اقوامِ متحدہ کے مطابق جنوبی غزہ میں ایک ماہ کے دوران غزہ کی تقریباً نصف آبادی یعنی دس لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔
غزہ میں سات ماہ کی جنگ کے بعد اسرائیلی فوج نے چھ مئی کو رفح شہر میں زمینی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ اسرائیل کا اصرار ہے کہ رفح پر قبضے اور حماس کی بچ جانے والی بٹالین کو ختم کیے بغیر فتح ناممکن ہے۔
اسرائیل نے رفح میں موجود فلسطینیوں کو حکم دیا کہ وہ ریتیلے ساحلی علاقوں یا تباہ شدہ خان یونس شہر کی طرف چلے جائیں۔
اب اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اتنے کم عرصے میں بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی اور امداد کی ترسیل میں کمی کے مہلک نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی پناہ گزین (یو این آر ڈبلیو اے) کی ڈائریکٹر کمیونیکیشنز جولیٹ توما نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’بچے غذائی قلت اور پانی کی کمی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔‘
چھ مئی کو اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان اویخے ادرائی نے مشرقی رفح میں فلسطینیوں کو ہدایت کی کہ وہ ’انسانی امدادی زون‘ میں منتقل ہو جائیں جو قریبی المواسی سے مرکزی قصبے دیر البلاح تک پھیلا ہوا ہے اور کہا کہ وہ وہاں انھیں فیلڈ ہسپتال، خیمے، خوراک اور دیگر سامان فراہم کریں گے۔
اس کے بعد اسرائیلی دفاعی فورسز نے مصر کے ساتھ رفح کی سرحدی گزرگاہ کا کنٹرول سنبھال لیا اور اس نے مشرقی رفح میں حماس کے کارکنوں کے خلاف ’انسداد دہشت گردی کارروائی‘ کا آغاز کیا۔
رفح کے دیگر علاقوں میں رہنے والے فلسطینی اپنی عارضی پناہوں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ فوجیں مرکزی علاقوں میں داخل ہو گئی تھیں۔
غائب ہوتے خیمے
بی بی سی عربی نے مغربی اور وسطی رفح کی حالیہ سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں بے گھر ہونے والوں کے ہزاروں خیمے اب وہاں موجود نہیں ہیں۔
یکم جون کو مغربی رفح کی فضائی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ گنجان آباد علاقے ویران ہو چکے ہیں۔
تل السلطان جہاں پناہ گزینوں کا ایک بڑا کیمپ واقع ہے کچھ اسی طرح کی تصویر پیش کرتا ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بڑی اراضی سے خیمے ہٹ گئے ہیں۔
اگرچہ آئی ڈی ایف نے مشرقی رفح میں لوگوں کو نقل مکانی کرنے کی ہدایت کی تھی، لیکن وسطی اور مغربی حصوں کو انخلا کے احکامات نہیں دیے گئے تھے۔
لیکن 26 مئی کو اسرائیلی حملے کے نتیجے میں تل السلطان میں بے گھر فلسطینیوں کے ایک کیمپ میں آگ لگ گئی تھی جس کے بعد لوگ ان علاقوں سے بھاگ گئے ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں 45 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں کئی بچے بھی شامل تھے۔
عالمی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس حملے کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی تھی لیکن آئی ڈی ایف کا کہنا تھا کہ وہ حماس کے کمانڈروں کو نشانہ بنا رہا ہے اور وہ حملے کی تحقیقات کرے گا۔
تاہم 13 روز گزرنے کے باوجود بھی تاحال اس حوالے سے کوئی تحقیقات سامنے نہیں آئی ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی افواج آہستہ آہستہ مشرق اور جنوب سے رفح کے تعمیر شدہ علاقوں میں داخل ہو رہی ہیں۔ 28 مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں ایک بکتر بند گاڑی اور فوجیوں کو وسطی العودہ چوک پر دیکھا گیا تھا۔
یکم جون کی سیٹلائٹ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رفح کے قریب کئی بکتر بند گاڑیاں بھی موجود ہیں۔
یکم جون کو لی گئی سیٹلائٹ تصویر میں الابرار مسجد کی تباہی کے ساتھ ساتھ وسطی رفح میں قریبی مارکیٹ کی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں رفح میں آئی ڈی ایف نے غزہ اور مصر کی سرحد کے ساتھ سٹریٹجک طور پر اہم بفر زون کے کنٹرول کا اعلان کیا ہے جسے فلاڈیلفی کوریڈور کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال
اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ شہر پر حملے کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔
یو این آر ڈبلیو اے کی جولیٹ توما نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ ہر روز مر رہے ہیں۔۔ ۔ اطلاعات کے مطابق ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ ان میں سے بہت سے طبی دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ غذائی قلت اور پانی کی کمی کی وجہ سے بچے مر رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ضروری ہے کہ غزہ کے لیے انتہائی ضروری اور زندگی بچانے والی اشیا بھیجنے کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہے کیونکہ غزہ میں 20 لاکھ لوگوں کی زندگیوں کا انحصار اس پر ہے۔‘
جنوبی غزہ میں رفح کراسنگ مصر کے راستے امداد کا اہم داخلی راستہ تھا تاہم مئی کے اوائل میں اس ہر اسرائیل کے کنٹرول کے بعد سے اسے فلسطین کی طرف سے بند کر دیا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنوب میں داخلے کے دوسرے مقام کریم شالوم کے ذریعے امداد پہنچا رہا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ گزرگاہ بہت خطرناک ہے۔
دریں اثنا عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ رفح میں اسرائیل کی فوجی مداخلت اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے شہر کے تین اہم ہسپتال بند ہو گئے ہیں۔
شہر پر بڑھتا دباؤ
اقوام متحدہ کے مطابق اکتوبر میں جنگ شروع ہونے سے قبل رفح کی آبادی ڈھائی لاکھ تھی۔ تاہم اب چند ماہ میں یہ تعداد بڑھ کر 14 لاکھ ہو چکی ہے جس سے رفح ایک بڑے پناہ گزین کیمپ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
اکتوبر میں آئی ڈی ایف نے غزہ شہر اور وسطی علاقوں سمیت شمال میں شہریوں سے کہا کہ وہ جنوب میں وادی غزہ ندی کے کنارے کی طرف چلے جائیں۔
بعد ازاں خان یونس شہر سمیت دیگر علاقوں پر اسرائیلی حملوں نے فلسطینیوں کو مزید جنوب کی طرف دھکیل دیا۔
خیال رہے کہ 24 مئی کو عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ فوری طور پر اپنی فوجی کارروائی اور رفح میں کوئی اور کارروائی روک دے۔