ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم شہباز شریف چین کے دورے میں سی پیک کو اگلے مرحلے میں لے جانے کا اعلان کر رہے ہیں اور چین کی جانب سے چینی باشندوں کی سکیورٹی اور سرمایہ کاری کے لیے دہشت گردی سے پاک ماحول کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔
چین کا ایک اعلیٰ سطح وفد پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی موجودگی میں سرمایہ کاری کے لیے سیاسی استحکام کا مطالبہ کرتا ہے تو ایسے میں آپریشن کی لانچنگ متنازع کیوں ہوگئی ہے؟
22 جون کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت قومی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے آپریشن عزم استحکام پاکستان شروع کیا جائے گا۔
تاہم اگلے ہی دن پارلیمان میں اپوزیشن جماعتوں نے اس آپریشن کی مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس معاملے پر کسی جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا۔
اجلاس میں موجود وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور بھی اس معاملے پر اپنی جماعت کے اڈیالہ جیل میں قید قائد عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچے اور بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایپکس کمیٹی اجلاس میں تو آپریشن کا نام تک نہیں لیا گیا۔ اب بھی جب تک اس کے خدوخال واضح نہیں ہوں گے صوبائی حکومت اس کی حمایت نہیں کرے گی۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس آپریشن کے بارے میں شکوک و شبہات اور اس کی لانچنگ کے طرقیہ کار پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کے لیے سب سے پہلے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا اس وقت ملک میں کسی نئے آپریشن کی ضرورت ہے؟
اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف، جمعیت علمائے پاکستان اور اے این پی کی جانب سے مخالفت سامنے آنے کے بعد حکومت کو وضاحت جاری کرنا پڑی ہے کہ یہ کوئی مکمل طور پر فوجی آپریشن نہیں ہے بلکہ یہ دہشت گردی کے خلاف جاری مہم کو نئی جہت دیے جانے کے عزم ہے، تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں جو استحکام آیا ہے اسے برقرار رکھنا ہے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ عزم استحکام کوئی نیا آپریشن نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ایک مہم کا نام ہے جس میں فوج کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر طبقات، سیاسی جماعتوں، صوبائی حکومتوں، عدلیہ اور دیگر اداروں کی مربوط کوششوں کے ذریعے دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کی جائے گی۔
عسکری تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ ’یہ ایک نیا آپریشن نہیں ہے بلکہ اس آپریشن کا تسلسل ہے جو پہلے سے ہی دہشت گردی کے خلاف جاری ہے بلکہ یہ اس آپریشن میں ایک نئی حکمت عملی ہے کہ صرف فوج پر نہ چھوڑ دیا جائے کہ وہ لڑتے رہیں بلکہ اس سارے عمل میں قوم کو شامل کیا جائے۔
آپریشن کی لانچنگ متنازع کیوں؟
عسکری تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ اس آپریشن کے لیے جو متعلقہ فورم تھا، جہاں چاروں صوبوں بشمول کشمیر و گلگت بلتستان کی حکومتیں، سٹیک ہولڈرز، عسکری قیادت اور انٹیلی جنس ادارے موجود تھے، سب نے فیصلہ کیا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے کو پہلے پارلیمان میں لانا چاہیے جبکہ ایک دن پہلے مدین واقعے پر جب قرارداد لائی گئی تو اپوزیشن نے اس کی بھی مخالفت کر دی۔ اس لیے ہر معاملے کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔
’دہشت گردی کسی خاص صوبے یا علاقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی مسئلہ ہے کیونکہ اگر دہشت گرد وزیرستان میں گھات لگا کر کسی فوجی گاڑی کو نشانہ بنائیں تو اس میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں میں سے کسی کا جنازہ چکوال، کسی کا کراچی اور کسی کا گلگت بلتستان میں پڑھا جاتا ہے۔ اس طرح معاشی نقصان کسی ایک علاقے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوتا ہے۔ اس آپریشن میں سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور میڈیا کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘
تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ دو تین ہفتوں کے دوران کئی ایک واقعات میں فوجی افسران اور جوان شہید ہوئے ہیں۔ چینی انجینیئرز پر حملے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اس آپریشن کی ضرورت نہیں غلط ہوگا۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف دی گئی قربانیوں کا حتمی پھل کاٹنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ اعتراض اگرچہ کسی حد تک درست ہے کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، تاہم حکومت نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہے اس آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی نہیں ہوگی اور نہ کسی خاص علاقے میں کوئی مکمل فوجی آپریشن شروع ہوگا بلکہ اس آپریشن کا مقصد دہشت گردی کے خلاف ملک کے تمام اداروں کو متحرک کرنا ہے۔
تجزیہ کار عامر رانا نے کہا کہ جو سیاسی جماعتیں عزم استحکام آپریشن کی مخالفت کر رہی ہیں یہ ماضی میں بھی فوجی آپریشنز کے خلاف ہی رہی ہیں بلکہ کچھ تو طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتی رہی ہیں اور مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جتنی مرتبہ بھی آپریشن ہوئے اور جب بھی مطالبہ ہوا کہ معاملے کو پارلیمان میں لایا جائے اور جب بھی بحث ہوئی ان جماعتوں نے تھوڑی اگر مگر کے بعد حمایت ہی کی اور اب بھی کریں گی۔
پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر 21 بڑے فوجی آپریشن کیے گئے ہیں جن میں آپریشن راہ حق، آپریشن راہ نجات، آپریشن شیر دل، آپریشن راہ راست، آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد اہم ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی بڑے فوجی آپریشنز کیے گئے ہیں۔
کم وبیش یہ تمام آپریشن ہی کامیاب رہے اور اس کے نتیجے میں کئی علاقوں سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوا اور ان علاقوں میں سول عمل داری بحال ہوئی جن میں خاص طور پر سوات اور وزیرستان کے آپریشن اہم ہیں۔
تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ کسی بھی فوجی آپریشن کی کامیابی یا ناکامی کو ماپنے کے لیے سب سے آسان فارمولا یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا اب بھی بھی وہ علاقہ دہشت گروں کے قبضے میں ہے؟ کیا اس علاقے میں ابھی کوئی نو گو ایریا ہے؟ اگر اس وقت ملک میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشنز کامیاب ہوئے ہیں۔
آپریشن عزم استحکام پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب تو تحریک طالبان پاکستان کے افغانستان میں خفیہ ٹھکانے ہیں۔ وہ وہاں سے آکر پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اب فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ان کے خلاف کارروائی کے لیے صرف سفارتی کوششیں ہی کرنی ہیں یا پھر ان کے خلاف کوئی عسکری کارروائی بھی کرنی ہے؟ اس حوالے سے اس آپریشن میں ہی فیصلہ ہونا ہے۔
عسکری تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ سیاسی عناصر اس حوالے سے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ کسی بھی بڑے فوجی آپریشن جیسے آپریشن راہ راست یا راہ نجات، اسی طرح آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں لاکھوں افراد نے نقل مکانی کی تھی۔
’اسی طرح کسی بھی بڑے آپریشن کے لیے دوسرے علاقوں سے فوج ان علاقوں میں برسرپیکار ہے، جیسے فوج پہلے سوات بھیجی گئی پھر وزیرستان بھیجی گئی جہاں فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کیے اور تحریک طالبان کو اس علاقے سے مار بھگایا۔ اب تو فوج وہاں پہلے سے موجود ہے۔ کسی نئے علاقے میں فوج کو نہیں بھیجا جانا۔ پورے ملک میں کئی ایک بھی نو گو ایریا نہیں ہے۔ اس لیے عزم استحکام پاکستان آپریشن کا ماضی کے بڑے فوجی آپریشنز کے ساتھ موازنہ یا تقابل نہیں کرنا چاہیے۔‘