پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گذشتہ دو روز کے دوران ایک درجن سے زائد ملکی اور غیرملکی پروازیں منسوخ کردی گئی ہیں، فضائی سفر کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ آپریشنل ایشوز کی وجہ سے متعدد پروازیں منسوخ کی گئی ہیں۔
شعبہ ہوا بازی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پروازوں کی منسوخی کی اہم وجہ ایئرلائنز کے پاس جہازوں کی کمی ہے، ہوائی سفر کی سہولت فراہم کرنے والی ہر کمپنی چاہتی ہے کہ وہ منافع بخش روٹس پر فلائٹس آپریٹ کریں۔
ترجمان سول ایوی ایشن اتھارٹی سیف اللہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی سمیت پاکستان کے تمام ہوائی اڈوں پر آپریشنز معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔‘
’موسم کی خرابی کے باعث پروازوں کی آمدورفت میں تاخیر ضرور ہوتی ہے لیکن پاکستان کے تمام ایئرپورٹس پر کام میں کسی قسم کا خلل پیدا نہیں ہوا۔‘
ملکی اور غیرملکی پروازوں کے منسوخ ہونے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یہ ایئرلائنز کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس بارے میں کوئی رائے نہیں دی جاسکتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سول ایوی ایشن اتھارٹی اس بات کو ضرور یقینی بناتی ہے کہ ہوائی سفر کرنے والوں کو زیادہ زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کہ ’سول ایوی ایشن کے فلائٹ آپریشنز کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، ان طے شدہ قوانین کی پابندی تمام ائیرلائنز پر لازم ہے۔‘
موجودہ صورت حال پر ایئرلائن کا موقف جاننے کے لیے قومی ایئرلائنز سمیت دیگر ایئرلائنز سے رابطہ کیا گیا، جس پر ان کی جانب سے بتایا گیا کہ پاکستان سے بیرونی ممالک اور اندرون ملک کی متعدد پروازیں منسوخ ہوئی ہیں۔ یہ پروازیں آپریشنل ایشوز کی وجہ سے منسوخ کی گئی ہیں۔
ایئرلائنز سے آپریشنل ایشوز اور ان کے حل سے متعلق سوال پر انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس بارے میں وہ کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔
کراچی کی ایک نجی ایئرلائن کے ذمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں کام کرنے والی ایئرلائنز اب کوشش کر رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ایسے روٹس پر فلائٹ آپریٹ کریں جہاں ٹریفک زیادہ ہے اور فلائٹس منافع بخش ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان سے سعودی عرب کے مختلف شہروں سے تواتر سے پروازیں منسوخ ہونے کی بنیادی وجہ عمرہ بند ہونا ہے۔
’اس وقت سعودی عرب سے عازمین حج کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے، اور عمرہ بند ہونے کی وجہ سے عمرہ ادا کرنے کے لیے جانے والے مسافروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس لیے پاکستان سے جدہ اور مدینہ جانے والے مسافروں کی تعداد بہت کم ہے۔ ایئرلائنز کوشش کر رہی ہیں کہ تین چار پروازوں کے مسافروں کو ایک ساتھ جمع کریں اور پھر ایک فلائٹ آپریٹ کریں۔‘
’اسی طرح اندرون ملک پروازوں کے مقابلے میں بین الاقوامی پروازوں پر منافع زیادہ ہے اس لیے ایئرلائنز اپنے جہاز انٹرنیشنل فلائٹس پر چلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔‘
انہوں نے ملکی اور غیرملکی پروازوں کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی سے لاہور یا اسلام آباد کی پرواز کا دورانیہ، پاکستان سے متحدہ عرب امارات کی پرواز کے دورانیے کے تقریباً برابر ہی ہے۔‘
’تاہم دونوں مقامات کے ٹکٹ کے کرایوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے ایئرلائنز کوشش کر رہی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسے روٹس پر فلائٹس چلائیں جہاں سے انہیں زیادہ منافع حاصل ہو سکے۔‘
شعبہ ہوا بازی کے ماہر طارق ابو الحسن بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نجی ایئرلائنز کی جانب سے لائسنس حاصل کرتے وقت سول ایوی ایشن سمیت دیگر اداروں سے طے کیا گیا تھا کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی دونوں روٹس پر جہازوں کو چلائیں گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اب کئی ایئرلائنز اپنے جہاز ان روٹس پر چلانے کو ترجیح دے رہی ہیں جہاں سے انہیں زیادہ منافع حاصل ہو رہا ہے۔‘
’اس کے ساتھ ساتھ ایئرلائنز نئے روٹس حاصل کرنے کے بعد اپنے فلیٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں کر رہیں جس کی وجہ سے انہیں ملکی اور بین الاقوامی پروازوں کو شیڈول کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
کیا پروازیں منسوخ ہونے کی وجہ سے ہوائی سفر کے کرایوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر حماد اسلم نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ گذشتہ دو روز سے پاکستان کے شہر لاہور میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں 26 جون کو لاہور سے کراچی پہنچنا تھا لیکن پروازیں مسلسل منسوخ ہونے کی وجہ سے وہ اب تک لاہور میں ہی موجود ہیں۔
حماد اسلم نے مزید بتایا کہ دو روز میں متعدد پروازیں منسوخ ہونے کے بعد آج جمعرات کی شام کی ایک فلائٹ میں سیٹ مل گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لاہور سے کراچی کا ون وے اکانومی کلاس کا ٹکٹ انہوں نے 45 ہزار روپے میں خریدا ہے، جبکہ معمول کے مطابق اس ٹکٹ کی قیمت 20 سے 35 ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے، تاہم مجبوراً مہنگا ٹکٹ خریدنا پڑا ہے۔