حج ایک مذہبی عمل ہے جس کے تحت مخصوص مذہبی رسومات کو انجام دینے کے لیے زائرین کسی مقدس مقام کا سفر کرتے ہیں۔ یہ رواج صرف اسلام تک محدود نہیں بلکہ اس کا تصور مختلف قدیم تہذیبوں میں موجود تھا۔
لوگوں کا ماننا تھا کہ مقدس مقامات کی زیارت کرنے اور اس سے منسلک رسومات انجام دینے سے انھیں خوشحالی، روحانی تزکیہ اور دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل ہو گی۔
قدیم مصریوں میں ابیڈوس شہر (جو عصرِ حاضر میں صوبہ سوہاگ میں آتا ہے) کی زیارت کو دیوتا اوسیرس کی عبادت سے جوڑتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ’حج‘ موت کے بعد کی زندگی کے سفر کو محفوظ بنا دے گا۔ اس زیارت سے جڑی رسومات میں جنازے کے جلوس اور قربانیاں بھی شامل تھیں۔
یہ شہر ان مصری زائرین کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے جو ابیڈوس میں اوسیرس کے مقبرے کے قریب دفن ہونے کے خواہاں تھے۔
جو افراد ابیڈوس میں تدفین کے متحمل نہیں تھے وہ اپنے ناموں، لقبوں اور دعاؤں کی تختیاں وہاں لگاتے تھے۔
عالمی ثقافتی ورثہ کی سائٹ کے مطابق ابیڈوس فرعونوں کے لیے ایک زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
یہ جگہ مصر کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیے جانے کی عارضی فہرست کا حصہ ہے۔
ابیڈوس کو پہلی مصری سلطنت کے زمانے سے ایک مقدس شہر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس آثارِ قدیمہ کے نمونے میں شہر کی باقیات، ملکہ تیتیشیری کا اہرام، جنازہ گاہ، سرکوفگی، اور چھتوں والا مندر شامل ہے۔
اس کے علاوہ ام القعاب میں شاہی مقبرے بھی دریافت ہوئے ہیں۔
اوسیرس کی عبادت
ابیڈوس مصر کے صوبہ سوہاگ کے شہر البلینا کے قریب واقع ہے۔ اس شہر کو قدیم مصری زبان ’ہیروگلیفکس‘ میں ’عبدجو‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ یہ ایک بڑا مذہبی مرکز ہواکرتا تھا جو اوسیرس کے لیے وقف تھا جسے قدیم مصری موت کے بعد کی زندگی کا خدا مانتے تھے۔
ابیڈوس کی ابتداء مصر کے پہلے شاہی خاندان کے دور سے پہلے کی ہے۔ اس زمانے میں اسے ایک مقامی مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔
مصر کے اتحاد اور پہلی سلطنت کے قیام کے ساتھ ہی ابیڈوس فرعونوں کے لیے ایک اہم مقام بن گیا۔ یہاں ’ام القعاب‘ کے مقبرے بھی ہیں جن میں پہلی اور دوسری سلطنتوں کے بادشاہ دفن ہیں۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق ام القعاب کے مقبروں سے مٹی کے برتن، شاہی نشانات، ہاتھی دانت سے بنی چیزیں اور پہلی سلطنت سے قبل کے بادشاہوں کے نام بھی موجود ہیں۔
یہاں کندہ شدہ نشانات سے پتا چلتا ہے کہ قدیم مصری زبان ابتدائی عرصے میں ہی اعلیٰ درجے تک پہنچ گئی تھی۔
صحرا کے نزدیک مٹی کی اینٹوں سی بنی عمارتوں کو پہلی اور دوسری سلطنتوں کے بادشاہوں کے جنازہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں سے سفید مٹی کی اینٹوں سے ڈھکی لکڑی کی کشتیاں بھی دریافت ہوئی ہیں جو اس دور میں آخری رسومات کی اہمیت کی نشاندہی کرتی ہے۔
ابیڈوس کی زیارت کی رسم کا آغاز مصر کی قدیم ترین بادشاہت کے دور سے شروع ہو گیا تھا اور ہر دور کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی گئی۔
یونیسکو کی ویب سائٹ کے مطابق ابیڈوس کی زیارت مذہبی عقائد میں تبدیلیوں اور ہر دور کے ساتھ اوسیرس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے جو رفتہ رفتہ موت کے بعد کی زندگی اور دوبارہ زندہ کیے جانے کے اصل خدا بن گئے تھے۔
یہ زیارت مذہبی رسومات اور اظہاری علامتوں سے بھرا ایک مقدس روحانی سفر تھا جس میں شرکت کے لیے پورے مصر سے زائرین یہاں آتے تھے۔
زائرین دریائے نیل کے کنارے پیدل چل کر یا کشتی کے ذریعے ابیڈوس پہنچتے تھے۔ یہ ’حج‘ پہلے مہینے کے آٹھویں دن شروع ہوتا جو اس ہی مہینے کی 26ویں تاریخ تک جاری رہتا تھا۔
اس دوران زائرین علامتی جنازوں کے جلوسوں میں حصہ لیتے جس میں اوسیرس کی موت اور اس کے دوبارہ زندہ کیے جانے کے واقعے کو بیان کیا جاتا تھا۔ یہ جلوس تھیبس میں کرناک مندر سے شروع ہوتے اور ابیڈوس میں اختتام پذیر ہوتے۔
روایات کے مطابق اوسیرس کو اس کے بھائی سیٹ نے قتل کردیا تھا تاہم آئیسس نے اسے دوبارہ زندہ کردیا۔ اس پورے واقعے کو زندگی، موت اور دوبارہ زندہ کیے جانے کے چکر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
ابیڈوس پہنچنے پر زائرین اوسیرس کو نذرانہ پیش کرتے جس میں جانوروں کی قربانیوں کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ ان قربانیوں کا مقصد خداؤں کی خوشنودی کا حصول اور موت کے بعد کی زندگی کو ابدی بنانا تھا۔ زائرین اپنے نام اور دعائیں پتھر کی تختیوں پر کندہ کرنے کے بعد انھیں مندر میں ہیں چھوڑ جاتے تھے۔
دوسری دنیا کا راستہ
مصریوں کا خیال تھا کہ ابیڈوس موت کے بعد کی زندگی کے لیے ایک ’گیٹ وے‘ ہے اور وہاں مدفن اوسیرس قیامت اور ابدی زندگی کو یقینی بنا سکتا ہے۔
ان آخری رسومات کا مقصد اوسیرس کو مطمئن کرنا اور مر چکے افراد کو موت کے بعد کی زندگی میں امید دلانا تھا۔
ابیڈوس کی زیارت قدیم مصریوں کے لیےموت کے بعد کی زندگی میں ان کے عقائد کی عکاسی کرتی ہے۔
وہاں مندر تعمیر کروا کر ہر دور کے فرعون اپنی حکمرانی کو جواز بخشنے اور دیوتاؤں کی اولاد کے طور اپنی حیثیت کی تصدیق کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
پرانی بادشاہت (اولڈ کنگڈم) میں قبروں کا سرپرست گیدڑ دیوتا کھینٹی آئمینٹیو تھا۔ پانچویں سلطنت کے قیام کے ساتھ دیوتا اوسیرس کی عبادت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا اور اس طرح ابیڈوس اس دیوتا کی عبادت کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔
سیٹی اول کا مندر انیسویں سلطنت کی سب سے نمایاں نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس مندر کی دیواریں نفیس ڈیزائن سے مزین ہے جن میں ایٹی اول اور اس کے بیٹے میسس دوم کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کا ذکر ہے۔
مصر میں امریکن ریسرچ سینٹر کی ویب سائٹ کے مطابق یہ مندر عام مندروں کی مستطیل شکل میں نہیں ہے بلکہ اسے انگریزی حرف ’L‘ کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ اس کی تعمیر میں چونے کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔
یہ مندر سیٹی اول کی موت کے بعد اس کے بیٹے رمیسس دوم کے دور حکومت میں مکمل ہوا۔
سیٹی اول کے مندر کے عقب میں ایک اور چھوٹا سا مندر ہے جسے اوسیریون کہا جاتا ہے۔ یہ اوریسس کا ایک علامتی مقبرہ ہے۔ اس میں ایک زیر زمین ہال ہے جس میں 10 ستونوں پر کھڑا ایک پلیٹ فارم موجود ہے جس کے چاروں اطراف پانی ہوا کرتا تھا۔ یہ مندر ایک تعمیراتی معجزہ ہے جو قدیم مصریوں کی انجینئرنگ میں مہارت کی عکاسی کرتا ہے۔
ابیڈوس کی مذہبی اور ثقافتی اہمیت
ابیڈوس میں کھدائی نے شہر کی طویل تاریخ اور مذہبی مرکز کے طور پر اس کے کردار کو اجاگر کیا ہے۔ ام القعاب کے مقبروں میں ابتدائی خاندان کے بادشاہوں میں سے ایک ڈیجر کے مقبرے کی دریافت سے شاہی تدفین اور مصری ریاست کی ابتدائی تشکیل کے بارے میں بہت سی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
سنہ 2014 میں یہیں فرعون سینبیکائی کی قبر دریافت ہوئی تھی۔ ان کے سلطنت کے بارے میں ماہرِ آثارِ قدیمہ کو پہلے کچھ خاص معلومات نہیں تھی۔ یہ ابیڈوس کی اہمیت اور مصری تاریخ میں اس کے کردار کو واضح کرتی ہے۔
ابیڈوس قدیم مصر کی مذہبی اور ثقافتی دولت تاریخ کا حصہ اور اس کے مندر، مقبرے اور داستانیں قدیم مصریوں کے لیے اس جگہ کی روحانی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے۔
ابیڈوس کا ثقافتی اور علامتی ورثہ مصری فن، ادب اور مذہبی طریقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ مصر بھر میں مندروں اور مقبروں میں اوسیرس، آئسس اور ہورس کی تصاویر مصری ثقافت میں ابیڈوس کے افسانے کی مرکزیت کی عکاسی کرتی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قدیم تہذیبوں میں اس طرح کی کئی رسومات پائی جاتی تھیں۔ بابل تہذیب میں نیپور شہر کو اہم مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل تھی جہاں لوگ انلل کے مندر کی زیارت کرتے تھے۔ سمیری تہذیب میں اُر شہر میں واقع دیوی نانا کا مندر بھی ایسی ہی اہمیت رکھتا ہے۔
قدیم یونان میں، ڈیلفی کی زیارت سب سے مشہور مذہبی سفروں میں سے ایک تھا۔ ڈیلفی کی زیارت کے دوران قربانیاں پیش کی جاتیں اور پائیتھیان گیمز میں شرکت کی جاتی تھی۔ پائیتھیان گیمز کا میلہ ہر چار سال بعد منعقد کیا جاتا تھا۔
قدیم روم میں ویسٹا کے مندر، مشتری کے مندر، اور ڈیمیٹر کے مندر جیسے مقامات کی زیارتیں رومی مذہبی رسومات کا حصہ تھیں۔
تمام قدیم تہذیبوں میں، زیارتوں کو ہمیشہ سے اہمیت حصل رہی ہے۔ اس کو ایسی عبادت سمجھا جاتا جو لوگوں کو دیوتاؤں سے جوڑتی اور روحانی و سماجی روابط کو مضبوط کرتی۔ مقدس مقامات کے دوروں میں شامل مختلف رسومات ہر تہذیب کے مذہبی عقائد کی عکاسی کرتی تھیں۔