انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کی بہن پریانکا گاندھی اب انتخابی سیاست میں داخل ہو گئی ہیں۔ وہ کیرالہ کے پارلیمانی حلقے ویناڑ سے انتخاب لڑیں گی۔
راہل گاندھی نے حالیہ انتخابات میں اتر پردیش کی رائے بریلی اور کیرالہ کی ویناڑ سیٹ سے انتخاب لڑا تھا اور وہ دونوں جگہوں سے جیت گئے تھے۔ انھوں نے ویناڑ کی سیٹ خالی کر دی ہے۔
کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ راہل گاندھی کے نشست چھوڑنے کے بعد اب اس حلقے سے پریانکا گاندھی انتخاب لڑیں گی۔
پریانکا گاندھی نے انتخابی سیاست میں قدم رکھنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں بالکل نروس نہیں ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں ویناڑ کی نمائندگی کر سکوں گی۔ میں ویناڑ کے لوگوں کو راہل کی کمی نہیں محسوس ہونے دوں گی۔‘
پریانکا گاندھی کی سیاسی سمجھ بوجھ
52 سالہ پریانکا اندرا گاندھی کی پوتی اور راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی کی بیٹی ہیں۔ انھوں نے مراد آباد کے ایک متوسط بزنس مین رابرٹ واڈرا سے شادی کر رکھی ہے اور ان کے دو بچے ہیں۔
وہ دلی یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سے سنہ 2004 سے سیاست میں ہیں۔
انھیں رائے بریلی میں اپنی والدہ سونیا گاندھی کی انتخابی مہم کا انچارج بنایا گیا تھا۔ گذشتہ بیس برس سے ان کی بیشتر سیاست راہل گاندھی کے حلقے امیٹھی اور اپنی والدہ کے پارلیمانی حلقے رائے بریلی کی دیکھ بھال اور وہاں کے سیاسی انتظام پر مرکوز تھی۔
ذاتی طور پر باضابطہ سیاست کا آغاز انھوں نے 2020 میں کیا جب انھیں کانگریس پارٹی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پریانکا نے ملک کی 16 ریاستوں میں انتخابی مہم چلائی جس کے دوران انھوں نے 108 عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔
انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ مذہب اور ذات پات کے جذباتی سوالوں کے بجائے روزی روٹی کے بنیادی مسائل پر ووٹ ڈالیں۔
حاضر جوابی اور سیاسی حریفوں کو جواب دینے کی صلاحیت
تجزیہ کار آرتی جے رتھ کہتی ہیں عوام سے گھل مل جانے کی خصوصیت، اپنے ٹھہرے ہوئے لب و لہجے، نرمی سے اور سادہ زبان میں سیاسی حریفوں کو جواب دینے کی صلاحیت، اپنی حاضر جوابی اور کرشماتی شخصیت سے وہ نئی نسل کے ابھرتے ہوئے سیاست دانوں میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک تو وہ بہت اچھا بولتی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم مودی کو راہل گاندھی سے زیادہ پریانکا جواب دے رہی تھیں۔ وہ بہت ٹیلی جینک ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ وہ لوگوں سے بہت اچھے طریقے سے جڑ جاتی ہیں۔ اکھیلیش یادو اور تیجسوی یادو جیسے اپوزیشن اتحاد کے نئی نسل کے رہنماؤں سے ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔‘
انتخابی مہم کے دوران پریانکا نے وزیر اعظم کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا ’مودی جی میرے بھائی کو شہزادہ، راج کمار اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ وہ ہمیں ملک دشمن کہتے ہیں۔ میری دادی وزیر اعظم تھیں۔ وہ دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔ میں نے اپنے والد کی لاش کو ٹکڑوں میں وصول کیا تھا۔ ہم نے وراثت میں دھن دولت نہیں حاصل کیے ہیں۔ ہم نے شہادت کی وراثت حاصل کی ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ شہادت کا کیا مطلب ہوتا ہے۔‘
کانگریس پر کتاب کے مصنف رشید قدوائی ان کی شخصیت کے متعلق کہتے ہیں ’پریانکا کی شخصیت بہت سلجھی ہوئی ہے۔ وہ ایک اچھی کیمپینر ہونے کے علاوہ ایک بہترین منتظم بھی ہیں۔ پارٹی کے اندر جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کا کیسے حل نکالا جائے اس میں انھیں مہارت حاصل ہے۔‘
انتخابی سیاست میں آنے میں دیر کیوں لگی؟
کانگریس پر کتاب کے مصنف رشید قدوائی کا کہنا ہے کہ گذشتہ دس برس سے کانگریس کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔ کئی ریاستوں میں اس کا تنظیمی ڈھانچہ ہی ختم ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کی سیٹیں اتنی کم ہو گئی تھیں کہ لوگ باتیں کرنے لگے تھے کہ کانگریس بچے گی بھی یا نہیں۔ لیکن اس الیکشن میں کانگریس کی سیٹیں کافی بڑھ گئی ہیں۔
’پارٹی کچھ مضبوط ہوئی ہے اور اس کا اعتماد بڑھا ہوا ہے ۔ اسی لیے کانگریس نے پریانکا کو انتخابی سیاست میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ان کے مطابق دوسری وجہ یہ ہے کہ پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی صحت کی خرابی اور عمر کے سبب متحرک سیاست سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ اس سے پریانکا کے لیے ایک جگہ بن گئی تھی۔
رشید قدوائی کہتے ہیں کہ ’پریانکا گاندھی نے کئی بار کہا ہے کہ وہ صرف اور صرف راہل گاندھی کو ایک کامیاب سیاست دان کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں۔ اسی لیے وہ سیاست میں آئی ہیں۔
’راہل اور پریانکا کے درمیان بھائی بہن کا بہت مضبوط رشتہ تو ہے ہی وہ راہل کو اپنا لیڈر مانتی ہیں، کمپیٹیٹر نہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار آرتی جیرتھ کا بھی یہی خیال ہے کہ ’دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ پریانکا، راہل گاندھی کو جو بھی سپورٹ چاہیے وہ انھیں پیچھے سے وہ سپورٹ دیں گی۔
’وہ خود کو پروجیکٹ نہیں کریں گی۔ پورا امکان ہے کہ دونوں آنے والے دنوں میں ایک طاقتور سیاسی جوڑی بن کر ابھریں گے۔‘
کیا پریانکا گاندھی کی پارلیمان میں موجودگی مودی کی مشکلیں بڑھا دے گی؟
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی لوک سبھا پچھلی پارلیمنٹ سے بہت مختلف ہے۔ اس میں حکومت کے پاس اگر 293 ارکان ہیں تو اپوزیشن کے پاس بھی 250 سیٹیں ہیں۔ اپوزیشن پر اعتماد ہے۔
راہل گاندھی کے برعکس پریانکا بہت پریکٹیکل اور عام آدمی کی بات، عام آدمی کی زبان میں کرتی ہیں۔ وہ بنیادی معاملوں پر بات کرتی ہیں اور سامنے والے کو لاجواب کر دیتی ہیں۔ وہ اس ہنر کی ماہر ہیں۔
پارلمینٹ میں وزیر اعظم مودی اپنی تقریروں میں اکثر راہل اور گاندھی فیملی کو ہدف بناتے ہیں۔
آرتی جے رتھ کہتی ہیں کہ ’اگر کسی کو مودی کو جواب دینا آتا ہے تو وہ پریانکا کو ہی آتا ہے۔ پریانکا کے آنے سے لوک سبھا بہت دلچسپ ہو جائے گی کیونکہ مودی جب تقریر کرتے ہیں تو وہ سارا وقت گاندھی فیملی کو نشانہ بناتے ہیں۔ اور جواب دینے میں پریانکا راہل سے کہیں بہتر ہیں۔ اس سے مودی کی مشکلیں پارلیمنٹ میں بڑھ جائیں گی۔‘
’پریانکا کی سیاسی صلاحیت کا اندازہ کانگرس کے تنظیمی ڈھانچے سے ہو گا‘
لکھنؤ کے صحافی شرت پردھان نے کانگریس اور بی جے پی کی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پارلیمنٹ میں پریانکا اکیلی نہیں ہوں گی۔ ان کے ساتھ راہل بھی ہوں گے، مہوا موئترا جیسی طاقتور ایم پی اور اپوزیشن اتحاد کی خاتون ارکان پارلیمان بھی ہوں گی۔ اپوزیشن میں مودی حکومت کا جو ڈر تھا، اب وہ کم ہو چکا ہے۔‘
ان کے مطابق پریانکا کا پارلیمنٹ میں آنا ’مودی کے لیے مشکل گھڑی کی شروعات ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی کو دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے پریانکا کا کردار بہت بڑھ جائے گا۔
سب سے بڑا چیلنج تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنے کا ہے۔ انھیں لوک سبھا کی نشست سے جنوبی ریاست سے اس لیے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ وہ جنوبی ریاستوں میں پارٹی کے ڈھانچے کو مضبوط کر سکیں جہاں کانگریس کے امکانات بہتر نظر آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پریانکا کو شمالی ریاستوں، خاص طور پر اتر پردیش میں بہت کام کرنا ہو گا۔ ان کی سیاسی صلاحیت کا صحیح اندازہ کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیابی یا ناکامی سے ہو گا۔
لیکن فی الحال ساری توجہ ویناڑ کے ضمنی انتخاب پر مرکوز ہو گی جو آئندہ ماہ کسی وقت متوقع ہے۔ یہاں سے راہل گاندھی ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے جیتے تھے۔
پریانکا ابھی منتخب بھی نہیں ہوئی ہیں لیکن ان کی آمد کی گونج محسوس کی جانے لگی ہے۔