سعودی اہلکار نہ آپ کا احساس کرتے ہیں نہ مدد‘
آمنہ بتاتی ہیں کہ جو لوگ منیٰ سے واپس آئے ہیں، انھیں واپسی میں کئی گھنٹے لگے ہیں اور ان تھکے ہارے حاجیوں کو رہائش سے قریبی مقام تک نہیں پہنچایا گیا۔ ’ڈرائیوں کو راستے نہیں پتا تھے، انھوں نے گاڑیاں اور اے سی بند کر دیے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ایک کلومیٹر کے لیے ٹیکسیوں کے کرائے بہت زیادہ ہیں، منی سے مکہ تک ٹیکسی والے 2000 ریال مانگ رہے تھے۔
ابتدائی طبی امداد کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ گاڑیاں تو وہ لے کر گھومتے ہیں لیکن انھیں ڈرپ تک نہیں لگانا آتی۔
آمنہ بتاتی ہیں کہ ان کے گروپ میں ایک شخص کلیسٹروفوبک (رش والی جگہوں پر گھبراہٹ کا شکار ہونے والے افراد) تھے۔ ’جمرات میں رش دیکھ کر ان کی سانس اکھڑنے لگی تو ہم نے ان کے لیے مدد مانگی گر ایسے لگا جیسے سعودی اہلکار مریض کا مطلب تک نہیں سمجھتے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ انھیں آکسیجن کی ضرورت تھی اور جمرات میں تو ایمرجنسی سہولت میسر تھی مگر واپسی پر ان کی حالت پھر خراب ہو گئی اور ’ہم سٹرک کنارے بیٹھے سعودیوں سے ایمبولینس مانگ رہے تھے مگر وہ بس یہی کہتے رہے ’بلاتے ہیں بلاتے ہیں۔‘ بلاخر ایک ایمبولینس آئی اور ڈاکٹر نے دو سیکنڈ بھی نہیں دیکھا اور بولا ’انھیں کچھ نہیں ہوا‘ اور چلا گیا۔
آمنہ کہتی ہیں کہ 25 منٹ سے زیادہ وقت گزر گیا تو ’ہم نے انھیں دھمکایا کہ ہم ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بتائیں گے کہ تم حاجیوں کو کیسے ٹریٹ کر رہے ہو تو انھوں نے ویڈیوز بھی نہیں بنانے دیں اور پھر بہت دیر بعد انھیں ایک ایمبولینس ملی۔‘
وہ کہتی ہیں ’سعودی اہلکار آپ کا احساس کرتے ہیں نہ مدد۔‘
آمنہ کا کہنا ہے کہ عرفات میں پاکستانیوں کے خیمے سب سے آخر میں تھے، وہاں لکھا تھا ’یہ اختتامِ عرفات ہے‘ چلنا بہت پڑتا تھا تاہم ان کا کہنا ہے کہ عرفات میں انتظامات بہت اچھے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ میں نے 25 دن کا ساڑھے گیارہ لاکھ ادا کیا اور یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں۔ ’میرے جیسے حجاج این ٹی ایس پاس کرکے جانے والے والینٹیرز کا خرچہ بھی ادا کرتے ہیں مگر یہ بس بلڈنگ کی ریسپشن میں بیٹھے رہتے ہیں اور مشائر کے دنوں میں ایک بھی مدد کے لیے موجود نہیں تھا اور یہ بس یہی کہتے ہیں کہ سب کچھ سعودی حکومت کے ذمے ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ بے شک انتظامات سعودی حکومت کرتی ہے مگر پاکستانی وزارت کے اہلکار ان کے آگے ہمارے نمائندہ ہیں اور انتظامات کے حوالے سے جوابدہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ جتنی بدنظمی اور جس طرح پاکستانیوں سے برتاؤ دیکھا اس کے بعد میں کبھی کسی کو سرکاری طور پر حج کرنے کا مشورہ نہیں دوں گی۔
’زیادہ پیسے لگا کر وی آئی پی حج کر لو کیونکہ جب تک آپ آرام اور ذہنی سکون میں نہیں ہو گے آپ عبادت کیسے کر سکتے ہیں۔‘
’سات کلومیٹر طویل راستے پر ڈالا گیا جہاں پانی تھا نہ کوئی سایہ‘
رواں برس حج کے سلسلے میں سعودی عرب میں موجود حمیرا کنول نے بتایا کہ ’جب ہمیں منی سے عرفات کے میدان میں لے جایا گیا، اس روز ہمیں حاجیوں کی اموات کی خبریں ملنا شروع ہوئیں کہ گرمی سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ وہاں بنے کیمپوں میں بیٹھنے کی جگہ بہت محدود تھی، خطبہ حج سنانے کے لیے کوئی انتظامات نہیں تھے اور شدید گرمی میں لوگوں کو باہر بیٹھنا پڑا یا اندر جگہ پانے کے لیے لڑائی جھگڑا کرنا پڑا۔‘
مکہ سے بی بی سی بات کرتے ہوئے حمیرا بتاتی ہیں کہ مزدلفہ میں رات آسمان کے نیچے گزارنی ہوتی ہے لیکن وہاں پاکستان سمیت دیگر بہت سے ممالک کے عازمین کو ایک ٹرین کے پل کے نیچے گندگی سے بھری جگہ پر لے جایا گیا۔
مزدلفہ میں رات گزار کر اگلی صبح انھیں ٹرین کے ذریعے جمرات کی جانب لے جایا گیا لیکن وہاں سے واپسی کا سفر شدید تکلیف دہ بن گیا۔
حمیرا کہتی ہیں کہ ’ہمیں سات کلومیٹر طویل راستے پر ڈالا گیا جہاں نہ پانی تھا نہ کوئی سایہ اور بہت سے عازمین کی طبیعت اس مقام پر خراب ہوئی۔‘
حمیرا کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت کی گاڑیاں موجود تو تھیں لیکن یہ بیمار اور گرمی سے بے ہوش ہونے والے عازمین کے لیے استعمال میں نہیں لائی جا رہی تھیں۔
’کیمپوں میں لوگوں کو ایسے ہی رکھا گیا تھا جیسے کسی فارم میں مرغیوں یا جانوروں کو ساتھ ساتھ رکھا جاتا ہے، بستروں کے درمیان گزرنے کی جگہ تک نہیں تھی اور سینکڑوں افراد کے لیے گنتی کے چند واش روم ناکافی تھے۔‘
تاہم وہ کہتی ہیں کہ آپ کسی سے شکایت کر سکتے تھے اور نہ ہی مدد لے سکتے ہیں۔
حمیرا کے مطابق یہاں ایمبولینسز نہ ہونے کے برابر دکھائی دیں، لمبے لمبے روٹس پر کوئی مددگار نہ تھے۔ اگر کوئی نظر آتا تو وہ پولیس اہلکار ہیں جو انگلش زبان نہیں جانتے۔
وہ کہتی ہیں کہ شدید گرمی میں جب لو چل رہی ہوتی تھی تو عازمین کو کئی گھنٹوں پیدل صرف اس لیے چلایا جاتا تھا کیونکہ شارٹ راستے کی طرف پولیس نے رکاوٹیں کھڑے کر رکھی تھیں۔
حمیرا بتاتی ہیں کہ گذشتہ روز منی سے جمعرات تک جانے اور آنے میں انھیں 26 کلومیٹر چلنا پڑا جبکہ وہ راستہ پندرہ منٹ کا تھا جسے پولیس نے بند کر دیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں پولیس اہلکار عورت ہو یا مرد اس پر ہاتھ اٹھانے سے بھی دریغ ہیں کرتے۔‘
خیموں کی صورتحال کے متعلق حمیرا بتاتی ہیں کہ خیموں میں اے سی تو تھے لیکن خواتین کی زیادہ تعداد کی وجہ سے گھٹن تھی جس پر وہاں لڑائی دن بھر دیکھنے کو ملتی تھی۔
’کوئی ایسا انتظام نہیں کہ زندگی بچائی جا سکے‘
حمیرا بتاتی ہیں کہ حج کے اس سفر میں انھیں مختلف ممالک کے کیمپوں کے درمیان سے گزرنے کا موقع ملا اور ’یہاں سب سے برے حالات پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے دکھائی دیتے ہیں ایسا لگتا ہے آپ تعفن زدہ ماحول میں کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ آج حج کا آخری دن ہے اور میں یہ سوچ رہی ہوں جس مذہب میں طہارت اور صفائی پہلی لازمی شرط ہے اس کے اتنے بڑے فریضے کی ادائیگی میں صفائی کے معاملے کو اس قدر نظر انداز کیوں کیا گیا ہے؟‘
تاہم سعودی کیمپ منیجرز کہتے ہیں یہی ہے جس کے اندر گزارہ کریں ہمارے پاس یہی سہولیات ہیں۔
محمد اعلیٰ ایک پرائیوٹ گروپ کے حج آرگنائزر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ یہ میرا 18واں حج ہے اور میرے تجربے میں سعودی کنٹرولر ہیں، وہ سہولت کار نہیں۔ ’وہ کنٹرول کرتے ہیں مگر سہولت نہیں دیتے۔‘
محمد اعلیٰ کے مطابق اس گرمی میں ایک عام حاجی کو طوافِ زیارت کے علاوہ کم از کم 15 کلومیٹر فی دن چلنا پڑ سکتا ہے جس میں گرمی اور تھکن کے ساتھ اسے ہیٹ سٹروک کا سمانا کرنا پڑ سکتا ہے اور جگہ جگہ پانی بھی میسر نہیں ہوتا۔
وہ بتاتے ہیں کہ پہلے سالوں میں مکاتب تک جانے کے جو یوٹرن تھے وہ کھلے تھے مگر اب وہ سارے راستے اور یوٹرن بند کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ایک عام حاجی کو بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے حتیٰ کہ اگر اس کا خیمہ زون ون میں اے کیٹگری میں ہے تب بھی اسے اپنے خیمے تک جانے کے لیے نارمل راستے سے گرمی میں 2.5 کلومیٹر پیدل چلنا ہو گا۔
محمد اعلیٰ کہتے ہیں کہ اگر اس راستے پر کسی کے ساتھ ایمرجنسی ہو جائے تو 30 منٹ تک کوئی آپ کے پاس نہیں آئے گا اور کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ زندگی بچائی جا سکے اور نہ ہی ایسے راستوں پر جگہ جگہ پانی کے پوائنٹس ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایسی ویڈیوز دیکھی میں جن میں کئی مصری شہریوں کی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سعودیہ نے عمرے کی مد میں انھیں جو ویزے جاری کیے تھے ان کا دورانیہ بہت لمبا تھا لہذا انھوں نے رک کر غیر قانونی حج ادا کیا۔
محمد اعلیٰ کا کہنا ہے ’چونکہ ان مصری شہریوں نے غیر قانونی طریقے سے حج ادا کیا تو ان کے پاس خیموں وغیرہ جیسی کوئی سہولت نہیں تھی، لہذا انھیں گرمی میں کھلے آسمان تلے رہنا پڑا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ دوسری زبان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تاہم اس کے حل کے لیے پاکستانی کیمپوں میں حکومت کے سکاؤٹس موجود ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی گرمی میں حاجی غلط روٹ پر چلا جائے تو اس میں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔
محمد اعلیٰ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ہر گروپ کے ساتھ لیڈر ہیں جو ہر وقت ساتھ رہتے ہیں۔ ہم خود بہت چوکس رہتے ہیں اور ہم نے پرائیوٹ بسیں رکھی ہیں اور عرفات کے کیمپوں میں ہمارے عازمین کے لیے 12،12 ٹن کے چلر چل رہے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے 240 عازمین بی کیٹگری میں تھے جن کے لیے چھ چلر چل رہے تھے اور اے کیٹگری میں 78 افراد کے لیے پانچ پانچ ٹن کی چھ کیبنٹس چل رہی تھیں لہذا ’ہمار پورا گروپ بہت آرام دہ حالت ہے اور ہمیں گرمی کے حوالے سے کسی صورتحال ا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
حج کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تدفین کیسے کی جاتی ہے؟
اسلام میں حج ایک ایسا فریضہ ہے جو صاحب حیثیت مسلمانوں کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور ادا کرنا ہوتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حج کا سفر مسلمانوں کو ان کے گناہوں کو مٹانے اور خدا کے سامنے پاکیزگی حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔
احرام باندھنے کے بعد حج کے پہلے دن حجاج کرام مکہ مکرمہ، سعودی عرب میں عمرہ ادا کرتے ہیں۔
طواف کے بعد مسلمان صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پیدل چل کر سعی کرتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج منیٰ کی طرف بڑھتے ہیں اور رات عبادت میں گزارتے ہیں۔
اگلے دن حجاج میدان عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں جہاں وہ دوپہر گزارتے ہیں۔ اپنے قیام کے دوران، حجاج جبل الرحمہ کی پہاڑی پر چڑھتے ہیں - وہ جگہ جہاں پیغمبرِ اسلام نے آخری خطبہ دیا تھا۔
سورج غروب ہوتے ہی حجاج کرام مزدلفہ کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ تیسرے دن حجاج آخری طواف کرتے ہیں، اس کے بعد جمرات کی رمی اور خدا کے نام پر جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔
سعودی عرب میں ہر سال عازمین حج شدید گرمی، ہجوم سے روندے جانے، بیمار ہونے یا سڑک پر حادثات سمیت مختلف وجوہات کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں مرنے والے کی شناخت، تدفین سمیت دیگر مراحل کی تمام ذمہ داری سعودی عرب کی حکومت اٹھاتی ہے۔
سعودی عرب کے حج قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص حج کرتے ہوئے وفات پا جائے تو اس کی میت واپس اس کے ملک نہیں بھیجی جاتی بلکہ ان کی تدفین سعودی عرب میں کی جاتی ہے۔
ہر حاجی حج کی تیاری کے دوران حج درخواست فارم پر کرتا ہے جس میں وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اگر وہ سعودی عرب کی زمین یا فضا میں مرتے ہیں تو انھیں وہیں دفن کیا جائے گا اور اس حوالے سے اگر خاندان میں کسی کی جانب سے بھی اعتراض کیا گیا تو اس کو قابل غور نہیں سمجھا جائے گا۔
مرنے والے کے اہل خانہ اس کی میت کو آبائی ملک نہیں لا سکتے اور نہ ہی سعودی حکومت سے کوئی سفارش کر سکتے ہیں۔ ایسی کوئی بھی درخواست سعودی حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی۔
سعودی عرب میں حج کے لیے جانے والے اپنی رہائش گاہ یا سڑک پر یا ہسپتال میں کسی حادثے میں ہلاک ہو جائیں تو اس کی خبر سب سے پہلے سعودی عرب میں متعلقہ ملک کے حج مشن کو دی جاتی ہے۔
کئی بار ہسپتال کے حکام یا عام لوگ براہ راست حج مشن کو یہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ اس شخص کی موت کہاں اور کیسے ہوئی ہے۔
کچھ بنیادی معلومات جیسے مرنے والے کا نام، عمر، ایجنسی، قومیت، شناختی کارڈ نمبر کلائی یا گردن پر موجود شناختی بینڈ سے حاصل کی جا سکتی ہیں جو حج کے لیے موجود تمام افراد کے لیے پہننا لازمی ہوتا ہے۔
ان بنیادی معلومات سے میت کی شناخت کی تصدیق کی جاتی ہے جبکہ اگر مرنے والے حاجی کے ساتھ کوئی رشتہ دار یا قریبی شخص ہو تو وہ بھی میت کی شناخت کرتے ہیں۔
اس کے بعد حج مشن مرنے والے کے اہل خانہ اور سعودی عرب میں وزارت حج کو مطلع کرتے ہیں جبکہ یہ معلومات ویب سائٹ پر بھی اپ ڈیٹ کی جاتی ہیں۔
اگر متوفی کے اہل خانہ سعودی عرب آ کر مرنے والے کا آخری دیدار کرنا چاہیں تو ایسا ممکن نہیں ہوتا تاہم اگر وہ مکہ مکرمہ میں موجود ہوتے ہیں تو انھیں میت کے آخری دیدار اور جنازے میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے۔
میت کی شناخت کے بعد، ایک تصدیق شدہ ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ یا موت کا سرٹیفکیٹ قریبی ہسپتال، حج آفس یا میڈیکل سنٹر سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سعودی حکومت موت کا سرٹیفکیٹ متعلقہ ملک کے حج مشن کو دیتی ہے اور پھر اس ملک کے حج دفتر سے موت کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے۔
لاش کی شناخت اور موت کا سرٹیفکیٹ جاری ہونے کے بعد میت کو غسل دینے اور تدفین کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
اگر کوئی حاجی مکہ، منیٰ اور مزدلفہ میں قیام کے دوران فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ مسجد الحرام یا کعبہ شریف میں ادا کی جاتی ہے۔
اور اگر مدینہ میں فوت ہو جائے تو مسجد نبوی میں نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی حاجی جدہ یا کسی اور جگہ فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ مقامی مسجد میں ادا کی جاتی ہے۔