ان جھڑپوں کے تناظر میں اسرائیلی فوج نے اتوار کی صبح اعلان کیا کہ ملک کی فضائیہ نے یمن سے داغے جانے والے میزائل کو اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی مار گرایا ہے۔
اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق بحیرہ احمر کی بندرگاہ ایلات میں میزائل کے ٹکڑے لگنے کے خدشات کے پیش نظر فضائی سائرن بھی بجائے گئے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے فریقین سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی۔
جہاں ضرورت پڑے گی وہاں ہم ردِ عمل دیں گے: اسرائیل
ایران نے یمن پر اسرائیل کے ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یوآف گالانت نے یمن کی بندرگاہ پر ہونے والے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے اپنے شہری کی ہلاکت کے بعد یمن کے شہر پر حملہ حوثیوں کو سبق سکھانے کے لیے کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ اس وقت حدیدہ میں لگی آگ کے شعلے پورے مشرق وسطیٰ میں نظر آ رہے ہیں اور اس کا مطلب بالکل واضح ہے۔
’حوثی ہم پر 200 بار سے زیادہ حملہ کر چکے ہیں۔ اب جبکہ پہلی بار جب انھوں نے ایک اسرائیلی شہری کو مارا تو ہم نے ان پر حملہ کیا ہے اور جہاں جہاں ضرورت پڑے گی وہاں ہم ردِ عمل دیں گے۔‘
حوثی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے حملے میں تیل ذخیرہ کرنے کی تنصیبات اور ایک پاور پلانٹ کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ ’یمن کے حوثیوں نے اسرائیل کو نو ماہ مسلسل فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جس کے بعد اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے 800 کلومیٹر کے فاصلے سے عسکریت پسند گروہ حوثیوں کے فوجی اہداف کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا ہے۔‘
حوثیوں کے مرکزی نیوز چینل المسیرہ ٹی وی نے ابتدا میں یہ بتایا تھا کہ یہ حملے امریکی اور برطانوی افواج نے کیے ہیں تاہم بعد میں امریکی اور برطانوی افواج کا حوالہ ہٹا دیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کو حوثیوں کی جانب سے ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس پر حملے میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایرانی ساختہ ڈرون کا استعمال کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ فوجی دستوں نے ڈرون کے اپنی حدود میں آتے ہی اسے ریڈار پر دیکھ لیا لیکن ’انسانی غلطی‘ کی وجہ سے اسے گرایا نہیں جا سکا۔
ماضی میں اسرائیل پر داغے گئے تقریباً تمام حوثی میزائلوں اور ڈرونز کو ملک کے دفاعی نظام نے روک کر پسپا کر دیا تھا اور اس بات کے شواہد موجود نہیں ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی اس سے پہلے تل ابیب تک پہنچ سکا ہو۔
یمن اسرائیل سے 1600 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کے کچھ حصوں پر قابض حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے اور غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی کے بعد سے حوثیوں نے اسرائیل اور اس کی املاک پر حملے شروع کیے ہیں۔
حوثیوں کے فوجی ترجمان یحییٰ ساری نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعے کا حملہ ایک نئی قسم کے ڈرون سے کیا گیا جو نگرانی کے نظام سے بچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اسرائیل کا تجارتی دارالحکومت سمجھے جانے والے تل ابیب کو ’غیر محفوظ علاقہ‘ قرار دیا ہے۔
یمن کے حوثی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں اسرائیل کے بحری جہازوں اور لڑاکا طیاروں پر بھی حملے کر رہے ہیں جس سے وہاں سے گزرنے والے متعدد بحری جہازوں کو جزوی نقصان پہنچ چکا جبکہ دو ڈوب بھی چکے ہیں۔
ان حملوں سے بچنے کے لیے کئی اہم تجارتی جہازوں نے اپنے راستے بدل لیے ہیں۔
اگرچہ اسرائیل نے اس سے پہلے حوثیوں پر حملہ نہیں کیا تھا لیکن امریکہ اور برطانیہ مہینوں سے ان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں تاکہ اس گروہ کے بحری جہازوں پر حملوں کو روکا جا سکے۔