کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے ہیں۔ کراچی سی ٹی ڈی کے انچارج راجا عمر خطاب نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’منگل کو ہونے والا دھماکہ خودکش تھا اور یہ ایک خاتون نے کیا۔'
اس حملے کی ذمہ داری بلوچ انتہا پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تنظیم کی جانب سے خاتون خودکش حملہ آور کا استعمال کیا گیا۔'
کراچی یونیورسٹی حملے میں ملوث خاتون خودکش حملہ آور کون تھیں؟
کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے والی خودکش حملہ آور خاتون شاری بلوچ عرف برمش تھیں۔
خودکش حملہ آور خاتون کے حوالے سے ان کے رشتہ دار اور اہل خانہ سے بی بی سی کو فون کے ذریعے حاصل ابتدائی معلومات کے مطابق ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع تربت کے علاقے نظر آباد سے تھا۔ خود کش حملہ آور خاتون نے سنہ 2014 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ کی تعلیم مکمل کی جبکہ 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی سے زولوجی میں ایم ایس سی کر رکھی تھی۔
وہ بلوچستان کے ضلع تربت ہی میں شعبہ تعلیم سے بھی وابستہ تھیں اور گورنمنٹ گرلز مڈل سکول کلاتک میں استاد کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔
کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے بی بی سی کو ای میل کے ذریعے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق خاتون خود کش حملہ آور کا نام شاری بلوچ عرف برمش تھا اور ان کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان بشیر بلوچ ایک ڈینٹسٹ ہیں۔ شاری بلوچ دو بچوں کی ماں تھیں۔ ان کے دونوں بچے تقریباً پانچ سال تک کی عمر کے ہیں۔
ان کے ایک رشتہ دار نے بی بی سی کو بتایا کہ شاری بلوچ چار بہنیں اور تین بھائی ہیں اور سب ہی تعلیم یافتہ ہیں۔
کالعدم تنظیم بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن بی ایس او آزاد کے ایک رکن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شاری بلوچ تنظیم کی جانب سے منعقدہ احتجاجی مظاہروں میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیتی تھیں۔ مگر ان کے پاس کسی تنظیم کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔
بلوچستان لبریشن آرمی کے مطابق شاری بلوچ گذشتہ دو برسوں سے ان کے مجید بریگیڈ کا حصہ تھیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی کا دعویٰ ہے مجید بریگیڈ میں اس وقت کثیر تعداد میں بلوچ خواتین فدائین شامل ہیں۔
شاری بلوچ کے رشتہ دار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شاری کے خاندان میں کوئی بھی شخص جبری گمشدگی یا سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوا لہذا یہ تاثر کہ انھوں نے ایسا کسی ذاتی بدلے کے لیے کیا درست نہیں۔
تربت سے صحافی محمد زبیر سے بات کرتے ہوئے ان کے محلے کے افراد کا کہنا تھا کہ ’شاری بلوچ بظاہر ایک پرسکون اور خوشگوار زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے مطابق ’بظاہر یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ مذکورہ خاتون ایک خود کش بمبار تھی۔‘
شاری بلوچ کے رشتہ دار اور اہل علاقہ کے مطابق ان کے خاندان کے دیگر افراد مختلف سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ جن میں ان کے والد اور بھائی شامل ہیں۔
کالعدم تنظیم بی ایل اے کے مطابق شاری بلوچ چھ ماہ پہلے بلوچستان کے علاقے کیچ سے کراچی منتقل ہوئی اور ڈیڑھ ماہ پہلے بہن کی شادی میں شرکت کے لیے کیچ گئی تھیں۔
خاندانی ذرائع نے صحافی محمد زبیر کو بتایا کہ وہ اس بارے میں لا علم ہیں کہ شاری بلوچ کب کالعدم بی ایل اے سے منسلک ہوئیں اور انھوں نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ تاہم بی بی سی نے جب شاری بلوچ کے شوہر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کا فون مسلسل بند پایا گیا۔
واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش حملے میں سرکاری طور پر ایک خاتون حملہ آور کی شناخت کی گئی ہے تاہم سکیورٹی اداروں کی جانب سے اب تک کی تحقیقات میں اس حملے میں شاری بلوچ کا نام نہیں لیا گیا۔
بی بی سی کو تمام معلومات کالعدم تنظیم بی ایل اے، شاری بلوچ کے رشتہ داروں اور مقامی افراد سے حاصل کردہ ہیں تاحال سرکاری طور پر ان معلومات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کی تاریخ
اگرچہ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ان کی جانب سے خاتون خودکش حملہ آور کا استعمال کیا گیا ہو لیکن وہ ایسا کرنے والے پہلی شدت پسند تنظیم نہیں۔ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے اس سے قبل بھی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے خواتین خودکش حملہ آوروں کا استعمال کیا جا چکا ہے۔
آج سے تقریباً 22 برس قبل چھ نومبر 2000 کو پاکستان کے بڑے اُردو اخبارات میں شمار ہونے والے روزنامہ 'نوائے وقت' کے کراچی میں واقع دفتر پر ایک بم حملہ جو کراچی اور پاکستان میں ہونے والا 'پہلا خودکش حملہ'قرار دیا جاتا ہے ایک خاتون نے ہی کیا تھا۔
اس حملے میں مبینہ ’حملہ آور خاتون‘ اور نوائے وقت کے تین ملازمین سمیت چار افراد ہلاک اور دو ملازموں سمیت چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔
ایسی ہی ایک اور مثال 2005 میں ملتی ہے جب سکیورٹی اہلکاروں نے ایک آپریشن کے دوران دو بہنوں عارفہ بلوچ اور صبا بلوچ کو انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی کے لیے خودکش حملے کے لیے ٹریننگ حاصل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔
جبکہ ایک خاتون خودکش حملہ آور نے دسمبر 2010 میں خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ (سابقہ باجوڑ ایجسنی) میں حملہ اس وقت کیا جب ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت وہاں کے مقامی افراد میں خوراک تقسیم کی جا رہی تھی۔ اس حملے میں 43 افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔
سنہ 2010 ہی میں 12 سالہ افغان پناہ گزین لڑکی مینہ گل نے سکیورٹی اہلکاروں کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ طالبان کی جانب سے اسے خودکش حملے کے لیے تربیت دی گئی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے متعدد سیل موجود ہیں جہاں لڑکیوں کو خودکش حملوں کی تربیت دی جاتی ہے۔
پاکستان میں خاتون کی جانب سے ایک اور خودکش حملہ 25 جون 2011 میں کیا گیا جب ازبک جوڑے نے ڈیرہ اسماعیل خان کے پولیس سٹیشن کے قریب خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا تھا۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد پر 2012 میں مومند ایجنسی پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں حملہ آور خاتون تھیں۔ قاضی حسین احمد اس حملے میں محفوظ رہے جبکہ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
جون 2013 میں خاتون حملہ آور نے سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بس کو کوئٹہ میں نشانہ بنایا جس میں خواتین سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی تھی۔
ساؤتھ ایشین ٹیرریزم پورٹل کے مطابق 2002 سے 2017 کے درمیان پاکستان میں 460 خودکش حملے ہوئے جس میں سے چھ خواتین حملہ آوروں کی جانب سے کیے گئے۔
اس کے علاوہ جب شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کی جانب سے شام میں اسلامی ریاست کا قیام کا دعویٰ کیا گیا تو پاکستان سے بھی چند خواتین مبینہ طور پر اس کا حصہ بننے کے لیے پاکستان سے شام گئیں تھیں۔
منگل کو کراچی یونیورسٹی میں ہونے والا خودکش حملہ بھی خاتون حملہ آور کی جانب سے کیا گیا۔ اگرچہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کی جانب سے خاتون حملہ آور کا استعمال کیا گیا ہو۔ لیکن 2008 میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے ایک بازار میں بارودی مواد کے ذریعہ دھماکہ کیا گیا تھا جس کو نصب کرنے میں خواتین نے کردار ادا کیا تھا۔
شدت پسند تنظیمیں خواتین کو خودکش حملے کے لیے کیوں استعمال کرتی ہیں؟
اگر خواتین میں شدت پسندی کے رجحانات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خواتین کی جانب سے شدت پسند تنظیموں کا حصہ بننے کے پیچھے مختلف عوامل اور وجوہات رہی ہیں۔
چیچنیا میں اسلامی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے روسی فوجیوں کے خلاف خواتین خودکش حملہ آوروں کا استعمال 2000 کے اوائل میں کیا گیا۔ ان خودکش کارروائیوں میں شرکت کرنے والی زیادہ تر ایسی خواتین تھیں جن کے شوہروں، بھائیوں یا والد کو روسی فوجیوں کی جانب سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس لیے ان کے لیے 'بلیک ویڈوز` یعنی سیاہ بیواؤں کا لفظ استعمال کیا گیا۔ ان خواتین کی جانب سے شدت پسند تنظیم کا حصہ بننا اپنے پیاروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا بدلہ لینا تھا۔
اسی وجہ سے ہی یہ تصور بھی عام ہوا کہ خواتین زیادہ تر شدت پسند تنظیموں اور پرتشدد کارروائیوں کا حصہ کسی ذاتی بدلے لینے کی نیت سے کرتی ہیں اور دہشتگرد تنظیمیں ان کے غم و غصے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں اس قسم کی پرتشدد کارروائیاں کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔
مگر خواتین میں شدت پسندی کے رجحانات کا جائزہ لینے والے محققین کے مطابق یہ کہنا درست نہیں کہ خاتون خودکش حملہ آور بننے کے پیچھے ہمیشہ یہی وجہ ہوتی ہے۔
ان کے مطابق القاعدہ، تامل ٹائیگرز اور نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور بوکو حرام میں پڑھی لکھی خواتین کی شمولیت اور ان کی پرتشدد کارروائیوں میں حصہ لینے نے اس تاثر پر سوالات کھڑے کر دیے کیونکہ ان کارروائیوں میں حصہ لینے والی خواتین نہ صرف باشعور اور تعلیم یافتہ تھیں بلکہ ان کے خاندان والوں کے ساتھ کسی ریاست یا تنظیم کی جانب سے ناانصافی کی کوئی تاریخ نہیں تھی جس کی بنا پر یہ کہا جائے کہ انھوں نے ایسا بدلے کی نیت سے کیا۔
بلکہ یہ خواتین ان تنظیموں کے نظریہ کی پیروکار تھیں۔
ان میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے لیے لاہور میں خودکش حملہ کرنے کی ارادہ رکھنے والی نورین لغاری جنھیں حملے سے پہلے گرفتار کر لیا گیا اور امریکی ریاست کیلیفورنیا میں 2015 میں ایک حملے میں ہلاک ہونے والی پاکستانی نژاذ امریکی شہری تاشفین ملک شامل ہیں۔
یہ دونوں خواتین نہ صرف خود تعلیم یافتہ تھیں بلکہ ان کا تعلق پڑھے لکھے خاندان سے تھا۔ تاشفین ملک ایک بچی کی ماں تھیں اور ان کی ہلاکت کے وقت ان کی بچی کی عمر چھ ماہ تھی۔
انسداد دہشتگری کے ماہر اور کتاب میکنگ آف ہیومن بومز ( انسانی بموں کی تیاری) کے مصنف ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے شدت پسند تنظیموں کی جانب سے خواتین خودکش حملہ آوروں کو اس لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ٹارگٹ کے قریب ترین جا کر زیادہ تباہی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
'پاکستان جیسے معاشرے میں خواتین کے پردے کا احترام کرتے ہوئے ان کی زیادہ تلاشی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے یہ خواتین حملہ آور نہ صرف اپنے کپڑوں میں دھماکہ خیز مواد چھپانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں بلکہ اکثر سکیورٹی چیک پوئنٹس سے بغیر تلاشی بھی گزر جاتی ہیں۔'
ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے کہ خاتون حملہ آور کو استعمال کرنے کا مقصد اپنی تنظیم اور اس کے نظریہ کی تشہیر کرنا بھی ہے کیونکہ جب بھی خاتون حملہ آور خود کش حملہ کرتی ہیں تو میڈیا میں اسے زیادہ کوریج دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر خرم کا کہنا ہے کہ 'اس کے ساتھ ساتھ شدت پسند گروہ یہ بھی بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب خواتین نے بھی ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔'
'اگرچہ اسلامی انتہا پسند تنظیموں جیسا کہ القاعدہ یا طالبان نے کبھی کھل کر اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ انھوں نے اپنی کاروائیوں میں خواتین خود کش حملہ آوروں کا استعمال کیا گیا ہے لیکن انھوں نے پاکستان سمیت دنیا کے متعدد مملک میں خواتین کو اس کام کے لیے بھرتی کیا۔'
ڈاکٹر خرم کے مطابق اگر شدت پسندی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو سیکولر شدت پسند تنظیموں نے اپنی کارروائیوں میں خواتین کا استعمال زیادہ کیا اور کھل کر اس کی تشہیر بھی کی۔