۔۔۔اوریہ نعرے بازیاں
شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
پارلیمنٹ کس لیے ہے؟ کیا پارلیمنٹ کا قیام اس لیے کیاگیا ہے کہ عوامی نمائندے وہا ں جاکر ’بھارت ماتا کی جے‘ اور ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائیں، اور ان کے جواب میں ’اللہ اکبر ‘ اور ’جے فلسطین‘ کے نعرے لگائے جائیں؟ یقیناً پارلیمنٹ کے قیام کا یہ مقصد نہیں ہے۔ پارلیمنٹ یعنی لوک سبھا اورراجیہ سبھا میں عوامی نمائندے اور سیاسی پارٹیوں کے منتخب نمائندے اس لیے جاتے ہیں کہ عوامی کام کراسکیں، عوامی شکایتیں رفع کراسکیں، ملک کے اور جن ریاستوں کی وہ نمائندگی کرتے ہیں مسائل حل کراسکیں۔ او رملک بھر میں امن وامام کے قیام کو ممکن بناسکیں، ترقی کے اور تعلیم کے نئے منصوبے لاسکیں او رملک کے بے روزگاروں کےلیے روزگار کی فراہمی کو اورمہنگائی میں کمی کو ممکن بناسکیں۔ ایک مقصد بہترین داخلہ، خارجہ اور معاشی پالیسیوں کا بنانا بھی ہے۔ لیکن پارلیمنٹ میں سب کچھ ہورہا ہے بس مذکورہ مسائل کے حل پر ہی کوئی غور نہیں کیاجارہا ہے۔نریندر مودی کی قیادت میں ،وہ وزیر اعظم جو ٹھہرے، اس بار بھی وہی پہلے کی پارلیمنٹ کے رنگ ڈھنگ نظر آرہے ہیں۔ جس طرح سے پارلیمنٹ کے آغاز پر یعنی پیر کے روز اور پھر منگل کے روز ہنگامے ہوئے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے یہ اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کا باراں اجلاس ہنگامے کی نذر ہوجائےگا اور کام کاج کے نام پر بس نعرے لگائے جائیں گے۔ منگل کو حلف برداری کے موقع پر جب اویسی کا نام پکارا گیا تو بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ نے ’جے شری رام‘ اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگائے اور جواب میں حلف برداری کے بعد ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے ’جے بھیم، جے میم، جے تلنگانہ، جے فلسطین اور تکبیر اللہ اکبر بلند کی۔ ایوان میںآج ’جے ہندو راشٹر‘ کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ایوان کے اندر تو آئین اور جمہوریت کے حق میں نعرے لگنے چاہئیں، لیکن افسوس یہ ہے کہ اب آئین اور جمہوریت کو طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سب نعرے آئین کے مطابق ہوں جیسا کہ اسدالدین اویسی نے دعویٰ کیا ہے، لیکن کیا اس طرح کے نعروں سے فرقہ وارانہ تفریق واضح نہیں ہوتی؟ کیا ایسے نعرے اس حقیقت کی غمازی نہیں کرتے کہ اس ملک میں فرقہ پرستی اور عصبیت کی جڑیں خوب گہری ہوچکی ہیں؟ ایسے نعروں سے پتہ چلتا ہے کہ حکمراں جماعت لاکھ آئین اور جمہوریت کی باتیں کرے، اسے نہ آئین کی پرواہ ہے اور نہ ہی جمہوریت کی۔ وہ اب بھی ’ہندو راشٹر‘ کا سپنا دیکھ رہی ہے، وہ سپنا جسے اپنے ووٹوں کے ذریعے اس ملک کی ایک بڑی اکثریت مسترد کرچکی ہے۔ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں نے، یعنی این ڈی اے نے پارلیمنٹ میں لگائے گئے نعروں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ عوامی میڈینٹ کی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں اس ملک کے شہریوں نے بی جے پی کے نظریات کو مسترد کردیا ہے، اس کے ارادوں کو شکست دی ہے، لیکن وہ عوام کی مرضی پر راضی رہنے کی بجائے پھر فرقہ پرستی اور ہندو مسلم کا کھیل کھیلنے میں جٹ گئی ہے۔ افسوس چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار پر ہورہا ہے، جو یہ سب خاموشی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، انہیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ دن ایک جیسے نہیں رہتے، الٹ پھیر ہوتی رہتی ہے، کہیں ان کی خاموشی سے شہ پاکر بی جے پی ان کے اراکین کو اپنے خیمے میں ہی نہ ہانک لائے۔ انہیں ہوشیار رہنے کی اورفرقہ پرستی کے خلاف بولنے کی ضرورت ہے تاکہ بی جے پی کو یہ محسوس ہوسکے کہ دال آسانی سے نہیں گلنے والی۔۔۔!
_________
اندرکا آدمی ۔۔۔ 🚩 سید کامی شاہ
آج اردو دنیا میں ہر طرف خالد جاوید کے نام کی گونج ہے اس حلقہ نعرہ زناں میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو کسی زمانے میں خالد جاوید کے سخت ناقد اور مخالف ہوا کرتے تھے کہ یہ آدمی انسان کے اندر کی باتیں اتنی کھول کھول کے کیوں بیان کرتا ہے؟ ایسا ہی مخاصمانہ اور منافقانہ رویہ ایک زمانے میں منٹو کے خلاف بھی دیکھنے میں آیا تھا جب اسے عدالتوں میں گھسیٹا گیا، گھٹیا اور گندا آدمی کہا گیا، پاگل قرار دیا گیا اور شدید مالی و سماجی مشکلات کے ساتھ ساتھ اندوہناک ذہنی اذیت سے دوچارکیا گیا مگر بعد میں وہی منافقینِ زمانہ پینترا بدل کے منٹو کے سب سے بڑے حامی اور خامہ بگوش بن بیٹھے اور آج دنیا بھر میں منٹو کے صد سالہ جشن پر ادب کے نام نہاد ٹھیکیدار بنے جعلی مہذب لوگ فوٹوسیشنز میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ خیرہماری دادی کہا کرتی تھیں کہ دنیا ایسی ہی ہے اور لوگ ہمیشہ ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔ ہمیں صرف اپنے کام اور کردار پر دھیان دینا چاہیے،،
بات ہورہی تھی خالد جاوید کی۔۔۔
ہم ان کے مداحوں میں اس وقت شامل ہوئے تھے جب کوئی بارہ 15 سال قبل اجمل کمال کے ادارے سے ان کے افسانوں کی کتاب تفریح کی ایک دوپہر، دستیاب ہوئی، ہمیں تو اس انوکھے نام نے ہی متوجہ کرلیا تھا کہ دوپہر کے اوقات میں کیا تفریح ہوسکتی ہے، یقینا یہ دلچسپ اور انوکھی کہانیاں ہوں گی اور کتاب پڑھنے پر ہمارا اندازہ بالکل درست نکلا کہ اس کتاب کی ساری ہی کہانیاں نہایت انوکھی دلچسپ اورفکرانگیز ہیں۔ پھر ہمیں اپنے بچپن کے بہت سے ایسے دن یاد آئے جب دوپہر کے کھانے کے بعد سب گھر والے کچھ گھنٹوں کے لیے سوجاتے اور ہم ادھر ادھر کونوں کھدروں میں اور کباڑ خانے میں تفریح ڈھونڈا کرتے تھے، اسی تفریح، تفریح میں ہم نے خود کو بھی ایسے دریافت کیا جیسے کولمبس نے امریکا کو دریافت کیا تھا یعنی اچانک اور غیر متوقع طور پر۔۔۔۔ اسی دوپہری تفریح میں حیرت اور تجسس کے کئی نئے دریچے بھی کھُلے اور نت نئی کہانیوں سے دامن زرخیز ہوا۔ پاکستانی پنجاب میں گرمیوں کی دوپہریں بہت طویل ہوتی ہیں اور بچپن میں ویسے بھی وقت کا دائرہ زیادہ بڑا محسوس ہوتا ہے تو وہ پرانے سامان کی آماجگاہ جسے ہم کباڑ خانہ کہا کرتے تھے بڑا دلچسپ تھا، جہاں وقت کی فراوانی ہوتی تھی اور بہت سارے ناکارہ سامان کے ساتھ پھٹے پرانے ڈائجسٹ، رسالے اورڈھیروں کتابیں بھی تھیں جن میں دانش و بصیرت سے بھری باتیں تھیں اور قصے کہانیوں کی انوکھی دنیا تھی۔۔۔ خیر اس کہانی کو کسی اور دوپہر کے لیے ٹال رکھتے ہیں۔۔۔ اور قصے کہانیوں کی اس انوکھی دنیا کی طرف آتے ہیں جس کے خالق جناب خالد جاوید ہیں۔ تفریح کی ایک دوپہر کو دیکھ کر پہلا تجسس تو یہ تھا کہ خالد جاوید کے ہاں دوپہر کی تفریح کیسی ہوگی اور دوسرا ہمارا یہ اٹل نظریہ پیش نظر تھا کہ کسی بھی کتاب، افسانے یا کہانی کے عنوان کی بہت اہمیت ہوتی ہے، سنجیدہ اور زیرک قلم کار اپنی کہانیوں کے نام رکھنے میں بہت حساس ہوتے ہیں، ایسے لکھنے والوں کے ہاں کوئی بھی چیز بے جواز اور بے دلیل نہیں ہوتی۔
افسانوں کی فہرست پر نظر کی تو ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ عنوان اس بات پر مائل کرنے کو تیار تھا کہ اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے۔۔ پھر ہم نے وہ کتاب پڑھی بھی اور بہت سے دوستوں کو پڑھوائی بھی۔۔۔
تفریح کی ایک دوپہر ہو، برے موسم میں یا روح میں دانت کا درد یا زندوں کے لیئے ایک تعزیت نامہ۔۔
ہر افسانہ اپنی جگہ ذاتِ انسانی کی بوالعجبیوں کو نمایاں کرتا ہے اور انسان سوچتا ہے۔۔۔۔۔
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے۔۔۔،، خالد جاوید کا کمال یہ ہے کہ وہ آدمی کے اندر کی باتوں کو اس سہولت سے باہر لے آتے ہیں کہ ان کی جادو بیانی پر حیرت ہوتی ہے۔
اللہ بھلا کرے ہمارے فکش نگار دوست احمد نعیم کا جو اپنی فیس بک وال پر خالد جاوید کے افسانوں اور ناولوں سے فکر انگیز اقتباسات پیش کرتے رہتے ہیں، نعمت خانہ، ایک خنجر پانی میں، ارسلان اور بہزاد اور موت کی کتاب سے ایسے ایسے اقتباسات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے۔ ادب اور آرٹ کا معاملہ یہ ہے کہ ذہنِ انسانی میں فکر و نظر کے نئے دریچے کھلیں اور اس لحاظ سے خالد جاوید ایک انوکھے ادیب ہیں جن کی ہر کہانی اپنے قاری کے دماغ میں فکر و نظر کے نئے منطقے اجاگر کرتی ہے۔
کافکا نے کہیں کہا تھا کہ بہترین کتاب وہ ہوتی ہے جسے پڑھنے کے بعد آپ کے اندر کوئی ٹوٹ پھوٹ ہو، کوئی لاوا ابل پڑے، کوئی رنج یا راحت آپ کے دل کو گرفت میں لے لے اور آپ وہ شخص نہ رہیں جو اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے تھے۔،،
خالد جاوید کی کتابیں بھی ایسی ہی ہیں۔۔ فکرِ انسانی کو یکسر بدل کر رکھ دینے والی انوکھی اور مزیدار کہانیاں۔۔۔۔
وہ اپنی کہانی کاری میں انتہائی منفرد موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں اور ان کا رشک آمیز بیانیہ قاری کو اپنے ساتھ حیرت، تجسس اور دریافت کی نئی اور انوکھی دنیا میں لے جاتا ہے، جہاں دل و دماغ ایک بھونچال کی زد میں آجاتے ہیں اور یہ کہانیاں پڑھنے کے بعد آپ وہ آدمی نہیں رہتے جو ان کتابوں کو پڑھنے سے پہلے تھے۔
ہمارا ماننا ہے کہ خالد جاوید اردو ادب میں اپنی نوعیت کے ایک ہی ادیب ہیں۔۔۔
رائٹر نہ تو کوئی تبلیغ کار ہوتا ہے نہ مفتی اور نہ جج۔۔۔ وہ تو اپنی حیرت، تجسس اور دریافت کے اس کھیل میں اپنے قاری کو شریک کرتا ہے جس سے لطف اندوز بھی ہوا جا سکتا ہے اور رنج خیزی بھی اٹھائی جاسکتی ہے۔
قدموں کا نوحہ گر ہو یا تاش کے پتوں کا عجائب گھر، خالد جاوید کی ہر کہانی اپنے آپ میں ایک منفرد کتھا ہے۔۔۔۔
آئینہ آئینے کا دشمن ہے
آدمی، آدمی سے ہے بے زار،،
آدمی کے اندر اتنے تضادات ہیں کہ اس خاک کے پُتلے کے پورے نظامِ حیات پر حیرت ہوتی ہے۔۔۔
حیدر علی آتش نے کہا تھا۔۔۔
یہ خاک کا پُتلا بڑی حکمت سے بنا ہے
ہے نُور آنکھ میں تو مغز استخواں میں ہے،،
علی پاک فرماتے ہیں کیسی حیرت کی بات ہے کہ انسان چربی سے دیکھتا ہے، گوشت سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے۔،،
دنیا کے کسی بھی برتن میں ایسی متضاد اشیا ایک ساتھ جمع نہیں کی جاسکتیں جیسی اس بندہِ خاکی میں موجود ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب اپنی اپنی جگہ اپنا اپنا کام کر رہی ہیں۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ پانی کا ایک گھونٹ انسانی بدن میں تین سو سے زائد تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، اور یہ تو فقط ایک مثال ہے اور نہ جانے اندرونی بیرونی کیا کیا چیزیں کیسے کیسے انسان کے جسمانی، جنسی اور نفسیاتی نظام پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
انسان کے ساتھ گندگی اور گناہ بھی جُڑا ہوا ہے اور لالچ اور حسد بھی انسانی زندگی میں کئی طرح کی خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔
سیدی جون ایلیا نے کہیں لکھا تھا کہ میں کسی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اس کے اندر معدے جیسی غیر جمالیاتی چیز بھی ہے۔،، انسانی معدہ بھی اپنے آپ میں ایک عجیب چیز ہے جس کا اپنا دماغ ہے اور وہ پوری انسانی نفسیات پر شدت سے اثر انداز ہوتا ہے، کسی بھوکے آدمی سے بہت زیادہ اخلاقیات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ بقولِ شاعر۔۔۔۔ لوگ بھوکے ہوں تو یہ عقدہ کھلے کون کتنا صاحبِ کردار ہے،،
صرف معدہ ہی کیا انسان کے اندر کئی طرح کی غیر جمالیاتی گیسز اور کیمیکلز بھی ہیں جو انسان کی طبیعت اور مزاج میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں، آپ کے پیٹ کے اندر کی گیس ہی اگر دل و دماغ کو گھیر لے تو نہ صرف دل کی دھڑکن گھُٹ سکتی ہے بلکہ دماغ کی شریان بھی پھٹ سکتی ہے اور بندہ موت سے ہمکنار بھی ہوسکتا ہے۔
کسی افسانوی نشست میں کسی نے اصرار کیاتھا کہ جنس پر نہیں لکھنا چاہیے تو ہم نے استفسار کیا کہ کیوں نہیں لکھنا چاہیے؟ جبکہ جنس آپ کی پہلی شناخت ہے، جنس کی اپنی نفسیات ہے جو آدمی کی مجموعی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے، فرائڈ اگر اس پر بات کرتے ہیں یا بڑے یورپی یا مغربی مصنفین جنسیات کا بلیغ بیانیہ پیش کرتے ہیں تو ہم ان کے مداحین میں شامل ہوجاتے ہیں مگر کوئی اردو ادیب جنس کا لفظ بھی لکھ دے تو وہ سماج میں گندی کہانیاں لکھنے والا مشہور ہوجاتا ہے، جبکہ حقیقت میں شرم گاہِ انسانی اپنے آپ میں ایک انوکھی اور حیرت انگیز دنیا ہے کہ اس کے ذریعے ہم اپنے جیسا جیتا جاگتا انسان پیدا کرنے پر قادر ہوسکتے ہیں۔ مگر ہمارے سماج کا یہ شدید منافقانہ پہلو ہے کہ عمر بھراپنے ہی بدن سے غیریت اپنائے رکھتے ہیں۔ میلان کنڈیرا کے کسی ناول میں ایک منظر ہے جب خاتون جنسی آسودگی کے بعد برہنہ حالت میں سو جاتی ہے تو مرد اس کے بدن کا جائزہ لیتا ہے اور اس کی رانوں کے بیچ دیکھ کر سوچتا ہے کہ یہ کیا جادوئی راستہ ہے جو لذت و راحت کے حیرت انگیز بغیچے میں لے جاتا ہے اور اس کے بنیادی عوامل کیا کیا ہیں۔؟ پھر وہ اگلے پیراگراف میں اس کے چار بنیادی مقاصد بیان کرتا ہے کہ اس کا پہلا کام بدن سے اضافی اور فاضل پانی کو خارج کرنا، دوسرا کام خاتون کے مزاج و کیفیات کو بدلنا، تیسرا کام اپنے ساتھی (پارٹنر) کو لذت و راحت فراہم کرنا اور چوتھا کام نسلِ انسانی کو تخلیق و تجسیم کرنا ہے۔۔۔ تو اس مقام پر قاری کو جنسیت محسوس نہیں ہوتی بلکہ اس کے علم اور گیان میں اضافہ ہوتا ہے، کتابِ حکمت میں فرمایا گیا ہے کہ تم اپنی پیدائش پر غور کیوں نہیں کرتے؟
مگر ہم نے تو جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ پیدائش موت، ذات، کائنات، جذبے، فکر، خیال و خواب سمیت کسی چیز پر غور نہیں کرنا اور جو غور و فکر کرنے والے عظیم لوگ ہیں ان کی ٹانگیں کھینچنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا۔۔۔ ایک شعر کبھی کہا تھا کہ جو دیکھنے کو ہی راضی نہیں ہے خواب کوئی بتائیے اُسے کیسے بھلا نظر آئے،، اور اسی غزل میں شعر تھا کہ۔۔۔ یہ ریگزار کسی آنکھ پر کھلے جو کبھی
ہر ایک ذرہ ءِ ریگ آئینہ نظر آئے ہے دیکھنے کو ضروری نگاہ کا ہونا سو دھیان کر، کہ تجھے دوستا، نظر آئے،،
کوئی پانچ ایک ہزار قبل آریائوں نے دو بڑی کار آمد باتوں کا کھوج لگایا تھا، ایک تو انسانی پیدائش کے حوالے سے کہ انسان ایک جرثومے سے پیدا ہوتا ہے اور ایک بالغ اور صحت مند آدمی کے ایک وقت کے انزال میں جرثوموں (کروموسومز) کی تعداد کم از کم لاکھوں کروڑوں میں ہوسکتی ہے، آج کی جدید سائنس بتاتی ہے کہ ایک صحت مند جوان مرد کے ایک وقت کے انزال میں اتنے کروموسومز ہوتے ہیں کہ دنیا کی نصف سے زائد بالغ عورتیں حاملہ ہوسکتی ہیں جبکہ عورت کے اندر مردانہ جرثوموں کے منتظر انڈوں کی تعداد بھی لاکھوں کرورڑوں میں ہوتی ہے، ایک بچی جب اپنی ماں کے پیٹ میں وجود پاتی ہے تو اس کے اپنے وجود میں بچہ دانی تشکیل پانے لگتی ہے اور اس میں انڈے بھی پیدا ہوجاتے ہیں جو کم و بیش لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ اب وہ بچی کب بڑی ہوگی کب بالغ ہوگی، اس کی شادی ہوگی یا نہیں ہوگی، اسے کیسا صحت مند یا غیر صحت مند مرد، شوہر، پارٹنر ملے گا جو اسے ماں کے منصب پر فائز کر سکے گا یا نہیں کرسکے گا۔۔ یہ سب بعد کی باتیں ہیں فطرت نے اپنا پورا انتظام ماں کے پیٹ میں ہی مہیا کردیا ہے اور یہ انتہائی حیرت انگیز اور تعجب خیز کارخانہ ہے۔۔ دوسری اہم بات یہ کہ یہ ساری کائنات ذرات کا مجموعہ ہے، کسی بھی چیز کو توڑتے جائیں تو آخر میں ذرہ بچتا ہے اور اب جدید سائس نے اس ذرے میں بھی ایک نئی دنیا دریافت کرلی ہے۔۔۔
بقولِ شاعر لہو خورشید کا ٹپکے ہے جو ذّرے کا دل چیریں،،
اس کے باوجود سائنس کا ماننا ہے کہ ان سب کے بیچ میں کوئی پارٹیکل آف گاڈ یا کوئی خدائی عنصر موجود ہے جو ابھی تک انسان کے فہم میں نہیں سما سکا۔۔ آج کے جدید انسان نے خدا، کائنات اور انسان کے بارے میں بہت کچھ جان لیا ہے مگر یقین کریں کہ ہماری نظر میں آدمی آج بھی کچھ نہیں جانتا۔ یہ کائناتی تماشا اتنا وسیع و عریض اور اتنا حیرت انگیز ہے کہ اس پر سوائے تعجب کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
ہمیں اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا۔۔۔۔
ذرے میں رکھ دیئے سبھی آغاز و اختتام
نقطے کو کھینچ تان کے دنیا بنادیا،،
علما ءِ کرام انسان کو مجموعہ تضادات اور دنیا کو دارالامتحان کہتے ہیں، انسان کے اندر اگر نیکی بدی، حسد، لالچ، غرور، تکبر، تعصب اور انتقام جیسے جذبے ہیں تو خواب و خیال، فکر واحساس اور بینائی و دانائی، مہربانی اوردانش و حکمت جیسے عوامل بھی موجود ہیں۔ اور ان سب سے بڑھ کر انسان کے اندر محبت کرنے کی صلاحیت ہے جو اسے افضل بناتی ہے۔
جون ایلیا نے کہا تھا۔۔۔
آدم، ابلیس اور خدا
کوئی نہیں یکسو مجھ میں،، یہ بندہِ خاکی نہ نوری ہے اور نہ ناری ہے کہ اس میں رحمان بھی ہے اور شیطان بھی اور مزے کی بات ہے کہ دونوں اپنے اپنے طور پر اپنا اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ اچھے سے اچھا آدمی بھی کسی لمحے میں خرابی کا باعث بن سکتا ہے اور برے سے برا آدمی بھی کوئی نیک عمل کرسکتا ہے، انسان اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے جو ابھی پوری طرح سے دریافت ہی نہیں ہوسکا۔ چاہے آپ منٹو کا بابو گوپی ناتھ پڑھ لیں یا دوستو وسکی کا کرامازوف برادرز یا کامیو کا اجنبی یا مارکیز کا وبا کے دنوں میں محبت یا سولنزسٹن کا کینسر وارڈ۔۔۔ انسانی عجائبات کی ایسے ایسے نادر مثالیں یہ لکھنے والے سامنے لاتے ہیں کہ ان عظیم ادیبوں سے خوامخواہ محبت ہوجاتی ہے۔ مگر سماجیات کی سطح پر زیادہ تر لوگ انسانی وجود کی گھمن گھیریوں سے نابلد ہی ملتے ہیں۔ ہمیں یہاں پھر سے اپنا ہی ایک شعر پیش کرنے کی اجازت دیں کہ۔۔۔ میں نہیں بن سکا، تُو نہیں بن سکا
جو خداوند کا خواب تھا آدمی،،
فیض صاحب سے کسی نے کہا تھا کہ آپ کی شخصیت میں بہت سے تضادات ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ تضادات کا ہونا کوئی مسئلہ نہیں ان تضادات کو ساتھ لے کر چلنا اور اپنے نظریات پر قائم رہنا بڑی بات ہے۔،، خالد جاوید کی کہانیوں کے کرداروں میں بھی تضادات کی بہتات نظر آتی ہے کیونکہ خالد جاوید انسان کو موضوع بناتے ہیں، انسان جو اس کائنات کا سب سے بڑا موضوع ہے، انسان جو ادب کا بھی سب سے بڑا موضوع ہے اور انسان خدا کا بھی سب سے بڑا اور پسندیدہ موضوع ہے۔۔۔ خالد جاوید کی کہانیوں میں روپ بدل بدل کر سامنے آتا ہے اور قاری کو شدید حیرت سے دوچار کرتا ہے، خاص طور پر عورت، مرد کے فطری اور پیچیدہ رشتے کے بارے میں یہ کہانیاں ایسا منفرد بیانیہ پیش کرتی ہیں کہ مصنف کی بے باکی اور اخلاقی جرات کے ساتھ اس کی دانش مندی اور بلند فکری کو بھی داد دینی پڑتی ہے۔ اپنے موضوعات اور طرزِ سخن کے باعث ہم بنا کسی تردد کے خالد جاوید کو ایک بڑا ادیب قرار دیتے ہیں اور ان کی مزید گوناگوں کامرانیوں کے لیے دُعاگو ہیں۔ (اشاعت پذیر: سہ ماہی دبستان، بھارت اور سہ ماہی تفہیم، راجوری، کشمیر)
آنے والی کتاب تازہ کامی سے انتخاب۔
#tazahkami #khalidjawed #sayedkamishah
Sayed Kami Shah
______________
نوجوان شاعر صدیق اکبر کی تازہ غزل احباب کے لیے
سب کو حسرت سے دیکھتا تھا میں
جانے کس کے لیے بنا تھا میں
اُس کو آواز دے رہا ہوں اب
جس کی آواز پر رُکا تھا میں
خستہ دروازہ تھا سرائے کا
اور دستک سے ڈر رہا تھا میں
شب وہاں سخت پہرے داری تھی
دن دہاڑے جہاں لُٹا تھا میں
اس جگہ سے بھی خوف آنے لگا
جس جگہ خوف سے چھپا تھا میں
تب اداسی وجود میں آئی
چاک پر جب رکھا گیا تھا میں
ہجر نے زرد کر دیا مجھ کو
ورنہ کیسا ہرا بھرا تھا میں
صدیق اکبر( مالیگاؤں/ناسک)انڈیا
__________
ایک غزل احباب کی نذر
غزل
لاکھ پیچھے غموں کا لشکر ہے
پھر بھی چہرا مرا گلِ تر ہے
کوئی صحرا کوئی سمندر ہے
سب کا اپنا میاں! مقدّر ہے
آج پھر اوج پہ مقدر ہے
ہے جبیں میری اور ترا درہے
اس کےاندر بھی ایک منظر ہے
آئینہ آئینے کےاندر ہے
مجھ پہ چلتا نہیں کوئی جادو
یاد مجھکو بھی ایسا منتر ہے
چاہے مفلس ہو یا تونگر ہو
سب نظر میں مری برابر ہے
میں تری دسترس میں ہوں لیکن
تو مری دسترس سے باہر ہے
میرے حصّے میں کیسے آئے گا
وہ کسی اور کا مقدّر ہے
نفس کہتے ہیں اس کو اے لوگو!
اپنا دشمن جو اپنے اندر ہے
پیاس اپنی بجھا نہیں سکتا
وہ بظاہر تو اک سمندر ہے
آج سب کو سمجھ میں آئے گا
کون شیشہ ہے کون پتھر ہے
مجھ پہ سایہ ہے میرے مرشد کا
اور دعاؤں کی سر پہ چادر ہے
شعر دیتے نہیں سلامی یوں
میرا لہجہ ذرا سا ہٹ کر ہے
روز ڈھاتا ہے تو ستم مجھ پر
یار! دلبر ہے یا ستمگر ہے
وہ جو رہتے ہیں شیش محلوں میں
سنگ باری کا بس انھیں ڈر ہے
سب کا اپنا نصیب ہے پیارے
کوئی مفلس کوئی تونگر ہے
کیسے اس کو گلے لگاؤں میں
میں ہوں سورج وہ موم پیکر ہے
میرے رونے پہ ہنس رہےہو تم
بعد میرے تمہارا نمبر ہے
آج تہذیب ان سے زندہ ہے
سر پہ بوسیدہ جن کے چادر ہے
بچ کے رہنا کہ اب بھی لشکر میں
میر صادق ہی میر جعفر ہے
اس کو کیوں یہ سمجھ نہیں آتا
وہ مری زندگی کا محور ہے
یاد رکھ خوش دلی سے ڈھونا ہے
بار رشتوں کا جو ترے سر ہے
عرفان ندیم مالیگاؤں