قربانی کے نام پر قربان !
شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
اجتماعی قربانی کے نام پر دو کروڑ روپیے کے فراڈ کی خبر پر لوگوں کو حیرت نہیں ہونا چاہیے ۔ حیرت اس لیے نہیں ہونا چاہیے کہ مدتوں سے نام نہاد مذہبی ادارے مسلمانوں کو ٹھگتے آ رہے ہیں اور مسلمان مذہب کے نام پر آنکھیں بند کیے ٹھگے جانے کو خوشی خوشی برداشت کیے جا رہے ہیں ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بار بار ٹھگے جا رہے ہیں مگر ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہیں ۔ محاورہ ہے کہ ’ لالچ بُری بلا ہے ‘ ، اور یہ سارے فراڈ کے دھندے ’ لالچ ‘ ہی کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں ۔ جو ادارے اور جو افراد فراڈ کے دھندوں میں ملوث ہیں وہ انسانی نفسیات کے ماہر ہیں ، وہ خوب جانتے ہیں کہ لفظ ’ سستا ‘ لوگوں کو راغب کر سکتا ہے ۔ حیدرآباد کے ایک غیر سرکاری ادارے ’ خدمت فاؤنڈیشن ‘ نے اسی لیے لفظ ’ سستا ‘ کا استعمال کیا اور لوگ ٹوٹ پڑے ۔ عام طور پر حصہ ۳۵۰۰ سے لے کر ۴۰۰۰ روپیے تک تھا ، اس لیے یہ خواب دکھایا گیا کہ نہ صرف قربانی کا حصہ سستا ہے ، بلکہ سستے حصے میں گوشت بھی دیا جائے گا ، گھر تک پہنچا دیا جائے گا ! بس کیا تھا لوگوں نے ۲۷۰۰ اور ۲۸۰۰ کے دام سے حصے لیے اور جب لوگ بقرعید کی نماز پڑھ کر اپنے اپنے حصے کا گوشت لینے کے لیے ’ خدمت فاؤنڈیشن ‘ کے مراکز پر پہنچے تو نہ گوشت ہی ملا اور نہ ہی ’ خدمت فاؤنڈیشن ‘ کے دھوکے باز ہی ملے ، اور نہ ہی گھروں پر گوشت پہنچا ۔ لوگوں کو تقریباً دو کروڑ روپیے کا چونا لگا ۔ لیکن انہیں چونا لگنا ہی تھا کہ وہ بس ’ سستے ‘ کے نام پر دھوکے بازوں کی طرف کھنچتے چلے آئے تھے ، پہلے سے اکثر لوگ ان سے ناواقف تھے ۔ ’ فاؤنڈیشن ‘ کے ذمے داران اب فرار ہیں ، اگر وہ پکڑے بھی گیے تو کیا ہوگا ، مقدمہ ہی چلے گا ! نہ جانے ایسے ہی کتنے مقدمے چل رہے ہیں ، لوگ پریشان حال پیسے روپیے گنوا کر عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ اس ملک میں مذہبی شناخت اختیار کرکے لوگوں کو دھوکہ دینا بڑٓا ہی آسان ہے ۔ عام مسلمان مذہبی لگنے والے افراد پر بھروسہ کرتا ہے ، ان کی باتیں مانتا ہے ، اور بغیر چھان بین کیے ان کے کہے پر لبیک کہتا ہے ۔ اور پھر دھوکے کھاتا ہے ۔ لوگ خوب جانتے ہوں گے کہ کاروبار کے نام پر ، بغیر سود کی بینکاری کے نام پر ، پیسے ڈبل کرنے کے نام پر اور منافع دینے کے نام پر اس ملک میں مسلمان نہ جانے کتنی بار ٹھگے گیے ہیں ۔ ایک واقعہ سُن لیں ، علی گڑھ میں ایک صاحب نے کاروبار میں پیسے لگانے اور خوب منافع دینے کے نام پر پیسے جمع کیے ، پیسے دینے والوں میں دیندار افراد کی تعداد زیادہ تھی ، اس لیے کہ جس فرد نے پیسے جمع کیے تھے وہ ایک مولوی تھا ، ایک بڑے دینی ادارے کا فارغ ، اس پر کیسے بھروسہ نہ کیا جاتا ! وہ شخص اچھا گھر کرائے پر لیے ہوئے تھا ، اور ایک بہترین کار سے سفر کرتا تھا ، لوگوں کو یقین تھا کہ ایسا شخص بے ایمانی نہیں کر سکتا ۔ لیکن اس نے سب کو لوٹ لیا ۔ سب سر پکڑ کر بیٹھ گیے ۔ چونکہ معاملہ بھروسے کا تھا اس لیے کسی نے کوئی کاغذی کارروائی بھی نہیں کی تھی ، یعنی اس فراڈی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا ۔ وہ آرام سے کروڑوں روپیے لے کر چلتا بنا ! ایسا فراٖڈ بار بار ہوتا رہا ہے ، اور اگر فراڈیوں کے خلاف لوگ نہ جاگے تو ایسا فراڈ ہوتا رہے گا ۔ جہاں تک قربانی کے نام پر فراڈ کا معاملہ ہے تو یہ ہوتا چلا آ رہا ہے ، اور لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ فراڈی انہیں لوٹ رہے ہیں ، بچنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اجتماعی قربانی کے نام پر حجاج کو نہیں بخشا گیا ہے تو عام مسلمانوں کو کہاں سے بخشا جائے گا ! اسی ممبئی میں ایک گروپ مکہ مکرمہ میں آسانی کے ساتھ قربانی کی سہولت بہم پہنچانے کا دعویٰ کرتا تھا ، اس نے خوب پیسے جمع کیے ! وہ بے نقاب ہوا ، لیکن تب تک نہ جانے کتنے حجاج کرام کو چونا لگ چکا تھا ، ان کے نام کی قربانی نہیں ہو سکی تھی ! پتا نہیں ان کا حج قبول ہوا یا نہیں ! یہی کچھ اس ملک کے متعدد مسلم اداروں میں ہو رہا ہے ۔ کوئی ’ خدمت فاؤنڈیشن ‘ کی طرح بے نقاب ہو جاتا ہے ، اور کوئی بڑی خاموشی سے عرصے تک لوگوں کو لوٹتا رہتا ہے ۔ لہذا عام لوگوں کو چاہیے کہ ، بھلے ان کے سامنے کوئی مذہبی شخص ہی کوئی منصوبہ کیوں نہ رکھے ، وہ مکمل طور پر چھان بین کر لیں ، کسی کے کہنے میں نہ آئیں ، اور مطمئن ہونے کے بعد ہی قدم اٹھائیں ۔ اور اگر کوئی غیر مذہبی شخص منصوبہ پیش کرے تو مزید احتیاط برتیں ۔ مذہب کے نام پر آنکھیں بند کرکے کسی کے پھندے میں نہ پھنسیں
_____________&&&&
۔ٹایٔٹل:
کتاب کا نام: " افسانچوں کا درخت "
( سولہ افسانچے )
فکشن رائٹر : علیم طاہر
نیو سن اشاعت۔ : 2024
________________________________
فہرست:
01: آخر کار
02: فیضان رمضان
03:مجبوری
04: کھچڑی
05: درد ناک انجام
06: منطق
07: وائرس
08: شاباش بیٹا
09: کنفیوژن
10: ناستک
11: طمانچہ
12: نئی روشنی
13: چاۓ پی کے جاؤ
14: پوائنٹ آف انکاؤنٹر
15: اعتراض
16: پوائنٹ
________________________________
( 01): دو سطری افسانچہ....
" آخر کار"
علیم طاہر
ہم روشنی کی تلاش میں بھٹکتے رہے، آخر کار اندھیروں کے عادی ہوگئے ـ
------------------------------------___________
(02): فیضان رمضان
عاقب ماہ رمضان میں نماز فجر کے بعد حسب معمول شہر کے قبرستان میں فاتحہ کے لیے بڑے گیٹ سے اندر داخل ہوا ۔ ایک بزرگ جو لیٹے ہوئے تھے اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھے ۔ عاقب نے فاتحہ مکمل کیا اور واپس گیٹ کی جانب بڑھا ہی تھا کہ بزرگ بھی اس کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے مخاطب ہوئے ۔
۔۔سر۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔میں ۔۔۔کام نہیں کر پاتا ہوں ۔۔۔۔تو میری کچھ مدد کر دیجیۓ ۔
عاقب نے ٹھہر کر اپنی جیب سے بٹوا نکالا اور کچھ روپے بزرگ کے لرزتے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا
" بابا ۔۔۔میرے لیے بھی دعا کیجئے ۔۔میں ایک سرکاری ملازم ہوں ۔۔۔ میرا ٹرانسفر دہلی میں ہو جائے ۔"
بابا نے گردن ہلاتے ہوئے کہا " انشاء اللہ ۔۔۔۔انشاء اللہ ۔ ضرور بچہ۔۔۔۔۔!!! فیضان رمضان کی بارش سب پر ہوگی ۔
عاقب نے اپنی بائیک اسٹارٹ ہی کی تھی کہ آسمان سے بادلوں نے برسنا شروع کر دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.......۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔...................
03 " مجبوری"
علیم طاہر
مجبور عورت سرمایہ دار سے:۔۔۔۔۔
اللہ کے واسطے میری مدد کیجئے ۔ فطرہ ذکات جو بھی ہو دیجیے ۔
سرمایہ دار :۔۔۔۔کہاں سے ہو ۔ بیوہ ہو ۔ بے سہارا ہو ؟
عورت۔۔۔۔۔۔جی ۔۔۔بے سہارا ہوں ۔
سرمایہ دار:۔۔۔۔اچھا تو اور کام کر سکتی ہو ؟
عورت : ۔۔۔۔جی میں سمجھیں نہیں ۔۔۔
سرمایہ دار :۔۔۔۔سمجھنا کیا ۔۔۔آپ کو آم کھانے سے مطلب ۔
عورت: ۔۔۔۔جی۔۔۔
سرمایہ دار: ۔۔۔۔۔کھڑی کیوں ہو جاؤ کارخانہ کے اندر ۔۔
عورت: ۔۔۔۔۔جی لیکن ۔۔۔۔
سرمایہ دار:۔۔۔۔اف سوچو مت ۔۔۔۔ذکات چاہیے ناں ۔۔۔۔
عورت: ۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔
سرمایہ دار۔۔۔۔۔۔۔۔"تو بس۔۔۔۔تیار ہو جاؤ ۔"
عورت تھکے ہوئے قدموں سے کارخانے میں داخل ہو رہی ہے ۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا چکی ہیں ۔
ایک قیمت حاصل کرنے کے لیے اسے اتنی بڑی قیمت چکانی پڑ رہی تھی ۔
_______________________________..
(04 ).... کھچڑی
ٹیچر: کیا آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں لگتا؟
ہیڈ ماسٹر: وہ کیسے؟
ٹیچر: پہلے جب ٹرانسفر ہو کر آپ اسکول میں آئے تھے تو آپ نے پہلی میٹینگ میں کہا تھا کہ لوگ بچّوں کی کھچڑی کے چاول تک ہڑپ لیتے ہیں ـ میں یہ قطعی برداشت نہیں کروں گا اور اب ؟ پہلے تو کھچڑی کافی کافی مقدار میں پکتی تھی مگر اب تو ایک تہائی بھی نہیں! !
ہیڈ ماسٹر: ہاں بھئی، جو کہا جائے ضروری نہیں کہ وہ کیا جائے ـ
ٹیچر: سمجھ گیا سر میں سمجھ گیا، اب تو ہیڈ ماسٹر اور لیڈر میں کیا فرق ہے؟ میں سمجھ گیا ـ
--------------------------------------------------------
(05) ...درد ناک انجام
اس مصنف نے اپنے ہی مذہب کے خلاف اپنی کتابوں میں سستی شہرت پانے کے لیے زہر اگلنا شروع کر دیا ـ مذہب دشمنوں میں وہ عالمگیر شہرت کا حامل قرار پایا ـ دنیا میں سب زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کا خالق وہی مصنّف تسلیم کیا گیا ـ مگر ایک دن اسے نا معلوم بیماری کا انکشاف ہوا وہ ساری دنیا میں شفا ڈھونڈ رہا، آخر کار بے پناہ تکالیف اور مایوسیوں کے بعد اس کے دل کی دھڑکنیں رک گئیں ـ مذہبی لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا اور مخالفین مذہب کفِ افسوس ملتے رہ گئے ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(06).....منطق
ملزم: آخر آپ مجھ سے جھوٹ کیوں بلوانا چاہتے ہو؟
حاکم: کیونکہ مجھے سچ پسند نہیں ـ
ملزم: لیکن سچ کا دوسرا نام خدا ہے ـ
حاکم: مگر ہم خدا نہیں خدا کے بندے ہیں اور بندے گنہگار بھی ہوتے ہیں ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(07): و ا ئر س
پہلا: آخر میرے کمپیوٹر میں اینٹی وائرس کے باوجود وائرس آ کیسے جاتے ہیں ؟
دوسرا: کیونکہ وائرس کے سامنے اینٹی وائرس شکست کھا جاتے ہیں اور وائرس جیت جاتے ہیں ـ
پہلا: تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے ـ
دوسرا: دوبارہ اینٹی وائرس کے ذر یعے وائرس کا خاتمہ ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ__________
(08)......شاباش بیٹا
ماں: آدھی عمر ناول اور کتابیں پڑھتا رہا لیکن اپنے اندر ایک افسانہ لکھنے کی صلاحیت نہیں پیدا کر سکا ـ
بیٹا: ممّی ضروری نہیں کہ ہر ناول اور کتابیں پڑھنے والا تخلیق کار بن جائے ـ یہ تو خدا داد صلاحیت ہوتی ہے ـ
ماں: پھر وہ جمّن میاں کا لڑکا نہ ناول پڑھا نہ کتابیں پھر افسانوں کی کتاب کیسے چھاپ لی ـ
بیٹا: افوہ ممّی، تمہیں کیسے سمجھاؤں کسی ضرورت مند مصنف کو روپے دے کر اس کے افسانے اپنے نام سے چھپوانا نا انصافی اور ظلم ہے ـیہ میں تو کبھی نہیں کر سکتا ـ
ماں: شاباش بیٹا، شاباش، بالکل اپنے باپ پر گیا ہے ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(09) کنفیوثن
ایک آدمی: گفتگو سلیقے سے کی جانی چاہیئے ـ
دوسرا: تو کیا ہم جاہل ہیں ـ
آدمی: میں نے یہ تو نہ کہا ـ
دوسرا: یہی تو پرابلم ہے ـ جو تم نہیں کہتے ہو ہم وہی سوچ کر کنفیو ژ ہو جاتے ہیں ـ
آدمی؛: یہ تو تمہارا پرابلم ہے ـ
دوسرا : اور ہمیں اس پرابلم سے کنفیو ژن ہے ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(10) ناستک
دوست: کیا آپ اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے نبھا رہے ہو ـ
افسر: خبردار! مجھے اپنی ڈیوٹی کے بارے میں مت پوچھو ـ
دوست: کیوں، اسی لیے نا کہ ڈیوٹی بے ایمانی سے نبھا رہے ہو ـ
افسر: او چپ کر یار ـ ایمانداری اور بے ایمانی کا تصور، مجھ میں کب کا فنا ہو چکا ہے ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(11) طمانچہ
پہلا: سنا ہے کسی نے لیڈر کو طمانچہ رسید کر دیا ـ
دوسرا: ہاں بھئی، لیکن لیڈر نے طمانچہ رسید کرنے والے کو معاف کر دیا ـ
پہلا: پتہ نہیں بڑے لیڈروں کے ساتھ آگے کیا کیا ہونے والا ہے ـ
دوسرا: اب پوچھ ہی لیا ہے تو سُن !
مہنگائی اور نا انصافی یوں ہی بڑھتی رہی تو لیڈروں کو چوروں کی طرح گلیوں میں بھاگنا پڑ سکتا ہے ـ پوچھ کیوں ؟
پہلا: کیوں ، کیوں؟
دوسرا: کیونکہ ان کے پیچھے بیدار اور غصیلی عوام سر پٹ دوڑ رہی ہو گی ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ___________
( 12) "نئی روشنی "
پہلا: کیا تمہیں نئی روشنی میں دکھائ نہیں دے رہا ہے ؟
دوسرا : نہیں بھائی ، کچھ بھی نہیں ! اس میں تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔
پہلا : کیا ؟
دوسرا : پھر تم اپنی زندگی کا سفر کیسے طے کر رہے ہو ؟
پہلا : یہی تو تمہیں سمجھ نہیں رہا ؟
پہلا : کیا؟
دوسرا : میری زندگی کا سفر جاری نہیں ہے بلکہ رک گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( 13) "چائے پی کے جاؤ"
پہلا: تم کیا ہو ؟
دوسرا : میں کچھ نہیں ہوں ۔
پہلا : دروغ گوئی سے کام مت لو ۔ تم بہت کچھ ہو ۔
دوسرا : خبر دار !! مجھے چنے کے جھاڑ پر مت چڑھاؤ ۔
میں جانتا ہوں میں کچھ نہیں ہوں ۔ مجھے حقیقت میں جینے دو ۔ خواب مت دکھاؤ ۔
خواب گمراہ کر دیں گے ۔
مجھ میں غرور بھر دیں گے ۔ مجھے مغرور مت بناؤ ۔ بیٹھو چائے پی کے جاؤ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(14) : " پوائنٹ آف انکاؤنٹر"
افسانچہ نگار: علیم طاہر
پہلا: ریپ کرنے والوں کا انکاؤنٹر کر دیا گیا ۔ لیکن کیوں ؟
دوسرا: کیونکہ وہ پولس پر حملہ آور ہو گئے تھےاور بھاگنے کی کوشش بھی کر رہے تھے ۔
پہلا : یہ واقعہ کب اور کہاں ہوا ؟
دوسرا : حیدرآباد میں رات کے آخری پہر میں ،
پہلا : تو پولیس رات کو ہی کیوں لے گیء انہیں ۔
دوسرا: پولس کا کہنا ہے کہ دن میں ان پر پبلک کے حملہ کرنے کا خدشہ تھا ۔ اور جہاں انہوں نے ریپ کے بعد عورت کو جلا کر راکھ کر دیا تھا اس معاملے کو سلجھانے سمجھنے کے لیے ۔
پہلا: لیکن انہیں ہتھکڑیاں کیوں نہیں لگائی گئی تھیں؟ وہ حملہ آور کیسے ہوئے؟ اور رات کے اندھیرے میں کیا معاملہ سمجھا جا سکتا بھلا؟
دوسرا: بھائی بے شمار لوگ اس واقعے پر پولس کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں پذیرائی حاصل ہورہی ان کو ۔ اور تو سوالات کیے جارہا ۔
پہلا : اچھا تو کیا تو بھی اسے اچھا سمجھتا ہے ۔
دوسرا: ہاں بھائی نہ عدالت نہ شنوائی، نہ جیل ، نہ بہت بعد میں پھانسی، بس انکاؤنٹر اور بات ختم ۔
پہلا:۔ اچھا تو پھر جمہوریت کا خون نہیں ہے یہ ۔ اس طرح تو پولس جسے چاہے مار دے گی ۔ اصلی مجرمین کیسے پتہ چلے گا کون ہیں ؟ ہو سکتا امیر زادوں کو بچانے کے لیے بھی انکاؤنٹر کر دیا گیا ہو۔ ؟ کیونکہ اس سے پہلے ایسا بہت مرتبہ ہو چکا ہے ،
دوسرا:۔ بالکل بھائی اب بات سمجھ آئی ۔
پہلا : ہمیں ہر نکتے ہر پوائنٹ پر غور کرنا ضروری ہے۔ ورنہ جمہوریت بالکل ختم ہو جائے گی اور بے شمار مسائل جنم لیں گے ۔
دوسرا:۔ جی بھائی آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ اب تو انکاؤنٹر کی تحقیق کروائی جانی چاہئے۔ بہت شکریہ۔۔۔
________________________________
(15): اعتراض
پینٹ کی زپ کھینچ کر شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے اس نے سو سو کی چند کوری نوٹیں اس کے حسین چہرے پر اچھالتے ہوئے کہا
یہ لو تمہارے روپے ۔
یک لخت مشتعل ہو کر وہ بول پڑی،
روپے اٹھا کر عزت سے ہاتھ پر رکھو، میں نے تمہاری مرضی سے،تمہارے ساتھ رات بتائی ہے ۔میں کوئی بھکارن نہیں ۔
________________________________
(16) : پوائینٹ
ایک جوڑا باغیچے میں ۔۔۔
لڑکی: جانم بہت اداس ہو ۔ کیا وجہ ہے اداسی کی ؟
لڑکا: یار آج اور کل میں کتنا فرق ہو گیا ہے ۔ کل میں باہر پھرتا رہتا تھا ۔ گھر والے نکما نکما کہتے تھے ۔ پھر میں کام کرتے ہوئے باہر رہنے لگا ۔ اور اب گھر میں رہتا ہوں ۔ تو کہتے ہیں بڑا سمجھدار ہوگیا ہے ۔ جو باہر پھر رہے ہیں سارے نکمے ہیں ۔ دیکھو ہے نا کمال۔۔۔
لڑکی: کمال ومال نہیں ۔ لاک ڈاؤن نے بہت کچھ بدل دیا ہے ۔
لڑکا: ارے نہیں ، لاک ڈاؤن کس کی وجہ سے ہے؟
لڑکی: آں کرونا وائرس کی وجہ سے؟
لڑکا : ہاں اب آئی پوئینٹ پر۔۔ کرونا وائرس نے بہت کچھ بدل کے رکھ دیا ہے۔ سمجھیں؟
________________________________
(C): kitaab ka Naam:
"Afsanchon ka Darakht"
(Pandra Afsanche)
By: micro Fiction Writer:
Aleem Tahir.
Email id: aleemtahir12@gmail.com
Mobile no.9623327923.
______
*غزل*
🖋️*رُومان اختر
یوں مثل ِ گُل شگفتہ ہو یوں خوش لباس ہو
تُم بھی کوئی بشر ہو یہ کیوں کر قیاس ہو
تَن مَن کی رُوح و رَو جُدا اِک اَساس ہو
پھر چاہے کوئی پیاس گھڑی بھر کی پیاس ہو
تِس پر عَطا کہ جب کوئی خُوبی نہ پاس ہو
پھر کیا جو عاجزی کی کوئی بُو نہ باس ہو
اپنے لئے تو ٹھہر گیا ہے بس ایک پہر
وہ پہر جس میں سارا زمانہ اداس ہو
افسانہ خیز ہووےہے کیوں اس قدر جمال
اک چاند جیسے سارے زمانے کی آس ہو
تم کر لو اختیار جو باشندگی ء دل
کیوں اور پھر جنوں کی کوئی وجہ خاص ہو
ہو اور کیا غضب کہ میسّر نہ ہو خوشی
اور عُمر بھر خوشی کی جھلک آس پاس ہو
ہیں دولت حیات یہ سچی رفاقتیں
تُف ہے اگر تجھے یہ امیری نہ راس ہو
بس اک فریب ِسایا ہو بس دُھند ہو کوئی
اے میری آنکھو تم تو فقط سَن گلاس ہو
_______________:::
🌼غزل 🌼ورن آنند
چاند، ستارے، پھول، پرندے، شام، سویرا ایک طرف
ساری دنیا اُس کا چربہ اُس کا چہرہ ایک طرف
وہ لڑ کر بھی سو جائے تو اُس کا ماتھا چوموں میں
اُس سے محبت ایک طرف ہے اُس سے جھگڑا ایک طرف
جس شے پر وہ اُنگلی رکھ دے اُس کو وہ دِلوانی ہے
اُس کی خوشیاں سب سے اوّل سستہ مہنگا ایک طرف
زخموں پر مرہم لگواؤ لیکن اُس کے ہاتھوں سے
چارہ سازی ایک طرف ہے اُس کا چُھونا ایک طرف
ساری دنیا جو بھی بولے سب کچھ شور شرابہ ہے
سب کا کہنا ایک طرف ہے اُس کا کہنا ایک طرف
اُس نے ساری دنیا مانگی میں نے اُس کو مانگا ہے
اُس کے سپنے ایک طرف ہیں میرا سپنا ایک طرف
وَرُن آنند