رواں ہفتے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان دشمنی اور کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر بڑے پیمانے پر میزائل بھی داغے گئے ہیں۔
تاہم عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے موقعے پر فائرنگ کے حالیہ شدید تبادلے کی جگہ دھمکیوں نے لی ہے۔ اس کی وجہ سے کشیدگی میں تو کمی آئی ہے مگر دونوں جانب سے تُند و تیز جملوں کا تبادلہ جاری ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے بدھ کے روز دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ مکمل جنگ چھڑ گئی تو وہ شمالی اسرائیل پر حملہ کریں گے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حزب اللہ کے پاس ’نئے ہتھیار‘ ہیں جنھیں وہ میدانِ جنگ میں استعمال کریں گے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا گروپ اسرائیل کے ساتھ مکمل جنگ نہیں چاہتا اور وہ غزہ میں اپنے اتحادی حماس کی حمایت کے لیے مداخلت کر رہے ہیں۔
منگل کے روز حزب اللہ نے شمالی اسرائیل کے شہر حیفہ کی ڈرون فوٹیج جاری کی جس میں اہم فوجی اور شہری مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسے اسرائیل کے لیے ایک دھمکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ وہ تنازعے میں اضافہ نہ کرے بصورت دیگر حیفہ پر ایک مہلک حملہ ممکنہ طور پر ایک نئے محاذِ جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔
نصر اللہ کا کہنا تھا کہ یہ حزب اللہ کی اپنے دشمن کے خلاف ’نفسیاتی جنگ‘ کا حصہ ہے۔
ویڈیو کے سامنے آنے کے چند گھنٹوں کے بعد اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے کہا کہ ان کی حکومت ’حزب اللہ اور لبنان کے خلاف قوانین میں تبدیلی کے فیصلے کے بہت قریب ہیں۔‘
اسرائیلی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی نئی مہم جوئی کرنے کی کوشش کی گئی تو حزب اللہ تباہ ہو جائے گی اور لبنان کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اور بیان میں کہا گیا ہے کہ لبنان میں حملے کے آپریشنل منصوبوں کی ’منظوری اور توثیق‘ کی جا چکی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ نہ اسرائیل اور نہ ہی حزب اللہ اس وقت جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ سرحد کے دونوں جانب لاکھوں لوگوں کو تباہی کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ ایسی صورت میں حزب اللہ کے حمایتی ایران اور امریکہ جو کہ اسرائیل کا کلیدی اتحادی ہے کو بھی نہ چاہتے ہوئے اس جنگ میں کودنا پڑے گا۔
لیکن ڈیٹرنس اور جنگ کی خواہش کے درمیان کی لکیر دھندلی پڑتی نظر آتی ہے۔
اسرائیلی حکومت میں شامل کچھ افراد کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے کیے جانے والے حملوں نے سکیورٹی کا نقطہِ نظر بالکل تبدیل ہو گیا ہے۔
ان کے خیال میں جب تک کہ حزب اللہ کو شکست نہیں ہوجاتی تب تک شمالی علاقوں کے رہائشی اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے ہیں۔
شمالی علاقوں کے رہائشی بہت سے باشندے اس سے متفّق ہیں۔
جب سے حزب اللہ کی جانب سے اپنے فلسطینی اتحادی حماس کی حمایت میں شمالی اسرائیل پر راکٹ اور میزائل داغنا شروع کیے ہیں تب سے تقریباً 60,000 سے زیادہ افراد سرحد سے دور عارضی رہائش میں رہ رہے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی افواج کی جوابی فضائی اور توپخانے کے حملوں کی وجہ سے 90,000 زیادہ لبنانی بھی بے گھر ہو چکے ہیں۔
جیوش پیپل پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے سے پتا چلتا ہے کہ سروے میں حصہ لینے والے 800 اسرائیلیوں میں سے 60 فیصد سے زیادہ ’پوری طاقت کے ساتھ‘ حزب اللہ پر حملہ کرنے کے حق میں ہیں۔
ایک تہائی سے زائد (36 فیصد) افراد چاہتے ہیں کہ یہ ’جلد سے جلد‘ کیا جائے۔ وہ اس کے لیے غزہ میں حماس کے خلاف جاری جنگ کے خاتمے کا انتظار نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تعداد تین ماہ قبل کیے جانے والے اسی طرح کی ایک رائے شماری سے کہیں زیادہ ہے۔
اسرائیلی حکومت شاید غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے ایک اور محاذ کھولنے میں ہچکاہٹ کا شکار ہے وہ بھی ایک ایسے دشمن کے خلاف جو حماس سے کہیں مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
تاہم رواں مہینے اسرائیل نے ریزروو فوجی اہلکاروں کی حد کو تین لکھ سے بڑھا کر 350,000 کر دیا ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے کہ شمال میں ایک اور جنگ کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حکومت ریزرو ڈیوٹی کی عمر کی حد میں بھی ایک سال کی توسیع کرنے کوشش کر رہی ہے۔
پچھلے آٹھ مہینوں کے دوران نہ صرف دونوں جانب سے سرحد پار حملوں میں شدت آئی ہے بلکہ نشانہ بنائے جانے اہداف بھی وسیع ہوتے جا رہے ہیں۔
عید سے پہلے لبنان سے ہونے والے ڈرونز اور راکٹوں حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حملوں میں یہ شدّت حزب اللہ کے سینیئر کمانڈر طالب عبداللہ کی ایک حملے میں ہلاکت کے بعد آئی ہے۔
حزب اللہ کے حملوں میں ٹینک شکن میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
دونوں جانب سے بڑھتی ہوئی جوابی کارروائیوں کے پیشِ نظر فریقین کے ایک بھرپور جنگ میں پھنس جانے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق کہ حالیہ جھڑپوں میں اب تک لبنان میں 400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بہت سے عام شہری بھی شامل ہیں جبکہ کم از کم 25 اسرائیلی فوجی اور عام شہری بھی مارے گئے ہیں۔
اس ہفتے امریکہ نے سرحد کے دونوں جانب اپنے ایلچی کو بھیجا تاکہ تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ لیکن حزب اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ یہ حملے اپنے اتحادی حماس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کر رہا ہے۔ ایسے میں غزہ میں جنگ بندی معاہدہ ہی شمالی علاقوں میں کشیدگی کو کم کرنے کا واحد قابل عمل سفارتی حل دکھائی دیتا ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو پر امن قائم کرنے کے لیے کافی دباؤ ہے تاہم دونوں تنازعات کو جاری رکھنا ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
حماس کی قیادت کو مارے، پکڑے یا غزہ سے بے دخل کیے بغیر اسرائیلی وزیر اعظم کے لیے غزہ میں فتح کا دعویٰ کرنا مشکل ہو گا وہ بھی ایسے میں جب حماس کی منظم عسکری بٹالین بدستور فعال ہے۔
اور جب تک غزہ میں حماس کے خلاف جنگ جاری رہے گی تب تک نتن یاہو کی فوج حزب اللہ کے مزید کمانڈروں اور شمالی سرحد کے ساتھ حزب اللہ کی مزید پوزیشنوں کو نشانہ بناتی رہے گی۔ ایسا کرنے سے انھیں یہ جواز پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ دونوں تنازعات کے حل بعد ہی شمالی علاقوں کے رہائشی اپنے گھوں کو واپس جا سکیں گے۔
نتن یاہو وقت حاصل کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن شمال میں فریقین آگ سے کھیل رہے ہیں۔