پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور خیبر پختونخوا کے قبائلی عمائدین نے صوبے میں ’آپریشن عزم استحکام‘ کے نام سے مجوزہ فوجی آپریشن کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے سنیچر کو نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے اس فوجی آپریشن کی منظوری دی تھی جس میں وزیراعظم کے علاوہ ملک کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور آرمی چیف بھی موجود تھے۔
تاہم اتوار کی دن منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں اور متعدد سیاسی رہنماؤں نے مجوزہ فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت کی اور سپیکر کی طرف سے اس معاملے پر بات کرنے کا موقع نہ دیے جانے پر اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے شکوہ کیا کہ ’نہ ہمیں اس آپریشن کے بارے میں کچھ پتا ہے اور نہ ہی پالیسی کا معلوم ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ یہ ’انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن ہے تو یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس حد تک عندیہ ضرور دیا کہ ’آج خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سکیورٹی کی صورتحال انتہائی خراب ہے، اس وقت سب کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، بنوں، ٹانک، لکی مروت، کرم، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں میں کچھ عرصے سے بدامنی کے خلاف امن جرگے، کانفرنسز اور اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے تاہم یہاں کسی نئے فوجی آپریشن کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
ہم نے ان علاقوں میں مقامی افراد، سماجی کارکنان، قبائلی عمائدین سے بات کر کے ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کی ہے جن کی بنا پر وہ کسی قسم کے فوجی آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹیڈیز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کے واقعات میں مسلسل اور تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔ اگر حالیہ عرصے کے دوران پیش آنے والے واقعات کا ہی جائزہ لیا جائے تو 9 جون کو لکی مروت میں ایک فوجی کپتان سمیت سات اہلکار دھماکے میں ہلاک ہوئے جبکہ 27 مئی کو خیبر کے علاقے میں پانچ فوجی اہلکار شدت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 26 اور 27 مئی کے دنوں میں 23 مسلح شدت پسندوں کو پشاور، خیبر اور ٹانک کے علاقوں میں ہلاک کیا گیا۔
بی بی بی سی کی جانب سے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے بھی رابطہ کیا گیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ یہ آپریشن کہاں ہو گا اور اس کی کیا تفصیلات ہیں اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو کیسے دور کیا جائے گا تاہم آئی ایس پی آر کی جانب سے اب تک جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
مگر پہلے ایک نظر دوڑاتے ہیں کہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اس فوجی آپریشن کی کیوں مخالفت کر رہی ہیں۔
’ہم اس آپریشن کو نہیں تسلیم کرتے‘
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مجوزہ فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے جو بھی آپریشن ہوئے اس پارلیمان نے اس کے پیرامیٹرز طے کیے تھے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں ایوان کی بالادستی قائم ہو، مشترکہ اتفاق رائے کے ساتھ ہو، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قیادت پہلے ان کمیرہ بریفنگ دے پھر کوئی کارروائی ہو۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس کی کارروائی کے دوران دعوی کیا کہ ایپکس کمیٹی میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ موجود تھے جنھوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔
اس دعوے کی پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تردید کی ہے۔
اسد قیصر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے فون پر بات ہوئی ہے جنھوں نے بتایا کہ ’ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ وہاں معمول کی باتیں ہوئی ہیں۔ آپریشن سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔‘
اسد قیصر نے کہا کہ ’ہمیں واضح نہیں ہے کہ یہ آپریشن کر رہے ہیں یا نہیں۔ مجھے ابھی پتا نہیں ہے کہ اس کی پلاننگ کیا ہے، اس آپریشن سے کیا چاہتے ہیں؟ اتنا کہوں گا کہ یہ ایک معمول کا (ایپکس کمیٹی کا) اجلاس تھا اور اس معاملے پر ایک معمول کی بات ہوئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پارٹی کی پالیسی واضح ہے۔ ہم اس آپریشن کو نہیں تسلیم کرتے۔‘
اسد قیصر نے کہا کہ ’سب سے پہلے تو بات یہ ہے کہ ہم آپریشن کے بہت ڈسے ہوئے ہیں۔ سوات اور وزیرستان میں آپریشن ہوئے ہیں۔ اب سب سے پہلے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ان آپریشنز سے کیا ملا؟ ان میں لوگوں کا بہت نقصان ہوا۔‘ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ’اس معاملے کو پارلیمنٹ کے سامنے لایا جائے تا کہ مشترکہ دانش سامنے آئے۔‘
حکومتی وزرا قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران یہ یقین دہانی کراتے رہے کہ اس فوجی آپریشن کے معاملے کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا اور پھر اسے ایوان یعنی قومی اسمبلی میں بھی بحث کے لیے لایا جائے گا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ’دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے عزم استحکام آپریشن کی ضرورت پڑی، اس کی منظوری کابینہ اور پارلیمنٹ سے لی جائے گی۔‘
’دکھاوے کے آپریشن‘
نیشنل ڈیموکریٹک مومنٹ پارٹی کے افرا سیاب خٹک نے کہا کہ ’پہلے یہ طے کر لیں کہ ماضی میں فوجی آپریشن کے کیا نتائج رہے۔‘
افراسیاب خٹک کے مطابق ’لوگ دہشتگردوں کے خلاف ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ امن آئے۔‘ ان کے مطابق ’ہم سیاح نہیں ہیں، یہاں کے مقامی ہیں اور ہم یہ جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور طالبان ایک ہی چیز ہیں، ہمارے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ مگر 2021 تک ہم یہ بات تسلیم ہی نہیں کرتے تھے کہ یہ ایک ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ دکھاوے کے آپریشن ہیں۔‘
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ آپریشن شروع کرنے سے قبل ’ریاست پاکستان ضرور ان باتوں کی وضاحت کرے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟ گذشتہ حکومت میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی سربراہی اور عمران خان کی منظوری سے جو دہشتگرد واپس لائے گئے اور ان کو ری سیٹل کیا گیا، کیا اس عمل پر کسی کو سزا اور جزا دی گئی؟‘
ایمل ولی خان نے کہا کہ ’اے این پی اس آپریشن کی کھلم کھلا مخالفت کرتی ہے اور جب تک تمام اسمبلیوں، سینیٹ اور سٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور پرانے حساب کتاب کے ساتھ ساتھ ذمہ داران کا تعین نہیں کیا جاتا تب تک ہمیں اس آپریشن پر کوئی اعتماد نہیں۔‘
’پہلے ماضی کے فوجی آپریشنز کا حساب دیا جائے‘
پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم آپریشن کی مخالفت اس وجہ سے کرتے ہیں کہ اس سے پہلے دو لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں اور لوگ آج تک گھر تعمیر کرنے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے اور فوجی آپریشن کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں 36 بازار مسمار کیے گئے۔‘
منظور پشتین کے مطابق ’مقامی لوگ امن چاہتے ہیں مگر وہ دیرپا امن کے خواہاں ہیں۔‘ منظور پشتین کے مطابق ’ماضی میں جن لوگوں کے خلاف آپریشن کیا گیا وہ مزید مضبوط ہو گئے ہیں۔‘
انھوں نے مطالبہ کیا کہ ’پہلے ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنز کا حساب دیا جائے کہ 800 سے زیادہ فوجی پوسٹوں کے ہوتے ہوئے امن کیوں نہیں قائم ہو رہا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’کسی بھی نئی مہم جوئی سے قبل مقامی آبادی کو اعتماد میں لیا جائے کیونکہ ان کا بھی کوئی حق ہے۔‘
دوسری جانب محسن داوڑ نے بی بی سی کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’بنیادی طور پر یہ امریکہ کے مفاد کی جنگ ہے جو کبھی ایک کبھی دوسرے نام سے لڑی جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ نہیں ہو سکتا کہ افغان طالبان کی لیڈرشپ کو پروٹوکول بھی دیں اور ان کے ماتحت گروہ جو پاکستان میں آپریٹ کرتے ہیں، ان کے خلاف آپریشن کا اعلان کریں تو یہ دو چیزیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔‘
واضح رہے کہ 22 مئی کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں کے داخل ہونے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کے خلاف اپنی زمین کو استعمال نہ ہونے دے۔
’مخصوص انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیے جائیں‘
ٹانک کے رہائشی پتولالا بیٹنی ایک سمجاجی کارکن ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’قبائلی علاقوں اور صوبے کے جنوبی اضلاع میں لوگ بدامنی سے تنگ ہیں اور وہ امن چاہتے ہیں مگر کوئی بھی فوجی آپریشن سے خوش نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق امن لانے کے لیے مخصوص انٹیلجنس بیسڈ آپریشن کیے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس دفعہ قبائل کسی بڑے فوجی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے جس سے خود ان کا اپنا سکون، گھر بار اور جان و مال غارت ہو جائے۔‘
پشاور میں مقیم ڈان اخبار کے سینیئر صحافی اسماعیل خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں نہیں لگتا کہ یہ فوجی آپریشن ماضی میں کیے جانے والے فوجی آپریشن کی طرز کا ہو گا۔
ان کی رائے میں ’اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ صوبے کے جنوبی اضلاع میں سکیورٹی کی صورتحال بہت خراب ہے مگر اس کے باوجود صوبے کے عوام کو فوجی آپریشن پر شدید تحفظات ہیں کیونکہ ماضی میں لوگوں کو ان آپریشنز کی وجہ سے بہت تکالیف اٹھانا پڑی ہیں۔‘