اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف عدت کے دوران نکاح کے مقدمے میں سزاؤں کی معطلی سے متعلق درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔
عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت کے دوران نکاح کے اس اہم مقدمے کا فیصلہ اسلام آباد کے ایڈشنل سیشن جج محمد افضل مجوکا نے جمعرات دوپہر تین بجے سنانا تھا، اس موقع پر عدالت کے فیصلہ سنانے سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی کمرہِ عدالت لوگوں سے بھر چکا تھا۔
عدالتی عملے کو دو مرتبہ کمرہِ عدالت خالی کروانا پڑا کیونکہ اس سے قبل مذکورہ جج نے قتل کے دو دیگر مقدمات کا فیصلہ بھی سنانا تھا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر فیصلہ سنانے سے دس منٹ قبل ایڈشنل سیشن جج محمد افضل مجوکا نے اپنے اہلمد سے ’کی بورڈ‘ منگوایا اور پھر کچھ دیر کے بعد ہی عدالتی اہلمد جج کے چیمبر سے ’کی بورڈ‘ لے کر واپس آ گئے اور ٹھیک تین بجے محمد افضل مجوکا اپنی سیٹ پر براجمان ہو گئے اور عدالتی اہلکار نے کمرہِ عدالت میں موجود تمام افراد کو خاموشی اختیار کرنے کو کہا۔
جب کمرہِ عدالت میں مکمل طور پر خاموشی چھا گئی تو عدالتی اہلمد نے عمران خان بنام سرکار اور بشری بی بی بنام سرکار اپیلوں کو اونچی آواز میں پکارا جس کے بعد ایڈشنل سیشن جج محمد افضل مجوکا نے ان اپیلوں کے نام سنائے جانے کے بعد صرف دو الفاظ کہے ’اپیلز ریجیکٹیڈ‘ اس کے بعد جج اپنی کرسی سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کے سنئیر سول جج قدرت اللہ نے اس مقدمے کی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سماعت کرتے ہوئے اس سال تین فروری کو عمران خان اور بشری بی بی کو سات سات سال قید اور پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے گذشتہ برس 25 نومبر کو قدرت اللہ کی عدالت میں عدت کے دوران نکاح سے متعلق درخواست دائر کی تھی جس میں 16جنوری کو ان دونوں پر اس مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
عدالت کے فیصلہ سنائے جانے سے قبل ایک عدالتی اہلکار کا کہنا تھا کہ ان اپیلوں کو مسترد کیے جانے کے بارے میں فیصلہ پہلے سے ہی لکھا جا چکا تھا اور عدالت میں ’شارٹ آرڈر‘ ہی سنایا جائے گا۔ ایسا ہی ہوا اور عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلیں مسترد ہونے کے کچھ دیر کے بعد ہی تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا۔
عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ ان اپیلوں میں کوئی ایسی ٹھوس وجوہات فراہم نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر اس مقدمے میں دی جانے والی سزا کو معطل کیا جاسکے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ خاتون مجرم بھی ضمانت کی دعویدار نہیں ہو سکتی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگرچہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 426 قابل ضمانت ہے لیکن یہ کوئی جنرل رول نہیں کہ قابل ضمانت جرم میں ضمانت حاصل کرنا ملزم یا مجرم کا حق ہے۔
جج اپنا فیصلہ سنا کر جا بھی چکے تھے اور اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان جن میں زیادہ تر تعداد خواتین کی تھی وہ جلدی جلدی کورٹ کمپلکس میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں کہ اس جماعت کے کارکنوں نے انھیں بتایا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں کو مسترد کردیا گیا ہے، جس کے بعد انھوں نے سڑک پر ہی احتجاج کرنا شروع کردیا۔ اس احتجاج کے دوران خواتین کارکنان نے ’عمران خان کو رہا کرو‘ کے نعرے بھی لگائے۔
جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان اس موقع پر عدالت میں موجود تھے اور انھوں نے اس عدالتی فیصلے کو فی الفور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں ہے یہ میاں بیوی کے درمیان ایک معاملہ ہے جسے سیاسی معاملہ بنا دیا گیا اور سیاسی رہنما کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ عمران خان اور بشری بی بی کا مبینہ طور پر عدت کے دوران نکاح کا معاملہ اس سے پہلے بھی اسلام آباد کی مقامی عدالت میں لایا گیا تھا اور اس میں کوئی اور درخواست گزار تھا جس کی درخواست پر متعدد سماعتیں بھی ہوئی تھیں تاہم اس درخواست گزار نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔
اس کے چند ہفتوں کے بعد خاور مانیکا نے اینٹی کرپشن کے ایک مقدمے میں رہائی کے بعد گذشتہ برس 25 نومبر کو عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف عدت کے دوران نکاح کرنے سے متعلق درخواست دائر کی تھی اور درخواست گزار کا دعوی تھا کہ انھوں نے اپنی بیوی بشری بی بی کو طلاق دے دی تھی تاہم طلاق کے بعد عدت کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی عمران خان اور بشری بی بی نے نکاح کر لیا تھا جو کہ درخواست گزار کے بقول غیر شرعی ہے۔
عدت کیس سے زیادہ مضحکہ خیز مقدمہ کوئی نہیں‘
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف عدت کے دوران نکاح کے مقدمے میں سزاؤں کی معطلی سے متعلق درخواستوں کو مسترد کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی پارٹی رہنماؤں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس فیصلے پر اپنا ردعمل دینا شروع کیا۔
پاکستان تحریک انصاف رہنما تیمور سلیم جھگڑا نے اس فیصلے پر اپنے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جتنا عرصہ عمران خان کو انصاف نہیں ملے گا تو پاکستان کے عوام اتنی ہی مضبوطی سے ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں عدت کیس سے زیادہ کوئی مقدمہ مضحکہ خیز نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس مقدمے کی نہ تو ’پینل کوڈ‘ میں ہے اور نہ اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی روایت ملتی ہے۔
ہارون نامی صارف نے لکھا کہ یہ عدلیہ کی تاریخ کا ایک بہت بد ترین کیس ہے۔
جستجو نامی صارف نے لکھا کہ اس فیصلے میں اسی نتیجے کی امید تھی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں انصاف پر مبنی کسی فیصلے کی امید نہیں ہے کیونکہ عدالتیں اور نظام انصاف ابھی اتنا ازاد نہیں ہے۔ قانون کے بجائے بادشاہ کے حکم کی پیروی کی جاتی ہے۔‘
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ جیل میں رہا؟
پی ٹی آئی نے گذشتہ روز ایک بیان میں دعوئ کیا ہے کہ عمران خان گذشتہ 11 ماہ سے جیل میں قید ہیں اور عدت میں نکاح کے عدالتی فیصلے کے بعد ابھی فی الحال ان کی رہائی متوقع نہیں ہے۔
آئیے ہم نظر ڈالتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کے کون سے سیاستدان وزیر اعظم بننے سے قبل یا وزیر اعظم بننے کے بعد کتنا عرصہ جیل میں قید رہے۔
اس فہرست میں حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔ پاکستان میں ایوب خان، یحیٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف سمیت کسی بھی فوجی حکمران کو جیل نہیں بھیجا جا سکا ہے۔ تاہم سنگین غداری کے مقدمے میں پرویز مشرف کو ایک خصوصی عدالت نے سزائے موت ضرور سنائی مگر وہ زندگی بھر ملک سے باہر ہی رہے۔
حسین شہید سہروردی
پاکستان کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو ایوب خان کی فوجی حکومت نے سنہ 1962 میں پابند سلاسل کیا۔
انھیں جنرل ایوب خان کی حکومت کے زمانے میں سنہ 30 جنوری سنہ 1962 کو ایبڈو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں سکیورٹی ایکٹ (1952) کے تحت گرفتار کیا گیا۔
انھیں کراچی کی جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ جب بنیادی جمہوریت کے انتخابات مکمل ہو گئے تو سہروردی کو 19 اگست سنہ 1962 میں رہا کردیا گیا تھا۔
انھیں تقریباً ساڑھے چھ ماہ کے لیے قید میں رکھا گیا تھا۔
ذوالفقارعلی بھٹو
ذوالفقار علی بھٹو اگست 1973 سے جولائی 1977 تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔
پاکستان کے نوویں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تین ستمبر 1977 کو فوج نے مارچ 1974 میں ہونے والے نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا۔
انھیں تقریباً ڈیڑھ سال جیل میں رکھنے اور لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے سزائے موت پانے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں چار اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو تین ستمبر 1977 کو پہلی بار گرفتاری کے بعد ضمانت ملی تو وہ جیل سے باہر آ گئے مگر کچھ ماہ بعد پھر اسی مقدمے میں گرفتار کر لیے گئے۔ انھوں نے تقریباً ڈیڑھ سال جیل میں گزارا۔ کرنل ریٹائرڈ رفیع الدین نے ان کی زندگی ’بھٹو کے آخری 323 دن‘ پر کتاب بھی تحریر کی۔
بینظیر بھٹو
ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر جو کہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیرِ اعظم رہیں، اپنے والد کی پھانسی کے بعد مختلف مدتوں کے لیے نظربند اور جیلوں میں قید رہیں۔ انھیں سب سے پہلے چھ ماہ کے لیے جیل میں اور پھر چھ ماہ کے لیے اپنے گھر میں نظربند رکھا گیا۔
اپریل 1980 میں انھیں رہا تو کر دیا گیا مگر مارچ 1981 میں ضیا حکومت نے انھیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کر لیا جس کے لیے الذوالفقار نامی تنظیم کی جانب سے پی آئی اے کی فلائٹ ہائی جیک کرنے کو جواز بنایا گیا۔
انھیں اس دوران سکھر جیل میں رکھا گیا اور تین سال بعد 1984 میں رہا کیا گیا۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا اور نہ ہی انھیں کوئی سزا ہوئی۔ یہ ان کی زندگی کی آخری جیل تھی۔
نواز شریف
تین مرتبہ پاکستان کے وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف کو سب سے پہلے اس وقت گرفتار کیا گیا جب 1999 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
انھیں بھی راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا جس دوران ان پر ہیلی کاپٹر خریداری کے دوران ٹیکس کی عدم ادائیگی، کرپشن، اور طیارہ سازش کیس میں عمر قید، جرمانے اور پھانسی کی سزا سنائی گئی۔
اس دوران مبینہ طور پر سعودی عرب کے شاہ فہد کی درخواست پر پاکستان کی فوجی حکومت نے انھیں اس شرط پر رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ 10 سال تک پاکستان جبکہ 21 سال تک سیاست میں واپس نہیں آئیں گے۔
پھر سنہ 2018 میں نواز شریف کو ان کے تیسرے دور حکومت میں ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے چھ جولائی 2018 کو انھیں ایون فیلڈ ریفرینس میں سزا سنائی مگر وہ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے فوری طور پر گرفتار نہیں ہو سکے۔ 13 جولائی 2018 کو عام انتخابات سے صرف دو ہفتے قبل وہ پاکستان لوٹے جہاں انھیں ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر لیا گیا اور اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔
اس وقت وہ ایک سال سے زائد عرصے تک جیل میں رہے اور پھر علاج کے لیے عدالت سے اجازت لے کر لندن روانہ ہو گئے۔
نواز شریف سنہ 1999 کو قید کر لیے گئے تھے اور اس کے بعد پرویز مشرف سے ڈیل سے قبل انھوں نے 425 دن جیل میں گزارے۔ سنہ 2018 کو پانامہ مقدمات میں سزا کے نتیجے میں نواز شریف مجموعی طور پر 307 دن جیل میں رہے۔ یوں ان کی قید کا کل عرصہ 732 دن بنتے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی کو فروری 2001 میں نیب نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں گرفتار کیا ان پر الزام تھا کہ انھوں نے بحیثیت سپیکر قومی اسمبلی 1993 سے 1997 کے دوران اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔
انھیں جون 2002 میں احتساب عدالت نے پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی جسے ان کی گرفتاری کے دن سے گنا گیا، مگر انھوں نے اپنی سزا مکمل کی۔
سیاسی کریئر کے دوران یوسف رضا گیلانی کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات میں نیب نے ریفرنس دائر کیا اور راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت نے ستمبر سنہ 2004 میں یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 300 ملازمین غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کے الزام میں 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تاہم سنہ 2006 میں یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم پر رہائی مل گئی۔
یوں انھوں نے جیل میں تقریباً کوئی دو سال کا عرصہ گزارا۔ یوسف رضا گیلانی نے اڈیالہ جیل میں اسیری کے دوران اپنی یادداشتوں پر مبنی پر ایک کتاب 'چاہ یوسف سے صدا' بھی لکھی۔
سنہ 2012 میں 26 اپریل کو یوسف رضا گیلانی پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم قرار پائے جب انھیں توہینِ عدالت کے جرم میں چند لمحوں کی قید کی سزا دی گئی۔ وہ مجرم قرار پائے اور چند دنوں بعد ایک اور عدالت نے اس سزا کی بنا پر انھیں قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دے دیا اور وہ وزیرِ اعظم بھی نہ رہے۔
شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو جولائی 2019 میں ایل این جی ریفرنس میں مبینہ بدعنوانی پر گرفتار کیا گیا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی 2019 کو قومی احتساب بیورو نے ایل این جی کیس میں گرفتار کیا تھا اور انھیں فروری 2020 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت پر رہائی ملی۔ یوں انھوں نے تقریباً سات ماہ جیل میں گزارے۔
عمران خان
عمران خان کو نو مئی 2023 کو گرفتار کیا گیا۔ مگر سپریم کورٹ کی مداخلت سے انھیں دو دن کے اندر ہی رہائی مل گئی۔
عمران خان کو گذشتہ برس پانچ اگست کو گرفتار کیا گیا۔ یوں ان کے قید میں گزرے دنوں کا عرصہ دس ماہ اور 23 دن کا بنتا ہے۔ نو مئی کے دن بھی انھیں گرفتار کیا گیا مگر پھر سپریم کورٹ کی مداخلت سے دو دن بعد ہی انھیں نیب کی حراست سے رہائی مل گئی۔
یوں اگر یہ دو دن بھی شمار کیے جائیں تو قید کا یہ عرصہ دس ماہ اور 25 دن بنتا ہے۔ عمران خان اس وقت عدت کے دوران نکاح کے مقدمے میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔