اس جملے نے اچانک میری توجہ اپنی جانب کھینچی اور میں نے اسے دوبارہ یہ بولنے کو کہا تو اس نے اسی انداز میں دہرا دیا۔ یہ تین ہفتے پرانی بات ہے لیکن اب وہ جب بھی گاڑی میں بیٹھتی ہے یا گھر میں موبائل پکڑتی ہے تو اسے اپنی طرف سیدھا کر کے ولاگرز کی نقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس بات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر ولاگز کرنے والے ولاگرز شاید بڑی عمر کے لوگوں کی توجہ تو اس طرح حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، لیکن بچے ان کے ولاگز سے ایسے ہی متاثر ہو رہے ہیں جیسے کسی زمانے میں نوجوان ٹی وی ڈراموں اور فلمی ہیروز سے ہوا کرتے تھے۔
ٹی وی اور فلموں میں آنے والے کرداروں تک تو رسائی محدود تھی لیکن یوٹیوب پر کمنٹس اور ای میل وغیرہ کے ذریعے ان ولاگرز اور یوٹیوبرز تک رسائی نسبتاً آسان اور ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ نہ صرف انہیں پسند کرتے ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر انہیں دیکھنا بھی پسند کرتے ہیں۔
عالیہ اکرم ایک ہاؤس وائف ہیں اور ایک بچی کی ماں ہیں۔ ولاگز کے اپنی بچی پر اثرات کے حوالے سے انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ولاگنگ اب صرف ایک تفریح نہیں ہے۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد کارٹونز کی بجائے ولاگز میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ولاگرز چونکہ روزمرہ کی زندگی کے واقعات دکھا رہے ہوتے ہیں جو کارٹونز میں غائب ہیں، اس وجہ سے بچے دلچسپی لیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک نو سال کی بیٹی کی ماں ہونے کے ناطے، میں نے دیکھا کہ میری بیٹی پر ان ولاگز کا بہت زیادہ اثر ہو رہا ہے۔ میں نے اس کا کافی حد تک مثبت اثر پایا، کیونکہ یہ میری بیٹی کے حواس، علم، بات چیت، الفاظ وغیرہ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن مجھے یہ اس طرح سے تھوڑا غیرصحت بخش معلوم ہوا کہ وہ جسمانی سرگرمیوں/کھیلوں کے برعکس ولاگز دیکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔‘
’کئی بار میں نے نوٹس کیا کہ میری بیٹی نے مجھے ماما جو کہ وہ روٹین میں کہتی تھی، کے بجائے مجھے ممی کہنا شروع کر دیا۔ شروع میں میں نے اسے مذاق کے طور پر لیا لیکن بعد میں یہ اس کی عادت بن گئی۔ اس چیز نے مجھے ہوشیار کر دیا۔ جس چیز نے مجھے اس پر سختی کرنے پر مجبور کیا وہ تھا کہ ایک دن اس نے اپنی استاد سے کہا کہ ’تمہارا نخرہ میرے جوتوں کی دھول کے برابر ہے۔‘
عالیہ اکرم کے مطابق ’جب میں نے اپنے بچے سے پوچھا کہ تم نے یہ سب کہاں سے سیکھا تو اس نے جھوٹ بولا کہ ماں یہ میرے ذہن میں آیا، لیکن جب میں نے مزید دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس نے یہ ولاگ سے سیکھا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ان ولاگز کی وجہ سے میری بیٹی کی سوچ بہت حد تک تبدیل ہو گئی ہے۔ کچھ مہینے پہلے وہ کہتی تھی ممی میں سائنسدان بنوں گی، وہ بڑے بڑے جانوروں کے ولاگز دیکھ کر کہتی تھی کہ میں جانوروں کی سائنس دان بنوں گی۔ لیکن ابھی ایک دن پہلے اس نے کہا ممی آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنی زندگی کا خواب بدل دیا ہے، اب میں ایک جانور بننا چاہتی ہوں۔ اگرچہ بظاہر یہ مزے کی بات ہے لیکن والدین کے لیے غور کرنے کا ایک نقطہ بھی ہے کہ ان کے بچے کی شخصیت کس حد تک ان ولاگز کے کنٹرول میں جا رہی ہے۔‘
عالیہ اکرم کی گفتگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان ولاگرز کی ویڈیوز پر کسی قسم کا کوئی چیک وغیرہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں، اور جس طرح کی چاہیں زبان بولیں، ان پر کسی قسم کی قدغن نہیں ہے۔ جس طرح ٹی وی پر چلنے والے مواد پر اتھارٹی پیمرا ہے یا کوئی فلم سینما تک پہنچنے سے پہلے سینسر بورڈ سے ہو کر گزرتی ہے۔
اس حوالے سے دو بچوں کی ماں اور سرکاری ادارے میں کام کرنے والی عائشہ خان کہتی ہیں کہ ’میں اپنے بچوں کو پاکستانی ولاگرز کے ولاگز دیکھنے سے روکتی ہوں کیونکہ وہ بہت زیادہ دکھاوا کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف بھی مسئلہ ہے کہ اگر بچوں کو دیگر ممالک کے ولاگز دیکھنے کی اجازت دیں تو ان کی زبان خراب ہوتی ہے اور اس میں ایسے الفاظ معمول کے مطابق بولے جاتے ہیں جو ہماری روز مرہ بول چال کا حصہ نہیں ہو سکتے۔‘
’ہم مائیں اکثر آپس میں یہ بات کرتی ہیں کہ غیرملکی ولاگرز کی زبان کا مسئلہ نہ ہو تو ان کو دیکھ کر بچے کچھ اچھا ہی سیکھیں گے، جبکہ پاکستانی ولاگرز کو دیکھ کر بچے طرح طرح کی ڈیمانڈز کرتے ہیں، کیونکہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پیسہ، گاڑیاں، بڑے گھر اور اچھا لائف سٹائل دکھا کر لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بچے وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘
فرح خان بھی ایک ماں ہیں اور ان کے چار بچے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بچے کورونا کے دور سے ان ولاگز کے عادی ہوئے ہیں کیونکہ ان دنوں بچوں کو مصروف رکھنا ایک مشکل کام تھا۔ اس دوران وہ طرح طرح جدید آلات کا تقاضا کرتے، کیونکہ اکثر ولاگرز اپنے ولاگز میں ان آلات کی پیکنگ کھولتے اور ان کے فیچرز بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حال ہی میں تمام ولاگرز نے قربانی کے جانور خریدنے پر دھڑا دھڑ ولاگز کیے ہیں۔ اس وجہ سے ہر بچہ ان جیسا جانور خریدنے اور منڈی جانے کی ضد کرتا نظر آ رہا ہے۔ اکثر گھر میں ایک بچہ اس بات پر ضد کر رہا ہوتا ہے کہ مجھے فلاں ولاگر کی طرح کا بکرا لینا ہے جبکہ دوسرے بچے کی ضد ہوتی ہے کہ نہیں فلاں کی طرح کا بیل لے کر آئیں گے۔ جب ان کا آپس میں اتفاق نہیں ہوتا تو ہم سے ضد کرتے ہیں کہ ایک کے بجائے دو جانور لے آئیں۔ اب ان کو کیسے سمجھائیں کہ اس دور میں تو ایک قربانی بھی مشکل ہے۔‘
سکرین ٹائم کا اثر
اس حوالے سے ماہر نفسیات سدرہ حسن رامے نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’زیادہ سکرین دیکھنے سے دماغی صحت متاثر ہوتی ہے۔ بچے اپنے اردگرد کے ماحول سے غافل ہو گئے ہیں جو کہ ایک تشویشناک بات ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’والدین کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ غور کریں کہ ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں؟ صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے پانچ صحت مند پروگراموں/ سرگرمیوں کے بارے میں بھی نہیں بتا سکتے جو ہم انہیں دے رہے یا مہیا کر رہے ہیں۔‘
سدرہ حسن کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی چیز تفریح کی صورت میں یا سکول کی سطح پر دستیاب ہے تو وہ صرف مٹھی بھر لوگوں کی دسترس میں ہے۔ ایک بڑی آبادی اس سے محروم ہے۔ اس سلسلے میں ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جس کے ذریعے گلی محلے کی سطح پر جسمانی سرگرمیوں کے لیے مواقع فراہم ہوں اور بچوں کا سکرین ٹائم کم ہو سکے۔‘
ماہر نفسیات نے مزید کہا کہ بچوں میں تنقیدی سوچ اور میڈیا کی خواندگی کی حوصلہ افزائی کریں۔ متنوع اور عمر کے لحاظ سے موزوں مواد کا انتخاب کریں اور والدین مسلسل نظر رکھیں۔ اقدار اور کسی بھی چیز کے متوازن استعمال کے بارے میں کھل کر گفتگو کریں اور بچوں کے اس کے فوائد و نقصانات سے آگاہ کریں لیکن اس سارے عمل میں تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔‘