ماسکو: روس کے مسلم اکثریتی صوبے داغستان میں اتوار کے روز اس وقت ہلچل مچ گئی جب مسلح افراد نے ایک عبادت گاہ، ایک آرتھوڈوکس چرچ اور ایک پولیس چوکی پر حملہ کر کے کم از کم 7 پولیس اہلکاروں سمیت ۹افراد کو ہلاک کر دیا۔ داغستان میں داخلی امور کی وزارت نے یہ اطلاع دی۔ پولیس اس واقعہ کو علیحدگی پسند تشدد کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ پولیس نے حملے میں ملوث 4دہشت گردوں کو بھی مار گرایاہے۔
روئٹرز کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق دعا گھر اور چرچ دونوں داغستان کے شہر ڈربینٹ میں واقع ہیں۔ یہ شمالی قفقاز کا ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں قدیم یہودی برادری کے لوگ رہتے ہیں۔ عسکریت پسندوں نے تقریباً 125 کلومیٹر (75 میل) دور داغستان کے دارالحکومت مخاچ قلعہ میں ایک پولیس چوکی پر بھی حملہ کیا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ حملے کے بعد عبادت گاہ میں آگ لگ گئی اور چرچ سے دھواں بھی اٹھتا ہوا دیکھا گیا۔
ایک 66 سالہ آرتھوڈوکس پادری ڈربنٹ کے ایک چرچ پر حملے میں مارا گئے ہیں ۔ اس سے قبل مقامی حکومت کے ایک اہلکار نے دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آوروں نے ان کا گلا کاٹ دیا تھا۔ ڈربنٹ میں پولیس اہلکاروں پر حملے کی ویڈیو بنائی گئی اور سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی۔ کلپ میں تیز گولیوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں، جس میں پولیس کی کئی کاریں سڑک پر کھڑی دیکھی جا سکتی ہیں۔ حکام حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کر رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق وسطی ڈربنٹ میں اب بھی فائرنگ کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ مبینہ طور پر مقامی حکام اب بھی آرتھوڈوکس چرچ کے قریب حملہ آوروں سے لڑ رہے ہیں۔
روسی خبر رساں اداروں کے مطابق ملکی وزارت داخلہ نے کہا کہ دو حملہ آوروں کو گولی مار دی گئی ہے۔ حملہ آوروں کو سب سے پہلے ڈربنٹ میں ایک کار میں فرار ہوتے دیکھا گیا تھا۔ داغستان کے سربراہ سرگئی میلیکوف نے کہا، ‘نامعلوم افراد نے اتوار کی رات ڈربنت اورمخاچ قلعہ میں عوامی صورتحال کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ داغستان کے پولیس اہلکار ان کے راستے میں کھڑے تھے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق ان میں کچھ ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ تمام سروسز ہدایات کے مطابق کام کر رہی ہیں اور حملہ آوروں کی شناخت کی جا رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں داغستان میں تشدد میں کمی آئی ہے۔ ہمسایہ روسی جمہوریہ چیچنیا میں ہونے والے تنازعات کا اس خطے نے کبھی تجربہ نہیں کیا، جہاں روسی افواج اور علیحدگی پسندوں نے ایک ہی وقت میں دو وحشیانہ جنگیں لڑیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ حملہ مذہب کی آڑ میں کیا گیا۔