے جانے والے اس بیان سے قبل سعودی حکام کی جانب سے نہ ہی حج کے دوران ہونے والی اموات پر کوئی تبصرہ کیا گیا تھا نہ ہی سرکاری سطح پر اس بارے میں کوئی اطلاع فراہم کی گئی تھی۔
تاہم مختلف ممالک کی جانب سے حج کے دوران جاں بحق ہونے والے اپنے شہریوں کی تعداد کے بارے میں اطلاعات فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک عرب سفارتکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 658 مصری شہری شامل ہیں۔
انڈونیشیا کا کہنا ہے کہ اس کے 200 سے زائد شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ اس کے 98 شہری ہلاک ہوئے جبکہ پاکستان، ملائیشیا، اردن، ایران، سینیگال، تیونس، سوڈان اور عراق کے خود مختار کردستان علاقے نے بھی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
حالیہ حج کے دوران ہونے والی اموات خصوصاً غیر رجسٹرڈ حاجیوں کی ہلاکتوں کے بعد سے مختلف ممالک کی جانب سے سخت اقدامات کیے جارے ہیں۔
سنیچر کے روز مصر کے وزیر اعظم مصطفیٰ مدبولی نے 16 سیاحتی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کر دیے اور مکہ مکرمہ میں غیر قانونی طور پر حج پر لوگوں کو بھیجنے کے الزام میں ان کے مینیجرز کو قانونی کارروائی کے لیے استغاثہ کے حوالے کر دیا ہے۔
جمعے کے روز اردن نے کہا تھا کہ اس نے متعدد ٹریول ایجنٹوں کو حراست میں لیا ہے جنھوں نے مسلمان زائرین کو مکہ مکرمہ کے غیر سرکاری سفر میں سہولت فراہم کی تھی جبکہ تیونس کے صدر قیس سعید نے وزیر مذہبی امور کو برطرف کردیا ہے۔
مسلمان ہر سال مقدس شہر مکہ مکرمہ میں حج کرتے ہیں۔ تمام مسلمان جو مالی اور جسمانی طور پر استطاعت رکھتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار حج کرتے ہیں۔
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس سال تقریبا 18 لاکھ افراد نے فریضہ حج ادا کیا۔
حج اجازت نامے کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر ممالک کو مختص کیے جاتے ہیں اور قرعہ اندازی کے ذریعے افراد میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔
تاہم حج کی بڑھتی لاگت کے باعث بہت سے افراد بنا اجازت نامے کے حج کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ پکڑے جانے پر انھیں گرفتاری اور ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
حج سے قبل سعودی حکام نے لاکھوں غیر مجاز عازمین کو مکہ سے نکانے کا دعوٰی کیا تھا۔
سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں حج کے موقع پر حفاظتی اقدامات میں اضافہ کیا ہے لیکن اسے اب بھی خاص طور پر غیر رجسٹرڈ عازمین حج کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔
سعودی عرب کے قومی موسمیاتی مرکز کے مطابق مکہ میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔
ہم یہاں ایسے عوامل کا ذکر کریں گے جو ممکنہ طور پر اموات کی وجہ بنے۔
شدید گرمی
خیال کیا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں غیر معمولی ہیٹ ویو ہلاکتوں کی زیادہ تعداد کی ایک بڑی وجہ ہے۔
سعودی وزارت صحت کی جانب سے گرمی سے بچنے اور پانی کی کمی دور کرنے کی ہدایات کے باوجود بہت سے عازمین ہیٹ سٹریس اور ہیٹ سٹروک کا شکار ہوگئے۔
نائیجیریا سے تعلق رکھنے والی ایک حاجی عائشہ ادریس نے بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام نیوز ڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اللہ کے فضل سے شدید گرمی کے باوجود میں زندہ بچ گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مجھے چھتری کا استعمال کرنا پڑا اور میں مسلسل آب زم زم پیتی رہی۔‘
اطلاعات کے مطابق ایک اور حاجی نائم ہیٹ سٹروک کی وجہ سے فوت ہو گئیں جس کے بعد ان کے اہل خانہ جوابات کی تلاش میں ہیں۔
ان کے بیٹے نے بی بی سی نیوز عربی کو بتایا کہ ’ہماری والدہ کے ساتھ رابطہ اچانک منقطع ہو گیا تھا۔ ہم کئی دن سے انھیں تلاش کر رہے ہیں اور صرف یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ حج کے دوران فوت ہو گئیں۔‘
ہر سال غیر معمولی گرمی کی شدت، سخت جسمانی سرگرمی اور وسیع کھلی جگہوں کی وجہ سے حجاج کو خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ بوڑھے یا بیمار بھی ہوتے ہیں۔
تاہم حج کے دوران گرمی سے ہونے والی اموات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ایسا سنہ 1400 کے بعد سے ہو رہا ہے۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔
کلائمیٹ اینالٹکس کے کارل فریڈرک شلیسنر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے حج گرم آب و ہوا میں ہورہا ہے لیکن ماحولیاتی بحران ان حالات کو مزید خراب کر رہا ہے۔‘
ان کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے حج کے دوران ہیٹ سٹروک کا خطرہ پانچ گنا تک بڑھ سکتا ہے۔
ہجوم اور صفائی کے مسائل
متعدد بیانات کے مطابق سعودی حکام کی بدانتظامی نے پہلے سے مشکل حالات کو مزید خراب کر دیا جس کے نتیجے میں حاجیوں کے لیے مخصوص کئی علاقوں میں بحران پیدا ہو گیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ حجاج کے لیے رہائش اور سہولیات کی کمی تھی اور بھیڑ والے خیموں میں ٹھنڈک اور صفائی ستھرائی کی مناسب سہولیات کا فقدان تھا۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ آمنہ (فرضی نام) کہتی ہیں کہ ’مکہ کی گرمی میں ہمارے خیموں میں ایئر کنڈیشنر نہیں تھے۔ جو کولر لگائے گئے تھے ان میں زیادہ تر وقت پانی نہیں ہوتا تھا۔‘
’ان خیموں میں اتنا دم گھٹ رہا تھا کہ ہمارے پسینے سے ٹپک رہے تھے اور یہ ایک خوفناک تجربہ تھا‘۔
جکارتہ سے تعلق رکھنے والی ایک حاجی فوزیہ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’خیموں میں زیادہ ہجوم اور زیادہ گرمی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ بے ہوش ہو گئے۔‘
سعودی وزیر صحت نے عازمین حج کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے مختص وسائل پر روشنی ڈالی ہے۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان میں 189 ہسپتال، صحت کے مراکز اور موبائل کلینک شامل ہیں جن کی مجموعی گنجائش 6500 بستروں سے زیادہ ہے اور 40000 سے زیادہ طبی، تکنیکی، انتظامی عملہ اور رضاکار شامل ہیں۔
نقل و حمل
حاجی اکثر شدید گرمی میں طویل فاصلے تک پیدل چلنے پر مجبور ہوئے اور اس کے لیے انھوں نے رکاوٹوں اور ناقص انتظام کو مورد الزام ٹھہرایا۔
ایک نجی گروپ کے حج آرگنائزر کا کہنا ہے کہ موسم گرما کے دوران عام عازمین کو روزانہ کم از کم 15 کلومیٹر پیدل چلنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے انھیں ہیٹ سٹروک، تھکاوٹ اور پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نہ بتایا کہ ’یہ میرا 18 واں حج ہے اور میرے تجربے کے مطابق سعودی کنٹرولر سہولت کار نہیں ہیں۔ وہ کنٹرول کرتے ہیں، لیکن وہ مدد نہیں کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ماضی میں خیموں تک رسائی کے لیے یوٹرن کھلے تھے لیکن اب ان تمام راستوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ نتیجتاً ایک عام حاجی چاہے وہ زون ون میں کیٹیگری اے کے خیمے میں ہی کیوں نہ رہیں انھیں اپنے خیمے تک پہنچنے کے لیے گرمی میں ڈھائی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر اس راستے پر کوئی ہنگامی صورتحال ہوجائے تو بھی مدد آپ تک 30 منٹ تک نہیں پہنچی گی۔ زندگیاں بچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی ان راستوں کے ساتھ پانی کے مقامات ہیں۔‘
غیر رجسٹرڈ حاجی
حج کی ادائیگی کے لیے ایک حاجی کو خصوصی حج ویزا کے لیے درخواست دینا ضروری ہے لیکن کچھ افراد مناسب دستاویزات کے بغیر پانچ روزہ حج پر جانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ایسے افراد کے خلاف سعودی حکام نے کریک ڈاؤن کرنے کی کوشش بھی کی۔
مناسب دستاویزات کے بغیر حاجی اکثر حکام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب انھیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے تب بھی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ’غیر رجسٹرڈ‘ حج کا یہ مسئلہ اضافی اموات کا سبب بنتا ہے اور حکام نے خیموں میں کچھ بھیڑ کا ذمہ دار انھیں ٹھہرایا ہے۔
انڈونیشیا کے قومی حج و عمرہ کمیشن کے چیئرمین مستولیح سرادج کا کہنا ہے کہ ’ہمیں شبہ ہے کہ حج ویزا استعمال نہ کرنے والے افراد حاجیوں کے علاقوں میں گھس آئے تھے۔‘
قومی کمیٹی برائے حج و عمرہ کے مشیر سعد القرشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جس کے پاس حج ویزا نہیں ہے، اسے برداشت نہیں کیا جائے گا اور اسے اپنے ملک واپس جانا ہوگا۔‘
انھوں نے بتایا کہ غیر قانونی زائرین کی شناخت نسک کارڈ سے کی جاتی ہے جو سرکاری زائرین کو دیے جاتے ہیں اور اس پر مقدس مقامات پر داخلے کے لیے بار کوڈ ہوتا ہے۔
عمر رسیدہ، کمزور یا بیمار حاجی
حج کے دوران ہر سال بہت سی اموات ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے عازمین زندگی بھر کی بچت کرنے کے بعد اپنی زندگی کے آخر میں حج پر جاتے ہیں۔
بہت سے مسلمان اس امید میں بھی جاتے ہیں کہوہ حج کے دوران مر جائیں کیونکہ مقدس شہر میں مرنا اور دفن ہونا ایک نعمت سمجھا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص حج کی ادائیگی کے دوران فوت ہو جائے تو کیا ہوگا؟
جب کوئی حاجی حج کی ادائیگی کے دوران فوت ہو جاتا ہے تو اس کی موت کی اطلاع حج مشن کو دی جاتی ہے۔
وہ شناخت کی تصدیق کرنے کے لیے کلائی کے بینڈ یا گلے میں لٹکی آئی ڈی کا استعمال کرتے ہیں۔
اس کے بعد انھیں ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے اور سعودی عرب ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔
نماز جنازہ مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام یا مدینہ منورہ کی مسجد نبوی جیسی اہم مساجد میں ادا کی جاتی ہے۔
میت کو غسل دیا جاتا ہے، کفن پہنایا جاتا ہے اور سعودی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فریزر میں منتقل کیا جاتا ہے، سعودی حکومت اس کے لیے تمام اخراجات ادا کرتی ہے۔
تدفین سادہ، بغیر نشانات کے ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایک ہی جگہ پر بہت ساری میتیں دفن ہوتی ہیں۔
قبرستان کی کتاب میں درج ہے کہ کون کہاں دفن کیا گیا ہے، لہٰذا خاندان اگر چاہیں تو قبروں کی زیارت کرسکتے ہیں۔
سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مختلف گروہوں اور ہلال احمر کی مدد سے تدفین کے باوقار اور باعزت عمل کو یقینی بناتی ہے۔