یروشلم : کیا حزب اللہ کے حملے سے اسرائیل ڈر گیا ہے؟ وہ اچانک امن کی باتیں کیوں کرنے لگا ہے؟ یہ سوال اس لئے ہے کہ صرف ایک روز پہلے حزب اللہ نے اسرائیل پر 200 سے زیادہ راکٹ حملے کئے تھے۔ اس کے فوراً بعد ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کا بیان آیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو غزہ میں جنگ بندی کے لئے حماس کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے وہ مذاکرات کار بھیجنے والے ہیں۔
اہلکار کے مطابق امریکہ نے غزہ میں مرحلہ وار جنگ بندی کی تجویز دی ہے جسے حماس کسی حد تک قبول کرتا نظر آرہا ہے۔ ان کی طرف سے بھی امن کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اہلکار نے کہا کہ نیتن یاہو نے بات چیت جاری رکھنے کے لیے ایک ٹیم کو ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ مذاکرات کہاں اور کب ہوں گے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
حماس نے کیا شرط رکھی تھی؟
اس سے پہلے بھی مذاکرات کی کوششیں ہوئی تھیں۔ اس وقت حماس نے اسرائیل سے جنگ ختم کرنے اور غزہ سے اپنی سھی فوجیں واپس بلانے کیلئے کہا تھا۔ اسرائیل نے اسے قبول نہیں کیا اور امن مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ اہلکار نے بتایا کہ نیتن یاہو نے پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اسرائیل اس وقت تک جنگ ختم نہیں کرے گا جب تک وہ حماس کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر دیتا ہے اور غزہ میں یرغمال بنائے گئے سبھی افراد کو رہا نہیں کرا لیتا ہے ۔
اسرائیل پر 200 سے زائد راکٹ داغے گئے
ادھر ایک روز قبل حزب اللہ نے اسرائیل پر 200 سے زائد راکٹ فائر کئے تھے۔ راکٹوں کا ہدف اسرائیلی فوجی اڈے تھے۔ حزب اللہ نے یہ حملہ اپنے ایک اعلیٰ کمانڈر کی موت کے بعد کیا ہے۔ یہ حزب اللہ کا تیسرا اعلیٰ کمانڈر ہے جو نو ماہ کے اندر مارا گیا ہے۔ حزب اللہ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کرتا رہا ہے۔