🔖 *شگفتہ سبحانی*
گڈ ایوننگ ناظرین!
نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی وقفے وقفے سے شہر مالیگاؤں میں جرائم اور حادثات کی خبروں نے ذہن و دل کی و مفلوج کردیا ہے
کچھ واقعات اتنے خطرناک ہوۓ
کچھ تصویریں دہشت کی ایسی تصویریں ہو گئیں جس نے لبوں پر مہر لگادی ہے. پے درپے واقعات سے شہر مالیگاؤں بری طرح دہلا ہوا ہے
ایک طرف لخت جگر جن کے والدین صدمے سے دوچار ہیں دوسری طرف بیوہ بہنیں جن کے سروں پر قیامت ٹوٹی ہے،
اور ٹھیک اسی طرح
گزشتہ روز پیر محمد عرف اننا پر ایسڈ اٹیک کے واقعہ پورے شہر کو سکتے میں ڈال دیا ہے
ننھے کیف کیلئے اٹھتی ہر آواز میں درد کی گہار پائی گئی ہے ہر دل نے نم آنکھوں سے کینڈل جلا کر انصاف اور والدین کیلئے صبر مانگا ہے
یہ شہر کوئی عام شہر نہیں..
یہ تقدس کا ایسا روشن قصبہ رہا ہے جس کی ہوائیں کلمہ توحید سے، اللہ اکبر کی مسحور کُن آواز سے مشک بار رہی ہیں.
یہاں کی گلیوں میں عمر رسیدہ اور تجربہ کار نظروں نے ہمیشہ سے باحیاء طلبہ و طالبات کو دینی کتابوں کو سینے سے لگاۓ نظریں نیچی کئے گزرتے دیکھا ہے
یہاں کثیر تعداد میں تعلیم یافتہ افراد کی جیبوں میں رنگ برنگے پینسل، قلم ، روشنائی اور خطاطی کے برش دیکھے گئے ہیں
یہ شہر جیالوں کا شہر رہا ہے
یہاں ادب کے شہنشاہوں نے بنا تخت و تاج کے بھی دنیا بھر میں اپنے ہنر اور شہنشاہی کی چھاپ چھوڑی ہے
یہ نشہ کا شہر کبھی نہیں رہا..
یہ بندوق اور چاپڑ کا شہر کبھی نہیں رہا..
یہ حقہ اور چلم کا شہر کبھی نہیں بنا
یہ وہ قصبہ نہیں یہ وہ دیہات نہیں
جہاں چوک چوراہوں پر سٹے کھیلے گئے ہوں
یہ وہ میلے نہیں جہاں تلواریں چلتی ہوں
یہ وہ شہر نہیں جہاں خنخر سے، کٹر سے حملے ہوتے کبھی دیکھے گئے ہوں
پھر یہ شہر کو کس کی نظر لگی
یہ کھنڈر بھرا شہر ہمارا شہر تو نہیں...
یہ شہر پولس کیسوں کا شہر کیسے بن گیا، اور کتنے کیس اور کتنی سنوائیاں،گستاخی معاف لیکن اگر سارےمضبوط طبقے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور کیس کباڑی ہی کرتے رہیں تو
شہر کی قیادت کون کرے گا؟
کیا ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ کمیونٹی میں سماج میں دکھتی رگیں کون سی ہیں؟
صاف صفائی کا فقدان، اناج کی قلت، دوائیوں کی قلت، صحت کے تعلق سے بیزاری، بیماروں کی بھرمار، نئی ٹیکنالوجی کے نام پر کوئی عوامی حاجات کو پورا کرنے والا نہیں، گورنمنٹ کے خزانوں میں اسکیمیں بھری ہیں لیکن ہم اپنی تجوریوں کو بھرنے سے فرصت نہیں
دیکھا جاۓ تو چند مخصوص شہر کو چلا رہے ہیں
جن میں ٹیلنٹ ہے ان کی تو سنوائی کبھی نہیں رہی،
ہمیں اب یہ سوچنا ہوگا کہ شہر کو ہماری آپسی تانہ شاہی سے، آپسی رنجشوں سے آپسی من مٹاوٹ سے کوئی لینا دینا نہیں رہا ہے
شہر کو ایک پلیٹ فارم سے سمیٹنے کی ضرورت ہے، شہریوں کی پریشانیوں کو دقتوں کو سمجھنے اور ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے
کیا پریس کانفرنس اسی لئے رہ گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں ہی باتیں کریں؟
ہمیں اب ترقی پر بات کرنی ہوگی
ہم سب کو اب جرائم سے نمٹنے کے حل پر ایک ٹیبل پر بیٹھ کر بات کرنی ہوگی
یہ وقت عوام کیلئے بہت کٹھن ہے خدا کیلئے اپنی رنجشوں کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ
اور لوگوں کی آہ و فغاں پر غور کرتے ہوۓ اب کام کرنا ہے، جرائم پیشہ افراد کے بڑھتے حوصلوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکنے بلکہ ان کے آگے اب ہمیں کھڑا ہونا ہوگا
یہ شہر ہیروں کا شہر ہے..
یہاں بے شمار چہرے اپنی فیلڈ میں نمایاں ہیں
، ہمیں پورے سماج کیلئے کام کرنا ہوگا اور یہی ہمارا مقصد ہونا چاہئے.
گزشتہ روز پیر محمد پر ہوا حملہ پورے مالیگاؤں کیلئے شرم سے ڈوب کرمرنے کا مقام ہے
کسی کی زندگی کوئی کھیل تماشہ نہیں، ایسے افراد جو کمزور ہیں
جو لاچار ہیں ان کے ساتھ زیادتی قہر خدا کو آواز دیتی ہے
میں شگفتہ بنت سلطان سبحانی پورے سماج کی جانب سے پیر محمد پر، محمد کیف پر اور ان جیسے معصوم لوگوں پر حملے کی پر زور مخالفت کرتی ہوں،
حیوانیت مردہ باد
ظلم و جبر مردہ باد
اندھ بھکتی اور اندھ وشواس مردہ باد
ہرذی روح پر اٹیک پوری انسانیت پر اٹیک ہے
میری سماج کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ ایسڈ بنانے والے اور بیچنے والوں کو آن ریکارڈ رکھا جاۓ، پولس باریک بینی سے فالو آپ لے، ہتھیاروں اور کٹر، بندوق نیز گٹھکا، اور نشیلی ادوایات کیلئے باقاعدہ ٹرین اسٹاف کو تعینات کیا جاۓ.
مجھے شدید دکھ ہے جو کچھ پیر محمد عرف اننا کے ساتھ ہوا، جو محمد کیف کے ساتھ ہوا، جو لوگ پھانسی پر جھولے یہ سارے تکیلف دہ عمل
قابل گرفت فعل ہیں، ناقابل معافی اور ناقابل برداشت عمل ہیں
کسی کو زندہ دورگور کردینا
کسی پر ظلم کر کے اپنی باری کا انتظار نا کرنا یہ شیطانوں کا وطیرہ ہے
سچ تیرتا ہے
اور پہاڑوں کو چیرتا ہے
پاتال کو کھنگالتا، ہے اور آخر میں ابھرتا ہے اور فاتح ہوتا ہے
سمے رہتے جرائم پیشہ افراد کی کی پکڑ تو ہوگئی یا کاروائیاں دراز ہیں لیکن
ہمیں چاہئے کہ اپنے اطراف و گرد و پیش نظر رکھیں، اپنے بچوں کو اپنے قریب رکھیں.
ہمیں ڈرنا نہیں ہے ہمیں ایک جُٹ ہوکر سماج کی فلاح کیلئے کام کرنا ہے
قابل تعریف ہیں وہ تمام افراد جو سماج کو نشہ مکت کرانے میں، بچوں جو سلامتی سے گھر پہنچانے میں، غرباء کے نکاح کو آسان بنانے میں، بیواؤں کی مدد اور یتیم بچوں کی تربیت کرنے میں پیش پیش ہیں
اللہ انہیں جزاۓ خیر دیں
اور اسی کے ساتھ ہم سب کو ایکدوسرے کا مددگار اورسماج کا سچا خادم بناۓ.
ہمارے سماج کو اللہ پاک ہر قسم کے نشہ اور جرائم سے محفوظ رکھے. (آمین)
تو ڈھونڈ فقیروں میں
تو ڈھونڈ گداؤں میں
مل جاؤں گا میں تجھ کو
مظلوم آہوں میں
ادھڑی سے قمیصوں میں
پیوند کی شالوں میں...
فاسق کی سبھی چالیں
اک کُن سے پلٹتا ہوں
کہلاتا ہوں سب کا رَب
ہاں رب جہاں میں ہوں..
تو ڈھونڈ فقیروں میں!
تو ڈھونڈ گداؤں میں!!
_____________
دیویندر ستیارتھی 28 مئی 1908 کو بھدوڑ، ضلع سنگرور، پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ انہوں ے اردو میں 106 کے قریب افسانے لکھے جسے ناقدین نے پسندیدگی کا درجہ بخشا۔ تخلیقی سطح پر دیوندر ستیارتھی نے اپنے افسانوں میں افسانوی اور غیر افسانوی اصناف کی مختلف خوبیوں کو یکجا کرکے افسانوں کو ایک نئی جہت عطا کی ۔ دیوندر ستیارتھی شہرہ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے معاصر تھے۔ ان کے موضوعات منٹو کے موضوعات سے ملتے جلتے تھے مگر ان کا اسلوب منٹو سے بالکل مختلف ہے اور ان دونوں کے افسانوں میں موضوعات کی یکسانیت کے سوا دوسری مماثلت مشکل سے ہی ملتی ہے۔ دیوندر ستیارتھی کے ہاں طنز و تمسخر کی بجائے ہمدردی اور درد کو برتنے کا احساس نظر آتا ہے۔ ان کے ایک اور ہمعصر افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی اردو افسانے کا بڑا نام ہیں۔ دیوندر ستیارتھی کے ابتدائی افسانوں پر پریم چند کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے مگر وہ اس اثر سے جلد باہر آ گئے اور اپنا منفرد اور ممتاز اسلوب قائم کرنے میں کامیاب رہے . بلراج مین را سے بھی انہوں نے اثر قبول کیا اور ان کا اسلوب بلراج سے کافی قریب دکھائی دیتا ہے۔ عبدالسمیع نے اپنی کتاب "دیوندر ستیارتھی : شخصیت اور آثار " نگری نگری پھرا مسافر" میں لکھتے ہیں
"موضوع اور بیانیہ کا جتنا تنوع ستیارتھی کے یہاں ہے وہ کسی ایک افسانہ نگار کے ہاں شاید ہی ملے ۔"
ستیارتھی نے 2003 میں وفات پائی ۔
عالمی افسانہ فورم کے قارئین کے لیے ان کا ایک افسانہ پیش ہے
انگور پک گئے🔴دیویندر ستیارتھی
🖼️ٹایپنگ انتخاب :- احمد نعیم ۔ مالیگاؤں 🔵
بنسری اپنی کوکھ میں نہ جانے کتنے خوابیدہ سر ، نہ جانے کتنے نیم بیدار رنگ جذب کرتی ہوئی ایک اچھوتے نغمے کو جنم دیتی ہے - یہی حال تخیل کا ہے - جو دھرتی کی ہی جانب دیکھنے پر مجبور ہے - جو ہل کی لکیروں کا جائزہ لیتی ہوئی آنے والی فصلوں کی تصویر پیش کرتی ہے - میں انھیں خیالات میں کھویا ہوا تھا جبکہ مجھے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ایک شرنارتھی دکاندار کی ٹوکری میں کچھ بھٹےّ نظر آگئے - میں سچّ کہتا ہوں کہ یہ بھٹےّ دیکھ کر مجھے بےحد خوشی ہوئی - بھاؤ پوچھنے کی میں نے چنداں ضرورت نہیں سمجھی - جیب سے رومال نکال کر بچھا دیا - دکاندار نے مجھے سے پوچھے بغیر ہی ایک سیر بھٹےّ تول کر رومال پر ڈالا دیے
"کتنے پیسے ہوئے سردار جی ؟" رومال میں بھٹےّ لپیٹ کر اسے گانٹھ دیتے ہوئے میں نے پوچھ لیا -
نہ زیادہ نہ کم پورے چھ آنے
"
اس نے جواب دیا،.... جیب سے پیسے نکال کر میں نے اس کے ہاتھ پر رکھ دیے اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا - 'نہ زیادہ نہ کم پورے چھ آنے' دکاندار کا بول میرے دل میں برابر چبھتا رہا - یہ سب کہنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟'نہ زیادہ نہ کم ،کہے بغیر کیا اس کا کام نہیں چل سکتا تھا ؟؟بلکہ "پورے چھ آنے کہنے کے بجاے ،چھ آنے ،کہنا ہی کافی ہوتا - ہمارے لوگ کتنے بیکار الفاظ استعمال کرتے ہیں ،کتنے بیکار رنگ انڈلیتے ہیں! نہ جانے میرے تخیل کو کیا سوجھا کہ چلتے چلتے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی گانو میں پہنچ گیا ہوں اور کوئی پوچھ رہا ہے ____اس رومال میں کیا ہے بھٹےّ ؟؟الٹے بانس بریلی کو! بھٹوں کو یہاں گانوَ میں پہلے ہی کیا کچھ کمی تھی کہ یہ تکلیف اٹھائی...... جیسے میں من ہی من میں بری طرح شرمندہ ہوگیا اور یہ سوچ کر کہ یہ بھٹےّ وہ بھٹےّ تو ہرگز نہیں جو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر سیدھے کھیت سے لائے گئے ہوں بلکہ یہ تو چھ آنے سیر والے بھٹےّ ہیں ، میں بری طرح لاجواب ہوگیا - جی میں تو آیا کہ واپس جاکر یہ بھٹےّ سردار جی کی ٹوکری میں پھینک آؤں اور کہوں ________یہ پورے چھ آنے سیر والے بھٹےّ میرے کام کے نہیں ،مجھے تو وہ بھٹےّ چاہیے جو جن کا ذکر ِ خیر لوک گیت میں بھی گونج اٹھا ہے _______"میرا یار مکیّ دی راکھی ،ڈب وچ لیا وے جھلیاں! ،(میرا محبوب مکئی کے کھیتوں کا رکھوالا ہے وہ اپنی دھوتی کی پھینٹ میں بھٹےّ چھپا کر لاتا ہے) لیکن میرے پاؤں پیچھے کی طرف پلٹنے کے عوض آگے کی طرف بڑھتے چلے گئے - گھر پہنچ کر میں نے ان بھٹوں کو آگ پر بھوننے کی تاکید کی ، کوئلوں کی آگ پر بھونے ہوے بھٹےّ ،اور وہ بھی پورے چھ آنے سیر والے بھٹےّ ،محبوب کی دھوتی کی پھینٹ میں چھپا کر لائے ہوے بھٹےّ نہیں ، پھر بھی بہت مزے دار لگے -
اگلے روز میں سردار جی کی دکان پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جس ٹوکری میں کل بھٹےّ تھے آج انگور گھچے پڑے ہیں ، میں نے ہنس کر کہا - "ہم تو بھٹوںّ کے گاہک ہیں سردار جی!" انگورؤں کے نہیں - "
" بنے ٹھنے بھٹوں نے آپ کا کیا سنوار ہے اور بیچارے انگوروں نے کیا بگاڑا ہے "؟؟دکان دار نے ہنس کر پوچھ لیا -
میں اس کا کیا جواب دے سکتا تھا ؟ہاں میں نے اتنا ضرور کہا" اب انگور ہی لینے پڑیں گے - ہم تو اس ٹوکری سے یارانہ گانٹھ چکے ہیں سردار جی "!
دکان دار کی آنکھوں میں ایک چمک تھرک اٹھی - بولا شکر ہے واہگورو کا کہ ابھی تک ایسے گاہک موجود ہیں آپ ہمارے گا نو آئے ہوتے تو میں آپ کو اتنے انگور کھلاتا کہ آپ کی طبیعت خوش ہوجاتی -" آپ چاہیں تو اس ٹوکری سے بھی مجھے پیٹ بھر انگور کھلا سکتے ہیں سردار جی میں نے اچھل کر کہا" لیکن یہ وہ انگور تو نہیں ہیں جو آپ کو اپنے گانو میں کھلا سکتا تھا وہ انگور اور تھے ،یہ اور انگور ہیں "-
دوکان دار کی آواز میں جدائی کے سر گونج اٹھے جو بنسری کے نغمے میں رنگ بھر دیتے ہیں
میں نے کہا "کیوں ان انگوروں میں بھی تو رس ہوگا یہ بھی میٹھے ہوں گئے"
" آپ بھی کیا بھولی باتیں کرتے ہیں جی! دوکان دار نے گویا تخیل کی کوچی تیزی سے تصویر پر پھیرتے ہوے کہا -" یہ انگور بھلا ان انگوروں کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں ؟"-
میں انتظار میں تھا کہ وہ انگوروں کا بھاؤ بتاے میں کس قدر خوش ہورہا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ پورے تین روپے سیر کا بھاؤ بتاے گا شاید ڈھائی روپے سیر پر ہی مان جاے گا -
وہ کہہ رہا تھا "لاکھوں خوشبویں اپنی کوکھ میں چھپا کر رکھنے والی دھرتی تو پیچھے رہ گئی جس پر انگور پیدا ہوتے ہیں"
مجھے دوکان دار کی ناامیدی اچھی نہیں لگی آخر وہ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے ،یہ بات میں سمجھ نہیں سکتا تھا - میں نے کہا "آخر یہ انگور اسی دھرتی سے آئے ہوے ہیں پہلے بھی اسی طرح آتے تھے اتنا کیا فرق پڑ گیا! بہت فرق تو پڑ بھی نہیں سکتا - "جی ہاں یہ تو ٹھیک ہے" وہ کہہ رہا تھا" "بہت فرق نہیں پڑ سکتا - آپ سچ کہتے ہو لیکن کبھی میں ان ہاتھوں سے انگور اگاتا تھا"
"آپ انگور اگاتے تھے سردار جی! "
" میں نے پوچھا
"کیسے اگاتے تھے انگور ؟کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ بھولے بادشاہ سردار جی"
"اب وہ دھرتی پیچھے رہ گئی جہاں میں نے چن چن کر انگور کی بیلیں لگائی تھیں - ہوسکتا ہے آپ کو آج یقین بھی نہ آے - آج آپ کو یقین آ بھی کیسے سکتا ہے ؟آج ہم اپنے گھر کے بادشاہ نہیں رہے ________آج ہم فٹ پاتھ کے دکان دار بن گئے ہیں! "
"یقین کیسے آئے گا سردار جی" ؟آپ کو جھوٹ بولنے کی کیا پڑی ہے ؟لیکن ایک بات تو بتاؤ ،کیوں وہ انگور کی بیلیں یہاں نہیں لگائی جاسکتیں ؟"
میں نے دیکھا دوکان دار کے چہرہ پر ایک رنگ آرہا تھا ، ایک رنگ جارہا ہے ، شاید وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ سرکار اس سلسلے میں کیا کرنا چاہتی ہے وہ جانتا تھا کہ وہاں کی آب و ہوا کو یہاں نہیں لاسکتی جو انگور کی فصل کے لیے بےحد ضروری ہے
میں نے اس کا حوصلہ بڑھا نے کے لئے کہا "سائنس دانوں کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ نئے حالات کو دیکھتے ہوے اس دھرتی پر انگور کی سہولت مہیا کرنے میں ہماری مدد کریں سرکار ان سے ضرور مدد لے گی -"
کئی گاہک آئے ، کئی گئے میں ڈٹ کر کھڑا رہا - بازار میں بہت بھیڑ تھی نہ جانے کتنی آوازیں اس شور میں خلط ملط ہورہی تھیں
میں دوکان دار سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر سچ مچ اس کا اپنا باغیچہ تھا تو وہ یہ کیوں نہیں بتاتا کہ انگور کی بیلوں پر بور آتے دیکھ کر اس کا دل کس طرح اچھل پڑتا تھا - پھر جب یہ بور کچےّ دانوں میں بدل جاتا تو اسے کتنی خوشی ہوتی تھی - جس جس درخت پر انگور کی بیلیں چڑھتی تھیں وہ اسے کتنے پیار ے لگتے تھے اور جب کہیں کہیں پھل کے بوجھ سے بیلیں نیچے کو ڈھلک آتی تھیں تو وہ اس کے دل پر کیسا جادو سا ہو جاتا تھا ایسے ایسے نہ جانے کتنے سوالات میرے ہونٹوں سے پلٹ گئے میں نے اتنا بھی نہ پوچھا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ جب بور کچےّ دانوں میں بدل جائے تو ایسی دھوپ پڑے جس سے دانوں کا رنگ بدل جائے میں یہ بھی پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ دھوپ کیسی ہوتی ہے جو اپنی طاقت سے سبز دانوں کو کچھ کچھ سرخی مائل کر دیتی ہے -
انگور لوں یا نہ لوں ، بس یہی سوال ہوتا تو میں نے کھبی کا فیصلہ کرلیا ہوتا ، لیکن میرا ذہین تو تخیل کے تانے بانے سے الجھ کر رہ گیا - کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میں یوں بالکل نہ سوچتا - سامنے ٹوکری میں انگور پڑے تھے - اپنے ذہن کو ایک جھٹکا دے کر یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ ابھی اور کتنی دیر لگے گی
وہ کہہ رہا تھا "یہ انگور اتنے میٹھے تو نہیں ہو سکتے جتنے کہ میرے اپنے باغیچے والے انگور!"
"لیکن ہے تو یہ بھی انھیں انگور ں کے بہن بھائی!"
میں نے کہا "وہ انگور ان سے ذرا زیادہ سرخی مائل نظر آتے ہوں گے ، ذرا زیادہ رسلیے ہوں گے!"
دوکان دار نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اتنے میں ایک گاہگ آگیا وہ اُس سے باتیں کرنے لگ گیا اس کے سامنے وہ ان انگورؤں کی بےحد تعریف کرتا چلا گیا اور آخر آدھ سیر بیچنے میں کامیاب ہوگیا
میں نے کہا" آدھا سیر انگور میرے لیے بھی تول دو ، سردار جی! چھوڑو یہ باتیں کہ وہ انگور اور تھے اور یہ انگور اور ہیں!"
انگور لے کر میں نے رومال میں رکھ لیے اور پوچھا
" کتنے پیسے ہوے سردار جی ؟"
"نہ زیادہ نہ کم ، پورا ڈیڑھ روپیہ!"
ڈیڑھ روپیہ اس کے ہاتھ پر رکھ کر میں اپنے گھر کی طرف چل پڑا -
اگلی صبح اس کی دوکان پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پھر اس کی ٹوکری میں انگوروں کے عوض بھٹےّ پڑے ہیں شاید وہ سمجھ گیا کہ میں شکایت کرنے آیا ہوں وہ کہہ رہا تھا
" میں نے انگور بیچنے کا خیال نکال چھوڑا ہے اپنے دل سے - لے لو نٹ کھٹ بھٹےّ جتنے چاہو ، چھوڑو بیچارے انگوروں کا خیال جو کھٹے بھی نکل سکتے ہیں -"
میں نے اس کا من رکھنے کے لیے کہا
"لیکن تمہارے انگور تو بہت میٹھے ہیں -"
"میں کیسے یقین کرلوں" ؟وہ کہہ رہا تھا
"یہ انگور ان انگور ان انگوروں کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں ؟وہ انگور جن کی بیلیں مجھے بار بار پکارتی تھیں ______آؤ سردار جی ، انگور پک گئے! وہ انگور اب میں کہاں سے لاؤں"
"بھٹےّ اپنی جگہ ہیں سردار جی ، انگور اپنی جگہ ، میں نے کہا
"انگوروں پر آپ کی ناراضگی تو ٹھیک نہیں -"
وہ جھٹ ساتھ ساتھ والی دکان میں گیا اور وہاں سے انگوروں کی ٹوکری لیتا آیا اس کی آنکھوں میں چمک تھی شاید وہ کہنا چاہتا تھا کہ انگور آخر انگور ہیں خواہ وہ کسی قدر کم میٹھے ہی کیوں نہ ہوں - گحھچے اٹھا اٹھا کر مجھے دکھاتا رہا میں سمجھ گیا کہ اس کے تخیل میں اس کے باغیچہ کی تصویر ابھر رہی ہے اور وہاں کی ایک ایک بیل کہہ رہی ہے - _________انگور پک گئے!
شاید وہ کہنا چاہتا تھا کہ ایک دن آے گا - یہاں بھی بیلوں پر بور آے گا - ، یہاں بھی وہ چن چن کر انگوروں کی بیلیں لگاے گا - یہاں بھی بیلوں پر بور آے گا ،یہاں بھی یہ بور کچے ّ دانوں میں بدل جاے گا اور پھر کچے دانوں پر دھوپ پڑے گی - انگور کے دانے سرخی مائل ہوتے چلے جائیں گے اور پھر گویا دھرتی خود اپنے منھ سے پکار اٹھے گی _____انگور پک گئے!
--------------------
🔴(آج کل" نئی دہلی دسمبر 1948)
مرتبہ 🔵عبد السمیع دہلی
_____________
نظم:
★ عید ★
★ علیم طاہر ★
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا
پیار خوشبو محبت وفا عید ہے
رنگ بھی حسن بھی اور ادا عید ہے
کچھ فقیروں کی بھولی صدا عید ہے
ہر پریشان کی خاطر دعا عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا
یہ غریبوں کی خاطر ہے الجھن کا دن
ہاں امیروں کا جیسے ہے لندن کا دن
جو ہیں بھوکے تو ان کی خراب عید ہے
ایسے مزدوروں پر تو عذاب عید ہے
عید کا دن جو ایا تو ایسا لگا
بوڑھے اپنی ہی تقدیر پر رو دیے
کل کے خوابوں کی تعبیر پر رو دیے
اب بہار یں نہیں ہیں خزاں عید ہے
اب کے گلشن کا اجڑا سماں عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا
پھر تصور میں اس کا تکلم بھی ہے
عید جنت بھی ہے اور جہنم بھی ہے
بیتی یادوں کی شہنائی بھی عید ہے
ایک عاشق کی تنہائی بھی عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا
کتنی بیوائیں قسمت پہ رونے لگیں
اپنی بیتی محبت پہ رونے لگیں
ان کے زخموں کا جیسے کنول عید ہے
ان کے خوابوں کا پیارا محل عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا
اپنا جینا بھی اب کے عذاب ہو گیا
سوچیے کیسے کھانا خراب ہو گیا
انگنت مسئلے پیچ و خم عید ہے
آج اپنے لیے رنج و غم عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا
اس کی رحمت سے ہم ہیں جدا اس قدر
ہم سے ناراض کیوں ہیں خدا اس قدر
اپنا بگڑا مقدر یہی عید ہے
فکر کا ایک سمندر یہی عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا
عید کی پہلے جیسی نہیں برکتیں
نہ حقیقی مسرت نہ ہی رونقیں
ہر مسلماں کی تفریح کا حل عید ہے
کیا نمائش کا جھوٹا عمل عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا
ہوٹلوں تھے تھیٹروں پر ہے جم غفیر
گاکے قوالیاں مانگتے ہیں فقیر
حسن کی بے حجابی بھلا عید ہے
ہم نے اتنی خرابی بھلا عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا
ان دلائل کا منظر بھی مل جائے گا
یہ تو سچائی ہے کون جھٹلائے گا
بدلباسی وہ بےچارگی عید
اب غریبوں کی فاقہ کشی عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا بے
بے بسی کے ٹھکانے پہ ہم لوگ ہیں
صرف آنسو بہانے پہ ہم لوگ ہیں
وہ فلسطیں کی اب تو جہاد عید ہے
ان کی قسمت میں طاہر فساد عید ہے
عید کا دن جو آیا تو ایسا لگا۔
علیم طاہر
_______________________________
(C):
Eid
By
Aleem Tahir
Mobile no.9623327923.
Email id: aleemtahir12@gmail.com
علیم طاہر
__________________
غزل
غم کی رنگت نکھر بھی سکتی ہے
شاعری زخم بھر بھی سکتی ہے
تم کسی زعم میں نہیں رہنا
شاہزادی مکر بھی سکتی ہے
وہ جو دل سے اُترنے والی ہے
بات دل میں اُتر بھی سکتی ہے
جس کی خاطر تُو جی نہیں سکتا
تیری خاطر وہ مر بھی سکتی ہے
تیرگی سے بھلا ڈریں کیوں کر
شب تو شب ہے گزر بھی سکتی ہے
کچھ ضروری نہیں کہ لوٹ آئے
یہ نظر ہے ٹھہر بھی سکتی ہے
یہ نہ ہو آہ تم کو لگ جائے
اب کے وہ ضبط کر بھی سکتی ہے
میری خوشبو ہوا میں ہے تحلیل
تجھ کو چھو کر گزر بھی سکتی ہے
تُو اگر دیکھ لے مری جانب
میری قسمت سنور بھی سکتی ہے
کیا کہا ،آپ ملنے آئیں گے؟
یعنی صورت نکھر بھی سکتی ہے
اُس نے سوچا نہیں رباب کبھی
ایک لڑکی ہے ، ڈر بھی سکتی ہے
فوزیہ رباب
گوا، الہند