رحمن کا انعام ـــ انعام الرحمن
از:- محمد عارف دلار سر
زینتِ قرآن سورہ رحمن میں رب کا فرمان کہ سن اے انسان فبای الاء ربکما تکذبان (تم پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے) خالقِ ارض وسماء ،مالکِ کون و مکاں ،مصورِ کائنات ،معمارِ شمس و قمر، بانئ بحر و بر اللہ رب العزت کی بےشمار نوازشیں بنی نوع انسان کو شب و روز میسّر ہیں. نزولِ انعامات میں ایک مخصوص انعام ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو قوم و ملّت کے لیے بے لوث خدمات انجام دیتی ہیں. ان میں ایک نام انعام الرحمن سر کا بھی ہے.
انعام الرحمن سر کی اہلِ خانہ سے انسیت، طلبہ کی نگہداشت کی چاہت، سماجی ضرورتوں کی تکمیل سے اْلفت، اے ٹی ٹی انتظامیہ اور مختلف اداروں کے کاموں سے رغبت، دوستوں کےلیے محنت کی و مشقّت ان کی اعلیٰ شخصیت کی وضاحت ہے. ہر کسی کو خوشحال رکھنے کے اعمال بے مثال، سکھ دکھ میں فیصلے با کمال، تقاریب میں مفید تجاویز کا جمال تو تھا ساتھ ساتھ الجھن سلجھانے میں ان کے جلال پر کسی کو ملال نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کی حکمتوں کا ہر کوئی استقبال کرتا تھا. وجہ
ع
خلوص و مہر کا حامل جو اک انسان ہوتا ہے
زمانے کی نگاہوں میں وہی ذی شان ہوتا ہے
دنیا و آخرت میں انسان کی سرخرو ئ کی پہچان اخلاق کے میزان کے اوزان پر منحصر ہے. مرحوم انعام الّرحمن سر
ان شاءاللہ اس میں کامران ہوں گے. اہلیہ شبانہ و اولادیں ان کی شان، تعلیم و سماج میں ان کی الگ پہچان، دختر عظمیٰ MBBS میں تو اختر شجاع بارہویں سائینس کے امتحان کے لیے شب و روز محنت کر رہے ہیں. شجاع حقیقی شجاع ہے. میں نے اپنی زندگی میں ایسا بہادر بیٹا نہیں دیکھا والدِ مرحوم کے جسدِ خاکی کے پاس ہے آنسو نجانے کہاں چھپا رکھا تھا بڑے ابّو نعیم الرحمن، احتشام الرحمن، چا چا شفیق الرحمن، عتیق الرحمن، حبیب الرحمن، عبید الرحمن، فضل الرحمن، ظلّ الرحمن کو تسلّی دے رہا ہے. ہماری بہنیں مخلص بھائی کی جدائی پْر نم آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں کلمہ شہادت پڑھ رہی ہیں. بمطابق حدیث مرحوم کو شہید کا درجہ حاصل ہو گا ان شاءاللہ.
ع
کم سے کم اتنا معطّر تو ہو انساں کا خلوص
گھر سے نکلو تو پڑوسی کو بھی خوشبو آے
بھائی بہنوں کا اتّحاد منوّر نصیب، اے ٹی ٹی منتظمین میں نہایت مقبول و حبیب، دوستوں ساتھی اساتذہ کے حد درجہ قریب، اوقات کا ماہر حسیب، کام کی احسن تکمیل کے نقیب شخص کے تجربات، دلی احساسات، مشاہدات، نظریات، قوم و ملّت کی خدمات، عنایات اظہر من الشمس ہیں.
طلبہ کی موثّر تدریس و تادیبی کارروائی، شہر اور بیرون شہرتدریبِ اسکالرشپ کی طلبہ اساتذہ صدرمدرس میں پیمائش کاری ،مفیدکارآمد اردو گائیڈ کی تیاری ،NEET کلاسیس کی آبیاری، تقاریب میں نظامت معیاری ،مقابلوں کے لیے تقریر کی تحریر اور اس کی تیاری میں غضب کی فنکاری سنگمنیر اور اے ٹی ٹی ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے گلشن کی گْل کاری ہے.
سماجی تعلیمی فلاحی افعال کے لیے مرحوم انعام الّرحمن سر کی ملاقات ریاستی مرکزی وزراء سے اہم بات نیز ممبئی، پونےاور مہاراشٹر کے اثر و رسوخ والی شخصیات سے تبادلہ خیالات شہر کی مشکلات کا حل ثابت ہوتی تھیں.
تنظیم CCI کا فعال رکنِ انجمن، NEET گلشن کا گْل سمن، مومن کانفرنس سے قلبی لگن، مسلم مجلسِ مشاورت کے کام احسن غرض ہر شعبہ میں ردشن مشن مرحوم انعام الّرحمن سر کے کامیاب زمن کی عکاسی ہے. ہندو مسلم ایکتا سنگھٹنا، انجمن ترقی اردو (ہند) میں کارآمد شمولیت ان کے اعلیٰ کردار کی خصوصیت ہے.
مستحق طلبہ کا ساتھی اپنی ضرورتِ ذاتی کی فکرسے آزاد جذباتی اس طرح کہ
ع
خدمتِ خلق کے جذبات رہے پیشِ نظر
زندگی برسرِ پیکار رہی شام و سحر
درد آشنا شخص اپنی لگن میں اس طرح مگن کہ
ع
دھوپ کو چن لیا مسافر نے
اب رہے سایہء شجر تنہا
اس کی کوشش کاوش اس بات کا ثبوت ہے کہ
ع
مٹّھی میں دھوپ لے کے سفر رات کا کروں
مجھ پر تو چاند تاروں کا لشکر عذاب ہے
مسلم طلبہ کو حکومتی سہولیات میسر نہیں تھیں. تعلیمی معاشی پسماندگی کے تناظر میں احساس.
دیکھی گئی نہ مجھ سے اندھیروں کی سرکشی
پھر بن کے آفتاب نکلنا پڑا مجھے
لہٰذا علم و عمل کے اس آفتاب کی ضو فشانی عنایاتِ ربّانی کی صورت چمنِ عزیز میں نمایاں ہو گئی.
دوستوں سے اس کا برتاؤ قابلِ تقلید، ان کی خدمت کا جذبہ شدید، مینو کا انتخاب قابلِ دیداس کے حسنِ انتظام سے رفیقوں کی عید مہمان نوازی سے سبھی مرید کھرا سونا تھا سونا فرزندِ وحید ان شاءاللہ اس سے مزیّن ہو گی فہرستِ شہید.
رفیقانِ بزم میں انعام سر کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں اوّل حاجی افتخار پہلوان، حاجی نہال احمد، روزآنہ شب و روز کے ساتھی انوراستاد، عثمان غنی، شاہد ایوبی، شکیل سموسے والے، نہال غفران، مرحوم شکیل ٹینی، نہال احمد، عقیل نو جیون، ظہیر ہادی. اے ٹی ٹی کے اساتذہ میں سعودسر، مجتبٰی سر، شفیق کلر سر، زاہد سر، زاہدپاوےسر، سہیل سر، جنید سر، خلیل سراور دیگر اساتذہ. صحافیوں میں بچپن کے دوست عبدالحلیم صدیقی، مختار عدیل(شاگرد)، رضوان ربّانی سے گہرے مراسم تھے. دردناک غمناک سانحے کی خبر سن کر اہلِ خانہ سے رابطے میں رہے. ہر کوئی اپنی بساط بھر کوشش کرتے رہے. دعاؤں کا سلسلہ دراز کرتے رہے.
سعود سر، مجتبٰی سر. بہنوئی عبید. بھائ شفیق جسدِخاکی کلکتہ سے مالیگاؤں لانے تک لگاتار کام میں مصروف رہے. 8مارچ بروز جمعہ کو حادثہ ہوا. زینہ سے اچانک گرے صدائے اللہ اکبربلند کی پیٹھ کے بل گرنے سے سلاخ آر پار ہو گئی. 10مارچ بروز اتوار کو میڈیکا ہاسپٹل میں آخری سانس لی.
انا للہ وانا الیہ راجعون.
دینی عصری سماجی فلاح کے لیے ہمیشہ سفر میں رہنے والا باہنر بشر، پروفیسر، ڈائریکٹر، فلاسفر، کرکٹر، ٹرینر ہماری نظر سے اوجھل تو ہو گیا مگرہمارے دل و جگر میں تا حیات گھر کر گیا.
کافی مشکلات پریشانیوں میں تمام قریبی دوست لگاتار پانچ دنوں تک اہلِ خانہ کے قریب رہ کرمشکلات کو حل کرنے میں لگے رہے. بروز منگل پہلے روزے کو جسدِخاکی کی تدفین مالیگاؤں بڑے قبرستان میں کی گئی. مرحوم انعام الرحمن سر کے لیے قلب کی عمیق گہرائیوں سے دعا ہے کہ
ربِّ کریم تْربت میں اجرِ عظیم عطا کرے. لحدکو گلشنِ بہشت میں تبدیل کرے. قبر کو نور سے منوّر کرے. آمین.
ع
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
______________::
عالمی اردو فکشن فورم ۔ افسانہ نشست 2024
افسانہ :45
عظمت اقبال ۔ مالیگاؤں ۔ مہاراشٹر ۔انڈیا
نضال
“ الام”
اس کی چیخ اس کے وجود کی طرح وب کر رہ گئی۔
وہ کمر تک درگور تھا۔ داہنا ہاتھ کسی پتھر تلے دبا ہوا۔ اپنے بائیں ہاتھ سے دبے ہاتھ کو کھینچ کر نکالنے کی کوشش کی ۔
“اللہ و اکبر”
اس کی آواز میں کرب ہے۔ اسے یاد آیا ماں کہا کرتی تھی درد بھری صدا ء ساتوں آسمان کو چیر اللہ تک پہنچتی ہے۔
میں کہاں ہوں؟
ماں ، بابا اور فاطمہ کہاں ہے؟
گھپ اندھیرے میں اس نے پلکوں کو کئی بار کھولا بند کیا۔ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا ۔
وہ کس مصیبت کا شکار ہو گیا ہے؟
اسے اپنی ٹیچر یاد آئی ۔ روزانہ صبح اسکول میں دعا پڑھایا کرتیں۔ وہ اپنے جسم میں بچی کچی توانائی صرف کر دعا پڑھنے لگا۔
اللہ اللہ اللہ
مصیبت میں کون کام آئے؟
اللہ اللہ اللہ
طوفاں میں کسے پکارا جائے؟
اللہ اللہ اللہ
طوفاں سے کشتی کون بچائے؟
اللہ اللہ اللہ
زخمی ،لاچار ، کمزور الفاظ کو اندھیرا اپنے میں سمو لے رہا تھا۔
زخمی کپکپاتے لبوں سے نحیف آواز میں وہ اپنے مسیحا کو پکارنے لگا ۔
“یا اللہ یااللہ ”
“اللہ و اکبر اللہ واکبر ”
ہاتھ سے چہرے پر لگی مٹی ہٹانے کی کوشش کی۔ اس کے چہرے پر مٹی کی پرت جم گئی ہے-زخم سے رستا خون مٹی کو اپنے میں جذب کر چکا ہے ۔ اس کے جسم کا نصف حصہ ملبے میں دبا ہوا ہے ۔ اور بقیہ حصہ بری طرح زخمی ۔ لیکن اسے درد کا احساس نہیں ہو رہا ۔ شاید درد اپنی حد سے گزر چکا ہو۔
کچھ ہی دیر پہلے اسے ہوش آیا ۔ اندھیرے میں اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کچھ شناسا چہرے ، اپنی ماں ، باپ اور فاطمہ سلسلے وار اس کے معصوم ذہن سے منعکس ہو کر اس کے سامنے فلمی منظر کی طرح گزرتے جا رہے ہیں۔ ماں اکثر کہا کرتی نیک لوگوں کو دوسری دنیا میں جنت ملتی ہے ۔ اور جنت میں تمام خواہشات و تمنائیں پلک جھپکتے ہی پوری ہو جایا کرتی ہیں۔ اس نے ماں سے کہا تھا جب وہ جنت میں جائے گا تو اپنے لئے کمپیوٹر گیم ، ڈھیر سارے چاکلیٹ اور مٹھائیاں طلب کرے گا۔ ساتھ ہی وہ پرندوں کی طرح آسمان میں پرواز کرے گا۔اسے یاد آیا ایک بار اسے مکتب میں قبر کے عذاب کے بارے میں بتایا گیا تھا ۔ قبر، جہاں انسان کی روح آسمان میں پرواز کر جانے کے بعد اس کے مردہ جسم کو دفن کر دیا جاتا ہے۔ جب اس کے دادا کا مردہ جسم اسپتال سے گھر لایا گیا اور پھر جبالہ شہر کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ وہ اپنے باپ کی انگلی تھامے تدفین کے پورے عمل کو دیکھتا رہا۔
یکلخت اس کے ذہن میں خیال آیا جس نے اس کے زخمی ادھ مرے وجود کو جھنجھوڑ دیا۔
“کیا میں بھی قبر میں دفن کردیا گیا ہوں؟
مگر میری موت کب ہوئی؟
میں تو بیمار بھی نہیں ہوا ؟
اور نہ ہی بوڑھا ؟”
چند روز پہلے ہی اس کی چھٹی سالگرہ تھی جس میں پڑوس کے بچوں کو بلا کر ماں نے لذیذ الخبیزہ سے سب بچوں کی ضیافت کی تھی۔
اسے یاد آیا پچھلے ایک یا دو روز قبل وہ اسکول نہیں گیاتھا ۔ ابا نے بتایا کچھ دنوں کے لئے اسکول کی چھٹی رہیگی ۔ ابا بھی کام پر نہیں گئے۔ گھر پر بیٹھے خبریں دیکھتے رہے۔ ماں بھی کچن میں کھانا بناتے وقت اور دوسرے کام کرتے ہوئے بار بار ٹی وی کا سامنے آبیٹھتی ۔ دونوں پتہ نہیں کس بات کو لے کر بڑے پریشان نظر آر ہے تھے۔ اپنے شہر جبالہ کو چھوڑ کسی دوسرے شہر میں جانے کی بات بھی چل رہی تھی۔ دونوں میں سے کوئی ایک اس کی مخالفت کر رہا تھا۔ فاطمہ کے ساتھ کھیلتے ہوئے کبھی کبھی اماں ابا کی باتوں پر اس کا دھیان چلا جاتا تھا۔ اور پھر ایک رات زور زور کے دھماکوں کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ پہلے دو تین دھماکوں کی آواز کہیں دور سنائی دی اور پھر کہیں قریب دھماکہ ہوا وہ بستر سے اٹھ بیٹھا ۔ دھماکوں کی آواز نے اسے سماعت سے محروم کردیا ۔ بس اسے اتنا یاد ہے کہ اس کی ماں فاطمہ کو گود میں اٹھائے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہاتھوں سے اسے اپنے طرف دوڑ کر آنے کا اشارہ کر رہی تھی۔
اور پھر اچانک اس کی سماعت واپس لوٹی ۔ اس نے ایک بار پھر شدید دھماکے کی آواز سنی اور پھر ۔۔۔ اس کے آگے کیا ہوا؟ اسے کچھ یاد نہیں۔
تو کیا وہ مر چکا ہے؟
اور اسے قبر میں دفنایا جا چکا ہے؟
ماں نے بتایا تھا نیک لوگ قبر کی کھڑکی سے جنت کا نظارہ کرینگے ۔ اور پھر قیامت کے بعد جنت ان کا ٹھکانہ ہوگی۔
مگر یہاں تو کچھ بھی نہیں۔ بس گھپ اندھیرا ۔ تو کیا میرا شمار عاصی بندوں میں ہوگا؟ مگر میں نے تو کبھی جھوٹ نہیں بولا؟ اماں ،ابا اور اپنے ٹیچر کی بھی سب بات مانی۔ نماز پڑھنے کے لئے ابا کے ساتھ مسجد بھی جایا کرتا تھا ۔ جب اسے جہنم اور قبر کے عذاب کا علم ہوا اسی وقت اس نے اپنے گناہوں سے توبہ کر لی تھی۔
ایک مرتبہ ریفریجریٹر سے سیب کا جوس نکالنے کی کوشش میں جوس کا گلاس گر پڑا ۔
ماں نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا تھا۔
“ نضال ! بتاؤ جوس کیسے گر پڑا؟”
اور اس نے فاطمہ کی جانب انگلی سے اشارہ کردیا تھا۔ امی سے فاطمہ کو بہت ڈانٹ پڑی ۔
اور دوسرا گناہ اس سے اس وقت ہوا جب گھر کے برآمدے میں کھیلتے ہوئے پڑوسی کی بلی کو اس نے پتھر اچھال کر مارا تھا-
کیا اللہ نے اس کی توبہ قبول نہیں کی تھی؟
“الام”
اس بار درد بھری چیخ سرگوشی میں سمٹ گئی۔ اس کا گلا اور زبان خشک ہو چکےتھے۔ جہنم کا خوف اس پر حاوی ہونے لگا۔ اب کسی بھی وقت اس پر عذاب آنا شروع ہوجائگا۔ وہ گنہگار بندوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ کا عذاب نازل ہو رہا ہوگا۔ سب چیخ رہے ہونگے ۔ اللہ سے پناہ مانگ رہے ہونگے۔ امام صاحب نے بتایا تھا کہ اللہ کے گنہگار بندوں کو اس وقت تک عذاب سے گزرنا ہوگا جب تک وہ اپنے گناہوں کا حساب نہیں دے دیتے۔اس اندھیری قبر میں اسے بچھؤں کے زہریلے ڈنک سہنے ہونگے - کسی بھی وقت زہریلے سانپ آکر اس پر ٹوٹ پڑینگے یا پھر بڑا سا اژدھا آکر اس کے جسم سے لپٹ جائے گا-
اس کی سانسیں بے ترتیب ہوگئیں ۔ آنکھیں بند ہوتی گئیں اور وہ دوبارہ بے ہوش ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روتے چیختے اور آہ و زاری کرتے مرد ، عورتیں و بچوں کی آواز یں اس کے کانوں میں پڑیں۔ اس نے آہیستہ سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ۔ وہ سرخ ، گیلے اور گرم فرش پر پڑا ہوا تھا۔ادھ کھلی آنکھوں سے اس نے دیکھا اس کے دائیں بائیں کئی انسانی جسم کچھ تڑپتے، کچھ درد سے چیختے ، کچھ کراہتے اور کچھ بے جان پڑے تھے۔
اس کی دائیں جانب ایک بچہ جس کا بایاں ہاتھ نہیں تھا۔ بس کاندھے کے پاس گوشت کا لتھڑا نظر آرہا تھا۔ بائیں جانب اس کے ابا سےمشابہہ ایک شخص بے حس پڑا ہواتھا۔جس کے سر کے پچھلے حصے سے خون بہہ کر فرش پر پھیلتا جا رہا تھا۔ اس شخص کی آنکھیں کھلی ہوئیں تھیں ۔ مگر پلکیں جھپکنا بند ہوگئیں تھیں۔
اس نے کچھ لوگوں کو ادھر سے ادھر بھاگتے بھی دیکھا ۔ اسے عجب قسم کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ عجب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔اس کی آنکھوں میں سرخی چھانے لگی۔ پورا منظر سرخ ہوگیا۔
اسے یقین ہو گیا ۔ اس کے لئے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اسے جہنم رسید کردیا گیا ہے۔
وہ پوری شدت سے چیخا
اللہ و اکبر اللہ واکبر ، اللہ یغفرلی۔”
نرس اس کی جانب دوڑی ۔ اس کے رخسار اور پھر گردن پر ہاتھ رکھ کر نبض ٹٹولی۔
نضال اپنے سفر پر نکل چکا تھا۔
(نضال :اسم مذکر ۔ معنی :جنت کے گھوڑے پر سوار ہونے والا)
از قلم : عظمت اقبال۔
____________
غزل
قیصرالجعفری
( تبصرہ : Hashim Khan صاحب )
جہاں شکست مسافت ہے پاؤں دھرنا بھی
مجھے وہیں پہ اترنا پڑا ، ٹھہرنا بھی
دعا کرو مری خوشبو پہ تبصرہ نہ کرو
کہ ایک رات میں کھِلنا بھی تھا بکھرنا بھی
تم اتنی دیر لگایا کرو نہ آنے میں
کہ بھول جائے کوئی انتظار کرنا بھی
مرے غرور نے چارہ گری قبول نہ کی
تری نگاہ کو آتا تھا زخم بھرنا بھی
تری گلی سے جو گذرے تو آنکھ بھر آئی
بُھلا چکے ہیں دریچے سلام کرنا بھی
تم اتنے دن تو محبت سے جی لئے قیصرؔ
جو ہو سکے تو سلیقے کے ساتھ مرنا بھی
یہ قیصرالجعفری (مرحوم) کی غزل ہے جو ان کے تیسرے مجموعئہ کلام (دشت بے تمنا،مطبوعہ ۱۹۸۷)
سے ماخوذ ہے۔ قارئین کو یاد دلا دوں کہ گر آپ قیصرالجعفری مرحوم کے کلام سے واقف نہیں ہیں تو یاد رہے کہ یہ وہی قیصرالجعفری مرحوم ہیں جن کی ایک غزل ’’تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے‘‘ زبان زد عام ہے ۔ کل قیصرالجعفری مرحوم کی ایک خوبصورت غزل ’’گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں‘‘استاد رئیس خان صاحب کی خوبصورت آواز میں پیش کی تھی۔ واضح رہے کہ قیصرالجعفری ہندوستان کے بہت ہی معتبر شاعر رہے ہیں اور انہوں نے ایک ایسے دور میں بھی اپنے لہجے میں غزل کارومانی بانکپن برقرار رکھا جب ترقی پسندی کے طوفان میں جگرمرادآبادی جیسےکلاسیکی تہذیب والے شعرا اپنے کلاسیکی لب و لہجے سے مراجعت کرنے لگے تھے۔ قیصرالجعفری صاحب نے ’چراغ حرا‘ کے نام سے ایک منظوم سیرت بھی لکھی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ خالص کیفیاتی ۔اور حقائق سےمملو۔ ( ہاشم خان )
____________
غزل
چاک سے آدھا ادھورا ہی اتارا گیا میں
اور پھر گردشِ دوراں سے گزارا گیا میں
میرے دونوں ہی طرف دوست کھڑے تھے میرے
یعنی میداں میں بہت گھیر کے مارا گیا میں
جن خلاؤں سے ہوا ئیں بھی گزرتی نہیں ہیں
ان خلاؤں سے کئی بار گزارا گیا میں
مجھ سے مسجد میں بھی چھوٹی کہاں میری دنیا
کب عبادت کے لیے سارے کا سارا گیا میں
رانجھا کہتا تھا کوئی، کہتا تھا کوئی مجنوں
بارہا اور ہی ناموں سے پکارا گیا میں
باہر اک بار جو نکلا تو بھٹکتا ہی رہا
پھر پلٹ کر کہاں اپنے میں دوبارہ گیا میں
راجیش ریڈی
ग़ज़ल
चाक से आधा-अधूरा ही उतारा गया मैं
और फिर गर्दिश-ए-दौराँ से गुज़ारा गया मैं
मेरे दोनों ही तरफ़ दोस्त खड़े थे मेरे
यानी मैदाँ में बहुत घेरके मारा गया मैं
जिन ख़लाओं से हवाएँ भी गुज़रती नहीं हैं
उन ख़लाओं से कई बार गुज़ारा गया मैं
मुझसे मस्जिद में भी छूटी कहाँ मेरी दुनिया
कब इबादत के लिए सारे का सारा गया मैं
राँझा कहता था कोई, कहता था कोई मजनूँ
बारहा और ही नामों से पुकारा गया मैं
बाहर इक बार जो निकला तो भटकता ही रहा
फिर पलट कर कहाँ अपने में दुबारा गया मैं
- राजेश रेड्डी