اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار اراکین اسمبلی کا آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ معطل کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے زیرِ حراست اراکین کو اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ’جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ معطل کرنے سے برا تاثر جائے گا۔‘
جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ کیا برا تاثر جائے گا؟ میں واضح آبزرویشن دے چکا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر ہم کوئی آرڈر کرتے ہیں تو ملزم جوڈیشل ہو جائیں گے؟ جسمانی ریمانڈ کا یہ آرڈر برقرار تو نہیں رہ سکتا لیکن اگر ہو گیا تو کیا ہو گا؟‘
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عدالت کو زیادہ لمبا جسمانی ریمانڈ نہیں دینا چاہیے، ٹرائل عدالت نے اپنے آرڈر میں ریمانڈ کی کوئی وجوہات بھی نہیں لکھیں۔
اس پر عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ اس جسمانی ریمانڈ کے فیصلے کا کیسے دفاع کریں گے؟
پراسیکیوٹر نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آرز پڑھ کر سنائیں جس کے بعد عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی عدالت کا جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ معطل کر دیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت جمعے کی صبح 10 بجے تک ملتوی کر دی ہے۔
رات کارروائی کرتے ہوئے ان ارکان کو پارلیمنٹ ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز کے اندر اور باہر سے گرفتار کیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز کے احاطے سے گرفتاری پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے آئی جی اسلام آباد پولیس پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔
سپیکر نے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی گرفتاریوں کے واقعے میں ’سکیورٹی سے متعلقہ انتظامات اور اسمبلی کی حدود میں بلا اجازت نقل و حرکت‘ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔