*اور کتنی انجو اورکتنی سیما حیدر؟*
شگفتہ سبحانی
(مالیگاؤں)
ہیلو ناظرین!
پیش خدمت ہے حالیہ دنوں میں دنیا بھر میں تہلکہ مچانے والی دیسی ودیسی خواتین سیما حیدر اور انجو اروند.
آئیے دکھاتے ہیں سال گزشتہ میں ہندوستان میں صرف ایک شہر دلی کی کرائم رپورٹس کیا کہتی ہیں.
▪️کہانی شروع ہوتی ہے شردھا مرڈر کیس سے، جب 18 مئی 2022 کو مہرولی میں شردھا کا مرڈر اس کے بواۓ فرینڈ 26 سالہ آفتاب امین پونہ والا نے لاش کے 35 ٹکڑے کر کے جنگل میں الگ الگ مقام پر پھینکے.
▪️10 فروری 2023 کو ہری داس نگر میں Nikki نککی یادو نامی لڑکی کا قتل اس کے آشنا ساحل گہلوت نے چلتی کار میں چارجر کے وائر سے گلہ گھونٹ کر کردیا.
▪️12 اپریل 2023 کو کیرول نگر میں روہینہ ناز عرف ماہی کو اس کے آشنا ونیت نے گھر والوں کی مدد سے ٹھکانے لگایا
▪️28 مئی 2023 کو شاباد ڈیری میں اس سال کے سب سے خونخوار درندے ساحل نے ساکشی نامی 16 سالہ پریمیکا کو قتل کردیا
▪️12 جولائی 2023 کو گیتا کالونی میں دو بیگ میں ایک لڑکی کی لاش ملتی ہے جس کا سر تن سے جدا ہے پولس اس کی جانچ میں مصروف ہے
▪️27 جولائی کو 42 سالہ شادی شدہ رینو گوئل کو بندوق سے مار کر اس کا شناسا آشیش خود کو بھی گولی مار کر ہلاک کردیتا ہے
▪️28 جولائی 2023 کو نرگس کے شادی سے انکار پر اس کا خالہ زاد منگیتر اسے لوہے کی سلاخ سے مار مار کر ہلاک کردیتا ہے
ویلکم ٹو نیو انڈیا!
بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کے فلک شگاف نعروں نے پورے ہندوستان کو بیٹیوں کے خون سے رنگ دیا ہے. اور آسام کی شرمناک حرکت سے دل سکتہ میں ہے.
اوپر کی سچی وارداتیں پڑھ کر کیا کہیں گے آپ
محبت؟
عشق؟
یک طرفہ پیار
ناکامی عشق
جفا
دھوکہ
فریب
سَنک یا جنونی پاگل پن
ایک طرف پورا ہندوستان ان بچیوں کے صدمات سے باہر نہیں آسکا، بات یہاں مذہب کی نہیں تھی
بات یہاں نسل کشی کی ہے.
ان خاندانوں پر ٹوٹے کہر کی ہیں جن خاندانوں کے یہ بچے ہیں
یہ کوئی لَو جہاد کی داستانیں نہیں
بلکہ یہ ایسی عبرت انگیز داستانیں ہیں جسے لکھتے ہوۓ میری انگلیاں بے جان ہیں
ابھی ہم ان کرائم پر غور ہی کر رہے ہیں کہ دو خواتین نے وہ دھما چوکڑی مچا رکھی ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے.
ایک طرف سیما حیدر جیسی ذہنی مریضہ ہے جسے پب جی گیم کی ایسی سَنک چڑھتی ہے کہ وہ ساری مریادائیں پھلانگ کےٹھمکے لگاتی ہوئی سرحد پار کے اپنے ایسے محبوب کی خاطر چار چار بچوں کی زندگی داؤ پر لگا دیتی ہے جس محبوب کو سیدھے منہ بات کرنا بھی نہیں آتا.
وہیں دوسری جانب، سیما سے چار جوتے آگے انجو اروند کودتے پھاندتے پاک سرزمین پہنچ جاتی ہے اور اپنےبواۓ فرینڈ نصر اللہ کے ساتھ مل کر پاکستان کو وہ نظارے دکھاتی ہے جو آج تک کسی فلمی سین کا حصہ نہیں ہوۓ
دنیا بھر کی جانی مانی فلم انڈسٹریز نے بھی ان پلاٹ پر کبھی کام نہیں کیا ہوگا جو ان دو عورتوں نے کردکھایا.اور دنیا بھر میں مشرقی عورت کے نام پر وہ کلنک لگوائی جس کی مثال رہتی دنیا تک ملنا مشکل ہے
میں نے کبھی کسی کتاب میں ایسی مردہ ضمیر عورتوں کا تذکرہ نہیں پڑھا جنہوں نے اپنی عیاشی یا ذہنی سَنک کیلئے اپنی لڑکیوں کی زندگیاں اس درجہ کھُلم کھّلا داؤ پر لگائی ہو اور حکومتیں چُپی سادھے بیٹھی ہوں.
جتنے منہ اتنی باتیں.
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں ہو کیا رہا ہے؟
یہ عقل سے پیدل نکمّی کام چور عورتیں جومحض دس ہزار کے موبائل فون سے کئ کئ مردوں کو بے وقوف بنارہی ہوتی ہیں اور پردہ فاش ہونے پر قتل کے گھاٹ اتاری جاتی ہیں
سماج میں عورتوں اور لڑکیوں کو اتنی آزادی اگر ہے تو اس کے ذمہ دار وہ گھر والے ہیں جنہیں یہ علم نہیں کہ ان کی بیوی یا ان کی بیٹی کر کیا رہی ہے
اور حد تو یہ کہ یہ عورتیں ہاتھ سے نکل کے سرحد پار پہنچ جارہی ہیں کیا یہ فریقین کی غفلت اور کوتاہی نہیں؟
گزشتہ روز ایک بجے، جے پور ہوائی اڈے سے محض سترہ سال کی ایک بچی کو دھر دبوچا گیا اتنی سی عمر میں وہ اے ٹی ایس اور انٹیلیجنس بیورو کے ہتھے چڑھی اور ساودھانی برتتے ہوۓ اور وقت رہتے اسے اس کے گھر والوں کے حوالے کیا گیا ورنہ وہ برقعہ خرید کر اپنے عاشق اسلم سے شادی کرنے لاہور پہنچ رہی تھی.
سوال یہ ہے کہ کیا ہماری تربیت میں، ہم نے اپنی بچیوں کو یہ نہیں سکھایا ہے کہ غیر مردوں کے ہتھّے چڑھنے کے بعد عورت کا کیا حشر ہوسکتا ہے؟ وہ کن دردناک اور بھیانک ادوار سے گزر سکتی ہے یا یوٹیوب پر نربھیا اور ساکشی مرڈر کیس کی فائلیں نہیں
کیا نیوز ہیڈ لائنز اور میڈیا کرائم خبریں پہنچانے میں پیچھے ہے؟
مجھے اس نیوز نے اندر تک رُلا دیا تھا جب پچھلے مہینہ یوپی میں ایک چھپری لڑکے کے گھر کے آگےایک راجکماری، شاہزادی جیسی لڑکی بلک بلک کر زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی وہ خودکشی کی ہر ممکن کر رہی تھی کیوں کہ اس بدماغ لڑکے نے اس سے جی بھر کے پیسے لوٹے اور شادی کے عین وقت انکار کردیا اور اسے کہیں کا نہیں چھوڑا
یہ حادثے دنیا میں نئے نہیں.
تاریخ شاہد رہی ہے کہ جو بھی چیز اصل محور سے ہٹی ہے وہ تباہی کے راستے پر گئی ہے اور اس کا نام و نشان مٹا ہے.
ہم مانتے ہیں کہ دنیا میں سب سے فرسودہ کھیلوں میں کسی کے خلوص اور جذبات سے کھیلا جانا سب سے غیر مہزب کھیل ہے جو آج بھی نمبر ایک پر رائج ہے اور دھڑلے سے لوگ آپ کو بے وقوف بناتے ہیں
چاہت کا یقین دلاتے ہیں اور اس کے بعد جب دل بھر جاۓ یا کسی اور پر دل آجاۓ تو آپ کو پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں یا آپ میں وہ عیب گنوانے لگتے ہیں جو آپ میں نہیں
محبت میں دھوکہ سہہ جانا کوئی عام دھوکہ نہیں ہوتا، جسے آپ نے پورے دل سے چاہا ہو، وہ آپ کو اپنی بے وفا طبیعت کی وجہ سے چھوڑ دے یہ صدمے انسانی رو سے بہت عظیم صدمے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ان صدمات سے باہر نہیں آسکتا.
انتقام لینا، کسی کو تباہ کردینا، یا جان سے مار دینا یہ انسانیت نہیں
یہ دنیا ایک دھوکہ ہے اور یہاں ہر چیز میں رسک ہے. ایک باشعور انسان خود کو ہر طریقے سے سنبھالتا ہے اور نامساعد کا حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور یہی کرنا بھی چاہئے
اگر ایک طرف انجو اور سیما نے نسوانی اقداروں پر کلنک لگایا ہے تو وہیں نصر اللہ اور سچن نے بھی مردانی وقار کو مجروح کیا ہے، اب تک دیکھا یہ گیا ہے کہ مرد اپنی محبت کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے وہ اسے دنیا کے آگے کبھی ذلیل یا رسوا یا تماشائی نہیں کرتا
یہاں تو عاشقوں کے ٹولے خود ہی اپنی محبوباؤں کی عزت میڈیا میں اچھالتے دیکھے جارہے ہیں اور سلام ہے ان عورتوں پر جو میڈیا میں خود پر تھو تھو کو خود کیلئے خراج سمجھ رہی ہیں
اسلام نے کبھی یہ اجازت نہیں دی کہ ایک عورت جو کھل کر مذہب اسلام قبول کرنے سے انکاری ہو، وہ کسی مسلمان مرد کی شریک حیات کہلاۓ. یا ان کا نکاح، شرعی نکاح کہلاۓ.
یہ جو کچھ ہورہا ہے یہ خواتین کو حد سے زیادہ آزادی، ان کو کھلا چھوڑ دینا اور ان کی راہ نمائی نا کرنے کے اسباب ہیں
دوسری طرف ہمیں ایسی خواتین کے کردار آگے لاۓ جانے چاہئیں جنہوں نے اپنی عزت اپنے کرداد کے ذریعے دنیا پر راج کیا ہے، مطلقہ یا بیوہ ہونے کے باوجود رزق حلال کو اپنا کر اپنے بچوں کو صاحب کرداد بنا کر زمانے کے آگے پیش کیا ہے
اس مضمون کا مقصد، کسی طبقے کی دل آزاری نہیں بلکہ وقت رہتے ایک ایسی دستک ہے جسے غور سے سنا جانا چاہیے تاکہ ہماری بچیاں، ہماری بہنیں کسی جرم کا شکار ہونے کی بجاۓ سماج میں عظمت کے معیار قائم کریں.ان کی زندگی ہر دور میں ایک کامیاب زندگی کہلاۓ
ہر درس گاہ سے یہ لازمی اپیل ہے کہ موبائیل فون کے نقصانات اور فیس بک، انسٹاگرام کے صحیح مقصد کو اجاگر کریں.
اپنی بچیوں کی حفاظت کریں
وہ کاؤنسلنگ سینٹز قائم ہوں جہاں ابھرتی عمر کے بچوں کی صحیح رہنمائی پاک اور صاف ستھرے ماحول میں ہو.
بچوں کو ڈرانے کی بجاۓ ان میں شعور کی تکمیل ہو یہ کوشش کی جاۓ
اگر انہی بچیوں نے یہ ٹھان لیا کہ کسی کے ہتھّے نہیں چڑھنا ہے تو اسی ہندوستان کی کوکھ سے رضیہ سلطانہ اور جھانسی کی رانی نے جنم لیا ہے.
دعا گو ہوں، اللہ پاک نئی نسل کی بچیوں کو شعور و آگہی سے سرفراز کرے اور یہ نسل جو اپنے بڑوں کی نافرمان ہے، گھر کی بڑوں کی کچھ نہیں سنتی ان کے دل میں اپنے بزرگوں کا احترام اور ان سے محبت پیدا فرماۓ. آمین
_________
افسانہ : وہ عورت
افسانہ نگار: ارم رحمٰن
ایڈوکیٹ لاہور ہائ کورٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مال روڈ کی پرہجوم سڑک پر فٹ پاتھ سے تھوڑا آگے کھڑی وہ عورت جو پچاس کے پیٹے میں لگ رہی تھی ،غازے سے چہرے کی جھریاں چھپانے کی ناکام کوشش میں مبتلا ہونٹوں پر لال سرخ لپسٹک تھوپے جیسے نجانے کتنوں کا کچا خون پی کر وہاں آن کھڑی ہوئی ہو اور خون ہونٹوں پر مل کر شاید یہ اعلان کرنا چاہتی ہو کہ ابھی اورخون پینے کی گنجائش ہے مجھ میں
سورج کی تپش جتنی بھی تیز ہو دسمبر کی سردی کم نہیں کرسکتی ایسے موسم میں چربی زدہ جسم بھی انکھوں کو برا نہیں لگتا کیونکہ گرمی سے شرابور چربی کی بو ویسے ہی ناگوار گزرتی ہے
اس عورت کے جسم پر کسے کپڑے اس کے بدن کی ساخت چھپانے میں یکسر ناکام تھے یا شاید جسم ہی کپڑوں سے باہر نکلنے کو تیار رہتا تھا چھاتیوں کے ابھار بھی غیر معمولی اور جیسے ان کے درمیان بھی کچھ اڑس رکھاہو ،تھل تھل کرتا پیٹ ،اللہ جانے کتنی بار پھولاہو گا کئ بار کوئی جان جنی بھی ہوگی اور کئ بار شاید جنے بغیر ہی خالی ہو ہوگیا ہوگا کھانا جب بھی ملا ہوگا بد پرہیزی اور بے احتیاطی سے ٹھونسا گیاہوگا جس سے طاقت کم اور چربی کی دبیز تہیں جسم پر جم چکی تھیں
ڈھلتی عمر میں اب ساخت ہی ایسی بن گئ تھی کہ فاقہ بھی ہو تو رتی برابر فرق نہ پڑے
بھاری کولہوں پر سے چڑھی ہوئی قمیض پیچھے سے اٹھی ہوئی محسوس ہوتی تھی
خنک موسم کی ہلکی ہوا میں پھڑپھڑاتی نظر آتی تھی
آنکھیں بڑی مگر ویران ،متلاشی اور اداس ،آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے دعوت کا خاموش پیغام بھی دے رہی تھیں
بیسیوں ناخنوں پر لال رنگ کا پینٹ چمک رہا تھا ایڑیاں ویسی ہی تھیں جیسے گھریلو عورتیں سارادن دوڑ بھاگ کرتے ہوئے اپناخیال نہیں رکھتیں
وہ کافی دیر سے کھڑی تھی
سردی کی شدت بھی اس کے عزم۔کو ٹھنڈا نہیں کر پائی تھی
شاید اس کی سنی گئ ایک موٹر سائیکل اس کے بلکل پاس آکر رکی جس پر سوار دو ہٹے کٹے کالے بھدے مرد جن کے منہ میں سگریٹ اور پان دونوں ٹھنسے ہوئے تھے اور بولتے ہوئے لال تھوک ہوا میں اڑ رہا تھا اس سے بائیک پر بیٹھے بیٹھے سرگوشی کرنے لگے ،شاید شور کی زیادتی کی وجہ سے ان کا بولنا سرگوشی لگ رہا تھا ،عورت کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے کہ غیر محتاط کام میں بھی احتیاط اور خطرات بھانپنے کی کوشش میں سرگرداں تھی اسے اندازا تھاکہ کچھ ہی دیر میں یہ تعفن زدہ وجود اس کے وجود کو ادھیڑ رہے ہوں گے اور نہ جانے ایک جگہ کی بجائے کتنی جگہوں پر اپنی غلاظت اس کے وجود میں انڈیلنے والے تھے ،اس کے ہونٹوں کی لالی ان پان زدہ پیک سے پھیکی پڑنے والی تھی پورابدن اسی تھوک سے لتھڑا جانا تھا
پھر بات بن ہی گئ وہ غلاظت خریدنے کو تیار تھی شاید کچھ بھاؤ تاؤ ہوا بات بن ہی گئ،اور باقی دو ساتھی بھی ایک رکشہ میں مقرہ جگہ آپہنچے رکشہ میں سوار دونوں مرد باہر نکلے تو اس نے دائیں بائیں دیکھاجیسے اسکی انکھیں کوئی اپنی جیسی ساتھی کھوج رہی تھیں کہ شاید کوئی مل جائے تو اس کے دکھ کو آدھا کرسکے اور چار گدھوں میں سے دو کو سنبھال سکے
شاید اج کوئی نہیں تھا
ان گدھوں سے آج رات کسی معصوم کو بچانے کی
ساری ذمہ داری اسکے نڈھال کندھوں پر تھی
اسے رکشے میں بیٹھنا تھا
رکشے کا دروازہ پورا کھل کر بھی اس کے چوڑے چکلے کولہوں سے کم تھا اندر سے کس نے کھینچا یا خود ہمت کی
وہ رکشے میں چھپ گئ مگر اس کا جسم کا بے جان تھتھراتا چربی زدہ کولہا رکشے کے دروازے کو بند نہیں کرنے دے رہا تھا دروازہ
اس کے لرزتے بدن سے ٹکراتارہا
رکشے کا سائلنسر دور تک کالا دھواں اڑاتا نظر آتا رہا
________
غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حمیدہ شاہین۔۔۔۔۔۔۔۔(پرانی یاد بشکریہ فیس بک)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کدھر کدھر ہے کہاں کی لگی ہوئی
کس کس نئے کو لَو ہے پُرانی لگی ہوئی
نقشے میں آ گئی تو اسے ماننا پڑا
کونے میں اِک لکیر تھی یونہی لگی ہوئی
تندور سا دہکتا رہا ہے تمام عمر
تن میں ہےکوئی آتشیں مٹی لگی ہوئی
پہنچیں گے ہم کہاں ،یہ نہیں ہے خبر مجھے
بس دوڑ تیرے ساتھ ہے اچھی لگی ہوئی
رکھیو قدم سنبھال کے گھر بھر کی لاڈ لی
سیڑھی ہے اعتبار کی اونچی لگی ہوئی
مدّت سے اِک خدا پہ گزارا ہے روح کا
رہنے بھی دے غریب کی روزی لگی ہوئی
ہم پر تھی ایک تہمتِ آشفتگی کہ اب
آدھی اتر چکی ہے تو آدھی لگی ہوئی
بازی گروں کو جب سے بنایا ہے منتظم
میلے میں ہر دکان ہے جھوٹی لگی ہوئی
مانو تو جیت مات سے آگے نکل چلیں
چاروں طرف ہے آخری بازی لگی ہوئی
اِس داستاں میں آگ بجھانا ہے لازمی
اِک چیز ہے الاؤ میں ایسی لگی ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_________
نظم - پروین شاکر
چلو اس خواب کو ہم ترک کر دیں
اور آنکھوں کو یہ سمجھا دیں
کہ ہر تصویر میں ہلکا گُلابی رنگ چاہے سے نہیں آتا
بُہت سے نقش، نقاشِ ازل ایسے بناتا ہے
کہ جن کا حاشیہ گہراسیہ
اور نقش ہلکا سُرمئی رہتا ہے
اور جن پر کسی بھی زاویے سے چاند اُترے
یہ کبھی روشن نہیں ہوتے
خدا کچھ کام آدھی رات کو کرتا ہے
سیاہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ خاکہ بھی
کسی ایسی ہی ساعت میں بنا ہوگا
ہماری آنکھ میں جو خواب اُترا تھا
بُہت خوش رنگ لگتا تھا
مگر اس کے دمکنے میں
کئی آنکھیں لہو ہوتیں
کتابوں اور پھولوں سے سجے جس گھر کے آنگن میں
ہم اپنے آپ کو کھلتے ہوئے محسوس کرتے تھے
وہاں اک اور گھر بنیاد سے یوں سر اُٹھاتا تھا
کہ ہم اندر سے ہل جاتے
مگر چپ چاپ رہتے تھے
یہ چپ دیمک کی صورتہم کو اک دن چاٹ جاتی!
تمہارے دکھ سے واقف ہوں
اور اپنے مقدر کی لکیروں کی بھی محرم ہوں
ہمارے بس میں رنگوں کا چناؤ ہے
نہ خط کا
سو اس تصویر کو تحلیل کر دیں
ہم اپنا کینوس تبدیل کر لیں !
_____